کم عمری کی شادی پر پابندی کا بل سینیٹ سے منظور، جماعت اسلامی اور جے یو آئی کا احتجاج

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

فرقان احمد

محفلین
اس معاملہ میں آپ مشرف دور کے حقوق نسواں بل کی تاریخ پڑھ لیں۔ سرکاری اعداد و شمار، انسانی حقوق کی تنظیمیں چیخ چیخ کرکے بتا رہے تھے کہ ضیا دور کے عین شرعی حدود آرڈیننس نے ملک کی بے گناہ خواتین کے ساتھ کیا کھلواڑ کیا ہے۔
ان حقائق کے باوجود اسلامی نظریاتی کونسل اور دیگر مذہبی حلقے اس بل کے خلاف شریعت ہونے کی وجہ سے مخالفت کیا کرتے تھے۔ یعنی عوام کی فلاح کا بل بھی اگر خلاف شریعت ہوگا تو یہ لوگ اس کی مخالفت ہی کریں گے۔
شریعت کی تعبیر و تفسیر میں اختلاف ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں۔ براہ مہربانی عمومی تبصروں سے گریز کریں۔ اسلام خواتین کو ان کے جائز حقوق دینے سے نہیں روکتا ہے۔ اور، مذہبی طبقے کی کوتاہی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان سے زندگی کے ہر شعبے میں ہی کوتاہیاں ہوتی چلی آئی ہیں۔ دراصل، ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنے کا شوق نہیں؛ ہم دوسروں کے عیوب تلاش کرنے کو اپنی کامیابی تصور کرنے لگ گئے ہیں۔ اور ہاں، یہ بات بھی آپ کے پیش نظر رہے کہ کسی بل کے صریحاََ خلاف شریعت ہونے میں اور امکانی طور پر خلافِ شریعت ہونے میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔۔۔!
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
شریعت کی تعبیر و تفسیر میں اختلاف ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں۔
شریعت روز روشن کی طرح واضح ہے۔ اصل مسئلہ ملک کی نظریاتی بنیاد کا ہے۔ قیام پاکستان کے ساتھ قائد اعظم یہ بنیاد طے کرنے سے قبل ہی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ جس کا فائدہ اس وقت کی سب سے بڑی مذہبی جماعت جماعت اسلامی نے اٹھا لیا۔ انہی کی ڈیمانڈ پر وزیر اعظم لیاقت علی خان نے قرار داد مقاصد پاس کی تھی۔ جس پر کابینہ و اسمبلی کے ہندو ممبران نے احتجاج کیا کہ یہ قائد اعظم کا نظریہ پاکستان نہیں ہے۔ اور ان میں سے بعض احتجاجا استعفی دے کر سیکولر بھارت منتقل ہو گئے۔
قرارداد مقاصد پر جماعت اسلامی کے سربراہ مولانا مودودی کا بیان تھا کہ یہ اچھی ہے البتہ ابھی مزید کی ضرورت ہے۔ یہ مزید کی خواہش ۱۹۷۴ کی آئینی ترمیم میں قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دے کر پوری کر دی گئی۔ مگر ابھی بھی مزید کی رٹ سوار تھی جو ۱۹۷۹ میں بدنام زمانہ حدود آرڈینننس اور ۱۹۸۴ میں آرڈیننس ۲۰ یعنی قادیانیوں پر شعائر اسلام استعمال کرنے کی پابندی لگا کر پوری کی گئی۔
عوام کو اس تاریخ سے سبق سیکھ لینا چاہیے کہ ایک مخصوص مذہبی دقیانوسی طبقہ ملک کی نظریاتی اساس کو ہائی جیک کر کے حالیہ مقام تک لایا ہے۔
۱۹۷۳ سے پہلے کا لبرل پاکستان اور ۱۹۷۷ کے بعد کا مذہبی انتہا پسند پاکستان محض کوئی اتفاق نہیں ہے۔ بلکہ اسے باقاعدہ مینیج کرکے اس جگہ لا کر کھڑا کیا ہے کہ اس وقت اقوام عالم میں پاکستان دہشت گردی اور انتہا پسندی والا ملک مشہور ہو چکا ہے۔
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
شریعت روز روشن کی طرح واضح ہے۔ اصل مسئلہ ملک کی نظریاتی اساس کا ہے۔ قیام پاکستان کے ساتھ قائد اعظم یہ بنیاد طے کرنے سے قبل ہی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ جس کا فائدہ اس وقت کی سب سے بڑی مذہبی جماعت جماعت اسلامی نے اٹھا لیا۔ انہی کی ڈیمانڈ پر وزیر اعظم لیاقت علی خان نے قرار داد مقاصد پاس کی تھی۔ جس پر کابینہ و اسمبلی کے ہندو ممبران نے احتجاج کیا کہ یہ قائد اعظم کا نظریہ پاکستان نہیں ہے۔ اور ان میں سے بعض احتجاجا استعفی دے کر سیکولر بھارت منتقل ہو گئے۔
قرارداد مقاصد پر جماعت اسلامی کے سربراہ مولانا مودودی کا بیان تھا کہ یہ اچھی ہے البتہ ابھی مزید کی ضرورت ہے۔ یہ مزید کی خواہش ۱۹۷۴ کی آئینی ترمیم میں قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دے کر پوری کر دی گئی۔ مگر ابھی بھی مزید کی رٹ سوار تھی جو ۱۹۷۹ میں بدنام زمانہ حدود آرڈینننس اور ۱۹۸۴ میں آرڈیننس ۲۰ یعنی قادیانیوں پر شعائر اسلام استعمال کرنے کی پابندی لگا کر پوری کی گئی۔
عوام کو اس تاریخ سے سبق سیکھ لینا چاہیے کہ ایک مخصوص مذہبی دقیانوسی طبقہ ملک کی نظریاتی اساس کو ہائی جیک کر کے حالیہ مقام تک لایا ہے۔
۱۹۷۳ سے پہلے کا لبرل پاکستان اور ۱۹۷۷ کے بعد کا مذہبی انتہا پسند پاکستان محض کوئی اتفاق نہیں ہے۔ بلکہ اسے باقاعدہ مینیج کرکے اس جگہ لا کر کھڑا کیا ہے کہ اس وقت اقوام عالم میں پاکستان دہشت گردی اور انتہا پسندی والا ملک مشہور ہو چکا ہے۔
آپ اپنے پسندیدہ موضوع کی طرف پلٹ آئے ہیں۔ ہم بھی پلٹ کر، آپ پر وار کریں گے ۔۔۔! :) اک ذرا دیر کے بعد، یعنی کہ فرصت سے ۔۔۔! :) فی الوقت، ممتاز مفتی کی کتاب 'تلاش'سے ایک اقتباس، آپ کے نام ۔۔۔! :) دل پر نہ لیجیے گا ۔۔۔!

