فرخ منظور
لائبریرین
بے صدا صُبح پلٹ آئی ہے
بے صدا صُبح پلٹ آئی ہے،
ہیں ابھی رہگزرِ خواب میں اندیشے
گداؤں کی قطار
سرنِگوں، خیرہ نگار، تیرہ گلیم
گزرے لمحات کا انبار لگائے
شب کی دریوزہ گری کا حاصل!
بے صدا صُبح پلٹ آئی ہے
ریزشِ آب سرِ برگ سنائی دی ہے
اور درختوں پہ ہے رنگوں کی پکار
کتنے زنبور مرے کمرے میں دِر آئے ہیں
نوشِ جاں! بزمِ سحر گاہ کی ہو
ایک ہنگامہ پلٹ آیا ہے!
(خواب کا چہرۂ زیبا کبھی لوٹ آئے گا
لبِ خنداں بھی پلٹ آئیں گے!)
عشق ہو، کام ہو یا وقت ہو یا رنگ ہو
خود اپنے تعاقب میں رواں
اپنے ہی پہنائی تک
کیسے اِک دائرہ بن جاتا ہے
تاک کی شاخ سے تا لرزشِ مے
لرزشِ مے سے تمنّاؤں کی رعنائی تک
اور تمنّاؤں کی گل ریزی سے
صبح انگور کی دارائی تک
کیسے اِک دائرہ بن جاتا ہے
بے صدا صُبح پلٹ آئی ہے،
پاؤں کی چاپ لباسوں کی صریر
اور بڑھتی ہوئی کوُچوں کی نفیر
نوشِ جاں! کام کا ہنگامہ
یہی عشق بھی ہے، چہرۂ زیبا بھی یہی
یہی پھُولوں کا پر و بال بھی ہے
رنگِ لب ہائے مہ و سال بھی ہے!
بے صدا صُبح پلٹ آئی ہے،
ہیں ابھی رہگزرِ خواب میں اندیشے
گداؤں کی قطار
سرنِگوں، خیرہ نگار، تیرہ گلیم
گزرے لمحات کا انبار لگائے
شب کی دریوزہ گری کا حاصل!
بے صدا صُبح پلٹ آئی ہے
ریزشِ آب سرِ برگ سنائی دی ہے
اور درختوں پہ ہے رنگوں کی پکار
کتنے زنبور مرے کمرے میں دِر آئے ہیں
نوشِ جاں! بزمِ سحر گاہ کی ہو
ایک ہنگامہ پلٹ آیا ہے!
(خواب کا چہرۂ زیبا کبھی لوٹ آئے گا
لبِ خنداں بھی پلٹ آئیں گے!)
عشق ہو، کام ہو یا وقت ہو یا رنگ ہو
خود اپنے تعاقب میں رواں
اپنے ہی پہنائی تک
کیسے اِک دائرہ بن جاتا ہے
تاک کی شاخ سے تا لرزشِ مے
لرزشِ مے سے تمنّاؤں کی رعنائی تک
اور تمنّاؤں کی گل ریزی سے
صبح انگور کی دارائی تک
کیسے اِک دائرہ بن جاتا ہے
بے صدا صُبح پلٹ آئی ہے،
پاؤں کی چاپ لباسوں کی صریر
اور بڑھتی ہوئی کوُچوں کی نفیر
نوشِ جاں! کام کا ہنگامہ
یہی عشق بھی ہے، چہرۂ زیبا بھی یہی
یہی پھُولوں کا پر و بال بھی ہے
رنگِ لب ہائے مہ و سال بھی ہے!