عبداللہ میرا خیال ہے کہ یہاں بات کلوننگ پر ہی رہے تو بہتر ہے۔
اس پر میں نیا دھاگہ کھولوں گا آپ نے جو کہا اس مے مجھے اختلاف ہے اس لیے۔جہاں تک نظریہ ارتقاء کا تعلق ہے تو اس کے بغیر آج بیالوجی کچھ نہیں۔
کلوننگ سے آپ اپنی ماں کو واپس نہیں لا سکتے کہ جینز تو آپ کی ماں کی ہی ہوں گی مگر وہ کلون آپ کی ماں کی عمر کی نہیں ہو گی اور نہ اس کا زندگی کا وہ تجربہ اور پرسنیلٹی ماں سا ہو گا۔
دوسرے کلوننگ کا مطلب صرف مکمل انسان یا جانور ہی کلون کرنا نہیں بلکہ therapeutic cloning بھی اس میں شامل ہے۔
لیکن یہاں تو دنیا میں ہر کلوننگ کےخلاف آواز بلند ہے۔اور کیا آپ کسی دوسری کلوننگ کے خلاف نہیں ؟؟؟اگر ایسا ہے تو بھی میںاور آپ ہم خیال ہیں۔:
اوکے ہم انسانوں کو نہیں مار سکتے اسی طرح جس طرح دوسرے مار ہیے ہیں۔تب آپ کا کیا خیال ہے اگر کلوننگ اور قدرتی طریقہ تولید میں خطرات برابر ہوں۔
grin:
اصل مسئلہ وہ ہے ہی نہیں جو آپ سمجھ ریے ہیں محترم اگر کلوننگ 100 فیصد کامیاب ہو اور کیے نیا جین نا بھی مرے تب بھی اس پر اصل اعتراضات موجود ہیں وہ ہیں اس انسان کے جزبات پہچان اور اس کا مستقبل۔آپ کیا کہیں گے جب کسی کا نام پوچھا جاے اور وہ کہے کلون نمبر2731 جاے پیدائش آر این ایل بائیو جنوبی کوریا اور نیشنیلٹی کوئی نہیں ۔یہ ہے وہ بات جس کی وجہ سے مغرب اور امریکہ میں یس کی مخالفت کی جاتی ہے ناکہ ٹیسٹ میں جانی خطرات یا کچھ اور۔ابھی تک مسمان ملکوں کی 95فیصد آبادی کو پتا ہی نہیں کلوننگ ہے کیا۔مغرب میں آگ بھی باپ کی نام خالی والے بہت زیادہ مل جاتے ہیں اب ماں کا نام بھی نا ملے تو اس انسان کا کیا کریں گے۔ااسی طرح اس بات کا ندیشہ ظاہر کیاجاتا ہے کہ اگر کلوننگ کے دوران کسی انسانی غلطی سے انسان نے کچھ اور بنا دیا ڈی این اے میں تبدیلی کے دوران تو اس مخلوق سے کون نبر آزما ہو گا۔آپ نے ہالی وڈ کی کئی فلمیں اس پر دیکھی ہوں گی ان میں نمایاں ایلین ہے جس میں وہ مخلوق انسان کی جانی دشمن بن کر اس کو ہی ختم کرنے کے درپے ہو جاتی ہے۔یہ سب اندیشے ہیں اور کچھ نہیں ۔اس کا مقصد کلوننگ کے خلاف زمین تیار کرنا ہے۔
grin:
اس کا جواب زیک دے چکے ہیں ، گو کہ میں نظریہ ارتقا کو صرف ایک سائینسی تھیوری کے طور پر دیکھتا ہوں اور اس پر ایمان رکھنا ضروری نہیں سمجھتا۔جہاں تک مزہبی سائنسدانوں کی بات رہی تو آج کے دور میں کہاں ہیں وہ 95فیصد مشہور سائنس دان ارتقا پسند اور خدا کے وجود سے انکاری ہیں مجھے حیرت تب ہوی جب میں نے اس کے بارے میں پڑھا پاکستان میں بھی ایسے بہت سے سائنس دان ہیں پر عوامی جزبات اور قانون کے ڈر سے بولتے نہیں۔خود میرے سکول میں اب تک مجھے یاد یے بندر سے انسان تک بننے کے عمل کی تصویریں تھی اور دورے خیالی جانوروں کے جد امجدکی بھی۔اور وہ گورمنٹ سکول ہے جس کی لیب میں یہ سب ہے ۔ہماری 10ویں کی بیالوجی میں بھی یہ سب تھا۔جو کہ کھلم کھلا خدا کے وجود سے انکار ہے۔کلوننگ صرف مزہبی مسلئہ نہیں بلکہ سیاسی سماجی اور معاشرتی مسئلہ ہے۔جس کو حل کیے بغیر انسانی کلوننگ نہیں کرنا چاہیے رہی انسانوں کی جان کی قیمت تو بھای اب وہی بات ہی کلوننگ نے آج تک ایک انسان کو تو مارا ہے نہیں جبکہ مزہبی سیاسی اور حدود ملکوں کی وجہ سے لا تعداد انسان مار کر بھی کوئی شرمندہ نہیں بلکہ فخر کرتے ہیں۔
