کلیاتِ اسماعیل میرٹھی۔ ص 251 تا 290

شاہ حسین

محفلین
صفحہ ۔ ۲۷۵


بے باکی و شوخی بھی ہے اور شرم و حیا بھی
دو محرمِ اسرار ہیں تو پردہ کشا دو

دو گیسو و زلف بلا خیز ہیں چاروں
ہاں کاکلِ خم دار بھی ہیں ان کے سوا دو

وہ طرز و روش ہائے ! وہ انداز و ادا حیف
کیا بچتے دل و جان ۔ کجاچار ۔ کجادو

سیرئ نظری بھی نہ ہوئی ہائے مُیسّر
آنکھیں جو ہوئیں چار لگے تیرِ قضا دو

ۡ۱
۴
معشوق ِ دل نواز اگر تند خو نہ ہو
ثابت خلوص ِ عاشق علافِ عدو نہ ہو

وہاں سجدہء نیاز کی مٹی خراب ہے
جب تک کہ آب دیدہ سے تازہ وضو نہ ہو

وہ جنّتِ وصال جہاں تو ہو میں نہ ہوں
وہ دوزخِ فراق جہاں میں ہوں تو نہ ہو

خمخانہ ہے کرامتِ پیرِ مغاں سے پرُ
زنہار منکِرمی و جام و سبو نہ ہو

بلبل کے دل میں داغِ وداعِ بہار ہے
یارب! کوئی فریفتئہ رنگ و بو نہ ہو

شرم گناہ نے تو ڈبویا ہی تھا مُجھے
گر دست گیر مژدہء لا تقنطو نہ ہو

افسانہائے شوق سناتا ہوں میں اُسے
جو عالمِ خیال میں بھی رو برو نہ ہو

حُسنِ غیور ہے شکوہِ یگانگی
ہو دید محض اور کوئی روبرو نہ ہو

دل میں کسک نہ ہو تو سمجھے اُسے مریض
زنہار درد دل کے لئے چارہ جو نہ ہو

ہے کائنات گرد رہِ کاروانِ عشق
وہ دل ہی کیا جس میں تری جستجو نہ ہو



(۲*)
۵


کیا مانگتے جس کا کبھی چسکا نہ لگا ہو
دی راہِ خدا ہم کو بھی ساقی کا بھلا ہو


(۱*)مرتبہ ۸جون سنہ۱۸۷۳ ع
(۲*) مرتبہ ۱۰ نومبر سنہ۱۸۹۷ع
 

شاہ حسین

محفلین
صفحہ ۲۷۶


کر پیرِ خرابات سے دریوزہء ہمّت
جا خاکِ درِ میکدہ پر ناصیہ ساہو

بے حوصلگی ہے گلئہ تلخی دوراں
کو دیں اُسے پی جائے گو زہر ملا ہو

آنے کو ہے اب شاہدِ گُل پردہ سے باہر
آمادہء مشاطگی ای بادِ صبا ہو

جب ہم سے ملے رسمِ ملاقات تو جانیں
تسلیم کیا ۔ تم ہمہ تن مہر و وفا ہو

سر رشتئہ آ مالِ دو عالم ہے ترے ہاتھ
پھر کاہے کا الجھاؤ۔ جو توُ عُقد کشا ہو

تنگی سے نہ دل تنگ ہو ۔ جا شکرِ خدا کر
اے خوش دہ دلِ تنگ ۔ کہ راضی برضا ہو

گاہک ہی نہ ہو کوئی تو اے عرضِ ہنر بیچ
اس وائی گُلِ تازہ جو صحرا میں کھلا ہو

اُس غنچئہ دلگیر کی تقدیر کہ زنہار
تحریکِ نسیمِ سحری سے بھی نہ وا ہو

ہمّت کے ئے عار ہے احسان اُٹھانا
وہ درد بھی اچھا جو نہ محتاجِ دوا ہو

۶

بچ گنہ سے ورنہ توبہ اور استغفار کر
کھونپ جب کپڑے میں آئی چارہ کیا غیر از رفو

سنگریزہ تھا فقط گر لعل میں ہوتا نہ رنگ
کوئلے سے تھا بتر گر مشک میں ہوتی نہ بو

تائب اور معصوم ہیں دونو بری پر فرق ہے
ایک مادر زاد طاہر ۔ ایک بعد از شست و شو

گر نہ ہو نیکی ، دماغی قوتیں برباد ہیں
بوستاں سرسبز ہوتا ہی نہیں بے آبِ جو


متفرّقات

میں پٹکتا ہی رہ گیا سر کو
چلدئے وہ پیادہ پا گھر کو
 

شاہ حسین

محفلین
صفحہ ۔ ۲۷۷


دو جگہ خفتگانِ خاک مُجھے
تھوڑے تھوڑے ذرا پرے سر کو

ان غفلتوں سے داغ ہوں لیکن خدا کرے
تاخیر کا سبب کوئی اس کے سوا نہ ہو

ردیف(ی)

