کنگ چانگ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ظفرالملک نے مینڈولن پر ایک دُھن چھیڑ رکھی تھی اور جیمسن پورے کمرے میں تھرکتا پھر رہا تھا۔۔۔ اس کی آنکھیں بند تھیں اور پورے جسم پر لرزہ سا طاری تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کسی مشینی عمل کے تحت جسم کا ایک ایک ریشہ پھڑک رہا ہو۔

ٹھیک اسی وقت کسی نے باہر سے کال بیل کا بٹن دبایا اور گھنٹی کی تیز آواز کے ساتھ ہی ظفر کا ہاتھ بھی رُک گیا۔ جیمسن جس پوزیشن میں تھا اسی میں رہ گیا۔

”جاؤ دیکھو۔۔۔! دیکھو کون ہے۔۔۔؟“ ظفر نے دروازے کی طرف ہاتھ اُٹھا کر کہا۔

”کوئی بد ذوق ہی ہوگا جس نے اس وقت میری مسرتوں کو سانپ بن کر ڈسنے کی کوشش کی ہے!“

”چھوٹے چھوٹے جملے بولا کرو۔۔۔ جاؤ بھاگ جاؤ!“

جیسن شانے لٹکائے شرابیوں کی طرح جھومتا ہوا صدر دروازے کی طرف چل پڑا ۔

لیکن دروازہ کھولتے ہی دیوتا کوچ کر گئے! سامنے عمران کھڑا اُسے غصیلی نظروں سے گھورے جا رہا تھا ۔

”تت۔۔۔تت۔۔۔ تشریف لائیے یور میجسٹی۔۔۔!“ وہ کئی قدم پیچھے ہٹ کر بولا۔

عمران خاموشی سے اندر داخل ہوا۔

ظفرالملک بھی عمران کو ایسے موڈ میں دیکھ کر بوکھلا گیا تھا۔

”کیا ہم سے کوئی غلطی سرزد ہوئی ہے۔۔۔!“ اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔

”ہاں۔۔۔!“ عمران پھاڑ کھانے والے لہجے میں بولا۔ تمہارے اس بن مانس نے میری زندگی تلخ کر کے رکھ دی ہے۔۔۔!“

”مم۔۔۔ میں نے!“ جیمسن کے لہجے میں حیرت تھی۔

”ہاں تم نے ۔۔۔! کیا میں کروڑ پتی ہوں۔۔۔؟“

”میں نہیں سمجھا یور میجسٹی۔۔۔!“

”کل میں نے صرف اتنا ہی پوچھا تھا کہ تاہیتی میں کون سی زبان بولی جاتی ہے اس پر تم جوزف کو تاہیتی اور جغرافیہ کیوں پڑھانے بیٹھ گئے تھے !“

”اس نے مجھ سے اس جزیرہ کا محلِّ وقوع پوچھا تھا۔۔۔ کیا میں نے اسے کوئی غلط بات بتائی تھی۔۔۔! یور میجسٹی۔۔۔!“

”تاہیتی کے آخری بادشاہ پومارے پنجم کا ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔!“ عمران گرج کر بولا۔

”تو اس سے کیا ہوا یور میجسٹی !“

”تذکرہ کیا ہی تھا تو یہ بتانے کی کیا ضرورت تھی کہ وہ شراب پیتے پیتے مر گیا تھا اور اس کے مقبرے کی بالائی منزل شراب کی بوتلوں کی شکل میں تراشی گئی ہے!“

”آپ بیٹھ تو جائیے جناب۔۔۔!“ ظفر بول پڑا۔

”ہرگز نہیں۔۔۔!“ عمران سر ہلا کر بولا ”بیٹھنے سے میرا غصہ دھیما پڑ جائے گا!“

”آخر اس غصے کی وجہ کیا ہے یور میجسٹی۔۔۔!“ جیمسن نے کھسیانی ہنسی کے ساتھ پوچھا۔

”دانت بند کرو۔۔۔ وہ شب تاریک کا بچہ کل سے بیٹھا رورہا ہے۔ رات کی نیند حرام کر دی۔۔۔ کبھی چپکے چپکے روتا ہے اور کبھی دھاڑیں مارنے لگتا ہے!“

”آخر کیوں؟“ ظفر اور جیمسن نے بیک زبان سوال کیا۔

”کہتا ہے پومارے پنجم خوش نصیب تھا کہ پیتے پیتے مرگیا، مجھے اس مقبرے کی زیارت کرادو باس۔۔۔!“

دونوں ہنس پڑے اور عمران چیخ کر بولا، ”دانت بند کرو، ورنہ ایک ایک کا خون پی جاؤں گا!“

دونوں یکلخت سنجیدہ ہو کر عمران کو اس طرح دیکھنے لگے جیسے پہلی بار دیکھا ہو۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 36 سے 45 تک

" اچھا تو سنو، پرنس کے دشمن ہمارا تعاقب کر رہے ہیں۔!"
" کیا یہاں کوئی ایسا آدمی موجود ہے۔!"
"یقینا۔۔۔! پچھلی نشستوں میں سے ایک پر ۔۔۔۔!"
"کتنے آدمی ہیں۔۔۔؟"
"صرف ایک کو پہچانتی ہوں! ہو سکتا ہے اس کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی ہوں۔!"
"کوئی پہچان بتاؤ۔۔۔ میں بھی ٹوائیلٹ کو جاتے ہوئے اُس پر ایک نظر ڈالوں گا۔!"
"کانوں تک اٹھے ہوئے شانوں والا بلڈاگ! شاید بیالیسویں نشست پر ۔۔۔!"
ظفر اٹھ گیا۔ لوئیسا کے بیان کی تصدیق ہو گئی، بھاری جبڑوں والا اور اس قدر کوتاہ گردن آدمی تھی کہ کانوں کی لوؤں تک آ پہنچے تھے۔۔۔۔۔ اور آنکھوں کی بناوٹ اذیت پسندی کی نشاندہی کر رہی تھی۔ بظاہر ماحول سے بے پروہ نظر آ رہا تھا۔ لیکن ظفر کی چھٹی حِس کہہ رہی تھی کہ پوری طرح باخبر آدمی ہے۔!
وہ ٹوائیلٹ کی طرف بڑھتا چلا گیا۔
یقینا اس کی صورت ایسی ہی تھی کہ عورتیں صورت دیکھ کر دہل جائیں۔!
واپسی پر جواب طلب نظروں سے لوئیسا نے اس کی طرف دیکھا تھا اور وہ سر کو خفیف سی جنبش دے کر اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا تھا۔
"کہاں کا باشندہ ہے ۔۔۔۔؟ میں اس کی قومیت کا اندازہ نہیں کر سکا۔۔۔۔" ظفر کچھ دیر بعد بولا۔
"اس کی ماں پولینشی تھی اور باپ چینی، تیاراپو کا باشندہ ہے۔ اور وہاں زہریلے مینڈک کے نام سے مشہور ہے۔!"
"یعنی ڈیڈلی فراگ۔!" جیمسن ہنس پڑا۔
"آہستہ بولو۔۔۔ یہی کہلاتا ہے اصل نام کم ہی لوگ جانتے ہیں۔۔۔!" لوئیسا نے خوف زدہ لہجے میں کہا۔
"ذرا میں بھی زیارت کر لو۔" جیمسن اٹھتا ہوا بولا، اس کا لہجہ تضحیک آمز تھا۔!
ظفر اور لوئیسا گفتگو کرتے رہے۔ پھر شاید دس منٹ گزر گئے تھے جیمسن کی واپسی نہیں ہوئی تھی۔
"او ہو۔۔۔۔ کہاں رہ گیا۔؟" دفعتا ظفر چونک کر بولا۔
"ہاں خاصی دیر ہو گئی ہے۔!"
ٹھیک اُسی وقت ایک ایر ہوسٹس سراسیمگی کے عالم میں انکے قریب پہنچی۔
"یہ ۔۔۔ یہ ۔۔۔ وہ! صاحب۔۔۔!" وہ جیمسن کی خالی سیٹ کی طرف اشارہ کر کے بولی۔
"ٹائیلٹ کے قریب بیہوش پڑے ہیں۔۔۔؟"
"نہیں۔۔۔!" ظفر متحیرانہ انداز میں سیٹ سے اٹھ گیا۔
ایئر ہوسٹس کی دی ہوئی اطلاع درست تھی۔ وہ جیمسن ہی تھا۔ فرش پر اوندھا پڑا نظر آیا۔
پشت پر کاغذ کا ایک ٹکڑا پن کیا ہوا تھا۔ جس پر شاید بہت جلدی میں لکھا گیا تھا۔!
"موت کے جزائر میں فرشتہ اجل تمہیں خوش آمدید کہتا ہے۔!"
تحریر فرانسیسی زبان میں تھی۔ ظفر نے لوئیسا کی طرف دیکھ کر پلکیں جھپکائیں پھر اُس پرچے کو جیمسن کی پشت سے الگ کر لیا۔ کچھ لوگ ان کے قریب آ کھڑے ہوئے تھے۔
"کوئی خاص بات نہیں۔!" ظفر اٹھتا ہوا بولا۔ "میرے ساتھی پر کبھی کبھی بیہوشی کے دورے پڑتے ہیں، محض ابتدائی طبی امداد کافی ہو گی۔!"