÷÷÷
اس روز مجھے پتہ چلا کہ عالم دین سے بات کرنا ممکن نہیں ہے۔ وہ سننے کے نہیں بلکہ کہنے کے شوقین ہیں اور ان کے پاس کہنے کی اتنی ساری باتیں ہیں کہ وہ ختم ہونے میں نہیں آتیں۔
نہ کوئی بحث کی نوبت نہ کوئی اِذنِ سوال
فقیہہ شہر کا جاہ و حشم زیادہ ہے ۔۔۔۔۔۔!
اگر بالفرض محال وہ آپ کا سوال سن بھی لیں تو وہ اسے سمجھنے کی کوشش نہیں کریں گے اور جواب کو اس قدر "اِر ریلیونٹ" بنا دیں گے کہ آپ حیران رہ جائیں گے۔ پھر وہ بات کو گھما پھرا کر اپنی کسی از بر تقریر سے جوڑ کر اسے تقریر کی شکل دے دیں گے۔
÷÷÷

ملتے ہیں، بریک کے بعد ۔۔۔! :)
 

جان

محفلین
عارف سے ملتی جلتی تحریریں ہیں آپ کی۔۔
اول تو یہ جناب قبلہ عارف صاحب کون ہیں۔ میرا تو تجسس بڑھتا چلا جا رہا ہے کہ ایسی مشہور و معروف ہستی کون ہے جس کا ہر تیسری چوتھی لڑی میں ذکر ہے۔ دوم میں صرف یہاں ہی نہیں ہر فورم پہ ایک طالبعلم کی حیثیت سے ہوں، اگر آپ اپنے دلائل سے مجھے قائل کر لیتے ہیں تو مجھے اپنے نظریات چھوڑنے میں قطعی کوئی شرمندگی اور ہرگز کوئی انا کا دخل نہ ہے کیونکہ میں جانتا ہوں کہ میں انسان ہوں اور انسان کبھی خدا نہیں ہو سکتا، اس کے مشاہدات و نظریات ناقص عقل پہ تکیہ کیے ہوئے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
اور ہاں، یہ بات بھی آپ کے پیش نظر رہے کہ کسی بل کے صریحاََ خلاف شریعت ہونے میں اور امکانی طور پر خلافِ شریعت ہونے میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔
جن مسلم ممالک میں شرعی قوانین نافظ ہیں ان میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ تمام جگہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ایک جیسی ہے۔ حقوق نسواں اور حقوق طفلاں کی پامالی عام ہے:
6f346cde-c417-460c-95ce-4e69b30aa1d2.png

