کلیاتِ شیفتہ

نوید صادق

محفلین
صبح ہوتے ہی گیا گھر مہِ تاباں میرا
پنجہء خور نے کیا چاک گریباں میرا

گرم گرم اس رخِ نازک پہ نظر کی کس نے
رشکِ گل ریز ہے کیوں دیدہء گریاں میرا

وادئ نجد کو دلی سے نہ دینا نسبت
ہے وہ مجنوں کا بیاباں، یہ بیاباں میرا

دیکھ کر میری طرف ہنس کے کہا یہ دمِ قتل
آج تو دیکھ لیا آپ نے پیماں میرا

نہ گھر آیا، نہ جنازے پہ، نہ مرقد پہ کبھی
حیف صد حیف نہ نکلا کوئی ارماں میرا

چارہ سازو! کوئی رہتا ہے بجز چاک ہوئے
آپ سو بار سییں، ہے یہ گریباں میرا

آس کی زلفوں کا نہ ہو دھیان تو اے شیفتہ پھر
اس شبِ ہجر میں ہے کون نگہباں میرا
 

نوید صادق

محفلین
گور میں یادِ قدِ یار نے سونے نہ دیا
فتنہء حشر کو رفتار نے سونے نہ دیا

واہ اے طالعِ خفتہ کہ شبِ عیش میں بھی
وہم بے خوابئ اغیار نے سونے نہ دیا

وا رہیں صورتِ آغوش، سحر تک آنکھیں
شوقِ ہم خوبئ دلدار نے سونے نہ دیا

یاس سے آنکھ بھی جھپکی تو توقع سے کھلی
صبح تک وعدہء دیدار نے سونے نہ دیا

طالعِ خفتہ کی تعریف کہاں تک کیجے
پاؤن کو بھی خلشِ خار نے سونے نہ دیا

دردِ دل سے جو کہا نیند نہ آئی؟ تو کہا
مجھ کو کب نرگسِ بیمار نے سونے نہ دیا

شبِ ہجراں نے کہا قصہء گیسوئے دراز
شیفتہ تو بھی دلِ زار نے سونے نہ دیا
 

نوید صادق

محفلین
آج ہی کیا آگ ہے، سرگرمِ کیں تو کب نہ تھا
شمع ساں مجبورِ خوئے آتشیں تو کب نہ تھا

آج ہی دعویٰ ہے کیا تجھ کو بتانِ دہر سے
غیرتِ غلمان و رشکِ حورِ عیں تو کب نہ تھا

آج ہی ہر بات پر بے وجہ کیا رکتا ہے تو
اے ستم گر! برسرِ پرخاش و کیں تو کب نہ تھا

آج ہی تیری جگہ کچھ سینہ و دل میں نہیں
مثلِ تیرِ غمزہ ظالم! دل نشیں تو کب نہ تھا

آج ہی کیا شرم و شوخی کو ملایا ہے بہم
غیر سے بے باک، مجھ سے شرمگیں تو کب نہ تھا

آج ہی کیا ہے فلک پر شکوہء فریادِ خلق
اے ستم گر! آفتِ روئے زمیں تو کب نہ تھا

آج ہی کیا دشمنوں سے قتل کی تدبیر ہے
اے جفا جو! درپئے جانِ حزیں تو کب نہ تھا

آج ہی باتیں بنانی یاں کے آنے میں نہیں
حیلہ گر تو کب نہ تھا، عذر آفریں تو کب نہ تھا

آج ہی اٹھ کر یہاں سے کیا عدو کے گھر گیا
مہروش شب کو کہیں، دن کو کہیں تو کب نہ تھا

آج ہی ٹیکہ لگانے سے لگے کیا چار چاند
بے تکلف، بے تکلف مہ جبیں تو کب نہ تھا

آج ہی کچھ سوزِ ہجراں سے نہیں پروانہ وار
شیفتہ بے تابِ روئے آتشیں تو کب نہ تھا
 

نوید صادق

محفلین
میں پریشاں گرد اور محفل نشیں تو کب نہ تھا
ہر کہیں کس دن نہ تھا میں، ہر کہیں تو کب نہ تھا

یاں سبک حرفِ ملامت، واں گراں عرضِ نیاز
سخت جاں میں کب نہ تھا اور نازنیں تو کب نہ تھا

