فرخ منظور
لائبریرین
گزرگاہ
وقت کے پابند ہاتھ
راہوں کا غمگیں جواب
سنتے رہے،
سبزے کے تشنہ سراب
رات کادیوانہ خواب
تکتے رہے،
جیسے وہ جاسوس ہوں
جن کاہدف
آنکھ سے اوجھل کوئی
آفتاب!
وعدے کی سردی کی رات
(وعدے کی بے مہررات)
کیسی ہوائیں چلیں
دیدہ ودل نے مرے
کیسے طمانچے سہے!
کیسے ہر اک چاپ سے
خون پہ ضربیں پڑیں
کیسے رگیں دردکے
راگ سے بوجھل رہیں!
آہ وہ زیبا کلام
کھل اٹھیں
جس کے لیے بارہا
روح کی شب ہائے تار
اورپگھلتے رہے
جس کے لیے
ہجر کی برفوں کے خواب
آہ دہ زیباکلام
دورکاسایہ رہا
اورمیں سوچاکیا
جینے کی خاطر مگر
رینگتے سایوں سے وابستہ رہوں؟
بات کے پل پرکھڑا
پیاس سے خستہ رہوں؟
وقت کے پابند ہاتھ
راہوں کا غمگیں جواب
سنتے رہے،
سبزے کے تشنہ سراب
رات کادیوانہ خواب
تکتے رہے،
جیسے وہ جاسوس ہوں
جن کاہدف
آنکھ سے اوجھل کوئی
آفتاب!
وعدے کی سردی کی رات
(وعدے کی بے مہررات)
کیسی ہوائیں چلیں
دیدہ ودل نے مرے
کیسے طمانچے سہے!
کیسے ہر اک چاپ سے
خون پہ ضربیں پڑیں
کیسے رگیں دردکے
راگ سے بوجھل رہیں!
آہ وہ زیبا کلام
کھل اٹھیں
جس کے لیے بارہا
روح کی شب ہائے تار
اورپگھلتے رہے
جس کے لیے
ہجر کی برفوں کے خواب
آہ دہ زیباکلام
دورکاسایہ رہا
اورمیں سوچاکیا
جینے کی خاطر مگر
رینگتے سایوں سے وابستہ رہوں؟
بات کے پل پرکھڑا
پیاس سے خستہ رہوں؟