۱

ناصح جو ملامت میں محابا نہیں کرتے
انصاف کریں دل میں ۔ کہ وہ کیا نہیں کرتے

اظہارِ مشیخت ہے نشاں بے ہنری کا
جو اہلِ ہنر ہیں کبھی دعوےٰ نہیں کرتے

کہتے بھی ہیں پھر صاف مکر جاتے ہیں کہہ کر
کیا شخص ہیں کُچھ خوف خدا کا نہیں کرتے


دردِ دِل آزردہ سے ہے جن کو خبر کچھ
آزار کسی کا بھی گوارا نہیں کرتے

جاں کاہیوں کے بعد جنہیں ملتی ہے دولت
وہ مفت میں دولت کو لٹایا نہیں کرتے

۲

کیا یہ ہی جس پہ ہم دیتے ہیں جاں
یا کوئی دنیائے فانی اور ہے

یوں تو ہر انسان گویا ہے مگر
شیوہء شیوا بیانی اور ہے

چل رہی ہے جس سے جسمانی مشین
کوئی پوشیدہ کمانی اور ہے

دل نے پیدا کی کہاں سے یہ ترنگ
کوئی تحریکِ نہانی اور ہے

غیر سمجھا ہے کسے اے ہمنشیں؟
میرے دل میں بدغمانی اور ہے

تم نے کب دیکھا ہے بے رنگی کا رنگ
بے نشانی کی نشانی اور ہے
 

شاہ حسین

محفلین
صفحہ ۔ ۲۷۸


۳


دھوکے میں نہ آجائیو افسونِ زباں کے
ہر چند کہ بڑ اپنی فصاحت کی یہ ہانکے

کُچھ لمِ ہے جو کرتے ہیں کرم حضرتِ ناصح
تھے ورنہ مرے ایسے ہوا خواہ کہاں کے

وہ اُڑنے لگے مثل پری ۔ دوشِ ہوا پر
بیٹھے ہیں بھروسے پہ یہاں طبع رواں کے

ہے وادیِ وحدت میں اگر نیّتِ پرواز
پَر نوچ کے دے پھینک یقین اور گماں کے

۴

پھر کُچھ کُچھ اُن کے وعدہ پہ اب اعتبار ہے
مایوس مرگ پھر دلِ امّیدوار ہے

گِن گن کے ایک ایک گھڑی کاٹنی پڑی
ہے یہ شبِ فراق کہ روزِ شمار ہے

سروِ رواں کو دیکھ کے خجلت پا بِگل
گویا ہر ایک سرو لبِ جوئبار ہے

چل مئے کدے کو ۔ بیٹھ نہ گوشہ میں تنگ دل
زاہد! وسیع رحمتِ پروردگار ہے

۵


گر نشے میں کوئی بے فکر و تامل باندھے
چشمِ مے گوں کو تری جام پر ازلُ باندھے

ذکرِ قامت میں اگر فکر ترقّی نہ کرے
رشکِ طوبی تو لکھے گو بہ تنزّل باندھے

طبع کی سلسلہ جنباں جو پریشانی ہو
گیسوئے غالیہ سا کو ترے سنبل باندھے

نالہ تو وہ ہے کہ گھبراکے اُٹھادے پردہ
لیک نظارہ کی ہمّت بھی تحمل باندھے

کُچھ نہ بن آئے گی جب لوٹ مچائیگی خزاں
غنچہ ہر چند گرہ کس کے زرِ گُل باندھے

روبرو اُس کے لب عَرضِ تمنّا نہ ہلے
زور افسونِ نظر سے گئے بالکل باندھے

ہیں ترے بندِ قبا عقدہء دشوار مرے
کہ جو کھولے نہ کھُلے اور جو گئے کُھل باندھے
 

شاہ حسین

محفلین
صفحہ ۔ ۲۷۹


نہ بچے پر نہ بچے سیلِ فنا سے نہ بچے
گر کوئی کنگرہء چرخ پہ بھی پُل باندھے

آنکھ کھلنے بھی نہ پائی تھی کہ اُس نے فوراً
بند برقع کے اندازِ تغافل باندھے

