جاسمن
لائبریرین
غیرمتفق۔عارف سے ملتی جلتی تحریریں ہیں آپ کی۔۔
غیرمتفق۔عارف سے ملتی جلتی تحریریں ہیں آپ کی۔۔
شاید جناح یا ایسی ہی کسی دوسری فلم سے لیا گیا ہےمیرا خیال ہے ایسی کوئی تقریر ریکارڈ میں موجود نہیں۔ انگریزی والی ہی اصل ہے جسے تاریخ سے ثابت کیا جا سکتا ہے۔
وَ الّٰٓیِٴۡ یَئِسۡنَ مِنَ الۡمَحِیۡضِ مِنۡ نِّسَآئِکُمۡ اِنِ ارۡتَبۡتُمۡ فَعِدَّتُہُنَّ ثَلٰثَۃُ اَشۡہُرٍ ۙ وَّ الّٰٓیِٴۡ لَمۡ یَحِضۡنَ ؕ وَ اُولَاتُ الۡاَحۡمَالِ اَجَلُہُنَّ اَنۡ یَّضَعۡنَ حَمۡلَہُنَّ ؕ وَ مَنۡ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّہٗ مِنۡ اَمۡرِہٖ یُسۡرًا﴿۴﴾
۴۔ تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے ناامید ہو گئی ہیں، (ان کے بارے میں) اگر تمہیں شک ہو جائے (کہ خون کا بند ہونا سن رسیدہ ہونے کی وجہ سے ہے یا کسی اور عارضے کی وجہ سے) تو ان کی عدت تین ماہ ہے اور یہی حکم ان عورتوں کا ہے جنہیں حیض نہ آتا ہو اور حاملہ عورتوں کی عدت ان کا وضع حمل ہے اور جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ اس کے معاملے میں آسانی پیدا کر دیتا ہے۔
تفسیر آیات
۱۔ وَ الّٰٓیِٴۡ یَئِسۡنَ: یہاں دو عورتوں کی عدت کا حکم بیان ہوا ہے:
الف: وہ عورت جو حیض بند ہونے کی عمر کو پہنچ رہی ہو اور شک ہو کہ حیض کا بند ہونا عمر کی وجہ سے ہے یا کسی عارضہ کی وجہ سے۔ اس صورت میں عدت تین ماہ ہے۔
ب: وہ عورت جو حیض بند ہونے کی عمر کو نہیں پہنچی مگر کسی عارضے کی وجہ سے حیض نہیں آتا، ایسی عورت کی عدت بھی تین ماہ ہے۔ یہاں ماہ سے مراد قمری ماہ ہے۔
اِنِ ارۡتَبۡتُمۡ میں دو احتمالات ہیں: شک اس بات میں ہو کہ بانجھ ہونے کی عمر کو پہنچ گئی ہے لیکن حاملہ ہے یا نہیں؟ بانجھ ہونے کی عمر عام عورتوں کے لیے پچاس سال اور سادات کے لیے ساٹھ سال ہے۔
دوسرا یہ احتمال ہے شک اس بات میں ہو کہ حیض بند ہونے کی عمر کو پہنچ چکی ہے یا نہیں، ہر صورت میں عدت تین ماہ ہے۔
۲۔ وَ اُولَاتُ الۡاَحۡمَالِ اَجَلُہُنَّ اَنۡ یَّضَعۡنَ حَمۡلَہُنَّ: حاملہ عورتوں کی عدت ان کا وضع حمل یعنی بچے کی پیدائش ہے۔ خواہ طلاق کے ایک گھنٹے کے بعد ولادت ہو جائے، عدت ختم ہو جائے گی اور خواہ طلاق کے نو ماہ بعد بچے کی ولادت ہو تو نو ماہ عدت ہو گی۔
۳۔ وَ مَنۡ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّہٗ مِنۡ اَمۡرِہٖ یُسۡرًا: جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وضع کردہ حدود کی پابندی کرے اس کے لیے اللہ تعالیٰ آسانیاں پیدا کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وضع کردہ قوانین تقاضائے فطرت کے عین مطابق ہیں جس سے معاملات سدھارنے میں آسانی پیدا ہو گی۔
Tafseer ul quran - تفسیر القرآن
طلاق کے بعد عدت کو ایام مخصوصہ سے شمار کیا جاتا ہے اس آیت کریمہ میں ان عورتوں کا ذکر ہے جو ایک تو اتنی بوڑھی ہو چکی ہیں کہ انھیں ماہواری نہیں آتی اور یا اتنی عمر نہیں ہوئی کہ انھیں ماہواری شروع ہوئی ہو تو ان کی عدت تین ماہ ہے۔
ظاہر ہے ایسی لڑکی کے طلاق کے احکامات تبھی ذکر ہیں جب ان کا نکاح جائز ہے۔
