ایک بلاگر نے ہزارہ کوئیٹہ واقعے پر ایک الگ پہلو سے روشنی ڈالی ہے۔ جسکو یہاں کلک کرکے ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
غلاظت اور فرقہ واریت کی تو خیر کیا بات کرنی ، آپ اس میں موجود جھوٹ پر ذرا روشنی ڈالیں۔ سنیوں کے قتل عام پر البتہ غیرجانبدار یا شاہدین سے رجوع کر کے صحیح صورتحال معلوم کی جانی چاہیے۔کافی غلاظت سے بھری ہوئی، جھوٹ پر مبنی اور فرقہ وارانہ تحریر ہے۔
پس نوشت: اگرچہ اس طرح کی تحریر پر کچھ لکھنا میری شان کے خلاف ہے لیکن ایک بات، جس پر اس تحریر کی عمارت کھڑی ہے، وہ یہ ہے کہ صرف ہزارہ کو ہی کیوں مارا جاتا ہے اگرچہ شیعہ تو اور بھی ہیں۔ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی شکلیں منگولوں سے ملتی جلتی ہیں اور بہت آسانی سے ان کی شناخت کی جا سکتی ہے اور کوئٹہ میں ان کی آبادی بھی چند ایک جگہوں پر مرکوز ہے۔
ارے حضرت جھوٹ اور سچ کی بحث کو چھوڑیے، اس پہلو سے دیکھئے کہ آج اگر کسی گرجے پر مذہبی جنونی حملہ کر کے بے گناہ عیسائی پاکستانیوں کو تہہِ تیغ کر دیں تو کیا ہم اُن کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرنے کے بجائے اُن کے ہم مذہب قدماء کے افعال گنوائیں گے؟ کہ بھئی تمہارے ہم مذہبوں نے صلیبی جنگوں میں فلاں فلاں کیا تھا لہذا اپنے خلاف ہونے والی موجودہ جارحیت کے بھی تم خود ذمہ دار ہو؟ اب بتائیے اس مضمون میں اس کے علاوہ اور کیا ہے؟ سوائے یہ کہ عیسائیوں کی جگہ شیعوں کا ذکر کیا جا رہا ہے۔غلاظت کی تو خیر کیا بات کرنی ، آپ اس میں موجود جھوٹ پر ذرا روشنی ڈالیں۔
معاف کیجئے گا مجھے اپنے مراسلے میں تدوین کرنا تھی مگر انرنیٹ کی گڑبڑ سے دیر ہو گئی خیر وہ میں نے کر دی ہے۔ارے حضرت جھوٹ اور سچ کی بحث کو چھوڑیے، اس پہلو سے دیکھئے کہ آج اگر کسی گرجے پر مذہبی جنونی حملہ کر کے بے گناہ عیسائی پاکستانیوں کو تہہِ تیغ کر دیں تو کیا ہم اُن کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرنے کے بجائے اُن کے ہم مذہب قدماء کے افعال گنوائیں گے؟ کہ بھئی تمہارے ہم مذہبوں نے صلیبی جنگوں میں فلاں فلاں کیا تھا لہذا اپنے خلاف ہونے والی موجودہ جارحیت کے بھی تم خود ذمہ دار ہو؟ اب بتائیے اس مضمون میں اس کے علاوہ اور کیا ہے؟ سوائے یہ کہ عیسائیوں کی جگہ شیعوں کا ذکر کیا جا رہا ہے۔
اس دور میں کمپیوٹر نہیں تھا ، ہیومن ایرر کی کُٹ پڑ رہی ہے سب کو۔فرقے انڈو نہیں کیے جا سکتے کیا
اہل تشیعہ اور اہل سنت کا معاملہ بالکل صاف واضح اور ناقابل حل ہے کیونکہ سیکولرازم کا شربت بحثیت قوم ہم پی نہیں سکتے اور حُب صحابہ و امہات المومنین کی قربانی اہل سنت دے نہیں سکتے۔ میری نظر میں تو ان کم عقلیوں کا کوئی علاج نظر نہیں آتا۔
ہاں، بحیثیت قوم یہ بھی ہمارے ماتھے پر بدنما داغ ہے۔ویسے قدماء کے فعل کی سزا تو ہم قادیانی کو بھی دے رہے ہیں۔
