کوئٹہ۔ تین بم دھماکے ، 68 افراد ہلاک ، 200 زخمی

arifkarim

معطل
کوئٹہ کو فوج کے حوالے کیا جا رہا ہے ۔ 12ویں کور کے کور کمانڈر لیفٹینٹ جنرل عالم خٹک کو آرڈر ملتے ہی 33 ویں یا 41 انفنٹری ڈویزن کے دستے شہر کا کنٹرول منٹوں میں سنبھال لیں گے ۔ لگتا ہے عوام نے جی بھر کے مزہ چکھ لیا جمہوریت کا ۔
یہ مزہ مغربی جمہوریت میں کیوں نہیں آتا؟ یہ نظام کا مسئلہ ہے نہ کہ جمہوریت کا! افواج پاکستان نے بھی جو 1970 میں بنگالیوں کیساتھ ’’مسخرہ پن‘‘ کیا تھا جسکا نتیجہ ہمیں سقوط ڈھاکہ کیساتھ بھگتنا پڑا!
 

شمشاد

لائبریرین
ابھی تک تو کوئی ایسی خبر نہیں کہ کوئٹہ کو فوج کے حوالے کر دیا گیا ہو؟

عمران تمہاری خبر کا سورس کیا ہے؟
 

شمشاد

لائبریرین
ابھی کی تازہ ترین خبر یہ ہے کہ کوئٹہ میں کسی بھی وقت گورنر راج نافذ ہو سکتا ہے۔ وفاقی حکومت اس بات پر غور کر رہی ہے۔
 

arifkarim

معطل
ابھی تک تو کوئی ایسی خبر نہیں کہ کوئٹہ کو فوج کے حوالے کر دیا گیا ہو؟

عمران تمہاری خبر کا سورس کیا ہے؟

زورداری کے ہوتے ہوئے بھلا فوج کیسے اتنی آسانی سے کوئٹہ شہر کا چارج سنبھال سکتی ہے؟ تین دھماکوں اور دو دن سے جان بحق ہونے افراد کے لواحقین سمیت دھرنے کے باوجود بھی اگر اس ’’جمہوریت‘‘ میں کوئی واضح تبدیلی نہیں ہوتی تو سمجھ لیں کہ یہ لانگ مارچ تحریر اسکوائیر ہی بنے گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
کراچی میں گزشتہ دو گھنٹوں کے دوران مختلف جگہوں پر تین ٹرکوں کو نذر آتش کر دیا گیا۔
ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی لیکن خبروں کے مطابق پولیس متحرک ہو چکی ہے۔
 

arifkarim

معطل
کراچی لنڈا بازار میں آتشزدگی
یہ بھی دہشت گردی کی واردات لگتی ہے۔
18 کروڑ کی آبادی والے ملک میں جہاں خود حکمران بکتر بند بلٹ پروف گاڑیوں میں پھرتے ہیں وہاں عوام کی حفاظت کی گیرینٹی کون دے گا؟ جس شہر میں میں رہتا ہوں یہاں میئر اور ملک کا وزیر اعظم سڑکوں پر عام عوام الناس کیساتھ بغلگیر ہو کر پھرتے ہیں اور انکی آمد پر عوام کا ہجوم اکٹھا نہیں ہوتا کیونکہ یہی حقیقی جمہوریت ہے کہ لیڈر عوام ہوتی ہے۔
مزید یہ کہ یہاں کے حکمران پبلک ٹرانسپورٹ یعنی بس اور ٹرینیں وغیرہ استعمال کرکے ماحول کی خدمت کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو حکمران کہنا حاکم کی تذلیل ہے۔
ناورے کا وزیر اعظم ٹیوب میں اپنے بچوں کے ہمراہ سفر کرتے ہوئے:
 