یعنی شریعت اتنی بری ہے کہ نابالغ کی شادی بھی کرا دیتی ہے؟طلاق کے بعد عدت کو ایام مخصوصہ سے شمار کیا جاتا ہے اس آیت کریمہ میں ان عورتوں کا ذکر ہے جو ایک تو اتنی بوڑھی ہو چکی ہیں کہ انھیں ماہواری نہیں آتی اور یا اتنی عمر نہیں ہوئی کہ انھیں ماہواری شروع ہوئی ہو تو ان کی عدت تین ماہ ہے۔
ظاہر ہے ایسی لڑکی کے طلاق کے احکامات تبھی ذکر ہیں جب ان کا نکاح جائز ہے۔
آپ کاپی پیسٹ سے ہٹ کر کچھ اپنے الفاظ میں لکھیں تو میں جواب بھی دوں.میری الجھن بھی دور کردیں
آپ گویا یہ تاثر پھیلانا چاہتے ہیں کہ شریعت نے نابالغوں کی شادی فرض قرار دے دی ہو جبکہ یہاں معاملہ جواز یا عدم جواز کا ہے.یعنی شریعت اتنی بری ہے کہ نابالغ کی شادی بھی کرا دیتی ہے؟
میرے الفاظ توڑنے مروڑنے سے شریعت اچھی نہیں ہو جائے گی۔ آپ نے خود فرمایا ہے کہ اسلام نے نابالغ کی شادی کو جائز قرار دیا ہے۔ ایسا گندا اسلام آپ ہی کو مبارک ہو۔آپ گویا یہ تاثر پھیلانا چاہتے ہیں کہ شریعت نے نابالغوں کی شادی فرض قرار دے دی ہو جبکہ یہاں معاملہ جواز یا عدم جواز کا ہے.
کاپی پیسٹ تو ایک دلیل کے طور پر کیا ہے۔ ایک ایسا ترجمہ جو اس بات کی نفی کرتا ہے جو عرفِ عام میں اس آیت سے سمجھی جارہی ہےآپ کاپی پیسٹ سے ہٹ کر کچھ اپنے الفاظ میں لکھیں تو میں جواب بھی دوں.
خندہ زن ہوں اس خوش فہمی پر کہ شریعت کو اچھائی کیلئے آپ جیسوں کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہے.میرے الفاظ توڑنے مروڑنے سے شریعت اچھی نہیں ہو جائے گی۔ آپ نے خود فرمایا ہے کہ اسلام نے نابالغ کی شادی کو جائز قرار دیا ہے۔ ایسا گندا اسلام آپ ہی کو مبارک ہو۔
یہ غلط فہمی کبھی نہیں رہی۔خندہ زن ہوں اس خوش فہمی پر کہ شریعت کو اچھائی کیلئے آپ جیسوں کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہے.
نابالغ لڑکی کی شادی کا جواز ایک لمبا موضوع ہے جسے تفصیل سے ذکر کروں گا کہ کس کو اختیار ہے اور کب اختیار ہے اور یہ اختیار کب ساقط ہوتا ہے.یہ غلط فہمی کبھی نہیں رہی۔
اب آپ ہی فرما دیں کہ اسلام میں شادی میں عمر کی کوئی قدغن ہے یا نہیں۔ کیا دو ماہ کی بچی کی شادی ہو سکتی ہے؟
کاپی پیسٹ تو ایک دلیل کے طور پر کیا ہے۔ ایک ایسا ترجمہ جو اس بات کی نفی کرتا ہے جو عرفِ عام میں اس آیت سے سمجھی جارہی ہےآپ کاپی پیسٹ سے ہٹ کر کچھ اپنے الفاظ میں لکھیں تو میں جواب بھی دوں.
آپ کی بات کا میں ذرا فرصت سے جواب دوں گا.کاپی پیسٹ تو ایک دلیل کے طور پر کیا ہے۔ ایک ایسا ترجمہ جو اس بات کی نفی کرتا ہے جو عرفِ عام میں اس آیت سے سمجھی جارہی ہے
کچھ ایسے مذہبی بھی ہوتے ہیں جو ہر بری بات کا مذہب میں جواز تلاش کرنے میں ماہر ہوتے ہیں۔ یہ اکثر حشرات الارض سے بدتر ہوتے ہیںنابالغ لڑکی کی شادی کا جواز ایک لمبا موضوع ہے جسے تفصیل سے ذکر کروں گا کہ کس کو اختیار ہے اور کب اختیار ہے اور یہ اختیار کب ساقط ہوتا ہے.
یہاں محض ایک صاحب کے اس مراسلے کا جواب دیا قرآن کی رو سے نابالغ کی شادی ناجائز ہے.
اب کچھ ایسے دانشوڑ بھی ہوتے ہیں جو محض نامکمل بات سن کر حشرات کی طرح اچھائی کو بھی گندگی میں بدلنے سے گریز نہیں کرتے.