18204-THUMB-IPAD.jpg

جب ان ممالک کی سیکولر /لبرل قوتیں ان شرعی قوانین میں تبدیلی کی کوشش کرتی ہیں تو مقامی مذہبی و دقیانوسی طبقہ ان کے خلاف شریعت کے منافی جانے کا ڈھنڈورا پیٹ کر عوامی فلاح کی راہ میں روڑے اٹکاتا ہے۔یاد رہے کہ عوامی نمائندگان عوام کی فلاح میں قانون سازی کے لئے منتخب کئے جاتے ہیں۔ اس لئے نہیں کہ وہ ایوان میں پہنچ کر شرعی قوانین کا دفاع شروع کر دیں خواہ وہ عوامی فلاح کے خلاف ہی کیوں نہ جا رہے ہوں۔ اس نکتہ کو سمجھنا ضروری ہے۔
 

جان

محفلین
اسلام خواتین کو ان کے جائز حقوق دینے سے نہیں روکتا ہے۔
اسلام کسی بھی فردِ واحد کو اس کے جائز حقوق دینے سے نہیں روکتا لیکن ہمارے ہاں اپنے گھر سے لے کر معاشرے تک محکومی کا کلچر رائج ہے اور بدقسمتی سے اس کے لیے مذہب کا سہارا لیا جاتا ہے جو کہ خود مذہب، انسان اور معاشرے کے لیے نقصان دہ ہے۔
کسی بل کے صریحاََ خلاف شریعت ہونے میں اور امکانی طور پر خلافِ شریعت ہونے میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔۔۔!
متفق، میری ناقص رائے میں جس چیز کے بارے اسلام میں کوئی واضح حکم نہیں، کسی بھی مجتہد کے اجتہاد یا مفتی کے فتوی کے جتنے صحیح ہونے کے امکانات ہیں، اتنے ہی غلط ہونے کے بلکہ یہ بھی عین ممکن ہے کہ وہ اجتہاد یا فتوی اپنے زمانے کی معاشرتی ضرورت کے اعتبار سے بالکل درست ہوں۔
 

جاسم محمد

محفلین
اسلام کسی بھی فردِ واحد کو اس کے جائز حقوق دینے سے نہیں روکتا لیکن ہمارے ہاں اپنے گھر سے لے کر معاشرے تک محکومی کا کلچر رائج ہے اور بدقسمتی سے اس کے لیے مذہب کا سہارا لیا جاتا ہے جو کہ خود مذہب، انسان اور معاشرے کے لیے نقصان دہ ہے۔
(y)(y)(y)
 
نکاح کی عمر پر کوئی پابندی نا لگائی جائے البتہ رخصتی کو ایک مخصوص کم سے کم عمر (15 سے 18 ) تک موخر کیا جانے کا قانون بن جائے تو کیا سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نا ٹوٹے والا محاورہ درست ثابت کیا جا سکتا ہے؟
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
نکاح کی عمر پر کوئی پابندی نا لگائی جائے البتہ رخصتی کو ایک مخصوص کم سے کم عمر (15 سے 18) تک موخر کیا جانے کا قانون بن جائے تو کیا سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نا ٹوٹے والا محاورہ درست ثابت کیا جا سکتا ہے؟
یہ تجویز قدرے بہتر ہے اگر نکاح کے وقت دونوں فریقین مکمل آزادی کے ساتھ رشتہ پر رضامندی ظاہر کریں۔
روایات سے پتا چلتا ہے کہ رسول اللہؐ نے حضرت عائشہؓ سے شادی کم سنی کی عمر میں نکاح کیا البتہ رُخصتی کئی سال بعد عمل میں لائی گئی۔
 

زیک

مسافر
نکاح کی عمر پر کوئی پابندی نا لگائی جائے البتہ رخصتی کو ایک مخصوص کم سے کم عمر (15 سے 18) تک موخر کیا جانے کا قانون بن جائے تو کیا سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نا ٹوٹے والا محاورہ درست ثابت کیا جا سکتا ہے؟
نہیں۔ رخصتی کی کوئی (شرعی یا قانونی) حیثیت نہیں ہے
 