لوگ پیچھے ہٹنے لگے۔ اور جہاز کا عملہ جیمسن کو وہاں سے اٹھانے کی تگ و دو میں مصروف ہو گیا۔! قریبا بیس پچیس منٹ بعد جیمسن کو ہوش آ گیا۔
"اس سے براہ راست سوالات نہ کئے جائیں۔" ظفر نے اونچی آواز میں کہا۔ یہ جیمسن کے لیے ایک اشارہ تھا کہ وہ محتاط رہے۔
"کوئی خاص وجہ۔۔۔؟" قریب کھڑے ایک مسافر نے کہا۔
"میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ اس پر بیہوشی کے دورے پڑتے ہیں۔ " ظفر نے خشک لہجے میں جواب دیا۔ "براہ راست سوالات سے وہ پریشان ہو جائے گا۔ کوئی بھی نہیں چاہتا کہ اس کی کمزوری موضوع بحث بنے۔"
"بات معقول تھی اس لیئے کسی نے کچھ نہیں پوچھا۔ سیٹ پر واپس آنے کے بعد جیمسن آہستہ سے بولا۔ "جب میں ٹوائیلٹ کا دروازہ کھول رہا تھا کسی نے بے خبری میں میری گردن پر ہاتھ مارا اور پھر ۔۔۔۔ مجھے کچھ یاد نہیں کہ ۔۔۔ کیا وہ بدہیت اپنی سیٹ سے اٹھا تھا۔۔۔؟"
"معلوم نہیں۔۔۔ ہم اس کی طرف متوجہ نہیں تھے۔!" ظفر نے جواب دیا اور جیب سے وہ پرچہ نکال کر اس کی طرف بڑھا دیا جس پر کسی فرشہ اجل کی تحریر تھی۔
"کیا مطلب۔۔۔؟ جیمسن چونک پڑا۔
"یہ تمہاری پشت پر پن کیا ہوا تھا۔۔۔!"
"اُو ہو۔۔۔ تب تو۔۔۔ آپ نے اسے چھپا کر اچھا نہیں کیا۔۔۔؟"
"کیوں۔۔۔۔؟"
"ہو سکتا ہے! وہ محض اپنے شبہے کی تصدیق کرنا چاہتا ہو۔" نہیں یور ہائی نس۔ اس کا اعلان ضروری ہے۔!"
"احمق نہ بنو۔!"
"جو کچھ آپ کر رہے ہیں اس کی موافقت کی کوئی دلیل بھی رکھتے ہیں۔!"
ظفر کچھ نہ بولو۔ جیمسن کہتا رہا۔ "اگر اُسے ہمارے متعلق کسی قسم کی یقین ہے تب بھی ہمارا یہ رویہ مناسب ہو گا۔ اور اگر محض شبہے میں مبتلا ہے تو مناسب ترین کہہ لیجئے۔!"
"غالبا تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔!" ظفر نے پُر تفکر لہجے میں کہا۔
دفعتا جیمسن اٹھ کھڑا ہوا۔ اور بلند آواز میں بولا۔ "خواتین و حضرات! مجھ پر بیہوشی کے دورے ضرور پڑتے ہیں لیکن اس وقت میں اُس کا شکار نہیں ہوا تھا۔!"
لوگ توجہ اور دلچسپی سے اُس کی طرف متوجہ ہو گئے۔!
"پھر کیا ہوا تھا۔۔۔؟" ایک آواز ابھری۔
"میں ٹوائیلٹ میں داخل ہو رہا تھا کہ کسی نے پیچھے سے میری گردن پر کراٹے کا جچا تلا ہاتھ مار کر بیہوش کر دیا تھا۔ میرے ساتھ کو میری پشت پر ایک تحریر پن کی ہوئی ملی ہے۔ آپ بھی ملاحظہ فرمائیے۔ لکھا ہے، موت کے جزائر میں فرشتہ اجل تمہیں خوش آمدید کہتا ہے۔!"
"بڑی عجیب بات ہے۔!" ایک کوف زدہ سی آواز ابھری۔
جیمسن نے برا سے منہ بنا کر کہا۔ "میں اسے محض مذاق بھی نہیں سمجھ سکتا تو پھر کیا یہ جہاز سچ مچ موت کے جزائر کی طرف جا رہا ہے۔!"
"بکواس ہے۔۔۔ بکواس ہے۔۔۔!" کئی آوازیں بیک وقت ابھریں۔!
"تو پھر خواتین و حضرات۔۔۔! اب مجھے مشورہ دیجئے کہ ہم کیا کریں۔۔۔ ایک خاتون بھی ہمارے ساتھ ہے۔!"
سناٹا چھا گیا۔! ظفر کنکھیوں سے ڈیڈلی فراگ کی طرف دیکھے جا رہا تھا لیکن اس کے چہرے پر تحیر کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں تھا۔۔۔ احمقانہ انداز میں منہ کھل گیا تھا اور آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں۔! جہاز کے ذمہ دار افراد جیمسن کے قریب آ کھڑے ہوئے۔ اُن میں سے ایک نے وہ پرچہ بھی طلب کیا۔!
"یہ رہا۔۔۔ ملاحظہ فرمایئے۔!"
وہ اُسے دیکھتا رہا پھر بولا۔ "لیکن آپ کے ساتھ نے تو اُس وقت کسی تحریر کا تذکرہ نہیں کیا تھا۔!"
"ڈرپوک آدمی ہے۔!" جیمسن کا برجستہ جواب تھا۔
"کیا آپ کو کسی پر شبہ ہے۔۔۔!"
"ہر گز نہیں۔۔۔! میرے لئے سب اجنبی ہیں۔!"
"بہر حال میری دانست میں اس کی کوئی اہمیت نہیں کیوں کہ آپ جنت ارضی تابیتی کی طرف پرواز کر رہے ہیں۔" جہاز کے ذمہ دار آدمی نے اتنی اونچی آواز میں کہا کہ آس پاس کے دوسرے لوگ بھی سن سکیں۔
"ہم خائف نہیں ہین۔!" جیسن نے شانوں کو جنبش دی اور بیٹھ گیا۔
"یہ اچھا نہیں ہوا۔۔۔!" لوئیسا آہستہ سے بولی۔!
"جب تک ہم اندھیرے میں رہیں گے یہی ہوتا رہے گا۔" جیمسن نے خشک لہجے میں کہا۔ "مقصد کا علم ہوئے بغیر کوئی راہ متعین نہیں کی جا سکتی۔" ظفر الملک نے اُسے ٹٹولنے والے نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
"کیا اتنا بتا دینا کافی نہیں کہ تم دونوں پرنس کے لئے کام کر رہے ہو۔ اتنی بڑی بڑی تنخواہیں تمہیں ملیں گی کہ تم تصور بھی نہیں کر سکتے۔۔۔؟"
"یہ ہوئی بات۔۔۔!" جیمسن بول پڑا۔ "لیکن اس انکشاف سے ہماری مشترکہ محبت خطرے میں پڑ گئی۔"
"ہر گز نہیں۔" لوئیسا سر ہلا کر بولی۔ "ہم تینوں جہاں بھی رہیں گے ساتھ ہی رہیں گے۔!"
"لیکن ! اگر کسی ایک کے لئے فیصلہ نہ کر سکیں۔!"
"تو پھر مجبورا دونوں سے محبت کرتی رہوں گی۔!"
"تم فضول باتیں کیوں شروع کر دیتے ہو۔!" ظفر جیمسن کو گھورتا ہوا بولا۔
"جب کرنے کو کچھ نہ ہو تو فضول باتیں زندگی کا سہارا بن جاتی ہیں۔!"
"خاموش رہو۔۔۔!"
"ویسے میری ایک اہم بات بھی سُن لیجئے۔!" جیمسن نے اردو میں کہا۔ "کیا آپ اب بھی یہی سمجھتے ہیں کہ یہ محض اتفاق ہے اور عمران صاحب نے تابیتی کا چکر یونہی بے مقصد چلایا تھا۔!"
"قطعی نہیں۔۔۔!" ظفر سر ہلا کر بولا۔ "میں بہت پہلے سے اس پر غور کرتا رہا ہوں۔"
"تو پھر بس ہمیں محتاط رہنتا چاہیے۔!"
"اس طرح اٹھ کر اعلان کر دینا تو احتیاط نہیں تھی۔"
"میں صرف یہ جتانا چاہتا تھا کہ خائف نہیں ہوں۔ خواہ وہ تحریر سچ مچ فرشتہ اجل کی کیوں نہ رہی ہو۔"

تینوں حملہ آور اسی بنگلے کے ایک کمرے میں مقید کر دیئے گئے تھے۔ اور یہ بڑی عجیب بات تھی کہ وہاں جوزف اور ٹالا بوآ کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔ ٹالا بوآ خود اپنے ہاتھوں سے کھانا اور ناشتہ تیار کرتی تھی۔
دوسری صبح جوزف نے اُس سے پوچھا۔ "آخر تینوں کا کیا ہو گا۔۔۔؟"
"بھوکے مرنے دو۔!" وہ ناگواری سے بولی۔
"نہیں۔۔۔! یہ ایک غیر انسانی حرکت ہو گی۔! میں اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔!"
"لیکن پچھلی رات تمہاری انسانیت کہاں تھی جب تم نے انہیں اتنی بے دردی سے مارا تھا۔!"
"پچھلی رات وہ حملہ آور تھے اور اس وقت بے بس ہیں۔!"
"میں ان کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتی۔!"
"مجھے علم ہے کہ تمہارے پاس ڈبوں میں محفوظ کی ہوئی غذا بھی موجود ہے اس لئے انہیں بھوکا نہ مارو۔۔۔ کچھ ڈبے انہیں دے دو۔!"
"تم بالکل سادھو ہو گئے ہو۔۔۔! بادشاہت کیسے کرو گے۔!"
"بادشاہت تو میرے جوتے بھی کر سکتے ہیں۔۔۔ لیکن میں۔۔۔ جوزف آسمان والے کا غلام اپنی کھال میں رہنا چاہتا ہوں۔!"
"خیر۔۔۔ خیر" ۔۔۔ وہ تو ہوتا ہی رہے گا۔" ٹالا بوآ نے گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔" کچھ دیر بعد یہاں بنکانا کے عمائدین پہنچنے والے ہیں۔ ذرا محتاط رہنا۔۔۔ تم ان سے یہ نہیں کہو گے کہ تم ولی عہد ہربنڈا نہیں ہو۔!"
"میں نہیں جانتا کہ میرے باس نے مجھے کس جہنم میں جھونک دیا ہے۔!"
"میں تم سے استدعا کرتی ہوں۔ انسانیت کے نام پر درخواست کرتی ہوں کہ جو کچھ کہا جائے وہی کرو۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے جیسے دشمنوں نے تمہاری برین واشنگ کر دی ہو۔!"
"تم شاید یہی کہنا چاہتی ہو کہ میں شہزادہ ہربنڈا اپنی یادداشت کھو بیٹھا ہوں۔"
"اس کے علاوہ اور کیا سمجھوں جبکہ تم اپنی پیاری بیوی ٹالا بوآ کو بھی اجنبی سمجھ رہے ہو۔!"
"آسمان والا ہی جانے کیا چکر ہے۔ " جوزف ٹھنڈی سانس لے کر بولا۔
"یا پھر وہ جانتا ہو گا جس کی کھوپڑی میں آسمان والے کی عقل اکٹھی کر دی ہے۔!"
"کس کی بات کر رہے ہو۔۔۔؟"
"اپنے باس کی۔!"
"اُوہ ۔۔۔ وہ بیوقوف آدمی۔۔۔!"
"ٹالا بوآ تمیز سے بات کرو، ورنہ تمہاری زبان گدی سے کھینچ دوں گا۔! مجھ جیسے ہزار آدمی اس پر قربان۔۔۔!"
"میں کچھ نہیں جانتی۔۔۔! تم سب کی سنو گے، لیکن اپنی نہیں کہو گے۔!"
"محض اس خیال سے بات نہیں کروں گا کہ باس کی طرف سے کسی قسم کی کوئی ہدایت نہیں ملی تھی۔!"
پھر ٹالا بوآ ناشتے کے انتظام کے لئے چلی گئی تھی! اور جوزف بیٹھا سوچتا رہا تھا۔ باس نے تابیتی کی بات بے وجہ نہ چھیڑی ہو گی۔ ہو سکتا ہے وہ محض ترغیب رہی ہو۔ بہرحال وہ اس وقت تابیتی کے صدر مقام پاپ اے اے تے میں بیٹھا ہوا تھا اور پچھلے دن اس نے پومارے پنجم کے مقبرے کی زیارت بھی کر لی تھی جو پاپ اے اے تے کی مضافات ہی میں واقع؂ تھا۔۔۔ منحوس مقبرہ جس نے اُسے اس کے پیاروں سے چھڑا دیا تھا۔۔۔ کاش۔۔۔ اس نامعقول خواہش نے جنم ہی نہ لیا ہوتا، ہونہہ، پومارے پنجم۔۔۔!
پھر سلسلہ خیال ٹالا بوآ کی آمد سے ٹوٹ گیا۔
"تمہارے دونوں ساتھ جن کے لئے تم نے خط لکھا تھا، پچھلی رات یہاں پہنچ گئے ہیں۔۔۔؟" اس نے اطلاع دی۔
"کہاں ہیں۔۔۔؟" جوزف کے دانت نکل پڑے، شاید بہت دنوں کے بعد مسکرایا تھا۔
"رووانو میں مقیم ہیں۔۔۔! اور وہ لڑکی لوئیسا بھی ان کے ساتھ ہے۔!"
"انہیں یہاں بلاؤ۔۔۔ کہیں اور ٹھہرنے کی کیا ضرورت ہے۔!" جوزف نے ناخوش گوار لہجے میں کہا۔
"فی الحال لوئیسا اسے مناسب نہیں سمجھتی۔ اس لڑکی نے ہماری بہت مدد کی ہے۔ میں اس کی شکر گزار ہوں۔"
"میں ان سے جلد از جلد ملنا چاہتا ہوں۔!"
"وہ بھی ہو جائے گا۔ لیکن اب تم لباس تبدیل کر لو۔۔۔ ہو سکتا ہے بنکاٹا کے عمائدین۔!"
"جہنم میں جائیں بنکاٹا کے عمائدین۔۔۔ ان کی بجائے اگر باس والی چھ باتلیں آ جاتیں تو بات بھی تھی۔!"
"دیکھو۔۔۔ ! ان پر یہ ظاہر نہ ہونے دینا کہ بہت پینے لگے ہو۔!"
"یہ بھی بتا دو کہ مجھے کب تک زندہ رہنا ہے۔" جوزف پھاڑ کھانے والے لہجے میں بولا۔ "اگر میری ہی طرح سیاہ نہ ہوتیں تو تمہارا گلا گھونٹ دیتا۔!"
"میرا جو چاہو حشر کرو۔۔۔ لیکن بنکاٹا کی بادشاہت بہرحال برقرار رکھنی ہے اسے کبھی نہ بولنا۔!"
"جاؤ ناشتہ لاؤ۔۔۔! دیکھوں گا بنکاٹا کی بادشاہت کو۔!"
ناشتہ ختم کر کے وہ اٹھے ہی تھے کہ بنکاٹا کے چھ بڑے آدمی وہاں آ پہنچے، وہ سب ٹالا بوآ اور جوزف کی طرح سیاہ فام تھے۔!
انہوں نے ان دونوں کو غلاموں کی طرح تعظیم دی۔
"ہمیں کئی دن پہلے ہی علم ہو چکا تھا کہ آپ تابیتی پہنچ رہے ہیں۔!" ان میں سے ایک نے کہا۔
"لیکن میں نے تو پرسوں اطلاع بھجوائی تھی۔" ٹالا بوآ حیرت سے بولی۔
"آس پاس کے دوسرے جزائر میں کبر مشہور ہو چکی ہے۔!"
"خوب۔۔۔! تو کل رات اسی وجہ سے حملہ ہوا تھا۔!"
"حملہ ہوا تھا۔۔۔!" ان سب نے بیک وقت حیرت ظاہر کی۔!
"ہاں۔۔۔ تین حملہ آور تھے۔ لیکن پرنس نے تینوں کو بے بس کر دیا۔۔۔ وہ ہماری قید میں ہیں!" ٹالا بوآ چہک کر بولی۔
"کس نے حملہ کرایا تھا۔۔۔؟" ان میں سے ایک نے غصیلے لہجے میں کہا۔
"وہ اسے اگلنے پر تیار نہیں۔!"
"ہم اگلوا لیں گے۔۔۔!"
جوزف نے اس شخص کو گھور کر دیکھا اور وہ نظریں چرانے لگا۔!
"نہیں یہاں اس کی ضرورت نہیں تھی۔ انہیں ساتھ لے چلو۔" ٹالا بوآ بولی۔ "اور اس کے لئے رات ہی کا سفر مناسب ہو گا۔"
جوزف خاموشی سے سب کچھ سنتا رہا۔ اُس کا دل نہیں چاہتا تھا کہ کسی بات میں دخل اندازی کرئے۔ ورنہ سامنے کی بات تھی کہ جن لوگوں کے تین آدمی غائب ہوں کیا انہیں اس کے سلسلے میں تشویش نہ ہو گی اور کیا وہ اس تاک میں نہ ہوں گے کہ انہیں ڈھونڈ نکالیں۔ ظاہر تھا کہ جہاں وہ بھیجے گئے ہوں گے وہیں سے اُن کے بارے میں معلومات بھی حاصل ہو سکیں گی۔

