اکمل زیدی
محفلین
یہ عبارت، کربلا کے واقعہ اور امامت سے متعلق احادیث کے مجموعہ کے مفاهیم کی عکاسی کرتی ہے اور اس میں ایک سبق آموز اور خوبصورت پیغام ہے، کیونکہ اگرچہ عاشورا جیسا دن رونما نہیں ہوگا، لیکن ہمیشه ظالموں کا ظلم اور مظلوموں پر ستم جاری ہے زمان و مکان پر جاری عاشورا کی ثقافت اور کربلا، مقصد کی راه میں ظلم و ستم اور بے انصافی سے مبارزه اور استقامت کی علامت ہے۔ ائمہ اطهار علیهم السلام نے ہمیں ظالم سے مقابلہ کرنا سکھایا ہے اور خود بھی اس پر عمل کرتے تھے اور عاشورا ایک زمان و مکان کی محدودیت میں بند نہیں ہو سکتا ہے۔
"کل یوم عاشورا و کل ارض کربلا" کا جملہ ہر زمان و مکان میں حق و باطل کی جنگ کے جاری رہنے کی طرف اشاره ہے۔ عاشورا اور کربلا اس طولانی زنجیر کی واضح ترین کڑی ہے۔ حق و باطل ہمیشه ایک دوسرے کے مقابلے میں برسر پیکار ہوتے ہیں اور آزاد انسانوں کا فریضہ حق کی پاسداری اور باطل سے پیکار کرنا ہے اور حق و باطل کے اس معرکہ سے دامن بچا کر گزر جانا، بے دینی ہے۔
یہ نظریہ، اس نظریہ کو مسترد کرتا ہے، جو کربلا اور حسین علیه السلام کے قیام کو صرف امام تک محدود فریضہ جانتے ہیں، جس کی پیروی نہیں کی جا سکتی ہے۔
ایک مصنف لکھتا ہے:" ہمیں یقین ہے که اگر امام حسین علیه السلام ہمارے زمانہ میں ہوتے، تو قدس، جنوب لبنان اور مسلمانوں کے اکثر علاقوں میں دوسرا کربلا برپا کرتے اور وہی موقف اختیار کرتے، جو انهوں نے معاویہ اور یزید کے مقابلے میں اختیار کیا تھا-
"کل یوم عاشورا و کل ارض کربلا" کا جملہ ہر زمان و مکان میں حق و باطل کی جنگ کے جاری رہنے کی طرف اشاره ہے۔ عاشورا اور کربلا اس طولانی زنجیر کی واضح ترین کڑی ہے۔ حق و باطل ہمیشه ایک دوسرے کے مقابلے میں برسر پیکار ہوتے ہیں اور آزاد انسانوں کا فریضہ حق کی پاسداری اور باطل سے پیکار کرنا ہے اور حق و باطل کے اس معرکہ سے دامن بچا کر گزر جانا، بے دینی ہے۔
یہ نظریہ، اس نظریہ کو مسترد کرتا ہے، جو کربلا اور حسین علیه السلام کے قیام کو صرف امام تک محدود فریضہ جانتے ہیں، جس کی پیروی نہیں کی جا سکتی ہے۔
ایک مصنف لکھتا ہے:" ہمیں یقین ہے که اگر امام حسین علیه السلام ہمارے زمانہ میں ہوتے، تو قدس، جنوب لبنان اور مسلمانوں کے اکثر علاقوں میں دوسرا کربلا برپا کرتے اور وہی موقف اختیار کرتے، جو انهوں نے معاویہ اور یزید کے مقابلے میں اختیار کیا تھا-