فرقان احمد

محفلین
نکاح کی عمر پر کوئی پابندی نا لگائی جائے البتہ رخصتی کو ایک مخصوص کم سے کم عمر (15 سے 18 ) تک موخر کیا جانے کا قانون بن جائے تو کیا سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نا ٹوٹے والا محاورہ درست ثابت کیا جا سکتا ہے؟
نہیں۔ رخصتی کی کوئی (شرعی یا قانونی) حیثیت نہیں ہے
بصد معذرت عرض ہے، چوہدری صاحب! ہمیں اس معاملے میں زیک کی بات زیادہ بہتر معلوم ہو رہی ہے۔ ہماری دانست میں، بلوغت کے بعد نکاح ہو سکتا ہے اور اس حوالے سے باقاعدہ عمر کا تعین کیا جائے یا نہیں، یا کوئی اور تدبیر اختیار کی جائے؛ اسی مسئلے پر ہی تمام تر توجہ مرکوز رکھی جائے تو بہتر ہے۔ رخصتی وغیرہ کا معاملہ ثانوی نوعیت کا معلوم ہوتا ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
یاد رہے کہ عوامی نمائندگان عوام کی فلاح میں قانون سازی کے لئے منتخب کئے جاتے ہیں۔ اس لئے نہیں کہ وہ ایوان میں پہنچ کر شرعی قوانین کا دفاع شروع کر دیں خواہ وہ عوامی فلاح کے خلاف ہی کیوں نہ جا رہے ہوں۔ اس نکتہ کو سمجھنا ضروری ہے۔
عوامی نمائندگان ایسا کوئی قانون نہیں بنا سکتے ہیں جو قرآن و سنت کی تعلیمات کے صریح منافی ہو۔ اس حوالے سے آپ آئین سے رجوع کریں کہ وہاں کیا لکھا ہوا ہے اور اس آئین کی پابندی ان عوامی نمائندگان پر بھی لازم ہے، چاہے آپ ایسا چاہیں یا نہ چاہیں۔کسی شرعی قانون کی تعبیرو تفسیر میں اختلاف کا معاملہ الگ ہے اور اس مبہم معاملے کے پیش نظر اگر کوئی قانون بنایا جاتا ہے تو عام طور پر بحث مباحثہ کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور اس پر کوئی قدغن بھی نہیں ہے۔ دیکھیے، زیر نظر ایشو کے حوالے سے مذہبی طبقے کی رائے بھی کافی حد تک منقسم ہے۔ اس حوالے سے جان صاحب کی بات میں کافی وزن ہے ۔۔۔!
میری ناقص رائے میں جس چیز کے بارے اسلام میں کوئی واضح حکم نہیں، کسی بھی مجتہد کے اجتہاد یا مفتی کے فتوی کے جتنے صحیح ہونے کے امکانات ہیں، اتنے ہی غلط ہونے کے بلکہ یہ بھی عین ممکن ہے کہ وہ اجتہاد یا فتوی اپنے زمانے کی معاشرتی ضرورت کے اعتبار سے بالکل درست ہوں۔
 

ربیع م

محفلین
میری الجھن بھی دور کردیں
محترم چوہدری صاحب!

میں آپ کی بات اور اس لڑی سے متعلق موضوع کے سلسلے میں مختصرا چند ایک نکات تفصیل میں جائے بغیر ذکر کروں گا۔

: وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِنْ نِسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا - سورة الطلاق اية 4

اس آیت کریمہ میں ان عورتوں کا جو حیض سے مایوس ہو چکی ہیں (بوڑھی ) اور ان عورتوں کا جنہیں ابھی تک حیض نہیں آیا (کم عمری کی وجہ سے حیض نا آنا یا کسی بیماری کی وجہ سے بلوغت کو تو پہنچ چکی ہیں لیکن حیض نہیں آیا) ان کی مدت عدت تین ماہ ہے، لم یحضن کا مطلب ہے کہ ابھی تک انھیں ماہواری آنی شروع نہیں ہوئی ۔

قرآن دنیا دستور کی سب سے بہترین کتاب ہے ۔ کسی بھی دستور یا آئین کی بنیادی خوبی اس کی زبان کا جامع و مانع ہونا ہوتا ہے ۔ جامع کا مطلب کہ احکامات میں شامل ہونے والی تمام تر صورتیں حکم کے ذکر کرنے میں جمع ہو جائیں اور مانع کا مطلب یہ ہے کہ جو اس حکم سے خارج ہیں یہ تعریف یا حکم انھیں خارج کر دے ۔

لم یحضن کا یہ مطلب کہ ایسی عورتیں جنہیں ابھی کم عمر ہونے کی وجہ سے ماہواری نہیں آئی اور وہ عورتیں جو ماہواری کی عمر تک پہنچ گئی ہیں لیکن انھیں کسی بیماری کی وجہ سے ابھی تک حیض نہیں آ سکا اس آیت سے دونوں مراد ہیں اس پر تمام مفسرین کا اجماع ہے چاہے وہ امام طبری ہوں ، ابن کثیر ، صاحب جلالین ، ابن تیمیہ ، سید قطب وغیرہ وغیرہ ۔

البتہ کچھ عہد جدید کے مفسرین لم یحضن کا ترجمہ محض یہ کرتے ہیں کہ وہ عورتیں جنہیں کسی بیماری کی وجہ سے ابھی تک حیض نہیں آیا۔ اس عام حکم کو خاص کرنے کی ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ۔ جبکہ مفسرین کے قول کے احادیث میں دلائل ملتے ہیں ۔

دوسری بات نابالغ لڑکیوں کی شادی کیا شریعت اسلامی میں عام جائز ہے یا اس سلسلے میں شرائط ہیں ؟