غلاظت اور فرقہ واریت کی تو خیر کیا بات کرنی ، آپ اس میں موجود جھوٹ پر ذرا روشنی ڈالیں۔ سنیوں کے قتل عام پر البتہ غیرجانبدار یا شاہدین سے رجوع کر کے صحیح صورتحال معلوم کی جانی چاہیے۔
میں نے سوچا تھا پہلے فرقے پھر مذاہب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس دور میں کمپیوٹر نہیں تھا ، ہیومن ایرر کی کُٹ پڑ رہی ہے سب کو۔
آپ بقول میرے مانیں یا نا مانیں میرا عقیدہ بڑا واضح ہے ، میں بھول بھلیوںمیں نہیں رہ رہا اور نہ میں کسی کے لحاظ یا مروت میں درست بات کہنے سے کترایا گھبرا رہا ہوں۔میرے یہاں غیر مسلم یا کفر کی تعریف بڑی سادہ ہے مگر اس میں واجب القتل کا عقیدہ ہرگز شامل نہیں ، بلکہ یہیں احباب قادیانیوں کے بارے میں میری آراء پر بھی ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں ۔ٹھیک ہے بھائی، شیعوں کو آپ ایک دفعہ نہیں دس دفعہ غیر مسلم سمجھیے۔ نیز یہ بھی آپ کے بقول مان لیا کہ شیعوں اور سنیوں کے بیچ میں ایسی وسیع دیوار موجود ہے جسے غیر سیکولر طبع حضرات کے لیے نادیدہ چھوڑنا ناممکن ہے۔ لیکن کم سے کم شیعوں کو برابر کے شہری حقوق رکھنے والے پاکستانی تو سمجھیے جنہیں اپنے عقائد سے قطعِ نظر اس جنونستان بنتے پاکستان میں اپنی زندگی گزارنے کا پورا حق ہے۔ اور یہ اہلِ قلم حضرات کم سے کم ایسے عذرِ لنگ تو نہ تراشیں کہ حالیہ جارحیت میں بھی یہ شیعہ اپنے ہی افعال و عقائد کا نتیجہ بھگت رہے ہیں۔
میرے رائے بڑی واضح ہے ، بہرحال جب آپ مزید گفتگو کی خواہش ہی نہیں رکھتے تو آپ کی غلاظت و جھوٹ والی رائے کم از کم میرے لئے بے معنی ہے۔آپ کی رائے شائد صاحب تحریر سے ملتی جلتی ہوگی، اس لئے آپ کو کوئی جھوٹ نظر نہیں آتا۔ اس پر میں مزید بحث نہیں کروں گا۔
یہ داغ پاکستانی اکثریت کی نظر میں ماتھے کا جھومر ہے ، اور پاکستان ایک جمہوری ملک ہے ۔ بہرحال یہ ایک اور "کٹا" ہے جسے نہ کھولیں تو بہتر ہے۔ہاں، بحیثیت قوم یہ بھی ہمارے ماتھے پر بدنما داغ ہے۔
مذہب انسان کی ضرورت ہے اس ختم نہیں کیا جا سکتا ۔ پچھلے دنوں ایک بے دین کی رائے پڑھنے کو کہیں ملی جس میں موصوف اس خدشے کا اظہار کر رہے تھے کہ بے دینی بھی عنقریب ایک مذہب کی شکل اختیار کر لے گی۔میں نے سوچا تھا پہلے فرقے پھر مذاہب ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
مجھے بھی یہی لگتا ہے پر انجام کا پتا نہیں ہے ابھیمذہب انسان کی ضرورت ہے اس ختم نہیں کیا جا سکتا ۔ پچھلے دنوں ایک بے دین کی رائے پڑھنے کو کہیں ملی جس میں موصوف اس خدشے کا اظہار کر رہے تھے کہ بے دینی بھی عنقریب ایک مذہب کی شکل اختیار کر لے گی۔
میں مجرم سے زیادہ اسباب جرم پر توجہ کا قائل ہوں تاکہ شاخیں کترنے کی بجائے موذی درخت کا جڑ سے خاتمہ ہو ، ۔