"ہماری نگرانی ہو رہی ہے۔" لوئیسا نے ظفر کو اطلاع دی۔
"تو پھر ہم کیا کریں۔!" ظفر جھنجھلا کر بولا۔
"محتاط رہو۔!"
"نصیحت کا شکریہ۔!" ظفر نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
جیمسن ہنس پڑا اور بولا۔ "اگر تم نے یہ اطلاع مجھے دی ہوتی تو بڑے پیار سے پیش آتا۔!"
"میں نے فیصلہ کر لیا ہے۔" وہ مڑ کر اس کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی مسکرائی۔"
"کیا فیصلہ کر لیا ہے۔۔۔؟"
"میں صرف تم سے محبت کرتی ہوں۔۔۔ تمہاری داڑھی انسانیت کا کھیت ہے۔!"
"دوسرا جملہ خطرناک ہے۔۔۔!"
"کیوں۔۔۔؟"
"ہو سکتا ہے کچھ دنوں کے بعد کہہ بیٹھو کہ فصل پک کر تیار ہو گئی ہے۔ اب کھیٹ کٹنا چاہیے۔!"
"نہیں۔۔۔! ڈرو مت۔۔۔ داڑھی سمیت تمہیں چاہتی ہوں۔!"
ٹھیک اُسی وقت ایک طویل قامت آدمی رووانو کے ڈائننگ ہال میں داخل ہوا۔ اور لوئیسا آہستہ سے بولی۔ "مجھے اسی پر شبہ ہے۔!"
ناشتہ انہوں نے ڈائننگ ہال میں کیا تھا اور اس کےبعد سے یہیں پر بیٹھے رہے تھے۔!
اس وقت یہاں قیام کرنے والوں کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔!
"کیا یہ یہیں مقیم ہے۔!" ظفر نے پوچھا۔
"میرا خیال ہے کہ یہاں مقیم نہیں ہے۔! پچھلی رات جب ہم مون تیسا میں اندھی لڑکی کا گیت سن رہے تھے یہ ہمارے قریب ہی موجود تھا۔ ہو سکتا ہے ڈیڈلی فراگ کا آدمی ہو۔!"
"وہ خود تو پھر دکھائی نہیں دیا۔!"
"ایک طاقت ور گروہ کا سرغنہ ہے، اُسے کیا ضرورت پڑی ہے کہ سڑکوں پر مارا مارا پھرے، اُس کے آدمی ہی کافی ہیں۔!"
"خیر۔۔۔ خیر۔۔۔ ہمیں انجان ہی بنے رہنا چاہیے۔" ظفر سر ہلا کر بولا۔
"میری دانست میں بھی یہی مناسب ہے۔! لیکن غافل نہ ہو جانا چاہیے۔!"
لمبا آدمی کاؤنٹر کے قریب کھڑی ہوئی لڑکی سے سگریٹ خریدنے لگا تھا۔
"سوال تو یہ ہے کہ آخر پرنس کی مخالفت کیوں۔۔۔؟"
"میں تفصیل سے نہیں جانتی۔۔۔! لیکن نہ تو کوئی اُس کے تخت کا دعوے دار ہے اور نہ بنکاٹا ہی میں اُس کی مخالفت ہے۔!"
"تو یہ مخالفت باہر کی ہے۔!"
"ایسے حالات میں یہی کہا جا سکتا ہے۔!"
"لیکن باہر کے آدمی کو اس سے کیا سروکار۔!"
"میں کہہ چکی ہوں کہ تفصیل کا مجھے علم نہیں۔!"
"تمہاری کیا پوزیشن ہے۔۔۔؟"
"بنکاٹا کے شاہی خاندان سے ہمدردی ہے۔ کیوں کہ میرا باپ شاہ بنکاٹا کا پرسنل سیکرٹری رہ چکا ہے۔۔۔!"
"بنکاٹا میں تمہارے علاوہ اور بھی سفید فام خوبصورت لڑکیاں ہوں گی۔!" جیمسن نے پوچھا۔
"قطعی نہیں۔۔۔! میرے علاوہ ایک بھی ایسی لڑکی تمہیں وہاں نصیب نہیں ہو گی۔"
"پھر آپ کا کیا ہو گا۔۔۔ یور ہائی نس۔۔۔!" جیمسن نے ظفر سے پوچھا۔
"میں صبر کر لوں گا۔۔۔!" ظفر نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔
لمبا آدمی سگریٹ خرید کر باہر جا چکا تھا۔
"میں دیکھتا ہوں کہ یہ کس چکر میں ہے۔!" ظفر اٹھتا ہوا بولا۔
"بیٹھ جاؤ۔۔۔! میں اس کا مشورہ نہیں دے سکتی۔!"
"او ہو۔۔۔ تو کیا تم ہم پر حکم چلاؤ گی۔" ظفر نے تلخ لہجے میں کہا۔
"اے میرے پیار کے ساتھی!" وہ ہنس کر بولی "تم مینڈولن بہت اچھا بجاتے ہو۔۔۔ جاؤ اپنے کمرے سے مینڈولین اٹھا لاؤ۔۔۔ میں گانا چاہتی ہوں۔!"
"معقول مشورہ ہے۔!" جیمسن سر ہلا کر بولا۔ "ہمیں یہی سوچنا چاہیے کہ ہم یہاں صرف عیش کرنے آئے ہیں۔!"
ظفر رہائشی کمروں کی طرف چلا گیا۔
"اُوہ۔۔۔! تو کیا واقعی ہزہائینس مینڈولین لینے گئے ہیں۔" جیمسن بڑبڑایا۔
"موڈ تو ایسا نہیں لگ رہا تھا۔" لوئیسا نے اُسے گھورتے ہوئے کہا۔ "تم اس کی بڑی عزت کرتے ہو۔ کیا حقیقتا کسی شاہی خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔"
"تمہیں اس میں شبہ نہ ہونا چاہیے۔ ہمارے یہاں ہر تیسرا آدمی کوئی نہ کوئی مخصوص زادہ
(ختم شد صفحہ 45)
 