ہائے وہ صید کہ صیاد کے پیچھے لپکے
سر کوفتراک پہ ہر دم بہ تفاول باندھے


۶

نکہتِ طرّہء مشکیں جو صبا لائی ہے
کوئی آوارہ ہوا ہے کوئی سودائی ہے

بے خودی سے ہے یہاں بے خبری کا عالم
خود نمائی کو وہاں شغلِ خود آرائی ہے

اپنی ہی جلوہ گری ہے یہ کوئی اور نہیں
غور سے دیکھ اگر آنکھ میں بینائی ہے

ہے مجھے کشمکشِ سعی و طلب سے نفرت
دِل مرا ترکِ تمنا کا تمنّائی ہے

جز دلِ پاک نہ پایا حرمِ خاص کہیں
دیر و کعبہ میں عبث ناصیہ فرسائی ہے

ناز کی جلوہ گری کے لئے منظر ہے نیاز
ناتوانی مری ہم رنگِ توانائی ہے

جب طبیعت ہی نہ حاضر ہو تو بے سود ہے فکر
شعر گوئی تو کہاں قافیہ پیمائی ہے

مُنہ پہ لاؤں تو یہ کم ظرف بہک جائیں ابھی
بات جو پیرِ خرابات نے سمجھائی ہے

خود منادی و مُنادیٰ ہوں نہ غیبت نہ حضور
عالمِ غیب سے یوں دِل میں ندا آئی ہے

دل یہ کہتا ہے کہ حاصل ہے تحصیل عبث
نہ تمنا کوئی شے ہے نہ تمنّائی ہے


۷


بیخودی سی بے خودی ہے جلوہء دیدار سے
نیند آئی مجھ کو فیض دولتِ بیدار سے

ہے جو لطف آمیز اشارہ ابروئے خمدار سے
وہ فسونگر کاٹتا ہے دردِ سر تلوار سے
 

شاہ حسین

محفلین
صفحہ ۔ ۲۸۰


ہم نے اندازِ جنوں سیکھا ہے اِک ہشیار سے
دو گھڑی کا شغل ہے اطفالِ کوئی یار سے

ابتدا سے حشر کا سُنتے چلے آتے تھے نام
ہوگیا حاصل یقیں بارے تری رفتار سے

اُس کی گنجائش ہے آغوشِ تصوّر میں محال
جس کا سایہ شوخ تر ہو انجمِ سیّار سے

ہے تہی دستی جہنم اہل حرص و آز کو
رات دن جلتے ہیں داغِ درہم و دینار سے

شوخی و غمزہ کرشمہ عشوہ انداز و ادا
ہے دلِ تنہا مقابل لشکرِ جرّار سے

رہ گئی تیرے سوا شاید تمنّا اور بھی
کُچھ کھٹکتے ہیں ابھی پہلوئے دل میں خار سے

یار نازک طبع ہے اور داستانِ غم دراز
دوستو گھبرا نجائے وہ مرے طومار سے

عشق بےتاب و وصال اور حسن استغنا پسند
کس طح تسکینِ دل ہو وعدہء دیدار سے

ہیں زمیں و آسماں ہنگامئہ وحدت سے پرُ
مجکو آتی ہے یہ میری ہی صدا کُہسار سے


۸

وہ حسن لازوال ہماری نظر میں ہے
شانِ کمال صورتِ ہر خیر و شر میں ہے

ہے سنگ میں شرار تو برق ابرتر میں ہے
شوخی وہی ہے شان نئی بحر و بر میں ہے

بتلا دیا ہے راہ نما نے مُجھے پتا
دنیا بھی اِک مقام ترے رہگزر میں ہے

بتلادیا ہے راہ نما نے مُجھے پتا
دنیا بھی اِک مقام ترے رہگزر میں ہے

اسرارِ عشق بھی کہیں دیکھے ہیں واعظو!
دخل آپ کو بہت کتبِ معتبر میں ہے