خدا کا شکر ہے کہ احمدیوں پر جبر کے داغ کو میں اپنے ماتھے کا جھومر نہیں سمجھتا۔یہ داغ پاکستانی اکثریت کی نظر میں ماتھے کا جھومر ہے۔
تو منگول کیا اس قوم کا حصہ نہیں ہیں؟ تیمور، غزنوی وغیرہ سب کے سب منگول - ترک تھے اور انہوں نے ہی برصغیر میں اردو زبان کی بنیاد ڈالی!تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی شکلیں منگولوں سے ملتی جلتی ہیں اور بہت آسانی سے ان کی شناخت کی جا سکتی ہے اور کوئٹہ میں ان کی آبادی بھی چند ایک جگہوں پر مرکوز ہے۔
یہی تو سیکولر ازم کی ضد ہے جو مذہبی جنونیوں کے نزدیک کباب میں ہڈی بن چکی ہے۔ مغربی اسکیولرازم میں ریاست کے تمام شہریوں کیلئے یکساں حقوق و فرائض ہوتے ہیں بے شک اس شہری کا کوئی سا بھی مذہب ہو۔ مذہبی جنونی سیکولرازم کی اسی فراست کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔لیکن کم سے کم شیعوں کو برابر کے شہری حقوق رکھنے والے پاکستانی تو سمجھیے جنہیں اپنے عقائد سے قطعِ نظر اس جنونستان بنتے پاکستان میں اپنی زندگی گزارنے کا پورا حق ہے۔
مذہب انسان کی ضرورت نہیں۔ مغرب اور مشرق کی پیشر آبادی بڑی خوشحالی کیساتھ بغیر کسی مذہب کے زندگی گزار رہی ہے۔ نہ انکے شہروں میں مذہب کے نام پر دہشت گردی ہوتی ہے، نہ باردو اور گولیوں کی بوچھاڑ ہوتی اور نہ ہی ٹارگٹ کلنگز۔ کیوں یہاں سیکولر ازم ہے اور ہر شہری مذہبی جنونیوں کی رٹ سے آزاد زندگی گزارتا ہے۔ بے دینی کوئی مذہب نہیں ہے۔ بے دینی کا مطلب بغیر کسی مذہب یا عقائد کے اپنی زندگی گزارنا ہے۔ اس سے زیادہ اسکا کوئی مقصد نہیں۔ بے دین لوگ نمازیں نہیں پڑتے، گرجا گھر نہیں جاتے، مذہبی تہوار نہیں مناتے۔ لیکن ان سب غیر مذہبی کاموں کے باوجود وہ لوگ ریاست کے تمام تر سیکولر قوانین کے پابند ہوتے ہیں، جیسے رشوت نہیں لیتے، چوری کا مال نہیں کھاتے، ٹیکس ادا کرتے ہیں وغیرہ۔ یہی بے دین ریاست ہے۔ اسکا مطلب یہ نہیں کہ یہ کوئی ’’مذہب‘‘ ہے!مذہب انسان کی ضرورت ہے اس ختم نہیں کیا جا سکتا ۔ پچھلے دنوں ایک بے دین کی رائے پڑھنے کو کہیں ملی جس میں موصوف اس خدشے کا اظہار کر رہے تھے کہ بے دینی بھی عنقریب ایک مذہب کی شکل اختیار کر لے گی۔
نہیں لڑائی تب شروع ہوئی تھی جب ایک عقیدہ کے لوگوں نے دوسرے عقیدے کو لوگوں کو جھٹلانا شروع کیا۔ جیسے عیسائیوں نے یہودیوں کو جھٹلایا، مسلمانوں نے یہودیوں، ہندوؤں، بدھمتوں، سیکھوں اور عیسائیوں کو جھٹلایا، اور بالآخر ملحدوں نے ان سب مذاہب کے پیروکاروں کو جھٹلا دیا۔ ایک تیر سے سب شکار!عقیدہ رکھنا ویسے نیا جرم نہیں ہے لڑائی تب شروع ہوئی تھی جب پہلی بار دوسرا عقیدہ بنا تھا کچھ ایسے
تو منگول کیا اس قوم کا حصہ نہیں ہیں؟ تیمور، غزنوی وغیرہ سب کے سب منگول - ترک تھے اور انہوں نے ہی برصغیر میں اردو زبان کی بنیاد ڈالی!