تو فقہاء نے اس سلسلے میں جو احکامات و شرائط ذکر کی ہیں ان کا میں خلاصہ تفصیل میں جائے بغیر ذکر کرتا ہوں ، یاد رہے یہ احکامات احادیث صحیحہ سے مستنبط ہیں :

  • نابالغ بیٹے یا بیٹی کی شادی صرف اور صرف والد ہی کروا سکتا ہے ، اس کے علاوہ کسی بھی ولی کو یہ حق حاصل نہیں ۔ والد کے علاوہ بھی دوسرے افراد والد کی عدم موجودگی میں جیسا کہ دادا ،بھائی چچا وغیرہ ولی بن سکتے ہیں لیکن نابالغ کی شادی کے سلسلے میں یہ ولی نہیں بن سکتے بلکہ یہ حق صرف والد کے پاس ہے ۔

  • والد بھی اس صورت میں ہی کرے گا جب کوئی مصلحت راجحہ ہوجو تاخیر سے ختم ہو سکتی ہو ( جیسا کہ والد ضعیف العمر ہے اور اسے خدشہ ہے کہ اس کی جلد موت کے بعد ورثاء اس سلسلے میں حق تلفی سے کام لیں گے ۔

  • نابالغ کی شادی کی صورت میں کفو (ہم پلہ )ہونا بھی ضروری ہے ۔ کفو کی مزید تفصیل بھی ہے لیکن اسے مختصرا ہم پلہ ہی سمجھ لیجئے ۔

  • والد کا اس میں کوئی ذاتی مفاد پوشیدہ نہ ہو۔

  • نکاح کے بعد اس وقت تک رخصتی نہ کی جائے جب تک لڑکی اس قابل نہ ہو جائے ۔
فقہاء اسلام کے اس مسئلہ میں کلام سے واضح ہوتا ہے کہ کم عمر لڑکی کی شادی ان تمام تر شرائط کے پورا ہونے پر کی جائے گی اگر یہ شرائط پوری نہ ہوں تو کم عمر لڑکی کی شادی نہیں کی جا سکتی یہاں تک کہ وہ بالغ ہو جائے اور اس کی رضامندی حاصل کر لی جائے ۔

اچھا ہم کچھ دیر کیلئے دیکھتے ہیں کہ ہمارا درمیان نکتہ اختلاف کیا ہے ؟

آپ کہتے ہیں کہ نابالغ کی شادی کسی بھی صورت میں جائز نہیں ۔

ہم اسے فہم کا اختلاف کہتے ہوئے نظر انداز کر دیتے ہیں اور تسلیم کر لیتے ہیں کہ نابالغ کی شادی کسی صورت جائز نہیں ۔

اب ہم اس بات پر تو متفق ہیں کہ بالغ کی شادی بہت زیادہ تاکید کے ساتھ شریعت اسلامی میں ذکر ہے بلکہ کچھ صورتوں میں یہ واجب تک کے حکم میں ہو جاتی ہے جب کسی شخص کے گناہ میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہو۔ (اس سلسلے میں بہت سی تاکیدنبی کریم ﷺ سے ذکر ہے جو احادیث کتب میں دیکھی جاسکتی ہیں جیسا کہ آپ نے حکمافرمایا کہ نوجوانوں کی جماعت شادی کرو اور جو شادی کی استطاعت نہیں رکھتا اسے چاہئے کہ روزے رکھے )

جیسا کہ بیہقی نے شعب الایمان میں انس بن مالک رضی اللہ اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ذکر کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان والدین کیلئے وعید بیان کی کہ جن کی اولاد بالغ ہو جائے اور وہ اس کی شادی نہ کریں اور ان سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو اس کا گناہ والدین کو بھی ہو گا۔

ہم اس بات پر متفق ہیں کہ بالغ ہونے کے بعد شریعت کی رو سے شادی میں تاخیر کرنا مناسب نہیں ، بالخصوص جب ان کے گناہ میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہو۔اب شرعا ، عقلا، اور اردگرد معاشرے کو دیکھ کر بتائیں کہ کیا بچے 18 سال کی عمر میں بالغ ہو رہے ہیں ؟

شریعت میں تو بلوغت کی چار صورتیں ہیں ان میں سے کوئی ایک پوری ہو جائے تو بچہ بالغ ہو جاتا ہے ، احتلام ، شرمگاہ کے گرد بالوں کا آنا، پندرہ سال کی عمر تک پہنچنا ، اور خواتین میں ماہواری کا آنا۔

ایک شخص 17 سال کا ہے وہ پاکدامن رہنے کیلئے نکاح کرنا چاہتا ہے لیکن قانون اس کے آڑے آ رہا ہےتو کیا یہ قانون اسلامی ہے یا خلاف شریعت؟