باطن کو بھی نہ صورتِ ظاہر پہ کر قیاس
انگور میں شراب شکر نیشکر میں ہے

البتہ اُس کے فضل پہ موقوف ہے نجات
کُچھ زہدِ خشک میں ہے نہ داماں تر میں ہے

بیرانِ عرش و فرش ہے پرواز مرغ دل
ازبس ہوائے شوق بھری بال و پر میں ہے
 

شاہ حسین

محفلین
صفحہ ۔ ۲۸۱


بے رغبتی سے شب کو سحر بھی کیا تو کیا
تاثیر نالئہ شب و آہِ سحر میں ہے

چل راہ دل میں اور توسِن طلب
وحشت کا جوش چاہے صحرا بھی گھر میں ہے

یہ وہ مرض ہے جس سے معالج نہ بچ سکے
مُجھ سے زیادہ درد دلِ چارہ گر میں ہے


۹


پُر حُسن خود نما سے زمان و زمیں ہے
زاہد ہنوز منتظرِ حورِ عین ہے

صحرائے عشق کی بھی عجب سرزمین ہے
ہمدم نہ ہم سفر نہ کوئی ہم نشین ہے

سر گشتگانِ شوق سے راہِ وصال پوچھ
نے شرق و غرب ہے نہ یسار و یمن ہے

ہے توسنِ خیال تک و تاز و زمیں سدا
اِس رخش پر بندھا ہوا ہر وقت زین ہے

ہے قیدِ آب و خاک سے باہر مقامِ دل
مانا خمیر مایہ مرا ماؤطین ہے

تیرے سوا اُسے نظر آتا نہیں کوئی
حاصل جہاں میں جسے عین الیقین ہے

احباب پھر بھی کرتے ہیں مُجھ سے مطالبہ
ہر چند لا خراج غزل کی زمین ہے


۱۰

کجا(۱*) ہستی بتادے تو کہاں ہے
جسے کہتے ہیں بسمل نیم جاں ہے

ہمارا گھر ہے یعنی خانئہ ماست
محل ہی کاخ ہے کوشک مکاں ہے

چچا عم ہے پسر بیٹا پدر پاپ
تو کنبا خانمان ودود ہاں ہے

سفینہ ناؤ کشتی بان ملاح
بہے پانی تو وہ آبِ رواں ہے

بتاؤ آگ کیا ہے نار و آتش
دھواں کیا چیز ہے دود و دخاں ہے


(۱*)
غزل نصابیہ
 

شاہ حسین

محفلین
صفحہ ۔ ۲۸۲


جسے کہتے ہو گردوں گرداں
فلک چرخ و سپھر و آسماں ہے

وہی جنت کہ جس کی آرزو ہے
نعیم و خلد و فردوس و جناں ہے

سنا کیجے حکایت ہے کہانی
کہا کیجے فسانہ داستاں ہے

مرا سر راس ہے ماتھا جبیں ہے
مرے منہ میں زباں ہے جو لساں ہے

کہو تم ترازو ہے سو میزاں
سنو تم آزمائش امتحاں ہے

حجر پتھر ہے اور قِرطاس کاغذ
سبک ہلکا ہے اور بھاری گراں ہے

عصا لاٹھی ۔ عَلم نیزہ۔ سناں بھال
جسے ہم قوس کہتے ہیں کماں ہے

نہاں و مستتر پوشیدہ مخفی
جوبارز ہے تو ظاہر ہے عیاں

اگر جانو تم ریوڑ کو گلّہ
تو چرواہا بھی راعی اور شباں ہے

کہا کرتے ہیں شاعر کو سخنداں
جو بھیدیہے تو محرم رازداں ہے

ہمانجا آمدم جائے کہ ہستی
وہیں آیا ہوں میں بھی تو جہاں ہے

یہ ہی کون و مکاں دنیا ہے عالم
یہ ہی گیتی ہی گیہاں ہے جہاں ہے

(۱*) نزرانہ پیر جی غلام محمد صاحب لُدھیانوی بروز پنجشنبہ ۲۹ جولائی سنہ۱۸۸۰ ع