صفحہ 56 سے 65 تک

’’اوہو۔۔۔ تو آج کل تم کنگ چانگ کی غلامی کررہے ہو!"
"لڑکی۔۔۔!" وہ اتنی زور سے دھاڑا کہ دیواریں جھنجھنا اٹھیں۔
"میرا لہجہ سریلا ہی رہے گا۔" لوئیسا پھر ہنس پڑی۔
"کمال ہے۔۔۔!" جیمسن اردو میں بڑبڑایا۔ "ایسی ہی تیس مار خاں ہے تو بھاگ کیوں نہ گئی تھی؟"
"خاموش بیٹھے رہو۔۔۔!" ظفر آہستہ سے بولا۔
اچانک عمارت کے ہی کسی حصے میں ایک زوردار دھماکہ ہوا۔ زمین ہل گئی، کھڑکیوں کے شیشے چھنچھناتے ہوئے فرش پر آرہے اور یہ چاروں منہ کے بل گرے تھے۔
کئی سیکنڈ تک گم صم پڑے رہے۔ پھر انہوں نے شور سنا۔
"یہ کیا ہوا۔۔۔ یہ کیا ہورہا ہے۔۔۔؟" فراگ کی بھرائی ہوئی آواز آئی۔ وہ فرش سے اٹھنے کی کوشش کررہا تھا۔
گہرے دھوئیں کا ایک ریلا کمرے کے اندر داخل ہوا۔
"بھاگو۔۔۔!" فراگ پھٹی پھٹی سی آواز میں چیخا اور ناک دبائے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا۔
پھیپڑوں کو دھوئیں سے بچائے رکھنے کے لیے انہوں نے بھی سانس روکی تھی اور باہر نکلنے کی کوشش کرنے لگے تھے۔ فی الحال ان کے ذہنوں سے فرار کا خیال بھی محو ہوکر رہ گیا تھا۔
فراگ حلق پھاڑ پھاڑ کر اپنے آدمیوں پر برس رہا تھا لیکن ان ساتوں میں سے کوئی بھی دھماکے کی وجہ نہ بتاسکا۔
لمبا آدمی جیمسن کے قریب کھڑا تھا۔ اس نے خوف زدہ سی آواز میں ڈیڈلی فراگ سے کہا۔ "ہمارے پاس بھی کوئی ایسی چیز نہ تھی جس سے دھماکہ ہوسکتا۔"
"تو پھر کیا یہ آسمانی دھماکہ تھا؟" وہ مکا تان کر اس کی طرف بڑھتا ہوا بولا۔
لیکن پھر عجیب طرح کی آواز اس کے حلق سے نکلی اور وہ کسی جڑ سے اکھڑے ہوئے تناور درخت کی طرح زمین پر ڈھیر ہوگیا۔
اس کے ساتوں آدمی بوکھلاکر اس کی طرف بڑھے۔۔۔ ان میں سے بھی ایک نے سسکی لی اور اپنے باس ہی کی طرح گر کر بے حس و حرکت ہوگیا۔ وہ اس کی جانب متوجہ ہوئے تھے کہ تیسرا گرا۔ پھر یکے بعد دیگرے گرتے ہی چلے گئے۔
"بھاگو۔۔۔!" لوئیسا چیخی۔۔۔ اور سڑک کی طرف دوڑتی چلی گئی۔ ظفر اور جیمسن اس کی تقلید کررہے تھے۔
دفعتاً کسی جانب سے آواز آئی۔ "ارے سوٹ کیس چھوڑ کر بھاگے جارہے ہو!"
جیمسن اس طرح رک گیا جیسے "چابی" ختم ہوگئی ہو، ظفر بھی رکا۔
"نہیں۔۔۔ ناممکن۔۔۔!" جیمسن چاروں طرف دیکھتا ہوا بولا۔ یہ کس کی آواز تھی۔ لوئیسا بھی پلٹ پڑی۔
"کیا بات ہے۔۔۔؟"
"کسی نے ہماری آواز میں مخاطب کیا تھا۔" جیمسن بولا۔
"آواز میں نے بھی سنی تھی۔"
"سوٹ کیس تو لیتے جاؤ۔" آواز پھر آئی اور اس بار انہوں نے سمت کا تعین کرلیا۔
"خدا کی قسم۔۔۔!" جیمسن چہکا۔ "ہزمیجسٹی کے علاوہ اور کسی کی آواز نہیں ہوسکتی۔۔۔!"
’’اس کے بعد وہ آواز کی سمت بے تحاشا دوڑتا چلاگیا۔ پھر ان دونوں کو بھی اس کا ساتھ دینا پڑا۔ پھول دار جھاڑیوں کے درمیان ایک چہرہ ابھر رہا تھا۔ جیمسن تعظیم میں جھکتا چلا گیا۔
"آپ۔۔۔!" ظفر کے حلق سے گھٹی گھٹی سی آواز نکلی!
"جی ہاں۔۔۔!" جواب ملا۔ "آپ جیسے کنواروں کو کسی نامحرم عورت کے حوالے کردینے کے بعد وہیں تو بیٹھا نہیں رہ سکتا تھا۔"
"اوہ۔۔۔ تو یہ تم تھے۔۔۔!" لوئیسا بولی۔
"میں نہ ہوتا تو تم کہاں ہوتیں!" عمران نے کہا اور جھاڑیوں سے باہر آگیا۔۔۔ اس کے ہاتھ میں ایک عجیب وضع کی ایک چھوٹی سی رائفل تھی۔
جیمسن چٹکیوں سے تال دیتا ہوا عمران کے گرد ٹوئیسٹ کرنے لگا۔
"اے ہوش مندو۔۔۔ تم بھاگے کہاں جارہے تھے۔" عمران نے اردو میں کہا۔
"پھر کیا کرتے۔۔۔!" ظفر بولا۔
"واپس چلو۔۔۔ وہاں ان آٹھ آدمیوں کے علاوہ کوئی نہیں ہے!"
وہ پھر پلٹے اور انہوں نے عمران کو اپنی اپنی بپتا سنانی شروع کردی، اس عمارت میں جو جو گزری وہ بھی سنائی۔
"تو یہ ڈیڈلی فراگ کا کام معلوم ہوتا ہے۔" عمران سر ہلا کر بولا۔
"اتنا کام کا کہ کنگ چانگ کا سراغ اسی کے توسط سے مل سکے گا۔" لوئیسا بولی۔
"آخر آپ نے اتنی رازداری سے کام کیوں لیا تھا۔" ظفر پوچھ بیٹھا۔
"تم سے الگ رہ کر حالات کا اندازہ لگانا چاہتا تھا۔!"
"وہ حالات کیا ہیں۔۔۔؟"
"تفصیل میں جانے کا موقع نہیں۔۔۔! فی الحال جو کچھ کہا جائے کرتے جاؤ۔"
"ہزہائی نس پر پچھلی رات حملہ ہوا تھا۔" لوئیسا بولی۔
"مجھے علم ہے۔۔۔!"
"اس کے باوجود تم نے ان تینوں کے رحم و کرم پر انہیں چھوڑ دیا تھا۔"
"تم پرنس کو کیا سمجھ رہی ہو! وہ اس وقت مداخلت پسند فرماتے ہیں جب کمزور پڑ رہے ہوں۔۔۔ جب میں نے دیکھا وہ تنہا ان پر بھاری پڑ رہے ہیں تو دور رہا لیکن یہ بڑی عجیب بات ہے کہ ان تینوں کی کسی نے بھی خبر نہ لی۔۔۔ اس وقت اگر تم لوگ چھیڑے جاتے تو ان کے اس ٹھکانے کا پتا نہ چلتا۔"
عمارت کے قریب پہنچ کر وہ رک گئے۔ آٹھوں اب تک وہیں پڑے تھے۔
"لیکن یہ لوگ بے ہوش کیسے ہوئے۔۔۔؟" لوئیسا عمران کو گھورتے ہوئی بولی۔
"یہ میری ڈارٹ گن کا کمال ہے۔" وہ اپنی رائفل دکھاتا ہوا بولا۔
"اوہو۔۔۔ تو یہ بے ہوش کردینے والی سوئیوں کا شکار ہوئے ہیں۔"
"میرے پاس ایسی سوئیاں بھی ہیں جو موت کی نیند سلادیتی ہیں، ارے تم دونوں کھڑے منہ دیکھ رہے ہو۔۔۔ اٹھالاؤ اپنے سوٹ کیس!"
ظفر اور جیمسن اندر آئے۔۔۔ دھواں غائب تھا۔ انہوں نے سوٹ کیس اٹھائے اور باہر آگئے لیکن اب عمران وہاں نہیں تھا۔ صرف لوئیسا دکھائی دی جو بے ہوش آدمیوں کی طرف ریوالور اٹھائے کھڑی تھی۔
"ہزمیجسٹی کہاں گئے۔۔۔؟" جیمسن چاروں طرف دیکھتا ہوا بولا۔
"ہزمیجسٹی۔۔۔! کیا مطلب۔۔۔؟"
"مطلب نہ پوچھو۔۔۔ میری بات کا جواب دو۔۔۔!"
"اپنی گاڑی لینے گیا ہے۔۔۔!"
اور یہ ریوالور کہاں سے ہاتھ لگا!"
"انہی میں سے ایک کا ہے۔۔۔!" لوئیسا نے بے ہوش آدمیوں کی طرف دیکھ کر کہا۔
جیمسن اسے تھوڑی دیر تک خاموشی سے دیکھتا رہا، پھر بولا۔ "تو تم اسی لیے شیرنی ہورہی تھیں۔"
"میں نہیں سمجھی، تم کہنا کیا چاہتے ہو۔۔۔!"
"تمہیں علم تھا کہ ہزمیجسٹی آس پاس ہی موجود ہیں۔"
"اس حد تک بھی مطمئن نہیں تھی، اس نے کمال کردیا۔۔۔ میں اسے اتنا تیز ہرگز نہیں سمجھتی تھی۔"
"بس بس زیادہ تعریف نہیں۔" جیمسن ہاتھ اٹھاکر بولا۔ "کہیں تم اپنے فیصلے میں تبدیلی نہ کردو۔۔۔!"
وہ برا سا منہ بناکر دوسری طرف دیکھنے لگی۔
"دیکھو۔۔۔ دیکھو۔۔۔ تم ابھی سے۔۔۔!"
"خاموش رہو۔۔۔! میں تمہیں بزدل اور نکما نہیں سمجھتی تھی۔"
"کیا مطلب۔۔۔؟"
"سوٹ کیس چھوڑ کر بھاگے جارہے تھے۔"
"تم نے کہا تھا۔"
"ایسے مرد مجھے پسند نہیں جو عورتوں کے مشورے کے محتاج رہتے ہیں۔"
"میں عورتوں کو اتنا حقیر نہیں سمجھتا۔۔۔! داڑھی نہ ہوتی تو خود بھی عورت ہی ہوتا۔"
اتنے میں کسی گاڑی کی آواز سنائی دی۔
"اب اپنی محبت کی بات نہ کرنا۔" لوئیسا آہستہ سے بولی۔
"اوہو۔۔۔ تو کیا ہزمیجسٹی کو بھی پہلے ہی سے جھانسہ دے رکھا ہے۔"
"چپ۔۔۔ چپ۔۔۔!"
عمران ڈرائیونگ سیٹ سے اترتا ہوا بولا: "زہریلے مینڈک کو اٹھاکر گاڑی میں ڈالنا ہے۔"
"کہاں لے جاؤ گے۔۔۔؟" لوئیسا نے حیرت سے کہا۔
"کہیں بھی۔" عمران نے جواب دیا۔
"نہیں۔۔۔ یہ خطرناک ہوگا!"
"پھر تم کیا چاہتی ہو؟"
"اسے یہیں چھوڑ جاؤ۔ اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ ان معاملات میں کنگ چانگ کا ہاتھ ہے۔"
"تو تم صرف تصدیق کرنا چاہتی تھیں!"
"ہاں۔۔۔!"
"اچھی بات ہے۔ تصدیق تمہاری اور مینڈک میرا۔ میں اسے تل کر کھاؤں گا۔ چلو نالائقو! منہ کیا دیکھ رہے ہو۔۔۔ اسے اٹھاکر گاڑی میں ڈالو۔"
"میں کہتی ہوں یہ مناسب نہ ہوگا۔"
"آخر کیوں۔۔۔؟"
"ناہیتی پوپاؤں کے لیے جہنم بن جائے گا۔"
"پوپاؤں۔۔۔ کیا مطلب۔۔۔!" عمران نے احمقانہ انداز میں پلکیں جھپکائیں۔
"مقامی لوگ سفید فام آدمی کو پوپاآ کہتے ہیں۔"
"اوہ۔۔ تو پھر تم پوپاآ ہو۔۔۔" عمران نے غصیلے لہجے میں کہا۔
"دیکھو۔۔۔! سمجھنے کی کوشش کرو، اگر غائب ہوگیا تو جگہ جگہ سفید فاموں کی لاشیں پائی جائیں گی۔ میں اس کے آدمیوں کی نظروں میں آچکی ہوں۔ وہ مجھے ہی اس کی ذمہ دار سمجھیں گے۔"
"ارے تم اس کی فکر نہ کرو!"
"آپ بھی ہاتھ لگایئے جناب۔۔۔!" جیمسن نے عمران کو مخاطب کیا۔ "ہم سے نہیں اٹھ رہا۔۔۔ آدمی ہے یا گینڈا۔"
تینوں نے اسے اٹھاکر گاڑی میں ڈالا اور عمران نے ظفر کو الگ لے جاکر کہا "اب لوئیسا تم لوگوں کو وہیں لے جائے گی جہاں جوزف مقیم ہے۔ لیکن بہت زیادہ محتاط رہنا۔ اسے جوزف کہہ کر مخاطب نہ کرنا۔۔۔ پرنس ہربنڈا۔ کیا سمجھے!"