اور اس وجہ سے وہ گناہ میں مبتلا ہو رہا ہے تو اس کا گناہ کس کے سر ہے …؟

اسلام میں نکاح کے بہت سے مقاصد میں سے ایک پاکدامنی کا حصول بھی ہے ۔

اچھا اب خرابی کی جتنی بھی صورتیں بیان کی جاتی ہیں ان کا بہترین حل تویہ ہے کہ ان کے تدارک کیلئے شریعت کی روشنی میں قانون سازی کی جائے ۔

جیسا کہ ابو داؤد میں ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک لڑکی نبی کریم ﷺ کے پاس آئی اس کے باپ نے اس کی شادی اس کی رضامندی کے بغیر کر دی اور اسے وہ شادی ناپسند تھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیار دے دیا۔

لیکن بجائےلڑکی کی رضامندی عملی طور پر یقینی بنانے اور اس سلسلے میں اقدامات اٹھانے کے غیروں کے دباؤ تلے ایسی قانون سازی کئے جاتے ہیں جو صریحا شریعت اسلامی کے متصادم ہے ۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

والسلام
 
لم یحضن کا یہ مطلب کہ ایسی عورتیں جنہیں ابھی کم عمر ہونے کی وجہ سے ماہواری نہیں آئی
میرا سوال تو وہیں کا وہیں ہے کہلم یحضن کا یہ مطلب کہ ایسی عورتیں جنہیں ابھی کم عمر ہونے کی وجہ سے ماہواری نہیں آئی کیسے نکال لیا گیا۔
ایک طبقہ ایسا ہے کہکم عمر ہونے کی وجہ سے کی جگہوہ عورت جو حیض بند ہونے کی عمر کو نہیں پہنچی مگر کسی عارضے کی وجہ سے حیض نہیں آتا،
بیان کرتا ہے۔

دوسرے نقطہ نظر میں سمجھ میں آنے کی وجہ سمجھ میں آتی ہے بوجہ آیت کا مضمون اور تسلسل۔

لم یحضن کالفظی مطلب حیض نہیں آیا۔ اس جگہ کم عمری یا زیادہ عمر کا بظاہر کوئی اشارہ نہیں ہے مضمون حیض کے بند ہونے کا چل رہا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ دوسری والی بات زیادہ درست ہے


۱۔ وَ الّٰٓیِٴۡ یَئِسۡنَ: یہاں دو عورتوں کی عدت کا حکم بیان ہوا ہے:

الف: وہ عورت جو حیض بند ہونے کی عمر کو پہنچ رہی ہو اور شک ہو کہ حیض کا بند ہونا عمر کی وجہ سے ہے یا کسی عارضہ کی وجہ سے۔ اس صورت میں عدت تین ماہ ہے۔

ب: وہ عورت جو حیض بند ہونے کی عمر کو نہیں پہنچی مگر کسی عارضے کی وجہ سے حیض نہیں آتا، ایسی عورت کی عدت بھی تین ماہ ہے۔ یہاں ماہ سے مراد قمری ماہ ہے۔

اِنِ ارۡتَبۡتُمۡ میں دو احتمالات ہیں: شک اس بات میں ہو کہ بانجھ ہونے کی عمر کو پہنچ گئی ہے لیکن حاملہ ہے یا نہیں؟
 

ربیع م

محفلین
میرا سوال تو وہیں کا وہیں ہے کہلم یحضن کا یہ مطلب کہ ایسی عورتیں جنہیں ابھی کم عمر ہونے کی وجہ سے ماہواری نہیں آئی کیسے نکال لیا گیا۔
ایک طبقہ ایسا ہے کہکم عمر ہونے کی وجہ سے کی جگہوہ عورت جو حیض بند ہونے کی عمر کو نہیں پہنچی مگر کسی عارضے کی وجہ سے حیض نہیں آتا،
بیان کرتا ہے۔

دوسرے نقطہ نظر میں سمجھ میں آنے کی وجہ سمجھ میں آتی ہے بوجہ آیت کا مضمون اور تسلسل۔

لم یحضن کالفظی مطلب حیض نہیں آیا۔ اس جگہ کم عمری یا زیادہ عمر کا بظاہر کوئی اشارہ نہیں ہے مضمون حیض کے بند ہونے کا چل رہا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ دوسری والی بات زیادہ درست ہے
اگر آپ گرائمر جانتے ہوتے تو یہ بچگانہ اعتراض نہ اٹھاتے جن مفسرین نے یہ معنی بیان کیا ہے وہ آپ سے زیادہ عربی زبان سے واقف ہیں.
لم یحضن میں یحضن مضارع کا صیغہ ہے جسے لم نے ماضی میں کر کے اس کا مفہوم یہ کر دیا ہے کہ ابھی تک انھیں ماہواری آئی ہی نہیں.
اس کے علاوہ حیض ماہواری کے علاوہ بلوغت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے!
لا يقبل الله صلاة المرأة الحائض إلا بخمار
کہ اللہ رب العزت حائض عورت کی نماز دوپٹے کے بغیر قبول نہیں کرتا اس سے مراد ایسی عورت جو ماہواری کی حالت میں ہو نہیں بلکہ بالغ عورت ہے.
اس کے علاوہ اس تفسیر کے لیے احادیث سے بھی شواہد ملتے ہیں.
 