اُلٹی ہر ایک اسم جہانِ شعور ہے
سیدھی سی اِک غزل مجھے لکھنی ضرور ہے

وحدت میں اعتبارِ حدوث و قدم نہیں
تھا جو بطون میں یہ وہی تو ظہور ہے
 

شاہ حسین

محفلین
صفحہ ۲۸۳


تارک وہی ہے جس نے کیا کل کو اختیار
یعنی حریص تر ہے وہی جو صبور ہے

مطلق یگانگی ہے تو نزدیک و دور کیا
پہنچا ہے جو قریب وہی دور دور ہے

اصلِ حیات ہے یہی کہتے ہیں جس کو موت
جینے کی آرزو ہے تو مرنا ضرور ہے

اقرارِ بندگی ہے خدائی کا ادِّعا
عجز و نیاز کیا ہے ؟ کمالِ غرور ہے

اُمّید کیجئے اگر امّید کچھ نہیں
غم کھائیے بہت جو خیالِ سرور ہے

زلفِ سیاہ سے رُخِ تاباں کا حُسن ہے
کہتے ہو جس کو دیو حقیقت میں حور ہے

بے معصیت خزانئہ رحمت ہے رائیگاں
سچ پوچھئے تو جرم نہ کرنا قصور ہے

اظہارِ جانِ پاک ہے جسمِ کثیف سے
بے پردگی حجاب ہے ظلمت ہی نور ہے

بالاتفاق ہستیِ وہمی ہے نیستی
ہشیار ہے جو نشئہ غفلت میں چور ہے

اعلی تھا جسکا رتبہ وہ اسفل میں ہے اسیر
صفّ لغال موقفِ صدر الصدور ہے

ہے راہ کی تلاش تو گمرہی طلب
عاقل وہی ہے ۔ عقل میں جس کی فتور ہے

بیداری وجود ہے خوابِ عدم میں غرق
لب بند ہوگئے یہی شورِ نشور ہے

ہر چند شغلِ شعر نہیں آج کل مگر
نزرانہ پیرجی کے لئے کچھ ضرور ہے


۱۲


ہے وصف تیرا محیطِ اعظم
یاں تاب کسے شناوری کی

دے زندگی اور اسُ کا ساماں
کیا شان ہے بندہ پروری کی

شاہنشہِ وقت ہے وہ جس نے
تیرے در کی گداگری کی
 

شاہ حسین

محفلین
صفحہ ۔ ۲۸۴


بدتر ہوں ولے کرم سے تیرے
اُمید قوی ہے بہتری کی

کیا آنکھ کو تل دیا کہ جس میں
وسعت ہے چرخِ چنبری کی

دیکھا تو وہی ہے راہ و رہرو
ہم نے ہی نگاہ سرسری کی

کیا بات ہے گر کیا ترحّم
ہیہات جوتونے داوری کی

کی بعدِ خزاں بہار پیدا
سوکھی ٹہنی ہری بھری کی

جھوٹ اور مبالغہ نے افسوس
عزّت کھودی سخنوری کی

لکھی تھی یہ غزل آگرہ میں
پہلی تاریخ جنوری کی


۱۳

کُچھ ایسے دلفریب شگوفے کِھلا کئے
مشقِ خیال سے نہ بنی دل جدا کئے

دریا تو ہے وہی جو ہوا داخلِ محیط
وادی میں ورنہ سیکڑوں نالے بہا کئے

ابنائے روزگار میں ایسا بھی کوئی ہے
جس نے حقوقِ صحبتِ یاراں ادا کئے

ذاتِ بشر میں کوئی کرامت ضرور ہے
کیوں بات بات اسُ کی فرشتے لکھا کئے

انسان کی زمام ہے خصلت کے ہاتھ میں
اہلِ جفا کو چین کہاں بے جفا کئے

بدقسمتی سے تو ہی نہ دوڑا وگرنہ یاں
دن رات خوانِ نعمتِ الواں لٹا کئے

زار و زبوں ہے آج زمانے کے ہاتھ سے
غافل جو بزم ناز کو بیٹھے سجا کئے

