لو جی ساڈا حصہ وی
نئی حکومت سے توقع تھی کہ وہ گڈ گورننس کرے گی۔ کیا گڈ گورننس ہو رہی ہے؟قانون سب کے لئے۔ یہ گڈ گورننس کے بنیادی نکتوں میں سے ایک ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔ گوجرانوالہ میں ایک ڈی ایس پی حامد مختار نے ایک اشتہاری ملزم کو گرفتار کر لیا جوایک سرکاری ایم پی اے کا بھتیجا نکل آیا‘ نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت نے ڈی ایس پی کو معطل کر دیا۔ ڈی ایس پی کو شاید یہ فارمولا یاد نہ رہنے کی سزا ملی کہ سرکاری بھتیجا‘ سرکاری بھتیجا ہوتا ہے چاہے اشتہاری ہو چاہے غیر اشتہاری ہو۔
فیصل آباد میں مسلم لیگ (ن) کے ایم پی اے کے بھائی اور گن مینوں نے ٹریفک وارڈن کو سرعام مارا پیٹا اور اس کی وردی بھی پھاڑ دی۔ ٹریفک وارڈن کا قصور بھی اس کی ’’لاعلمی ‘‘ تھا۔ اسے پتہ ہی نہیں تھا کہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے حکمران لیگ سے تعلق رکھتے ہیں۔
گوجرانوالہ میں لیگی ایم پی اے کے بیٹے اور بھتیجوں نے ایلیٹ فورس کے جوانوں کی ٹھکائی کر دی۔ لگتا ہے گڈ گورننس کا مرحلہ بعد میں آئے گا‘ پہلے حکمران لیگ والوں کو یہ بات منوانی ہے کہ وہ بھی ’’اشرافیہ ‘‘ ہیں اور انہیں بھی وہی حقوق اور مراعات ملنے چاہئیں جو اشرافیہ کے لئے غیر تحریری دستور میں طے ہیں اور جن میں سات ہزار خون معاف کا حق بھی شامل ہے (مشرف کی مثال دیکھئے۔ اس نے سات ہزار سے کہیں زیادہ خون کئے‘ لیکن اشرافیہ کی ضد ہے کہ اسے کچھ نہ کہو)
لاہور میں گلشن راوی کے پولیس کانسٹیبل نے ایک نو عمر لڑکا ارسلان اپنے کمرے میں لے جا کر مار ڈالا‘ ابھی تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی‘ کراچی پولیس نے ایک خطرناک مجرم امان اللہ کو چھوڑ دیا اور خانہ پری کے لئے ایک ہم نام‘ عام مزدور کو پکڑ کر لانڈھی جیل میں بند کر دیا۔ مجرم آزاد اور مزدور کے گھر میں فاقے چھا گئے۔ فاقے کاٹنے والوں میں نو عمر مزدور کی بوڑھی ماں بھی ہے۔ کراچی پولیس کے سربراہ کے لئے یہ غیر اہم خبر ہے اور قائم دائم شاہ کے لئے تو یہ سرے سے کوئی خبر ہی نہیں۔ یہ ایک آدھ دن کی چند نمائندہ ’’گڈ گورننسیں‘‘ ہیں‘ انہی سے ’’بہارستان گورننس‘‘کا اندازہ لگالیجئے۔