اگر آپ گرائمر جانتے ہوتے تو یہ بچگانہ اعتراض نہ اٹھاتے جن مفسرین نے یہ معنی بیان کیا ہے وہ آپ سے زیادہ عربی زبان سے واقف ہیں.
لم یحضن میں یحضن مضارع کا صیغہ ہے جسے لم نے ماضی میں کر کے اس کا مفہوم یہ کر دیا ہے کہ ابھی تک انھیں ماہواری آئی ہی نہیں.
اس کے علاوہ حیض ماہواری کے علاوہ بلوغت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے!
لا يقبل الله صلاة المرأة الحائض إلا بخمار
کہ اللہ رب العزت حائض عورت کی نماز دوپٹے کے بغیر قبول نہیں کرتا اس سے مراد ایسی عورت جو ماہواری کی حالت میں ہو نہیں بلکہ بالغ عورت ہے.
اس کے علاوہ اس تفسیر کے لیے احادیث سے بھی شواہد ملتے ہیں.

جناب عالی میں واقعی عربی گرامر نہیں جانتااسی لئے میں نے باقاعدہ تلاش کرکے بقول آپکے کاپی پیسٹ کیا تھا۔وہ بھی تو تفسیر ہی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
کم عمری کی شادیاں کیوں؟
04/05/2019 افضال ریحان



کم عمری کی شادیاں روکنے کے لیے لائے گئے بل پر بحث جاری ہے حالانکہ یہ ایک معمولی سی بات ہے کہ پارلیمنٹ انسانی مفاد میں کوئی بھی قانون سازی کر سکتی ہے شادی کا تعلق رضا مندی اور بلوغت سے ہے مان لیتے ہیں کہ بلوغت مختلف خطوں یا مختلف لوگوں میں مختلف اوقات میں ہو سکتی ہے لیکن جب ہم نے قومی سطح پر بلوغت کی عمر یونیورسل اصول کی مطابقت میں اٹھارہ سال مقرر کر رکھی ہے تو لڑکے یا لڑکی کی شادی کا پیمانہ بھی اسی کو کیوں نہ بنایا جائے۔

عربوں میں اگر پہلے ہو جاتی تھی یا ہو جاتی ہے تو لازم نہیں کہ ہم عرب کلچر کو ہو بہو کاپی کریں۔ جب میڈیکلی یہ چیز ثابت ہے کہ کچی عمر کی شادیاں کئی جسمانی عوارض یا پیچیدگیوں کا باعث بن سکتی ہیں تو پھر اس پر اصرار کیوں کیا جائے؟ مسئلہ محض جسمانی بلوغت کا نہیں ہے بالخصوص بچیوں کے معاملے میں ذہنی و شعوری بلوغت کی پختگی کا بھی ہے۔ چھوٹی چھوٹی بچیاں جب مائیں بنتی ہیں تو یہ بڑی تکلیف دہ کیفیت ہوتی ہے وہ بچیاں ابھی خود سنبھالے جانے کے قابل ہوتی ہیں چہ جائیکہ وہ آگے اپنی بچیوں یا بچوں کو سنبھال رہی ہوں۔ 18 سال بھی کوئی بہت زیادہ عمر تو نہیں ہے کہ اس حد تک بھی صبر نہ کیا جائے۔

جو لوگ اس ایشو کو مذہب سے جوڑتے ہیں اور طرح طرح کی روایات لا رہے ہوتے ہیں ان کی خدمت میں عرض ہے کہ درویش بھی ریٹائرڈ مولوی کی حیثیت سے بڑی بڑی روایات لا سکتا ہے مگر یہ کہ اس نزع یا بحث میں نہ ہی پڑا جائے تو بہتر ہے۔ اس بحث میں یہ سوال بھی اٹھے گا کہ کیا آپ 20 برس کی عمر میں ایک ایسی 35 سالہ بیوہ سے شادی کرنا پسند فرمائیں گے جو دو خاوند دیکھ چکی ہو اور جس کے پانچ بچے بھی ہوں۔ اس نوع کے بیسیوں سوالات اٹھیں گے اور بات بہت دور چلی جائے گی۔

سیدھی سی بات ہے کہ شادی ایک عقد یا کنٹریکٹ ہے اور معاہدہ دو بالغ فریقین میں ہی ہوتا ہے اور دونوں کی باہمی رضا مندی سے ہی قائم بھی رہ سکتا ہے اگر کوئی ایک فریق اسے ختم چاہے تو طے شدہ شرائط کے مطابق اسے ختم بھی سکتا ہے بلوغت کی جو عمر ہمارے ملکی قانون میں طے ہے اس ایشو پر بھی اس کی پابندی لازم ہے۔ اسے خواہ مخواہ ایک مذہبی رنگ دینا یا یا سیاست سے جوڑتے ہوئے اس نوع کے بیانات جاری کرنا کہ میں وزارت چھوڑ دوں گا یہ نہیں ہونے دوں گا ایک قطعی غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے جس سے اجتناب کیا جانا چاہیے۔