ساجد

محفلین
میں نے کاشفی بھائی کی آبادی کے حوالے سے معلومات کو غلط قرار دیا تھا۔ باقی نسلی تضادات اور اس کی بنیاد پر تشدد کے واقعات میں بھی کمی نہیں آئی۔ ایک عام تاثر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ صوبے میں جاری بلوچ تحریک کو دبانے یا توجہ ہٹانے کے لئے فرقہ وارانہ دہشتگردی کو ہوا دی جارہی ہے ۔


بلوچستان کے ساتھ بلاشبہ زیادتیاں ہوئی ہیں اور ہورہی ہیں ۔ اس میں وفاق کے ساتھ ساتھ خود صوبے کے سیاستدانوں اور نام نہاد عوامی نمائندوں کا بھی ہاتھ ہے ۔ ہمارے نمائندے بد عنوان ، لٹیرے اور عوام کے ساتھ مخلص نہیں۔ بلوچستان کی موجودہ حکومت کا گزشتہ دو سالوں کا بجٹ ساڑھے تین سو ارب روپے سے زائد تھا لیکن بمشکل 20 ارب روپے بھی عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ نہیں ہوئے ہوں گے ۔ باقی شہروں کو چھوڑیے کوئٹہ کی سڑکوں کی حالت ایسی ہے کہ ان پر گاڑی چلانا عذاب سے کم نہیں ۔

نئے سال کے پہلے عشرے میں کوئٹہ اور صوبے میں ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں میں ڈیڑھ سو سے زائد افراد ہلاک اور ڈھائی سو سے زائد زخمی ہوئے ہیں لیکن وزیراعلیٰ صاحب سات جنوری سےلندن اور دبئی میں بیٹھے ہیں۔ ویسے بھی ملک میں ہوتے ہوئے وزیراعلیٰ صاحب کم ہی کوئٹہ آتے ہیں۔ اب وزیراعلیٰ کے ترجمان نے بیان جاری کیا ہے کہ وہ علاج کی غرض سے ملک سے باہر ہیں لیکن اندرونی کہانی یہ بتائی جارہی ہے کہ وہ ریکودک منصوبے پر غیر ملکیوں کے ساتھ لین دین کے لیے بیرون ملک موجود ہیں۔
حقوق کی جنگ کی جہاں تک بات ہے بلوچ مسلح تنظیمیں جو بلوچستان کے عوام کے حقوق کی جنگ لڑنے کی دعوے دار ہیں اپنے مقصد کے حصول سے ہٹ چکی ہیں ۔یہ جنگ اب خود بلوچوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ مستونگ، خضدار، قلات، آواران، خاران، گوادر، تربت اور پنجگور میں خانہ جنگی کی صورتحال ہے ۔ بلوچ بلوچ کو مار رہا ہے ۔ ریاست اورمسلح تنظیموں کی جنگ نے صوبے کی تعلیم، معیشت ، سیاحت ، تجارت اور ہر شعبے کو متاثر کیا ہے ۔ جامعہ بلوچستان کے پرو وائس چانسلر اور ایک خاتون پروفیسر سمیت کئی اساتذہ کو قتل کیا گیا جس کے بعد درجنوں پی ایچ ڈی اساتذہ بلوچستان چھوڑ گئے اب جامعہ میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ نہیں مل رہے ۔ بلوچ علاقوں میں درجنوں سکول بند ہیں،وہاں اساتذہ نہیں مل رہے ۔ حتیٰ کہ پنجگور کا ایک دوست بتارہا تھا کہ وہاں حجام کی ایک دکان اب کھلی نہیں ملتی ۔ مقامی حجام ملتے نہیں اور غیر بلوچ مزدور شہر چھوڑ گئے ہیں ، شہر کے لوگوں کو حجامت کے لیے بھی دوسرے شہروں کو جانا پڑتا ہے ۔ اسی طرح دو ہزار بارہ کے آخری مہینوں میں خضدار شہر دو بلوچ مسلح تنظیموں کی جنگ کی وجہ سے تیس سے چالیس دن تک مسلسل بند رہا مستونگ شہر میں ایک ایک ہفتے تک بھی ہڑتال رہتی ہے ۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مسلح تنظیموں نے سب سے زیادہ نقصان اپنے بلوچوں کو پہنچایا ہے انہیں ہر شعبے میں پچاس سال پیچھے دھکیل دیا ہے
زین ، اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر دے۔ بہت درست بات کہی آپ نے ۔ اگر بلوچستان کی ترقی کے لئے مہیا کئے گئے فنڈز کا درست استعمال کیا جاتا تو آج یہ حالت نہ ہوتی ۔
کبھی کبھار بلوچستان کے اندرونی حالات پر لکھتے رہا کریں تا کہ ہواؤں میں تلواریں چلانے والوں کو ان کی غلط سمت کا اندازہ کروایا جا سکے۔ آپ کی معلومات مستند ہوتی ہیں۔
 