شاید کوئی لطیفئہ غیبی ہو آشکار
بیٹھے ہوئے ہیں تکیہ بفضلِ خدا کئے
 

شاہ حسین

محفلین
صفحہ ۔ ۲۸۵


شکرِ خدا کہ وجہ شکایت نہیں رہی
مدّت ہوئی ہے ترکِ امیدِ وفا کئے

بخشا ہے اہتزاز تجھے کس نے ؟ اے نسیم
بندِ قبائے غنچہ اگر تونے وا کئے


۱۴


جو دل ہو تنگ تو جا شکر کر گلوں کو دیکھ
شگفتگی نے چمن کی ہوا نہ کھانے دی

کیا جو کر تو شیطان کے ہاتھ کیا آیا
وہی عزیز ہے عزّت جسے خدا نے دی

تری عطا ہے مری احتیاج سے سابق
کبھی سوال کی نوبت نہ تونے آنے دی

اُمید نے تو بہت دھوم دھام کی لیکن
وفورِ یاس نے قسمت نہ آزمانے دی

کشود و کار سے تسکینِ دل کبھی نہوئی
عجب نشاط تھی جو ترکِ مدّعا نے دی

گدا و شاہ سے یکساں معاملہ ہے وہاں
کوئی بتائے کہ مہلت کسے قضا نے دی



۱۵


غم مونسِ تنہائی تھا آتے ہی تمہارے
کہتا تھا پھر آجاؤں گا جب یاد کرو گے

دلدارئ سرکار کے بج جائیں گے ڈنکے
دل سے رہِ ویراں کو جو یاد کرو گے

احسان کے پھندے سے چُھڑائے گا مُجھے کون
مانا کہ غلامی سے تم آزاد کرو گے

عالم کے صحیفہ میں یہ قدرت کی نگارش
دیکھو گے تو ہر نکتہ پے تم صاد کرو گے

واعظ کی بکواس سمجھ میں نہیں آتی
یا حضرتِ دل تم بھی کچھ ارشاد کرو گے


۱۶


کس لئے پروانہ خاکستر ہوا
شمع کیوں اپنی جلن میں گھُل گئی
 

شاہ حسین

محفلین
صفحہ ۔ ۲۸۶


منتشر کیوں ہوگئے اوراقِ گلُ
چیختی گلشن سے کیوں بلبل گئی

آبدیدہ ہو کے کیوں شبنم چلی
دم کہ دم کانٹوں میں آکر تُل گئی

سبزہء طرفِ خیاباں کیا ہوا
آہ کیوں شادابیِ سنبل گئی

کُچھ نہ تھا خوابِ پریشاں کے سوا
اسِ تھیٹر کی حقیقت کھُل گئی

راہ کے رنج و تعب کا کیا گلہ
جب کہ دل سے گردِ کُلفت دھُل گئی


۱۷


خارج ہے عہدِ طفلی و پیری حساب سے
البتہ زندگی ہے عبارت شباب سے

ہر چند گفتگو کی نہ باقی رہے مجال
لیکن زباں دراز نہ چوکے جواب سے

ہے دعوئ خلوص تو کانوں پہ ہاتھ رکھ
بیمِ عذاب اور امیدِ ثواب سے

بے نور سینہ حفظِ سفینہ سے فائدہ
معنی سے ہے کتاب نہ معنی کتاب سے

وہ اور ہی نوا ہے محرّک سرور کی
باہر گلوئے مطرب و تارِ رُباب سے

کیا کہنے آدمی کے عجب چیز ہیں جناب
برتر ملائکہ سے فروتر دواب سے

سوجھیں وہ بدعتیں کہ خدایا تری پناہ
فرصت اگر ملے بھی ہمیں خورد و خواب سے

۔۔۔۔

کوئی دن کا آب و دانہ اور ہے
پھر چمن اور آشیانہ اور ہے

ہاں دلِ بے تاب ! چندے انتظار
امن و راحت کا ٹھکانہ اور ہے

شمع پھیکی ۔ رات کم ۔ محفل اُداس