جی چاہے وہ مذہبی ہوں یا غیر مذہبی...کچھ ایسے مذہبی بھی ہوتے ہیں جو ہر بری بات کا مذہب میں جواز تلاش کرنے میں ماہر ہوتے ہیں۔ یہ اکثر حشرات الارض سے بدتر ہوتے ہیں
ایک دن کی بچی کی شادی کا جواز تو مذہبی دے رہے ہیںجی چاہے وہ مذہبی ہوں یا غیر مذہبی...
اس کا جواز فراہم کریں۔ اور اگر نہیں کر سکتے تو حکومتی بل کا ساتھ دیں اور اس لعنت کو معاشرہ سے پاک کریں:نابالغ لڑکی کی شادی کا جواز ایک لمبا موضوع ہے جسے تفصیل سے ذکر کروں گا کہ کس کو اختیار ہے اور کب اختیار ہے اور یہ اختیار کب ساقط ہوتا ہے.
کیا آپ اس واقعے کی مزید تفصیل پیش کر سکتے ہیں؟ اس معصوم بچی کو کسی قبیح رسم کی بھینٹ تو نہیں چڑھایا جا رہا؟ ہم اپنے پچھلے کسی مراسلے میں ذکر کر چکے ہیں کہ ایسی قبیح رسوم معاشرے میں بدقسمتی سے رائج ہیں اور ایسے واقعات کی روک تھام کے حوالے سے سخت سے سخت قانون سازی ہونی چاہیے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایسی معاشرتی رسوم کے باعث ہی پارلیمان میں اس بل کو پیش کیا گیا تھا اور ہم نے ایک بار بھی سیاسیوں کی نیت پر شبہ نہیں کیا تھا کیونکہ یہ برائیاں ہمارے پیش نظر تھیں اور قانون سازی کی ضرورت بھی اسی لیے محسوس کی گئی ہو گی۔ اس حوالے سے مذہبی طبقے کو بہرصورت اپنی کوتاہی کو تسلیم کرنا چاہیے۔ اسلام کی آڑ لے کر ایسی مکروہ رسوم مدتوں سے جاری و ساری ہیں تو اس حوالے سے اب تک اسلامی نظریاتی کونسل کو پرو ایکٹو ہو کر کام کرتے ہوئے خود سے ہی ایسی سفارشات اسمبلی میں بھجوانی چاہئیں تھیں تاکہ یہ تاثر پختہ ہوتا کہ ان جاہلانہ رسوم و رواج سے اسلام کا کوئی تعلق نہیں۔ ہمارا اختلاف صرف اس بات پر ہے کہ نکاح کے حوالے سے حتمی عمر کا تعین مشکل ہے اور فی زمانہ کم عمری کی شادیوں کا چلن نہیں ہے اس لیے یہ عمومی طور پر بڑا ایشو نہیں ہے۔ تاہم، پاکستان کے بعض علاقوں میں ایسے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں جن کے باعث شاید اس حوالے سے قانون سازی کا سوچا گیا ہو گا۔ ان مسائل کی نوعیت بہرصورت استثنائی ہے تاہم یقینی طور پر ایسے عناصر کو بے لگام نہیں چھوڑا جا سکتا ہے اور سچ بات یہ ہے کہ جب ان مسائل کو ہائی لائیٹ کر دیا جائے تو پھر کم از کم اسلامی نظریاتی کونسل کو اس کا جواب دینا چاہیے تھا تاکہ متبادل بیانیہ سامنے آ جاتا۔ بدقسمتی سے ، ابھی تک اس حوالے سے کوئی ٹھوس جواب سامنے نہیں آیا ہے تو پھر اس قانون کی مخالفت کا کوئی بڑا جواز بظاہر موجود نہیں رہا ہے۔
جہاں پولیس چھاپے مار کر اس لعنت کو نہ روک سکے وہاں تو بچوں اور بچیوں کا جنسی استحصال شادی جیسے مقدس رشتے کے نام پر ہو گیا۔ اسی ناسور کو جڑ سے اکھیڑنے کیلئے حالیہ قانون سازی کی گئی ہے
اس معاملہ میں آپ مشرف دور کے حقوق نسواں بل کی تاریخ پڑھ لیں۔ سرکاری اعداد و شمار، انسانی حقوق کی تنظیمیں چیخ چیخ کرکے بتا رہے تھے کہ ضیا دور کے عین شرعی حدود آرڈیننس نے ملک کی بے گناہ خواتین کے ساتھ کیا کھلواڑ کیا ہے۔جب ان مسائل کو ہائی لائیٹ کر دیا جائے تو پھر کم از کم اسلامی نظریاتی کونسل کو اس کا جواب دینا چاہیے تھا تاکہ متبادل بیانیہ سامنے آ جاتا۔ بدقسمتی سے ، ابھی تک اس حوالے سے کوئی ٹھوس جواب سامنے نہیں آیا ہے تو پھر اس قانون کی مخالفت کا کوئی بڑا جواز بظاہر موجود نہیں رہا ہے۔