صرف علی

محفلین
السلام علیکم
ام نور العین آپ کے اس جواب کے لئے صرف یہ وڈیو ہے ۔
کوڈ:
    سلفی یا اہل حدیث علماء نے کبھی شیعہ کی تکفیر نہیں کی نہ انہیں واجب القتل قرار دیا ، نہ ہی بم دھماکوں کو کبھی جائز قرار دیا ۔ آپ کی اس غیر ذمہ دارانہ گفتگو سے مزید نفرت تو پھیل سکتی ہے دین و وطن کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا ۔ خدارا اتنے سانحات کے بعد تو اختلافات کے ساتھ مل کر جینے کا قرینہ سیکھنے کی بات کریں ۔

 

ملائکہ

محفلین
آج کا دن کوئٹہ کے باسیوں کے لیے بہت بدنصیب اور برا دن تھا۔ آج شہر میں تین بم دھماکوں میں 68 زندگیوں کے چراغ گل کردیئے گئے ، 200 سے زائد معذور ہوگئے

ہمارا ایک ساتھی فوٹو گرافر جو میرا ہمعمر تھا لقمہ اجل بن ہے ۔ تین زخمی دو لاپتہ ہیں جن میں سے سماء ٹی وی کے کیمرہ مین عمران شیخ کا کہہ رہے ہیں وہ بھی جاں بحق ہوچکے ہیں لیکن اب تک ان کی لاش نہیں ملی ہے ۔

عمران شیخ سے آج صبح ہی میری ملاقات ہوئی تھی۔ دو دن پہلے پندرہ دنوں کی چھٹیوں کے بعد ڈیوٹی جوائن کی تھی۔

بہت مشکل سے یہ چند جملے لکھے ہیں ، مقصد اپنی خیریت سے آگاہ کرنا ہے ۔

زین بس آیت الکرسی پڑھ کر نکلا کرو اور اپنا بھی دھیان رکھا کرو۔۔۔۔
 

زین

لائبریرین
زین ، اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر دے۔ بہت درست بات کہی آپ نے ۔ اگر بلوچستان کی ترقی کے لئے مہیا کئے گئے فنڈز کا درست استعمال کیا جاتا تو آج یہ حالت نہ ہوتی ۔
کبھی کبھار بلوچستان کے اندرونی حالات پر لکھتے رہا کریں تا کہ ہواؤں میں تلواریں چلانے والوں کو ان کی غلط سمت کا اندازہ کروایا جا سکے۔ آپ کی معلومات مستند ہوتی ہیں۔
ساجد بھئی ۔ حقیقت یہ ہے کہ میں خبر تو بناسکتا ہوں لیکن تحریر میں ہمیشہ کمزور رہا ہوں۔ میری تحریر بے ربط ہوتی ہے ۔ پھر اسلام آباد، کراچی اور لاہور میں بیٹھ کر مسئلے کے فریقین بالخصوص مسلح تنظیموں کو ہدف تنقید بنانا آسان ہے لیکن بلوچستان میں بیٹھ کر یہاں کے حالات کے بارے میں کھل کر لکھنا بہت مشکل ہے ۔ مسلح تنظیمیں ’’شہید‘‘ اور ’’ہلاک‘‘ لفظ ان کی مرضی سے استعمال نہ کرنے پر بھی جان سے ماردیتی ہیںِ۔
ہمارے ایک سینئر صرف ایڈیٹر کی غلط سرخی کی وجہ سے مارے گئے ۔ تفصیل یوں ہے کہ بلوچ تحریک کے سرخیل نواب خیر بخش مری کے صاحبزادے بالاچ مری کی افغانستان میں ہلاکت اور نامعلوم مقام پر تدفین پر انہوں نے ’’اخبار جہاں‘‘ میں تحریر لکھی جس میں کوئی متنازعہ بات نہیں تھی لیکن ایڈیٹر نے سرخی جمائی ’’دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں‘‘