"سمجھ گیا۔۔۔!"
"اور اپنے مورچھل کو بھی سمجھادینا۔"
"مگر آپ کہاں جارہے ہیں۔۔۔؟"
افق کے اس پار۔۔۔ اب یہاں رہ کر کیا کروں گا۔ میں اور ڈیڈلی فراگ۔۔۔ اچھا۔۔۔ ٹاٹا!"
"ارے سنئے تو سہی۔۔۔ کیا ہم پیدل جائیں گے؟"
"وہی جیپ استعمال کرو جس سے لائے گئے تھے۔" عمران نے کہہ کر انجن اسٹارٹ کیا اور گاڑی آگے بڑھ گئی۔
"سخت الجھن میں ڈال دیا ہے اس نے۔" لوئیسا برا سا منہ بناکر بولی۔
"تم یہی تو چاہتی ہو نا کہ سفید فام محفوظ رہیں۔" ظفر نے پوچھا۔
"یقیناً۔"
"تو پھر ان ساتوں بیہوش آدمیوں کو قتل کردو۔ تمہاری کہانی آگے نہیں بڑھنے پائے گی۔"
لوئیسا نے ہاتھ میں دبے ریوالور پر نظر ڈالی اور پھر جیمسن کی طرف دیکھنے لگی۔
"میری موجودگی میں یہ ناممکن ہے کہ بے خبروں پر گولی چلائی جائے۔" جیمسن بولا۔
"بکواس مت کرو۔ میں بھی ایسی نہیں ہوں۔ غیر ضروری کشت و خون مجھے بھی پسند نہیں!"
"تو پھر چلو جیپ کی طرف۔ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو!"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ظفر اور جیمسن کو دیکھ کر جوزف کی بانچھیں کھل گئیں۔
"میں تم دونوں کے لیے بہت بے چین تھا۔"
"شکریہ یور ہائی نس!" ظفر نے تعظیماً جھک کر کہا۔
"خدا کے لیے تم لوگ تو مجھے پاگل نہ بناؤ۔"
"ہم شرمندہ ہیں کہ ہمیں پہلے سے آپ کی حیثیت کا علم نہیں تھا۔"
"ارے میری حیثیت۔۔۔!" جوزف دانت پیس کر سر پیٹتا ہوا بولا۔ "خداوندا میں کیا کروں!"
"صبر کیجئے یور ہائی نس!" جیمسن نے مسکرا کر کہا۔ "اب میں اپنی باری کا انتظار کررہا ہوں۔"
"میرا مذاق مت اڑاؤ پیارے بھائی۔۔۔ یہ بتاؤ۔۔۔ باس کی بھی کچھ خبر ملی یا نہیں؟"
"انہیں اب بھول جایئے یور ہائی نس۔۔۔!"
"مرتے دم تک نہیں بھول سکتا۔۔۔ میں اپنے مالک کا وفادار کتا رہوں گا چاہے مجھے ساری دنیا کی بادشاہت سونپ دی جائے۔"
"کہئے۔۔۔! پومارے پنجم کی زیارت ہوئی یا نہیں؟"
"مت نام لو۔۔۔!" جوزف برا سا منہ بناکر بولا۔ "نہ جانے کون سی منحوس گھڑی تھی جب تم نے مجھے ناہیٹی کی تاریخ سنائی تھی۔۔۔ نہ میں خواہش کرتا اور نہ یہاں آپہنچتا۔۔۔ اور سلیمان پر جانے کس بد روح کا سایہ ہوگیا تھا کہ ٹھیک اسی وقت آئینہ دکھا بیٹھا۔"
"ماضی کو بھول جایئے یور ہائی نس!" ظفر نے بڑے ادب سے کہا۔
"تم تو مجھے شرمندہ نہ کرو۔ تم اسلی شہزادے ہو۔ میں اس کا بیٹا ہوں جو ہاتھیوں کا شکار کرکے پیٹ پالتا تھا۔"
"خاموش۔۔۔!" ظفر چاروں طرف دیکھتے ہوا آہستہ سے بولا۔ "کان کھول کر سن لو، جس نے تمہیں شہزادگی کی راہ پر ڈالا ہے، وہ یہی چاہتا ہے کہ تم شہزادے بنے رہو۔"
"کیا سچ مچ۔۔۔!" جوزف کی آنکھیں چمکنے لگیں۔
"ہاں۔۔۔! اب تم جوزف نہیں، پرنس ہربنڈا ہو۔"
جوزف نے طویل سانس لی اور پھر اظہارِ مسرت کے طور پر اس کے دانت نکل پڑے۔
"اگر یہ بات پہلے ہی معلوم ہوجاتی تو میں اپنا خون کیوں جلاتا؟"
"اب میں اپنا خون جلاؤں گا۔۔۔!" جیمسن بولا۔
"کیوں مسٹر کیوں۔۔۔؟"
"تمہاری طرح مفت کی بیوی تو ہاتھ آئی نہیں کہ ٹھنڈک ہی ٹھنڈک رہے۔"
"اے مسٹر۔۔۔! میں اتنا کمینہ نہیں ہوں کہ کسی اور کی بیوی پر ہاتھ ڈالوں گا۔"
"فضول باتیں نہ ہونی چاہئیں۔" ظفر نے جیمسن کو گھورتے ہوئے کہا۔
"لیکن آخر یہ سب کیا ہے۔۔۔؟" جوزف اپنی پیشانی مسلتا ہوا بولا۔
"فکر نہ کرو۔۔۔ شہزادوں کی طرح زندگی بسر کرنی ہے تمہیں۔"
"دوسری بات۔۔۔!" جوزف پُرتفکر لہجے میں بولا۔ "نالابوآ میری بیوی نہیں ہے لیکن اس کے رویے میں اجنبیت نہیں پائی جاتی۔ قطعی نہیں معلوم ہوتا کہ وہ اداکاری کررہی ہے۔"
"فی الحال اس قصے کو ختم کردیجئے یور ہائی نس۔۔۔!" ظفر اونچی آواز میں بولا۔
اس نے کسی کے قدموں کی آواز سنی تھی۔
دوسرے ہی لمحے لوئیسا پردہ ہٹاکر اندر آئی اور جوزف کے سامنے کسی قدر خم کھاکر ادب سے بولی۔ "ہزہائی نس نے ان دونوں کو طلب کیا ہے، یور ہائی نس!"
"اوہو۔۔۔!" جیمسن بولا۔ "اب تو تم انگریزی بھی بول سکتی ہو۔"
"دنیا کی کئی بڑی زبانیں روانی سے بول سکتی ہوں۔"
"تم دونوں لاباوآ کے پاس جاؤ۔" جوزف نے اپنے انداز میں نخوت پیدا کرتے ہوئے کہا۔
"اوکے یور ہائی نس۔۔۔!" دونوں بیک وقت بولے۔
"نالابوآ نے سب سے پہلے ان کی آمد پر اظہارِ مسرت کیا تھا، پھر بولی تھی، "پرنس کی حفاظت کی تمام تر ذمہ داری تم دونوں پر ہوگی۔"
"آپ ہمیں ہر وقت ہوشیار پائیں گی۔" ظفر نے کہا۔ "لیکن ہمیں کم از کم یہ تو معلوم ہونا ہی چاہئے کہ پرنس کو کس قسم کے خطرات ہیں۔"
"میں نے تفصیلی گفتگو کے لیے تم دونوں کو طلب کیا ہے۔"
لوئیسا انہیں نالابوآ کے کمرے میں چھوڑ کر چلی گئی اور وہ بات آگے بڑھنے کے منتظر رہے۔
نالابوآ چند لمحے خاموش رہ کر بولی۔ "شاہ بنکانا بیمار ہیں۔۔۔! پتا نہیں کب ان کی آنکھیں بند ہوجائیں۔ اگر پرنس نہ ملتے تو اس خاندان کی بادشاہت کا خاتمہ ہوجاتا۔"
"پھر کس کی بادشاہت ہوتی؟"
"موکارو کے بادشاہ کی۔"
"موکارو کہاں ہے۔۔۔؟"
"وہ بھی ایک جزیرہ ہے۔۔۔ بنکانا سے قریباً پچاس میل کے فاصلے پر۔"
"لیکن بنکانا تو فرانس کے زیرِ اثر ہے۔"
"فرانس بھی پرانے معاہدوں کا پابند ہے۔ موکارو کے بادشاہ کے زیرِ اثر آنے کے بعد فرانس کا اثر پرانے معاہدے کے تحت خود بخود ختم ہوجائے گا۔"
"کیا موکارو میں کنگ چانگ کی بادشاہت ہے۔۔۔؟"
"اوہ نہیں۔۔۔!" وہ ہنس کر بولی۔ "شاید لفظ کنگ نے تمہیں غلط فہمی میں مبتلا کردیا ہے۔ ہمارے سلسلے میں تم نے کنگ چانگ کا نام سنا ہوگا۔"
"جی ہاں۔۔۔! پرنس کے سلسلے میں ماموزئیل لوئیسا نے ہمیں بتایا تھا کہ کنگ چانگ کے آدمی پرنس کو بنکانا نہیں پہنچنے دیتے۔"
"کنگ چانگ بحر الکاہل کے جزائر کا طاعون ہے۔"
"میں نہیں سمجھا۔"
"اس نام سے یہاں کے باشندے اس قدر خائف ہیں جیسے طاعون سے ہوسکتے ہیں۔"
"آپ یہی کہنا چاہتی ہیں کہ اس کے وجود اور حیثیت کا کوئی قانونی جواز نہیں۔"
"تم ٹھیک سمجھے۔۔۔! لیکن وہ جزائر کے معاملات میں ٹانگ اڑاتا رہتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ موکارو کے والی نے معقول معاوضے پر اس کی خدمات حاصل کرلی ہوں۔"
"وہ رہتا کہاں ہے؟"
"کوئی نہیں جانتا کہ وہ کہاں رہتا ہے۔ صرف نام سنا جاتا ہے شکل شاید ہی کسی نے دیکھی ہو۔"
"اس کے لیے کام کرنے والے کبھی نہ کبھی قانون کی گرفت میں ضرور آتے ہوں گے۔"
"ہاں ایسا ہوتا ہے، لیکن وہ اس کی نشاندہی نہیں کرسکتے۔" نالابوآ نے کہا اور انہیں بتانے لگی کہ کس طرح جوزف نے کنگ چانگ کے تین آدمیوں کو قابو میں کیا تھا اور وہ ابھی تک اس کی قید میں ہیں۔
"شاید اسی لیے اپنے ان آدمیوں کی خبر نہیں لی کہ وہ اس کی نشان دہی نہیں کرسکتے۔" نالابوآ نے کہا۔
ظفر کچھ نہ بولا۔ وہ کسی گہری سوچ میں تھا۔
"بس اپنی آنکھیں کھلی رکھنا۔" نالابوآ نے گفتگو کا اختتام کرتے ہوئے کہا۔ وہ دونوں اس کمرے میں آئے جہاں ان کی رہائش کا انتظام کیا گیا تھا۔
"بات پلے نہیں پڑی۔" جیمسن پُرتشویش لہجے میں بڑبڑایا۔
"فضول باتیں نہ کرو۔ میری روح سفر کے لیے بے چین تھی۔" ظفر مسکرا کر بولا۔
"ہوسکتا ہے یہ سفر اسے دوبارہ جسم میں واپس نہ لاسکے۔"
"ڈر گئے ہو۔۔۔؟"
جی نہیں۔۔۔! میں تصور بھی نہیں کرسکتا کہ مسٹر علی عمران کو بنکانا کی بادشاہت سے کوئی سروکار ہوگا۔"
"اچھا تو پھر۔۔۔؟"
"کوئی اور ہی چکر ہے۔"
"نالابوآ سے عشق ہوگیا ہوگا۔"
"عین شین قاف اور عین میم رے الف نون میں بعد المشرقین ہے۔"
"اتنی گاڑھی اردو نہ بولا کرو۔۔۔ مجھے الجھن ہوتی ہے۔"
"کیوں۔۔۔؟"
"اس انکشاف کے بعد لوئیسا بھی ہاتھ سے گئی۔ ظاہر ہے کہ وہ ہمیں بے وقوف بنارہی تھی۔"
"صرف تمہیں۔۔۔ میں تو شروع ہی سے غیر مطمئن رہا ہوں۔"
دفعتاً جوزف کمرے میں داخل ہوا۔
"آخر باس کو یہ کیا سوجھی تھی۔؟ وہ ان کے قریب پہنچ کر آہستہ سے بولا۔
"کوئی نئی بات؟" ظفر نے سوال کیا۔
"ہر بات نئی ہے مسٹر۔۔۔! مجھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم سب بد ارواح کے نرغے میں آگئے ہیں۔"
"میں تم سے متفق ہوں۔" جیمسن بول پڑا۔
"پھر ہمیں کیا کرنا چاہئے۔۔۔؟"
 