grin:
اب بھی بات وہی ہے پہلے کلوننگ میں اتنی جدت اور مہارت پیدا ہو جاے کہ وہ انسانی جانوں کا زیاہ نہ ہو اور دوسرے سماجی سیاسی مسئلے حل کر کے کلوننگ کرو جی بھر کے اور جو بھی مرے ایک اور بنا لو ویسا کا ویسا۔ جیسے اگلی صدی میںکلوننگ اتنی سستی ہو جاے کہ ایک آدمی کہے گا یار میری ماں مر گئی ہے تو دوسرا کہے بھای تو کیا ہوا ایک اور بنوا لو کلوننگ سے اور جس کی ماں مری ہو وہ کہے ہاں یار سوچ رہا ہوں تنخواہ پر آڈر دوں گا۔ابھی تک تو جو مرا ہوا بچہ بنوایا تھا اس کی قسطییں دے رہا ہوں۔
grin:
یعنی جس کا اگے پیچھے کوئی نہ ہو اس کے قتل پر کوئی اعتراض نہ ہونا چاہے،اس صورت میں جب اس کے والدین کیس کریں اور عدالت میں ثابت ہو کہ اس آدمی کی غلطی سے یہ ہوا جب کہ یہاں یہ حالت ہے کے افریقہ ایشیا میں لاکھوں آدمی اپنےجین دینے کو تیار ہیں ان تجربات کے لیے یہ جین تو فرعون مصر سے بھی لے کر نیا فرعون بنایا جا سکتا ہے اب اس کا کیس کون کرے اور سزا کون دے۔ یہ صرف اور صرف سائنسی مئسلہ نہیں نا قانونی یہ انسانوں کا اور نئے آنے والے انسانوں کا مسئلہ ہے۔پھر بھی اگر کوی لا اولاد کہیے میرے جین لو اور چاہے 500 مر جایں ان میں سے اور 2 بچ جائیں مجھے بنا دو کیونکہ مجھے اولاد چاہیے تب۔
grin:
اگر ایک آدمی کے مرنے سے آگے آنے والی تمام نسلوں کا بھلا ہو تو یہ اتنی بڑی بات نہیں۔آپ نے پڑھا ہو گا آج کے دور میں اور زمانہ قدیم میں بھی ٹیسٹ ان لوگوں پر کیے جاتے تھے جو کروانا چاہیں ہا موت کی سزا کے منتضر ہوں ۔آج بھی امریکہ روس اور مغرب میں ایسا ہو رہا ہے امریکی جیلوں میں با قائدہ رضا کاروں کی ضرورت کے پوسٹر لگائے جاتے ہیں اور ان کی قدر کی جاتی ہے۔جو میڈیکل کے تجربات کے کیے خود کو پیش کریں۔اس موضوع پر بھی بات ہو گی آگے۔
انسانی بے قدری ظلم ہے پر ذرا نظر دوڑائیں انسان کی قدر اب کس حالت میں ہے۔اس پوری دنیا میں انسانی اقدار کے پیمانے مختلف ہیں کہیں پر بسنے والے انسانوں کو انسان سمجھا ہی نہیں جا رہا ۔افریقی ملکوں میں ایک انسان کو زندہ رہنے کیے لیے 24 گھنٹوں میں صرف ایک بار کھانا ملتا ہے اور 2 بار بانی کے چند کھونٹ۔ایشیا میں انسان سے سستا کچھ نہیں اخبار دیکھ لینا آج کا بس کافی ہے۔
اور کمیونسٹ بلاک کی ملکوں کی تو کیا ہی بات وہاں انسان مشین ہے کام کرے تو ٹھیک ورنہ کباڑ۔
اب لے دے کر امریکہ اور مغرب کی کچھ اوپری اوپری انسانی عزت تھی جسے ابو غریب اور گوانتانامو بے اٹلی کی جیلیں اور مسلمانوں پر ظلم نے دھو کر دوبارہ دوسری جنگ عظیم سے پہلے کی طرح ثابت کر دی ہے۔انسان کی عزت کہیں ہے بھی نہیں یہ 2009 کا کڑوا سچ ہیے ہمارے ملکوں میں تو انسان موبائیل سے سستا ہے۔