ام اریبہ
محفلین
اللہ تعالیٰ نے انسان کو تو بہت اعلیٰ و ارفع اور سجود و ملائک بنا کر بھیجا ہے ۔
یہ باتیں یاد رکھنے کی ہیں کہ اب تک جتنی بھی مخلوق نے انسان کو سجدہ کیا تھا، وہ انسان کے ساتھ ویسا ہی نباہ کر رہی ہے۔
یعنی شجر، حجر، نبادات، جمادات ، اور فرشتے ، وہ بدستور انسان کا احترام کررہے ہیں ۔
انسان سے کسی کا احترام کم ہی ہوتا ہے ۔
اب جب ہم یہاں بیٹھے ہیں ، تو اس وقت کروڑوں ٹن برف کے ٹو پر پڑی آوازیں دے دے کر پکار پکار کر سورج کی منتیں کر رہی ہے
کہ " ذرا ادھر کرنیں زیادہ ڈالنا ، سندھ میں پانی نہیں ہے ۔ جہلم، چناب خشک ہیں ۔ اور مجھے وہاں پانی پہنچانا ہے ۔
نوع انسان کو پانی کی ضرورت ہے " ۔
برف اپنا آپ پگھلاتی ہے اور آپ کو پانی دے کر جاتی ہے ۔
صبح کے وقت اگر آپ غور سے سوئی گیس کی آواز سنیں اور اگر آپ اس درجے یا جگہ پر پہنچ جائیں جہاں سے آپ اس کی آوازیں سن سکیں تو وہ چیخ چیخ کر اپنے سے نیچے والی کو کہہ رہی ہوتی
ہے " نی کڑیو ! چھیتی کرو۔ ، باہر نکلوجلدی کرو تم تو ابھی ہار سنگھار کر رہی ہو ۔
بچوں نے سکول جانا ہے ۔
ماؤں نے ان کو ناشتہ دینا ہے ۔
لوگوں کو دفتر جانا ہے ۔
چلو اپنا آپ قربان کرو " ۔
ہ اپنا آپ قربان کر کے جل بھن کر آپ کا ناشتہ تیار کرواتی ہے ۔
یہ سب پھل سبزیاں اپنے وعدے پر قائم ہیں ۔
یہ آم دیکھ لیں ۔ آج تک کسی انور راٹھور نے یا ثمر بہشت نے اپنا پھل خود کھا کر یا چوس کر نہیں دیکھا ۔
بس وہ تو انسانوں سے کیے وعدے کی فکر میں رہتا ہے کہ میرا پھل توڑ کر بلوچستان ضرور بھیجو ، وہاں لوگوں کو آم کم ملتا ہے ۔
اشفاق احمد زاویہ 2 ماضی کا البم صفحہ43
_____________________
یہ باتیں یاد رکھنے کی ہیں کہ اب تک جتنی بھی مخلوق نے انسان کو سجدہ کیا تھا، وہ انسان کے ساتھ ویسا ہی نباہ کر رہی ہے۔
یعنی شجر، حجر، نبادات، جمادات ، اور فرشتے ، وہ بدستور انسان کا احترام کررہے ہیں ۔
انسان سے کسی کا احترام کم ہی ہوتا ہے ۔
اب جب ہم یہاں بیٹھے ہیں ، تو اس وقت کروڑوں ٹن برف کے ٹو پر پڑی آوازیں دے دے کر پکار پکار کر سورج کی منتیں کر رہی ہے
کہ " ذرا ادھر کرنیں زیادہ ڈالنا ، سندھ میں پانی نہیں ہے ۔ جہلم، چناب خشک ہیں ۔ اور مجھے وہاں پانی پہنچانا ہے ۔
نوع انسان کو پانی کی ضرورت ہے " ۔
برف اپنا آپ پگھلاتی ہے اور آپ کو پانی دے کر جاتی ہے ۔
صبح کے وقت اگر آپ غور سے سوئی گیس کی آواز سنیں اور اگر آپ اس درجے یا جگہ پر پہنچ جائیں جہاں سے آپ اس کی آوازیں سن سکیں تو وہ چیخ چیخ کر اپنے سے نیچے والی کو کہہ رہی ہوتی
ہے " نی کڑیو ! چھیتی کرو۔ ، باہر نکلوجلدی کرو تم تو ابھی ہار سنگھار کر رہی ہو ۔
بچوں نے سکول جانا ہے ۔
ماؤں نے ان کو ناشتہ دینا ہے ۔
لوگوں کو دفتر جانا ہے ۔
چلو اپنا آپ قربان کرو " ۔
ہ اپنا آپ قربان کر کے جل بھن کر آپ کا ناشتہ تیار کرواتی ہے ۔
یہ سب پھل سبزیاں اپنے وعدے پر قائم ہیں ۔
یہ آم دیکھ لیں ۔ آج تک کسی انور راٹھور نے یا ثمر بہشت نے اپنا پھل خود کھا کر یا چوس کر نہیں دیکھا ۔
بس وہ تو انسانوں سے کیے وعدے کی فکر میں رہتا ہے کہ میرا پھل توڑ کر بلوچستان ضرور بھیجو ، وہاں لوگوں کو آم کم ملتا ہے ۔
اشفاق احمد زاویہ 2 ماضی کا البم صفحہ43
_____________________