اب مغنّی کا ترانہ اور ہے
 

شاہ حسین

محفلین
صفحہ ۔ ۲۸۷


اے جوانی تو کہانی ہو گئی
ہم نہیں وہ یا زمانہ اور ہے

جس کو جانِ زندگانی کہہ سکیں
وہ حیاتِ جاودانہ اور ہے

جس کو سن کر زہرہء سنگ آب ہو
آہ وہ غمگیں فسانہ اور ہے

وا اگر سمعِ رضا ہو تو کہوں
ایک پندِ مشفقانہ اور ہے

اِتّفاقی ہے یہاں کا ارتباط
سب ہیں بیگانے یگانہ اور ہے


۱۹


راہ و رسم خط خطابت ہی سہی
گلُ نہیں تو گلُ کی نکہت ہی سہی

دل لگی کو کوئی ساماں چاہئے
قحطِ معنی ہو تو صورت ہی سہی

بے دماغی بندہ پرور اسِ قدر
آپ کی سب پر حکومت ہی سہی

دوستی کا میں نے کب دعویٰ کیا
دور کی صاحب سلامت ہی سہی

بسکہ ذکرالعیش نصف العیش ہے
یادِ ایّامِ فراغت ہی سہی

وقت ملنے کا معیّن کیجئے
خواہ فردائے قیامت ہی سہی

حسنِ صورت کا نہ کھا اصلا فریب
کلکِ صنعتگر کی صنعت ہی سہی

کچُھ نہ کرنا بھی مگر اِک کام ہے
گر نہیں صحبت تو غزلت ہی سہی


۲۰


دنیا میں تہیدست کی وقعت نہیں ہوتی
یک جا کبھی محتاجی و عزّت نہیں ہوتی

ممکن ہے کہ ٹل جائے جبل اپنے مقر سے
لیکن کبھی تبدیل جبلّت نہیں ہوتی
 

شاہ حسین

محفلین
صفحہ ۔ ۲۸۸


ہے جان کی جوکھوں بھی اگر راہِ طلب میں
پست اُس سے الوالعزم کی ہمّت نہیں ہوتی

خلوت میں بھی لاتے نہیں عاقل اُسے منہ پر
جو بات شائستہ جلوت نہیں ہوتی

ہم کرتے ہیں عادت کی غلامانہ اطاعت
اصلاح پزیر اس لئے عادت نہیں ہوتی

راحت جسے کہتے ہیں وہ محنت کا صلہ ہے
راحت طلبی موجبِ راحت نہیں ہوتی

کیا گنبدِ بے دریدِ قدرت نے بنایا
جس کی کبھی سالانہ مرمّت نہیں ہوتی

انساں کی شرافت متعلق ہے عمل سے
میراث میں تقسیم شرافت نہیں ہوتی

پتّے کی طرح جو کوئی محکوم ہوا ہو
اُس شخص کی دنیا میں کبھی پت نہیں ہوتی

جو لوگ ہیں دشمنی نفس سے آگاہ
اُن کو تو کسی سے بھی عداوت نہیں ہوتی

ڈھاتی ہے قیامت یہی خونخوار جہاں میں
کُچھ غم نہیں ہوتا جو محبّت نہیں ہوتی

رخصت ہے مری جان خدا حفظ و ناصر
ہر چند کہ سیرئِ طبیعت نہیں ہوتی


۲۱


لو جان بیچ کے بھی جو فضل و ہنر ملے
جس سے ملے جہاں سے ملے جس قدر ملے

ملنا بُرا نہیں ہے ولیکن یہ لت بُری
جس سے ملے بہ صورتِ شیر و شکر ملے

جب چشمِ آز پھوٹ گئی سب خلش مٹی
اب سنگریزہ ہاتھ لگے یا گہر ملے

ہے غارتِ متاع نشانِ دیارِ دوست
رہزن اگر ملے تو سمجھو خضر ملے

ممکن نہیں بغیرِ قناعت فراغِ بال
ہر چند تودہ تودہ تجھے سیم و زر ملے