خرم

محفلین
یہاں موجود تمام صفحات لائبریری کی سائٹ پر منتقل ہوچکے ہیں پروف ریڈنگ کے بعد۔
 
صفحہ 160 تا 171
پونیاری کے ساحل پر وہ خاموشی سے اتر گئے۔ لانچیں ایک دور افتادہ کنارے پر ٹھہر گئی تھیں۔ یہاں سے گودی کی روشنیاں خاصے فاصلے پر تھیں۔
بقیہ سفر جیبوں کے ذریعے طے ہوا تھا۔ آبادی میں داخل ہوتے ہی ایسا محسوس ہوا جیسے بہت بڑے شراب خانے میں داخل ہوگئے ہوں۔ فضا میں شراب کی بو پھیلی ہوئی تھی۔
"اوہ۔۔۔ اوہ۔۔۔!" جوزف بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔ "ہم کہاں آگئے ہیں۔۔۔؟"
"خاموشی ہی مناسب رہے گی یور ہائی نس۔" عمران نے آہستہ سے کہا۔
"یہاں گھر گھر شراب کشید کی جاتی ہے اور ہماری تنظیم اسے دوسرے جزائر تک غیر قانونی طور پر پہنچاتی ہے۔" اَم بینی نے عمران کے کان میں کہا۔ "شاید اسی سے ہمارے متعلق کسی قدر اندازہ لگاسکو۔"
عمران کچھ نہ بولا۔۔۔ ظفر اور جیمسن بھی زور زور سے سانس کھینچ رہے تھے۔
"آپ کو کیا تکلیف ہے حضرات!" عمران تیکھے لہجے میں بولا۔
فضا توبہ شکن محسوس ہورہی ہے، یور میجسٹی۔۔۔!"
"مرغا بنادوں گا اگر بکواس کی تو۔۔۔"
وہ ایک مختصر سی عمارت میں اتارے گئے تھے۔ چھوٹے چھوٹے مکانوں کی بستی تھی۔ تاہیٹی بنکاٹا کی طرح یہاں ترتیب یا حسن کا شائبہ بھی نہ تھا۔
"کیا فراگ یہیں ہے۔۔۔؟" عمران نے اَم بینی سے پوچھا۔
"نہیں۔۔۔ انہیں بھی کہیں سے اس کا پیغام ملا تھا۔ مگر اب ایک دشواری آپڑی ہے۔"
"کیسی دشواری۔۔۔؟"
"ہمیں یہاں دو دن قیام کرنا پڑے گا۔ میں پہلی بار آئی ہوں۔ میرا سر گھوما جارہا ہے۔ یہاں پھیلی ہوئی بُو مجھے پاگل بنادے گی۔"
"لیکن پرنس ہربنڈا کا خیال ہے کہ اگر وہ یہاں کے بادشاہ بنادیے جائیں تو مفت کام کریں گے۔" جیمسن بول پڑا۔
اس رات انہوں نے بدذائقہ کھانے کھائے تھے اور جوزف کے لیے "ہوم میڈ" شراب مہیا کی گئی تھی۔ وہ بہت مگن تھا۔ بار بار عمران سے کہہ رہا تھا۔ "آج اتنے دنوں کے بعد دماغ گرم ہوا ہے!۔۔۔ میرا ماؤں جائے جہنم میں۔۔۔ میں تو یہیں رہوں گا۔ امپورٹڈ مال بکواس ہوتا ہے۔ اتنے دنوں سے یہی لگ رہا تھا جیسے شراب نہیں شوربہ پی رہا ہوں۔"
"تجھے تو روٹیاں لگ رہی ہیں۔ چپ چاپ شہزادہ بنا رہ ورنہ کھال گرادوں گا۔۔۔!"
"بنا تو ہوا ہوں۔" جوزف سہم کر بولا۔
"ارے یہ شہزادگی کی باتیں ہیں کہ تو کنٹری وائین کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتا رہے۔"
"کیا کروں باس! مجھے امپورٹڈ سے نشہ نہیں ہوتا ہے۔"
"قصور میرا ہی ہے۔۔۔ ٹھرا پلا پلا کر تیرے مینرز تباہ کردیئے۔"
"اب میں کیا کروں باس! میرا مقدر ہی ایسا ہے۔" وہ روہانسا ہوکر بولا۔
رات انہیں اسی عمارت میں بسر کرنی تھی۔ عمران کا اندازہ تھا کہ وہ بستی کی سب سے اچھی عمارت ہے۔ حالآنکہ اس کا فرش بھی کچا تھا۔
بڑی مشکل سے نیند آئی، کیونکہ شراب اور دھوئیں کی ملی جلی بُو دماغ پھاڑے دے رہی تھی۔
دفعتاً رات کے کسی حصے میں عمران کو جھنجھوڑ کر جگایا گیا۔ وہ سونا نہیں چاہتا تھا لیکن پھر بھی نیند آ ہی گئی تھی۔ کیروسین لیمپ کی روشنی میں فراگ کا چہرہ نظر آیا۔ اس کے ہونٹوں پر عجیب سی مسکراہٹ تھی۔
"بب۔۔۔ باس۔۔۔!" عمران ہکلایا۔
"میں تمہاری زبان سے یہی سننا چاہتا تھا۔۔۔ اٹھو۔۔۔ بے حد ضروری باتیں کرنی ہیں۔"
وہ اسے دوسرے کمرے میں لایا۔ یہاں تین آدمی اور بھی موجود تھے۔
"یہ موکارو کے تین معزز ترین افراد ہیں اور شاہی خاندان کے وفادار ہیں۔" فراگ نے تعارف کرایا۔
عمران کچھ نہ بولا۔ صرف تھوڑا سا خم ہوا تھا۔
"آج ہی موکارو اطلاع پہنچ گئی تھی کہ پرنس سزا سے بچنے کے لیے فرار ہوگیا ہے۔" فراگ بولا۔
عمران اب بھی خاموش کھڑا رہا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ان لوگوں سے بے حد مرعوب اور متاثر ہوا ہو۔
"ان کا مشورہ ہے کہ پرنس ابھی بنکاٹا جائے۔"
"کک۔۔۔ کیوں۔۔۔ یور آنر۔۔۔؟"
"تم نہیں جانتے، بیٹھ جاؤ۔۔۔ میں تمہیں بتاؤں گا۔۔۔"
عمران بیٹھ گیا۔۔۔ موکارو کے لوگ بھی خاموش تھے۔
فراگ بولا۔ "یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ موکارو پر ساکاوا کی حکومت ہے، بادشاہ بے بس ہوچکے ہیں۔"
"ساکاوا کون ہے۔۔۔؟"
"تم اتنے لاعلم ہو۔۔۔؟" فراگ حیرت سے بولا۔
"میں صرف اپنے کام سے کام رکھتا ہوں یور آنر۔۔۔!"
"خیر سنو! تین سال پہلے ساکاوا موکارو کی پولیس کا سربراہ تھا اور لوگ اس سے نفرت کرتے تھے۔ آہستہ آہستہ وہ بادشاہ کی ناک کا بال بن بیٹھا۔۔۔ اب وہ پرائم منسٹر ہے! بادشاہ کی طرف سے خود احکامات صادر کرتا ہے۔ اس کی تین جنگی کشتیاں ہربنڈا کا اسٹیمر تلاش کرتی پھر رہی ہیں۔"
"تو کیا وہ یہ سمجھتا ہے کہ پرنس کسی استحقاق کی بناء پر اس سے ٹکرا جائیں گے۔۔۔؟"
نہیں! یہ بات نہیں۔۔۔! موکارو ہی سے آرہا ہوں اور میں نے وہاں بہت کچھ دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے بارے میں پھر بات کریں گے۔۔۔ اس وقت تو یہ معززین صرف اس لیے آئے ہیں کہ پرنس کو بنکاٹا جانے سے روک دیں۔"
"اس پر بھی ہم مناسب موقع پر گفتگو کریں گے۔" عمران نے کہا۔
"یہ پرنس سے ملنا چاہتے ہیں۔"
"صبح سے پہلے ناممکن ہے باس! مجھ میں اتنی ہمت نہیں کہ انہیں اس وقت تکلیف دوں!"
"یہ تو کرنا ہی ہے کسی نہ کسی طرح، یہ اسی وقت واپس جائیں گے۔"
"ذرا علیحدگی میں میری ایک بات سن لیجئے۔۔۔!"
"اچھا۔۔۔ اچھا۔۔۔!" فراگ اٹھتا ہوا بولا۔
وہ اٹھ کر باہر آئے۔ عمران نے آہستہ سے پوچھا۔ "کیا آپ ان تینوں پر اعتماد کرسکتے ہیں۔۔۔؟"
"میں احمق نہیں ہوں۔۔۔ یہ ساکاوا کے جانی دشمن ہیں۔"
"اچھی بات ہے۔ میں پرنس کو جگاؤں گا نہیں۔۔۔ وہ انہیں سوتے ہی میں دیکھ سکتے ہیں۔"
"کیوں احمقانہ باتیں کرتے ہو؟" فراگ غصیلے لہجے میں بولا۔ "میں خود جگاؤں گا۔ یہاں سب میرے پابند ہیں۔ پرنس ہوگا بنکاٹا میں۔"
"آپ میرا مطلب نہیں سمجھے! یہاں کی فضا میں ایسی بو رچی بسی ہے کہ پرنس بے قابو ہوگئے۔ برانڈی اور وہسکی پینے والے اگر ٹھرے کی دو بوتلیں چڑھاجائیں تو کیا حال ہوگا۔۔۔؟"
"اوہ یہ بنکاٹا والے سدا کے ندیدے ہیں۔ خدا سمجھے۔۔۔ خیر ویسے ہی دکھادیں گے۔ شاید یہ لوگ اپنا اطمینان کرنا چاہتے ہیں۔"
ان لوگوں سے کہا گیا کہ سفر کی تکان کی وجہ سے پرنس کی طبیعت خراب ہوگئی ہے۔ اس لیے جگانا مناسب نہ ہوگا۔ البتہ سوتے میں زیارت کی جاسکتی ہے۔
وہ لوگ اس پر تیار ہوگئے۔ ان میں سے ایک نے سگریٹ کا پیکٹ نکالا۔ اس میں سے ایک سگریٹ منتخب کی اور پھر سگریٹ کا لمبا سا ہولڈر نکالا اور اسے ہونٹوں میں دبائے ہوئے ان کے ساتھ چلنے لگا۔ لیکن سگریٹ ابھی ہاتھ بھی ہی میں تھی۔ عمران نے اسے گھور کر دیکھا اور سر کو خفیف سی جنبش دی۔ لیکن جیسے ہی وہ جوزف والے کمرے میں قدم رکھنے لگا، اس نے ہاتھ بڑھاکر اس کے ہونٹوں سے ہولڈر نکال لیا۔ وہ جھلاکر مڑا اور کڑک کر بولا۔ "یہ کیا بیہودگی ہے۔۔۔؟"