ناصح و واعظ کے مطعوں اے صنم ہم کب نہ تھے
آفتِ جان و بلائے عقل و دیں تو کب نہ تھا

انتہا کی بات ہے یاں ابتدائے عشق ہے
ہم نہ تھے کب عجز گستر، خشم گیں تو کب نہ تھا

جستجو میں سرمہء تسخیر کی ہم کب نہ تھے
چشمِ افسوں ساز سے سحر آفریں تو کب نہ تھا

تجھ کو شک الفت میں اپنی، ہم کو وہمِ ربطِ غیر
بدگماں ہم کب نہ تھے اور بے یقیں تو کب نہ تھا

نا شکیبا، مضطرب، وقفِ ستم، ہم کب نہ تھے
بے مروت، بے وفا، مصروفِ کیں تو کب نہ تھا


تیری ان باتوں پہ ہم طعنے اٹھاتے کب نہ تھے
اے ستم گر شیفتہ کا ہم نشیں تو کب نہ تھا
 

نوید صادق

محفلین
میں وصل میں بھی شیفتہ حسرت طلب رہا
گستاخیوں میں بھی مجھے پاسِ ادب رہا

تغییر وضع کی ہے اشارہ وداع کا
یعنی جفا پہ خوگرِ الطاف کب رہا

میں رشک سے چلا تو کہا بے سبب چلا
اس پر جو رہ گیا تو کہا، بے سبب رہا

دم بھر بھی غیر پر نگہِ لطف کیوں ہے اب
اک عمر میں ستم کشِ چشمِ غضب رہا

تھا شب تو آہ میں بھی اثر، جذبِ دل میں بھی
کیوں کر نہ آئے شیفتہ مجھ کو عجب رہا
 

نوید صادق

محفلین
بس کہ آغازِ محبت میں ہوا کام اپنا
پوچھتے ہیں ملک الموت سے انجام اپنا

عمر کٹتی ہے تصور میں رخ و کاکل کے
رات دن اور ہے، اے گردشِ ایام اپنا

واں یہ قدغن کہ نہ آوازِ فغاں بھی پہنچے
یاں یہ شورش کہ گزارا ہو لبِ بام اپنا

ان سے نازک کو کہاں گرمئ صحبت کی تاب
بس کلیجا نہ پکا اے طمعِ خام اپنا

تپشِ دل کے سبب سے ہے مجھے خواہشِ مرگ
کون ہے جس کو نہ منظور ہو آرام اپنا

بادہ نوشی سے ہماری، جو لہو خشک ہوا
خونِ اغیار سے لبریز ہے کیا جام اپنا

لطف سمجھوں تو بجا، جور بھی سمجھوں تو درست
تم نے بھیجا ہے مرے پاس جو ہم نام اپنا

ذکرِ عشاق سے آتی ہے جو غیرت اس کو
آپ عاشق ہے مگر وہ بتِ خود کام اپنا

تاب بوسے کی کسے شیفتہ وہ دیں بھی اگر
کر چکی کام یہاں لذتِ دشنام اپنا
 

نوید صادق

محفلین
جی داغِ غمِ رشک سے جل جائے تو اچھا
ارمان عدو کا بھی نکل جائے تو اچھا

پروانہ بنا میرے جلانے کو وفادار
محفل میں کوئی شمع بدل جائے تو اچھا

کس چین سے نظارہء ہر دم ہو میسر
دل کوچہء دشمن میں بہل جائے تو اچھا

تم غیر کے قابو سے نکل آؤ تو بہتر
حسرت یہ مرے دل کی نکل جائے تو اچھا

سودا زدہ کہتے ہیں، ہوا شیفتہ افسوس
تھا دوست ہمارا بھی، سنبھل جائے تو اچھا
 

نوید صادق

محفلین
پلا جام ساقی مے ناب کا
کہ کچھ حظ اٹھے سیرِ مہتاب کا

دلِ زار کا ماجرا کیا کہوں
فسانہ ہے مشہور سیماب کا

کہاں پھر وہ نایاب، پایا جسے
غلط شوق ہے جنسِ نایاب کا

نہ کیجو غل اے خوش نوایانِ صبح
یہ ہے وقت ان کی شکر خواب کا

محبت نہ ہرگز جتائی گئی
رہا ذکر کل اور ہر باب کا

دمِ سرد سے لا نہ طوفانِ باد
نہ سن ماجرا چشمِ پر آب کا

وہاں بے خودوں کی خبر کون لے
جہاں شغل ہو بادہء ناب کا

وہاں تیرہ روزوں کی پروا کسے
جہاں شوق ہو سیرِ مہتاب کا

وہ تشخیصِ شخصی بھی جاتی رہی
کنارا الٹتے ہی جلباب کا

میں بے جرم رہتا ہوں خائف کہ واں
جفا میں نہیں دخل اسباب کا

پڑے صبر آرام کی جان پر
مری جانِ بے صبر و بے تاب کا

لبِ لعل کو کس کے جنبش ہوئی
ہوا میں ہے کچھ رنگ عناب کا

نہ کرنا خطا پر نظر شیفتہ
کہ اغماض شیوہ ہے احباب کا
 

نوید صادق

محفلین
تقلیدِ عدو سے ہمیں ابرام نہ ہو گا
ہم خاص نہیں اور کرم عام نہ ہا گا

صیاد کا دل اس سے پگھلنا متعذر
جو نالہ کہ آتش فگنِ دام نہ ہو گا

جس سے ہے مجھے ربط وہ ہے کون، کہاں ہے
الزام کے دینے سے تو الزام نہ ہو گا

بے داد وہ اور اس پہ وفا یہ کوئی مجھ سا
مجبور ہوا ہے، دلِ خود کام نہ ہو گا

وہ غیر کے گھر نغمہ سرا ہوں گے مگر کب
جب ہم سے کوئی نالہ سرانجام نہ ہو گا

ہم طالبِ شہرت ہیں، ہمیں ننگ سے کیا کام
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا

قاصد کو کیا قتل، کبوتر کو کیا ذبح
لے جائے مرا اب کوئی پیغام، نہ ہو گا

جب پردہ اٹھا تب ہے عدو دوست کہاں تک
آزارِ عدو سے مجھے آرام نہ ہو گا

یاں جیتے ہیں امیدِ شبِ وصل پر اور واں
ہر صبح توقع ہے کہ تا شام نہ ہو گا

قاصد ہے عبث منتظرِ وقت، کہاں وقت
کس وقت انہیں شغلِ مے و جام نہ ہو گا

دشمن پسِ دشنام بھی ہے طالبِ بوسہ
محوِ اثرِ لذتِ دشنام نہ ہو گا

رخصت اے نالہ کہ یاں ٹھہر چکی ہے
نالہ نہیں جو آفتِ اجرام ، نہ ہو گا

برق آئینہء فرصتِ گلزار ہے اس پر
آئینہ نہ دیکھے کوئی گل فام، نہ ہو گا

اے اہلِ نظر ذرے میں پوشیدہ ہے خورشید
ایضاح سے حاصل بجز ابہام نہ ہو گا

اس ناز و تغافل میں ہے قاصد کی خرابی
بے چارہ کبھی لائقِ انعام نہ ہو گا

اس بزم کے چلنے میں ہو تم کیوں متردد
کیا شیفتہ کچھ آپ کا اکرام نہ ہو گا
 

نوید صادق

محفلین
دیکھوں تو کہاں تک وہ تلطف نہیں کرتا
آرے سے اگر چیرے تو میں اف نہیں کرتا

تم دیتے ہو تکلیف، مجھے ہوتی ہے راحت
سچ جانئے میں اس میں تکلف نہیں کرتا

سب باتیں انہیں کی ہیں یہ؟ سچ بولیو قاصد!
کچھ اپنی طرف سے تو تصرف نہیں کرتا؟

سو خوف کی ہو جائے، مگر رندِ نظر باز
دل جلوہ گہِ لانشف و شف نہیں کرتا

شوخی سے کسی طرح سے چین اس کو نہیں ہے
آتا ہے مگر آ کے توقف نہیں کرتا

اس شوخِ ستم گر سے پڑا ہے مجھے پالا
جو قتل کئے پر بھی تاسف نہیں کرتا

جو کچھ ہے انا میں وہ ٹپکتا ہے انا سے
کچھ آپ سے میں ذکرِ تصوف نہیں کرتا

تسکین ہو کیا وعدے سے، معشوق ہے آخر
ہر چند سنا ہے کہ تخلف نہیں کرتا

کیا حال تمہارا ہے ہمیں بھی تو بتاؤ
بے وجہ کوئی شیفتہ اُف اُف نہیں کرتا
 

نوید صادق

محفلین
اپنے جوار میں ہمیں مسکن بنا دیا
دشمن کو اور دوست نے دشمن بنا دیا

مشاطہ نے مگر عملِ سیمیا کیا
گل برگ کو جو غنچہء سوسن بنا دیا

دامن تک اس کے ہائے نہ پہنچا کبھی وہ ہاتھ
جس ہاتھ نے کہ جیب کو دامن بنا دیا

دیکھا نہ ہو گا خواب میں بھی یہ فروغِ حسن
پردے کو اس کے جلوے نے چلمن بنا دیا

تم لوگ بھی غضب ہو کہ دل پر یہ اختیار