مثلاً جنگ گروپ کے ہفت روزہ اخبارِ جہاں میں قوم پرست رہنما بالاچ مری کی موت پر کوئٹہ سے نامہ نگار ڈاکٹر چشتی مجاہد کی دو ہزار آٹھ میں جو رپورٹ شائع ہوئی بظاہر اس میں کوئی بات متنازعہ یا اشتعال انگیز نہیں تھی ۔لیکن کراچی میں بیٹھے کسی سب ایڈیٹر نے ان کے مضمون پر یہ سرخی جما دی کہ’دو گز زمین بھی نا ملی کوئے یار میں‘۔ڈاکٹر صاحب کے کچھ صحافی دوست آج تک سمجھتے ہیں کہ یہ سرخی چشتی مجاہد کو خون میں نہلا گئی۔ان کی موت کی زمہ داری بی ایل اے نے قبول کر لی۔
بی بی سی کے وسعت اللہ خان کی تحریر سے اقتباس
 

ملائکہ

محفلین
ساجد بھئی ۔ حقیقت یہ ہے کہ میں خبر تو بناسکتا ہوں لیکن تحریر میں ہمیشہ کمزور رہا ہوں۔ میری تحریر بے ربط ہوتی ہے ۔ پھر اسلام آباد، کراچی اور لاہور میں بیٹھ کر مسئلے کے فریقین بالخصوص مسلح تنظیموں کو ہدف تنقید بنانا آسان ہے لیکن بلوچستان میں بیٹھ کر یہاں کے حالات کے بارے میں کھل کر لکھنا بہت مشکل ہے ۔ مسلح تنظیمیں ’’شہید‘‘ اور ’’ہلاک‘‘ لفظ ان کی مرضی سے استعمال نہ کرنے پر بھی جان سے ماردیتی ہیںِ۔
ہمارے ایک سینئر صرف ایڈیٹر کی غلط سرخی کی وجہ سے مارے گئے ۔ تفصیل یوں ہے کہ بلوچ تحریک کے سرخیل نواب خیر بخش مری کے صاحبزادے بالاچ مری کی افغانستان میں ہلاکت اور نامعلوم مقام پر تدفین پر انہوں نے ’’اخبار جہاں‘‘ میں تحریر لکھی جس میں کوئی متنازعہ بات نہیں تھی لیکن ایڈیٹر نے سرخی جمائی ’’دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں‘‘


بی بی سی کے وسعت اللہ خان کی تحریر سے اقتباس

:( افففف اللہ:cry: زین جاب بدل لو۔۔۔۔
 

زین

لائبریرین
زین بس آیت الکرسی پڑھ کر نکلا کرو اور اپنا بھی دھیان رکھا کرو۔۔۔ ۔
موت کا وقت مقرر ہے لیکن احتیاط بہرحال لازم ہے ۔ سیف الرحمان بھائی چار بجے ہونےوالے دھماکے کے بعد میرے ساتھ سول ہسپتال میں تھے لیکن رات کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کل ہی کی بات ہے کہ گولیمار چوک پر پندرہ سالہ لڑکا گھر سے روٹی لینے کے لئے نکلا اور گھر کے قریب ہی سڑک کنارے بم پھٹنے سے ہلاک ہوگیا۔
 
Top