فراگ اور اس کے دونوں آدمی بھی پلٹ پڑے۔
"پرنس کے حضور یہ بدتمیزی ہوگی۔" عمران نے غصیلے لہجے میں کہا۔ "لاؤ سگریٹ بھی مجھے دو، یہاں پرنس سے زیادہ معزز کوئی بھی نہیں ہے۔"
"کیوں بکواس کرتا ہے، لا ہولڈر مجھے دے۔"
لیکن عمران نے دوسرے ہی لمحے میں اس کے جبڑے پر ایک زور دار ہاتھ رسید کردیا۔ وہ پشت والی دیوار سے ٹکرایا اور بھد سے زمین پر بیٹھ گیا۔
"یہ کیا کررہے ہو۔۔۔؟" فراگ غراکر عمران کی طرف جھپٹا۔
"ذرا ٹھہریئے۔۔۔ اس ہولڈر کا جائزہ لیجئے۔۔۔ اگر اس میں سے زہریلی سوئی برآمد نہ ہو تو مجھے گولی مار دیجئے گا۔"
"خبردار! کوئی اپنی جگہ سے جنبش نہ کرے۔" اچانک مار کھاکر گرنے والا دہاڑا۔ اس نے ریوالور نکال لیا تھا۔
"اوہ۔۔۔ تو یہ بات ہے۔" فراگ کا لہجہ بے حد سرد تھا۔
"ہاں!" وہ اٹھتا ہوا بولا۔ "ہربنڈا کو مرنا ہی پڑے گا۔ تم اپنے ہاتھ اوپر اٹھاؤ۔"
"تو کنگ چانگ سے غداری کررہا ہے۔ اسے سوچ لے۔" فراگ اپنے ہاتھ اٹھاتا ہوا بولا۔ بقیہ دونوں آدمیوں نے بھی ہاتھ اٹھادیئے تھے۔ لیکن عمران جوں کا توں کھڑا تھا۔
"جہنم میں جائے کنگ چانگ۔" ریوالور والا کہہ رہا تھا۔ "اب میرے وزیرِ تجارت بن جانے کا امکان روشن ہوگیا ہے۔۔۔ اے! تُو بھی اپنے ہاتھ اٹھا۔" اس نے عمران کو للکارا۔
عمران نے جھلائے ہوئے انداز میں ہاتھ اٹھادیئے تھے اور اسی حرکت کے دوران وہ سگریٹ ہولڈر اس کے ہونٹوں میں جادبا تھا۔
ریوالور والے نے سسکاری لی اور اس کا ریوالور والا ہاتھ بے اختیاری میں چہرے کی طرف اٹھتا چلا گیا۔ ٹھیک اسی وقت عمران کی ٹھوکر اس کے ہاتھ پر پڑی۔ ریوالور دور جاگرا اور وہ دونوں ہاتھوں سے اپنا دایاں گال دبائے فرش پر ڈھتا چلا گیا۔
"شاباش۔۔۔" فراگ چنگھاڑا۔
ریوالور والا فرش پر گر کر بے حس و حرکت ہوچکا تھا۔
عمران نے جھپٹ کر ریوالور اٹھایا تھا اور اس کا رخ اس کے دونوں ساتھیوں کی طرف کردیا تھا۔
"اوہ عمران۔۔۔ اوہ۔۔۔ میرے پھرتیلے چیتے۔۔۔!" فراگ شکار پر جھکتا ہوا بولا۔ چند لمحے اسے ٹٹولتا رہا پھر سیدھا ہوکر پُر مسرت لہجے میں چینخا۔ "جہنم رسید ہوا اور اب تم دونوں بتاؤ حرامزادو۔۔۔!'
"آنرایبل فراگ! ہم وفادار ہیں۔ اس کالی بھیڑ کو نہ پہچان سکے، بس اتنا ہی قصور ہے ہمارا۔۔۔ ورنہ ہم بھی اس کا ساتھ دیتے۔" ان میں سے ایک ہانپتا ہوا بولا۔ "اس نے ہمارے ہاتھ بھی تو اٹھوادیئے تھے۔"
"اس کا فیصلہ صبح ہوگا۔" عمران بولا۔ "فی الحال خود کو پرنس کا قیدی سمجھو۔"
"ہم تیار ہیں۔۔۔ ہمیں قید کردو۔۔۔ اس وقت تک روکے رکھو جب تک کہ آنرایبل کو اطمینان نہ ہوجائے۔"
فراگ نے سچ مچ ان دونوں کو ایک کوٹھڑی میں بند کردیا۔ اس ہنگامے کے دوران جوزف کے علاوہ اور سب جاگ پڑے تھے۔
"اس لاش کا کیا ہوگا۔۔۔؟" عمران نے پوچھا۔
"پڑی رہنے دو، صبح کو دیکھا جائے گا۔" فراگ نے لاپرواہی سے کہا۔ پھر بولا: "تم نے کیسے اندازہ کرلیا تھا کہ وہ ہولڈر درآصل بَلو پائپ ہے اور اس میں زہریلی سوئی موجود ہے۔۔۔؟"
"اگر وہ فوراً ہی ہولڈر میں سگریٹ لگالیتا تو مجھے شبہ نہ ہوتا لیکن اس نے صرف ہولڈر ہونٹوں مین دیا تھا اور سگریٹ ہاتھ ہی میں رکھی تھی۔"
"میں نے قطعی دھیان نہیں دیا تھا۔"
"میں اسی لیے بنکاٹا کے محلات میں نمایاں حیثیت رکھتا ہوں باس! میری چھٹی حس کسی گوریلے کی بے چینی کی طرح ہر وقت بیدار رہتی ہے۔"
فراگ نے اَم بینی کا بازو پکڑ کر عمران کی طرف دھکیلتے ہوئے کہا۔ "لے جا۔۔۔ سچ مچ تجھے بخش دی۔۔۔!"
اَم بینی عمران سے ٹکرائی اور وہ کراہتا ہوا زمین پر اکڑوں بیٹھ گیا تھا۔
"کیا ہوا۔۔۔؟" فراگ کے لہجے میں بوکھلاہٹ تھی۔
"پھانسی دے دو مگر عورت نہ دو۔" عمران گلوگیر آواز میں بولا۔
"کیا بکواس ہے۔۔؟"
"میری سمجھ میں نہیں آتا کہ عورت کا کیا کروں۔" عمران نے کچھ ایسا ہی لہجے میں کہا کہ فراگ کو ہنسی آگئی۔
"ارے یہ ایسا ہی ہے۔۔۔!" اَم بینی دانت پیس کر بولی۔ "اب تک مجھے یہی محسوس ہوتا رہا ہے جیسے ریت کی بوری کے ساتھ وقت گزار رہی ہوں۔"
"واقعی تو عجیب ہے میرے شیر۔۔۔ چل اٹھ اب سوجا۔۔۔ صبح باتیں کریں گے۔ میری تقدیر نے کیسا تحفہ عطا کیا ہے واہ۔۔۔!" فراگ عمران کا بازو پکڑ کر اٹھاتا ہوا بولا۔
پھر وہ خود کہیں اور چلا گیا اور سب اسی کمرے میں چلے آئے جہاں شب بسری کرنا ٹھہری تھی۔
اَم بینی عمران کو زہریلی نظروں سے گھورے جارہی تھی اور جیمسن کے دانت نکلے پڑ رہے تھے۔ جوزف اب بھی بے خبر سو رہا تھا۔
"دانت بند کر مورچھل! ورنہ پوپلا کردوں گا۔" عمران نے اردو میں کہا۔
"اب کیا بکواس ہورہی ہے میرے خلاف۔۔۔؟" اَم بینی چنچنائی۔
"تت۔۔۔ تم آرام کرو۔۔۔ بہت تھک گئی ہو۔" عمران نرم لہجے میں بولا۔
"خاموش رہو۔ مجھے تمہاری ہمدردی کی ضرورت نہیں ہے۔ ابھی ابھی تم مجھے قتل کرچکے ہو۔" اَم بینی یہ کہتی ہوئی اپنے بستر پر جاپڑی۔
"واقعی! آپ بہت سنگدل ہیں یور میجسٹی۔۔۔!" جیمسن، عمران کے قریب پہنچ کر آہستہ سے بولا۔
"جاکر سوجاؤ ورنہ سچ مچ ہاتھ پیر توڑ کر رکھ دوں گا۔" عمران آنکھیں نکال کر بولا۔
اس کے بعد وہ سب تو سوگئے تھے لیکن عمران جاگتا رہا تھا۔
دوسری صبح فراگ سے پھر ملاقات ہوئی۔ وہ خود ہی آیا تھا اور صرف عمران کو اپنے ساتھ لے کر وہاں سے کسی نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہوگیا تھا۔
"ان دونوں کا کیا ہوگا؟" عمران نے کہا۔ "لاش تو صبح مجھے وہاں نہیں نظر آئی تھی۔"
"ان باتوں میں ذہن کو مت الجھاؤ۔ لیکن میں تمہیں بتاتا ہوں کہ میری تنظیم میں کالی بھیڑیں موجود ہیں۔"
"کہاں نہیں ہوتیں۔۔۔؟"
"یہ تینوں موکارو کے باشندے اور میری تنظیم سے منسلک تھے۔ لیکن موکارو میں کوئی نہیں جانتا کہ وہ کنگ چانگ کے آدمی ہیں۔ تم اسی سے اندازہ لگاسکتے ہو کہ مرنے والا وزیرِ تجارت بننے کے خواب دیکھ رہا تھا۔"
"کس بات کا اندازہ لگا سکتا ہوں۔۔۔؟" عمران نے سوال کیا۔
"اسی کا کہ یہ کس رتبے کے لوگ ہیں۔"
"میں سمجھ گیا۔"
"لیکن اب میں موکارو کے لوگوں پر اعتماد نہیں کرسکتا۔ ہوسکتا ہے یہ دونوں میرے ہی وفادار ہوں لیکن کسی وقت بھی بدل سکتے ہیں۔ موکارو کے پانی میں وفا نہیں ہے۔"
"تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ میں پرنس کو لے کر کہیں اور چلا جاؤں۔" عمران بڑبڑایا۔
"نہیں۔۔۔ عمران۔۔۔! اب میں ساواکا کے چیتھڑے اڑادینے پر تل گیا ہوں۔"
"لیکن آپ کیا کرسکتے ہیں؟ جب کہ وہاں قدم بھی نہیں رکھ سکتے۔"
"ہونہہ۔۔ میں قدم نہیں رکھ سکتا۔۔۔ ارے میں وہیں سے آرہا ہوں۔" فراگ نے کہا۔
چند لمحے خاموش رہ کر بولا۔ " میں تمہیں اپنے حیرت انگیز سفر ہی کی داستان ہی تو سنانے کے لیے کسی پرسکون جگہ کی تلاش میں نکلا ہوں۔ پونیاری میں چکرانے والی یہ بدبو مجھے بھی پسند نہیں ہے۔"