شب موم کر لیا، سحر آہن بنا دیا

پروانہ ہے خموش کہ حکمِ سخن نہیں
بلبل ہے نغمہ گر کہ نوا زن بنا دیا

صحرا بنا رہا ہے وہ افسوس شہر کو
صحرا کو جس کے جلوے نے گلشن بنا دیا

مشاطہ کا قصور سہی سب بناؤ میں
اس نے ہی کیا نگہ کو بھی پر فن بنا دیا

اظہارِ عشق اس سے نہ کرنا تھا شیفتہ
یہ کیا کیا کہ دوست کو دشمن بنا دیا
 

نوید صادق

محفلین
کیا لائقِ زکوٰۃ کوئی بے نوا نہ تھا
انفاسِ باد میں نفسِ آشنا نہ تھا

اس قوم کی سرشت میں ہے کم محبتی
شکوہ جو اس سے تھا مجھے ہرگز بجا نہ تھا

تاثیرِ نالہ نکتہء بعد الوقوع ہے
یاں غیرِ رسم اور کوئی مدعا نہ تھا

وحشت تھی مجھ کو پہلے بھی، پر یہ تپش نہ تھی
شورش تھی مجھ کو پہلے بھی، پر یہ مزا نہ تھا

ان کی نگاہِ ناز عجب تازیانہ تھی
مقدور پھر اُدھر نظرِ شوق کا نہ تھا

افسوس وہ مظاہرِ کونی میں پھنس گیا
جو عالمِ عقول سے نا آشنا نہ تھا

شرماتے اس قدر رہے کیوں آپ رات کو
مدت سے گو ملے تھے مگر میں نیا نہ تھا

بے پردہ ان کے آنے سے حیرت ہوئی مجھے
وصلِ عدو کی رات تھی روزِ جزا نہ تھا

نان و نمک کی تھی ہمیں توفیق شیفتہ
ساز و نوا کے واسطے برگ و نوا نہ تھا
 

نوید صادق

محفلین
کل نغمہ گر جو مطربِ جادو ترانہ تھا
ہوش و حواس و عقل و خرد کا پتا نہ تھا

یہ بت کہ جائے شیب ہے، جب تھا نقاب میں
عہدِ شباب اور بتوں کا زمانہ تھا

معلوم ہے ستاتے ہو ہر اک بہانے سے
قصدا" نہ آئے رات، حنا کا بہانہ تھا

حسرت سے اس کے کوچے کو کیوں کر نہ دیکھئے
اپنا بھی اس چمن میں کبھی آشیانہ تھا

کیا مے کدوں میں ہے کہ مدارس میں وہ نہیں
البتہ ایک واں دلِ بے مدعا نہ تھا

ساقی کی بے مدد نہ بنی بات رات کو
مطرب اگرچہ کام میں اپنے یگانہ تھا

کچھ آج ان کی بزم میں بے ڈھب ہے بندوبست
آلودہ مے سے دامنِ بادِ صبا نہ تھا

دشمن کے فعل کی تمہیں توجیہ کیا ضرور
تم سے فقط مجھے گلہء دوستانہ تھا

کل شیفتہ سحر کو عجب حالِ خوش میں تھے
آنکھوں میں نشہ اور لبوں پر ترانہ تھا
 

نوید صادق

محفلین
ردیف " با"