یارانِ بزمِ دہر میں کیا کیا تپاک تھا
لیکن جب اُٹھ گئے تو نہ بارِ دگر ملے
 

شاہ حسین

محفلین
صفحہ ۔ ۲۸۹


مردِ نبرد نفس اگر ہے تو بھاگ مت
جب تک نہ خاک و خون میں دشمن کا سر ملے

جن کو نہیں ہے درد و دوا میں کچھ امتیاز
قسمت سے اِن گُنوں کے ہمیں چارہ گر ملے


۲۲


غیرِ توکّل نہیں چارا مجھے
اپنے ہی دم کا ہے سہارا مجھے

حرص و طمع نے تو ڈبویا ہی تھا
صبر وقناعت نے ابھارا مجھے

جو وہ کہے اُس کو سزاوار ہے
چوں و چرا کا نہیں یارا مجھے

بے ادبوں کی ادب آموزیاں !
اُن کے بگڑے نے سنوارا مُجھے

کوششِ بے سودا مشوّش نہ کر
قعر نہ بن جائے کنارا مُجھے

زشتیِ پندار دلاتا ہے یاد
قصّئہ اسکندر و دارا مُجھے

ننگِ ذلّت سے چھڑا لے گیا
جاشِ حمیّت کا حرارا مُجھے

اوجِ معالی پہ اُڑا لے گیا
توسنِ ہمّت کا طرارا مُجھے

آہ ! نہیں رخصتِ افشائے راز
قصہ تو معلوم ہے سارا مُجھے

فرصتِ اوقات ہے بس مفتنم
یہ نہیں ملنے کی دوبارا مُجھے


۲۳


نکلے چلے آتے ہیں تہِ خاک سے کھانے
یہ خوانِ کرم کس نے بچھایا ہے ؟ خدا نے

جو دل میں ہے مُنہ پھوڑ کے بررو نہیں کہتے
مارا مجھے یاروں کی درسنت اور نجانے

غفلت میں ہیں سرمست بدلتے نہیں کروٹ
گو سر پہ اُٹھالی ہے زمیں شورِ درا نے
 

شاہ حسین

محفلین
صفحہ ۔ ۲۹۰


اِسراف نے اربابِ تموّل کو ڈبویا
عالِم کو تفاخر نے تو زاہد کو ریا نے

مرد اُس کو سمجھئے نہ کیا ہو جسے بدمست
ایّامِ جوانی کی مئے ہوشِ ربا نے

با ایں ہمہ درماندگی انساں کے یہ دعوے
کیا ذاتِ شریف اِن کو بنایا ہے خدا نے

جلوت کا بھروسہ ہے نہ خلوت کی توقع
سب وہم تھا یاروں نے جو تاکے تھے ٹھکانے


۲۴


ہو رائگاں جو قطرہ سے قطرہ جدا چلے
مِل جُل گئے تو فیض کے دریا بہا چلے

یہ دل کا حوصلہ ہے کہ میدانِ عشق میں
تیرے سمندِ ناز کے پیچھے لگا چلے

ہے آج رُخ ہوا کا موافق تو چل نکل
کلَ کی کسے خبر ہے کدھر کی ہوا چلے

کرتی ہے پست صف شکنوں کے بھی حوصلے
وہ رزم گاہ جس میں کہ تیغِ ادا چلے

قدسی بھی ہیں خموش نہیبِ جلال سے
اُس کو میں کیا مجال کہ پیکِ صبا چلے

جی ہی نہ چاہتا ہو تو ملنے سے فائدہ
آئے تو مُنہ بنائے ۔ چلے تو خفا چلے


۲۵


تبلیغِ پیام ہوگئی ہے
حجّت بھی تمام ہو گئی ہے

جب موجِ صبا اُدھر سے آئی
تفریحِ مشام ہو گئی ہے

کتنی بودی ہے طبعِ انساں
عادت کی غلام ہو گئی ہے

خواہش کہ تھی آدمی کو لازم
بڑھ کر الزام ہو گئی ہے

تمہیدِ پیام ہی میں اپنی
تقریر تمام ہو گئی ہے
 
Top