ساحل پر پہنچ کر فراگ نے گاڑی روکی اور عمران کو لیے ہوئے اپنی اسی لانچ میں داخل ہوا، جس پر اس نے تاہیتی سے موکارو تک کا سفر کیا تھا۔
"آہا۔۔۔ یہ تو جنت ہے۔" عمران نے خوش ہوکر کہا۔ "زندگی میں پہلی بار ایسا بحری عشرت کدہ دیکھا ہے۔"
"تم مجھے پڑھے لکھے آدمی بھی معلوم ہوتے ہو۔"
"پروٹوزوا سے لے کر خلائی سفر تک کا علم رکھتا ہوں۔"
"بہت خوب!" وہ اسے غور سے دیکھتا ہوا بولا۔ "پرنس کے باڈی گارڈز کی قومیت کیا ہے؟"
"ایرانی ہیں۔۔۔ پرنس کے ساتھ ہی آئے تھے۔"
"ٹھیک ہے۔ انہیں بھی جزائر کی سیاست سے کوئی سروکار نہیں ہوسکتا۔"
"قطعی نہیں!"
"اچھا! اب میں تمہیں اپنے سفر کے حالات سناتا ہوں۔" فراگ نے کہا اور اپنی حکمتِ عملی کی داستان شروع کردی۔۔۔ عمران بڑے غور سے سنتا رہا۔ کہیں کہیں اس نے جوش کا اظہار بھی کیا تھا۔ جیسے ہی فراگ ڈرائیور اور گاڑی سے چھٹکارا پانے والے مرحلے پر پہنچا۔ عمران نے اٹھ کر اس کے گرد ناچنا شروع کردیا۔
"بیٹھو۔۔۔ بیٹھو دلیر آدمی! میں تمہیں بھی اپنے سے کم نہیں سمجھتا۔۔۔" فراگ نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔ "تمہاری پچھلی رات والا کارنامہ مجھے زندگی بھر یاد رہے گا۔ ایسا ذہین اور جلد فیصلہ کرنے والا۔"
"شکریہ! یور آنر۔۔۔!" عمران اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھتا ہوا بولا۔
فراگ نے چند لمحے خاموش رہ کر کہا۔ "پھر میں اپنی تنظیم سے تعلق رکھنے والوں میں چلا گیا اور وہ تینوں مجھے ایک بڑے صندوق میں بند کرکے موکارو سے نکال لائے تھے۔۔۔ مگر۔۔۔ وہ نمک حرام لازی گا۔ کالی بھیڑ نکلا۔۔۔ خدا کی پناہ۔ اگر وہ اسی طرح سگریٹ ہولڈر ہونٹوں میں دبائے ہوئے کمرے میں داخل ہوجاتا تو پرنس ہماری لاعلمی ہی میں ختم ہوجاتا اور صبح سے پہلے تم اسے لاش سمجھنے پر تیار نہ ہوتے۔"
"یہ بات تو ہے۔" عمران سر ہلاکر بولا۔
"اور وہ سور کا بچہ لازی گا چپ چاپ موکارو پہنچ کر ساواکا کے کان میں پھونک دیتا کہ وہ نہایت خاموشی سے اس کی خدمت انجام دے آیا ہے۔"
"آخر موکارو میں کیا ہورہا ہے۔۔۔؟" عمران نے سوال کیا۔
"تم یہ نہ سمجھنا کہ بادشاہت کا کوئی چکر ہے! موکارو کے عوام نے ساکاوا کو اسی لیے برداشت کرلیا ہے کہ وہ بادشاہ کو پسند ہے۔"
"پھر کیا بات ہوسکتی ہے؟" عمران نے اسے ٹٹولنے والی نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"ساکاوا نہیں چاہتا کہ کوئی غیر ملکی موکارو میں داخل ہو۔۔۔ لیکن ہربنڈا جسے چاہے اپنے ساتھ موکارو لے جاسکتا ہے۔ ساکاوا کھلم کھلا ہربنڈا کے داخلے کی مخالفت نہیں کرسکتا۔ اگر ایسا کرے تو بادشاہ اور عوام، دونوں ہی اس کے مخالف ہوجائیں کیونکہ ہربنڈا کا استحقاق موکارو کی قدیم مقدس روایات سے تعلق رکھتا ہے۔"
"بات کچھ کچھ سمجھ میں آرہی ہے۔" عمران سر ہلاکر بولا۔
"ٹھیک! اب میں تمہیں بتاتا ہوں کہ ہربنڈا فرانس والوں کی دریافت معلوم ہوتا ہے، لوئیسا یا ایڈلی دے ساواں فرنچ سیکرٹ سروس کی ممبر ہے۔۔۔!"
"نہیں۔۔۔؟" عمران متحیرانہ انداز میں اچھل پڑا۔
" میں جانتا ہوں! اگر تم اس کے باڈی گارڈز کو ٹٹولو تو تمہیں سب کچھ معلوم ہوجائے گا۔ خیر! مجھے اس سے سروکار نہیں۔ میں تو اپنی بات کررہا ہوں۔ کنگ چانگ قطعی پسند نہیں کرے گا کہ بحر الکاہل میں کسی قسم کا ہنگامہ برپا ہو۔"
"میں نہیں سمجھا۔۔۔!"
"میں سمجھاتا ہوں۔۔۔ اگر یہاں جنگی نوعیت کی کوئی گڑبڑ ہوئی تو کنگ چانگ کی تجارت تباہ ہوگی۔ ہماری تنظیم بحر الکاہل کے جزائر میں منشیات کی غیر قانونی تجارت کی اجارہ دار ہے۔"
"آہا۔ تب تو مزہ آگیا، خاصا ایڈونچر رہتا ہوگا۔"
"بہت زیاد۔۔۔ خیر، ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ فرانس بحر الکاہل میں ایٹمی تجربے کرنے کا پروگرام بنارہا ہے۔۔۔ لہذا وہ ہر طرف سے مطمئن ہونے کی کوشش کرے گا۔۔۔ وہ ضرور دیکھنا چاہے گا کہ موکارو میں کیا ہورہا ہے؟ اور اب میں تمہیں بتاؤں کہ موکارو سے متعلق فرانس کے شبہات درست ہین۔ مین نے اپنے اس سفر میں یہی اندازہ لگایا ہے۔"
"حالات سے تو یہی معلوم ہوتا ہے۔۔۔ آپ کھلے سمندر میں کسی فولادی کنوئیں کے قیدی بن گئے تھے اور کسی نظر نہ آنے والے آدمی سے گفتگو بھی کرتے رہے تھے۔۔۔ اور پھر وہ دھوئیں کا حصار۔۔۔؟"
"میں نے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن جس علاقے میں اس کی نشاندہی کی گئی وہاں شہری آبادی کی طرف سے بھی کوئی قدم نہیں رکھ سکتا۔ ممنوعہ علاقہ قرار دے دیا گیا ہے۔ صرف وہی فوجی جاسکتے ہیں جو سبز ٹوپیاں لگاتے ہیں اور یہ ساکاوا کے خاص لوگ ہیں۔"
"خدا جانے کیا چکر ہے۔۔۔؟"
تمہیں علم نہیں لیکن میں جانتا ہوں۔۔۔ دوسری جنگِ عظیم میں شکست کھانے کے بعد سارے جاپانی بحر الکاہل کے جزیروں میں بھاگ آئے تھے۔ ان میں فوجی بھی تھے اور سائنسدان بھی۔۔۔ انہیں ایٹمی تجربات سے نفرت ہے۔۔۔! وہ ساری ایٹمی طاقتوں کو للکارنا چاہتے ہیں۔۔۔ ہیروشیما انہیں آج بھی یاد ہے۔"
"خدا کی پناہ۔۔۔!"
"میں بتائے دیتا ہوں کہ موکارو دنیا کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ مجھے ان جاپانیوں سے ہمدردی ہے جو ایٹمی تباہی سے نفرت کرتے ہیں۔ لیکن میں اپنی تجارت کے علاقوں کو جہنم نہیں بننے دوں گا۔"
"واقعی! آپ کی پوزیشن کافی نازک ہے۔"
"لہذا میں اس سلسلے میں فرانس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہوں۔"
"میں فرانس نہیں ہوں۔" عمران بگڑ کر بولا۔
"مطلب یہ کہ تم اپنے ان دونوں باڈی گارڈز کو اپنے اعتماد میں لینے کی کوشش کرو۔۔۔ ہم چار آدمی مل کر اس مہم کا آغاز کریں گے۔۔۔ فی الحال اس سلسلے میں اپنے آدمیوں پر اعتماد نہیں کرسکتا۔۔۔!"
"اچھی بات ہے یور آنر۔۔۔ میں آخری سانس تک تمہارا ساتھ دوں گا۔ تم دیکھنا کہ اس آہنی کنویں کا کیا حشر ہوتا ہے۔"
"بس اب تفریح ہوگی۔۔۔ ہمیں خود کو اس کے لیے تیار کرنا ہے۔۔۔ کیا واقعی تم عورتوں سے ڈرتے ہو؟" فراگ جھک کر اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا مسکرایا۔
"عورت کا نام لیا تو سمندر میں کود کر جان دے دوں گا۔" عمران بگڑ کر بولا۔
اور فراگ کا گرجدار قہقہہ دیر تک کیبن میں گونجتا رہا۔۔۔!




عمران سیریز نمبر 70

سمندر کا شگاف

تیسرا حصہ
 

خرم

محفلین
لو جی کرلو گل۔ ارے بھائی مکمل کیسے ہوگا جب ابھی تک صفحات ہی نہیں پورے ہوئے۔
 

حسن نظامی

لائبریرین
سیدہ فرصت سے تو خیر نہیں ہوں ایف اے کے امتحان اور تیاری لیکن آپ حکم فرما سکتی ہیں ۔۔ اگر ممکن ہوا تو ضرور بجا آوری کی کوشش کروں گا۔۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top