تھا غیر کا جو رنجِ جدائی تمام شب
نیند ان کو میرے ساتھ نہ آئی تمام شب

شکوہ مجھے نہ ہو جو مکافات حد سے ہو
واں صلح ایک دم ہے لڑائی تمام شب

یہ ڈر رہا کہ سوتے نہ پائیں کہیں مجھے
وعدے کی رات نیند نہ آئی تمام شب

سچ تو یہ ہے کہ بول گئے اکثر اہلِ شوق
بلبل نے کی جو نالہ سرائی تمام شب

دم بھر بھی عمر کھوئی جو ذکرِ رقیب میں
کیفیتِ وصال نہ پائی تمام شب

تھوڑا سا میرے حال پہ فرما کر التفات
کرتے رہے وہ اپنی بڑائی تمام شب

وہ آہ، تار و پود ہو جس کا ہوائے زلف
کرتی ہے عنبری و صبائی تمام شب

وہ صبح جلوہ، جلوہ گرِ باغ تھا جو رات
مرغِ سحر نے دھوم مچائی تمام شب

افسانے سے بگاڑ ہے، ان بن ہے خواب سے
ہے فکرِ وصل و ذکرِ جدائی تمام شب

جس کی شمیمِ زلف پہ میں غش ہوں شیفتہ
اس نے شمیمِ زلف سنگھائی تمام شب
 

نوید صادق

محفلین
یوں بزمِ گل رخاں میں ہے اس دل کو اضطراب
جیسے بہار میں ہو عنادل کو اضطراب

نیرنگِ حسن و عشق کے کیا کیا ظہور ہیں
بسمل کو اضطراب ہے، قاتل کو اضطراب

آ جائے ہم نشیں وہ پری وش تو کیا نہ ہو
دیوانہ وار ناصحِ عاقل کو اضطراب

سیماب وار سارے بدن کو ہے یاں تپش
تسکین ہو سکے جو ہو اک دل کو اضطراب

وہ با ادب شہید ہوں میرا جو نام لے
قاتل، تو پھر نہ ہو کسی بسمل کو اضطراب

افسوس بادِ آہ سے ہل بھی نہ جائے اور
یوں ہو ہوا سے پردہء محمل کو اضطراب

میں جاں بہ لب ہوں اور خبرِِ وصل جاں طلب
کیا کیا نہیں دہندہ و سائل کو اضطراب

لکھا ہے خط میں حال دلِ بے قرار کا
ہو گا ضرور شیفتہ حامل کو اضطراب
 

نوید صادق

محفلین
کیا اٹھ گیا ہے دیدہء اغیار سے حجاب
ٹپکا پڑے ہے کیوں نگہ یار سے حجاب

لا و نَعَم نہیں جو تمنائے وصل پر
انکار سے حجاب ہے، اقرار سے حجاب

تقلیدِ شکل چاہئے سیرت میں بھی تجھے
کب تک رہے مجھے ترے اطوار سے حجاب

دشنام دیں جو بوسے میں ابرام ہم کریں
طبعِ غیور کو ہے پر اصرار سے حجاب

رندی میں بھی گئی نہ یہ مستوری و صلاح
آتا ہے مجھ کو محرمِ اسرار سے حجاب

وہ طعنہ زن ہے زندگئ ہجر پر عبث
آتا ہے مجھ کو حسرتِ دیدار سے حجاب

جوشِ نگاہِ دیدہء حیراں کو کیا کہوں
ظاہر ہے روئے آئینہ رخسار سے حجاب

روز و شبِ وصال مبارک ہو شیفتہ
جورِ فلک کو ہے ستمِ یار سے حجاب
 

نوید صادق

محفلین
ردیف " تا"

دشمن سے ہے میرے دلِ مضطر کی شکایت
کیوں کر نہ کروں شوخئ دلبر کی شکایت

دیوانہء اُلفت ادب آموزِ خرد ہے
سودے میں نہیں زلفِ معنبر کی شکایت

تاخیر نہ کر قتلِ شہیدانِ وفا میں
ہر ایک کو ہے تیزئ خنجر کی شکایت

تاثیر ہو کیا، ان لب و دنداں کا ہوں بیمار
نے لعل کا شکوہ ہے نہ گوہر کی شکایت

کیوں بوالہوسوں سے دلِ عاشق کا گلہ ہے
غیروں سے بھی کرتا ہے کوئی گھر کی شکایت

اب ظلم سرشتوں کی نگہ سے ہوں مقابل
ہوتی تھی کبھی کاوشِ نشتر کی شکایت

یاں کانٹوں پہ بھی لوٹنے میں چین نہیں ہے
واں غیر سے ہے پھولوں کے بستر کی شکایت

تعلیم بدآموز کو ہم کرتے ہیں ، یعنی
ہے شکرِ وفا، جورِ ستم گر کی شکایت

بے پردہ وہ آئیں گے تو کیسے مجھے ہو گی
اے شیفتہ ہنگامہء محشر کی شکایت
 

نوید صادق

محفلین
ردیف " ثا"