اگرآپ روایتی ضوابط کے اتنے بڑے علمبردار ہیں تو پھر دیکھیں کہ پہلی بی بی کی اجازت کے بغیر چار چار بیبیاں بسانے کے مسائل اور مثالیں بھی موجود ہیں کیا انہیں اپنانے کے لیے بھی اسی نوع کی بحثیں اٹھائیں گے؟ بہتر ہے ان تنگناؤں میں الجھنے سے اجتناب کیا جائے۔ جہاں تک کسی غیر منتخب شخص یا ادارے سے رہنمائی لینے کا سوال ہے یہ بھی خواہ مخواہ کا ایک غیر ضروری فیشن بن گیا ہے۔

منتخب پارلیمنٹ پر کسی بھی غیر منتخب ادارے کی اجارہ داری نہیں اورنہ ہی ممبران پارلیمنٹ مخصوص آراء ماننے کے پابند ہیں وہ شخصی تفہیم یا عوامی مفاد میں کسی بھی پڑھے لکھے یا قابل شخص سے رائے لیتے ہوئے اپنی تسلی کر سکتے ہیں مگر فیصلہ انہیں بہر صورت وسیع تر عوامی یا قومی مفاد میں کرنا ہوتا ہے۔ درویش کی نظر میں تو نظریاتی کونسل جیسے نان ایشوز میں الجھانے والے ادارے فی زمانہ اپنی اہمیت کھو چکے ہیں اور قومی معیشت پر غیر ضروری بوجھ ہیں حکومتی پارٹی کو چاہیے تھا کہ یہ ایشو پہلے اپنی پارلیمان پارٹی کے اجلاس میں طے کر کے آگے لاتے کیونکہ سینٹ تو پہلے ہی اس کی منظوری دے چکی ہے۔

خاتون وفاقی وزیر کا یہ موقف قابلِ فہم ہے کہ کئی قدیمی اسلامی ممالک جیسے ترکی اور مصر میں شادی کے لیے عمر کی اٹھارہ سالہ حد پہلے سے موجود ہے اور مصر ی مسلمانوں نے تو باقاعدہ الازہر یونیورسٹی کے ماہرین کی مشاورت سے یہ قانون تشکیل دے رکھا ہے جبکہ ترکی ایک جمہوری اسلامی ملک ہے اور ان کی منتخب پارلیمنٹ نے عوامی مفادمیں یہ قانون سازی کر رکھی ہے۔ یہ امر بھی پیشِ نظر رہے کہ ہمارا مذہب کوئی جامد مذہب نہیں ہے اس کا نظریہ اجتہاد بہت مضبوط اور وسیع تر ہے۔

اگر قوانین اور معاشرت کا علمی و فکری بنیادوں پر جائزہ لیا جائے تو ہم چودہ صدیوں میں ان گنت تغیرات سے گزرے ہیں۔ ابتدائی ادوار میں فقہی طور پر اس نوع کے تقاضے بھی مسلمہ حقائق خیال کیے جاتے رہے کہ حکمران ہونے کے لیے قریشی کی شرط لازم ہے۔ جمہوریت کے بالمقابل بادشاہتوں کی حمایت میں شرعی دلائل بھی پیش کیے جاتے رہے ہیں۔ عورت کی حکمرانی کے خلاف تو ابھی کل تک دھواں دار تقاریر ہوتی رہیں لیکن وقت کے ساتھ مسلم سوادِ اعظم شعوری طور پر آگے بڑھتا رہا اور آج تمام تر اجتہادی فیصلے اس قدر حاوی ہو چکے ہیں کہ روایتی الذہن لوگ بھی ان کی مخالفت کا یارا نہیں رکھتے ہیں۔

روایتی اپروچ کے حاملین کو چاہیے کہ وہ اس نوع کے مسائل و معاملات میں نظریہ استحسان اور مصالح مرسلہ کو پیش نظر رکھیں ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ وہ جتنی زور آزمائی کم عمری کی شادی پر کر رہے ہیں اتنا زور جبری شادیوں کے خلاف دیں۔ ماڈرن جمہوری اقوام میں تو بوجوہ شادی کا ادارہ مفلوج ہو کر رہ گیا ہے حالانکہ جبری شادی تو ایک نوع کا ریپ ہوتی ہے مگر افسوس یہاں پسند کی شادی پر اٹھنے والی غیرت قتل و غارت تک لے جاتی ہے
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top