سلام
پرنٹڈ تحریریں۔ میرا خیال برعکس ہے۔ پرنٹڈ تحریریوں کی حیثیت دن بدن ردی کے ٹکڑے کی سی ہوتی جا رہی ہے۔
آپ کو یقین ہے کہ جو کچھ آپ نے دینا ہوتا ہے وہ دنیا کی نظروں میں آنا ہوتا ہے؟
اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں۔ ابھی تک جو سامنے آیا ہے اس سے مایوسی ہی ہوئی ہے۔
خیر میرا ابھی موڈ نہیں مزید کچھ کہنے کا ورنہ ۔ ۔ ۔ آہم آہم
براہ کرم آئندہ اپنی ڈگریوں کا رعب مت جھاڑئیے گا۔ یہ آپ کے سر کا تاج ہونگی کسی کے قدموں میں ان کو مت رکھیں شکریہ
آپ شاکر کے اتنے بڑے کیوں بن رہے ہیں؟ شاکر کہ منہ میں زبان نہیں یا اس کے پاس جواب نہیں؟ آپ کے پاس اتنا وقت کیوں ہے کہ پرائے پھڈے میں ٹانگ اڑائیں؟ اتنا وقت کیوں نہیں کہ پتہ لگائیں ساری بات کیا ہے؟
ادائیں ضرور نرالی بنائیں لیکن زنانہ نہ بنائیں
عقلمند کو اشارہ کافی۔ اوہ سوری آپ نے تو گھوم پھر کر محفل میں دیکھا ہی نہیں کہ کیا چل رہا تھا۔ اس لئے آپ کو سمجھ نہ لگے تو صبر کریں۔ کوئی بات نہیں ایسا ہو جاتا ہے۔
میرے نام اور کام کی فکر نہ کریں۔ آپ کے پاس اتنا وقت کیوں کہ ہے فکریں کرتے پھریں لیکن کام کی بات نہ کریں؟
ویسے آپ نے میری بات میں ٹانگ اڑائی تو میں بھی آپ کی بات میں ٹانگ اڑا لیتا ہوں کہ کمرشل کی بات کی تو پھر ڈگریوں کی تعلیم میں اس بات کا علم بھی ہو گا کہ جہاں ایڈورٹائزنگ کی جائے وہاں “بارٹر ٹریڈ“ یا “خریداری“ کا بھی علم ہو گا؟
رائٹرز کو کچھ دیا بھی جاتا ہو گا۔ اور شمارے کی مقبولیت کے ساتھ ساتھ معاوضہ میں اضافہ بھی کیا جاتا ہو گا۔ میرے خیال سے آپ اب میری فکر چھوڑ کر ان فکروں میں لگیں ورنہ اعلان کرتے پھریں گیں کہ ہماری تو حالت بڑی ٹائیٹ ہے۔
ویسے کیا خیال ہے؟ شاکر کا مضمون یہاں پوسٹ نہ کر دیا جائے؟ اتنے عرصے پرنٹ میڈیا سے وابستگی نے یہ تو ضرور سیکھایا ہو گا کہ اس کاروبار کو کیسے چلاتے ہیں۔ اور اگر یہ کاروبار نہیں خدمت ہے تو بھی بتائیں تب تو بڑا مزہ آئے گا۔
وسلام