اُس وفا کی مجھ سے پھر امیدواری ہے عبث
دل فریبی کی لگاوٹ، یہ تمہاری ہے عبث

دشمنی کو جو کہ احساں جانتا ہو ناز سے
اس ستم ایجاد سے امیدِ یاری ہے عبث

غمزہ ہائے دوست بعدازمرگ بھی نظروں میں ہیں
وہمِ راحت سے عدو کو بے قراری ہے عبث

سرو میں کب پھل لگا، تاثیر کیا ہو آہ میں
چشمِ تر کی صورتِ ابر اشک باری ہے عبث

ہم نے غافل پا کے تجھ کو اور کو دل دے دیا
اے ستم گر اب تری غفلت شعاری ہے عبث

ہجر میں چرخ و اجل نے گر نہ کی یاری تو کیا
دشمنوں سے شیفتہ امیدواری ہے عبث
 

نوید صادق

محفلین
نہ کر فاش رازِ گلستاں عبث
نہ ہو بلبلِ زار نالاں عبث

کفایت تھی مجھ کو تو چینِ جبیں
کیا قتل کا اور ساماں عبث

مقدم ہے ترکِ عدو کی قسم
وگرنہ یہ سب عہد و پیماں عبث

جو آیا ہے وادی میں تو صبر کر
شکایاتِ خارِ مغیلاں عبث

تکبر گدائے خرابات ہے
نہ اے خواجہ کھو جان و ایماں عبث

وہاں صوتِ مینا و آوازِ ساز
خوش آہنگئ مرغِ شب خواں عبث

وہاں دس بجے دن کو ہوتی ہے صبح
سحر خیزئ عندلیباں عبث

دمِ خضر ہے چشمہء زندگی
سکندر سرِ آبِ حیواں عبث

پری کا وہاں مجھ کو سایہ ہوا
نہیں اشتیاقِ دبستاں عبث

طلب گارِ راحت ہیں نا دردمند
اگر درد ہے فکرِ درماں عبث

یہ نازک مزاجوں کا دستور ہے
خشونت سے اندوہِ حرماں عبث

شکایت کو اس نے سنا بھی نہیں
کھلا غیر پر رازِ پنہاں عبث

مرے غم میں گیسوئے مشکیں نہ کھول
نہ ہو خلق کا دشمنِ جاں عبث

محبت جتاتا ہوں ہر طور سے
اثر کی نظر سوئے افغاں عبث

نہ سمجھا کسی نے مجھے گل نہ صبح
ہوا ٹکڑے ٹکڑے گریباں عبث

مجھے یوں بٹھاتے وہ کب بزم میں
اٹھائے رقیبوں نے طوفاں عبث

یہ اندازِ دل کش کہاں شیفتہ
جگر کاوئ مرغِ بستاں عبث
 

نوید صادق

محفلین
ردیف " جیم "

اے شیفتہ نویدِ شبِ غم سحر ہے آج
ہم تابِ آفتاب، فروغِ قمر ہے آج

آہنگِ دل پزیر سے مطرب ہے جاں نواز
آہِ جگر خراش کا ظاہر اثر ہے آج

دل سے کشادہ تر نہ ہو کیوں کر فضائے بزم
تنگئ خانہ حلقہء بیرونِ در ہے آج

فانوس میں نہ شمع، نہ شیشے میں ہے پری
ساغر میں جس بہار سے مے جلوہ گر ہے آج

پروانوں کا دماغ بھی ہے آسمان پر
نورِ چراغ میں جو فروغِ قمر ہے آج

ہر سمت جلوہ گر ہیں جوانانِ لالہ رُو
گلزار جس کو کہتے ہیں وہ اپنا گھر ہے آج

سامان وہ کہ آئے نہ چشمِ خیال میں
آ اے رقیب دیکھ کہ پیشِ نظر ہے آج

وہ دن گئے کہ ربطِ سر و سنگ تھا بہم
شکرانے کے سجود ہیں اور اپنا سر ہے آج

اسبابِ عیش یہ جو مہیا ہے شیفتہ
کیا پردہ تم سے، آنے کی اُن کے خبر ہے آج
 
Top