الم
محفلین
میری پیدائش چونکہ کوئٹہ میں ہوئی تھی اور اپنا بچپن وہیں گزرا تو وہاں کی یادیں ہمیشہ ساتھ رہتی۔ اب چونکہ وہاں سے کتنے سال ہو گئے چھوڑے لیکن پھر بھی اسکی خوب صورتی اور صفائی یاد آتی۔۔اوپر سے آنکھیں اشکوں سے بھر جاتی جب بھی کوئٹہ کے موجودہ حالات دیکھتے کہ اتنے ہنستے بستے امن والے شہر کو ناجانے کس کی نظر لگ گئی۔۔۔خیر میں نے مختلف جگہوں سے کوئٹہ کی اور کچھ گردونواح کی تصاویر اکھٹی کی سوچا آپ کو سیر کرائی جائے۔ پہلے آپکو تھوڑا اس شہر کے بارے میں بتاتا بلکہ ویکیپیڈیا سے ہی نقل کرتا ہوں۔۔
کوئٹہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کا صدر مقام اور سب سے بڑا شہر ہے۔ کوئٹہ کا نام ایک پشتو لفظ سے نکلا ہے جس کے لغوی معنیٰ 'قلعہ' کے ہیں۔ کوئٹہ شہر سطح سمندر سے تقریباً 1700 میٹر سے 1900 میٹر کی بلندی پر واقع ہے اور اپنے بہترین معیار کے پھلوں کی پیداوار کے لیے مشہور ہے۔ یہ بنیادی طور پر خشک پہاڑوں میں گھرا ہوا شہر ہے جہاں سردیوں میں شدید سردی اور برف باری ہوتی ہے۔
ابتدائی تاریخ
کوئٹہ شال کوٹ ایک پرانا شہر ہے جس کے نام کا لغوی معنیٰ 'قلعہ' کے ہیں۔ خیال ہے کہ یہ نام کسی قلعہ کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے پڑا کہ کوئٹہ چاروں طرف سے پہاڑوں سے گھرا ہوا شہر ہے جس سے وہ ایک قدرتی قلعہ ہے۔ اس کے اطراف میں جو پہاڑ ہیں ان کے نام چلتن، زرغون اور مہردار ہیں۔ سب پہاڑ بنیادی طور پر خشک ہیں۔ کوئٹہ قدیم شہر ہے جس کے وجود کا ثبوت چھٹی صدی عیسوی سے ملتا ہے۔ اس وقت یہ ایران کی ساسانی سلطنت کا حصہ تھا۔ ساتویں صدی عیسوی میں جب مسلمانوں نے ایران فتح کیا تو یہ اسلامی سلطنت کا حصہ بن گیا۔ گیارہویں صدی عیسوی میں محمود غزنوی کی فتوحات میں کوئٹہ کا ذکر ملتا ہے۔ اس کے بعد ایک خیال کے مطابق کانسی قبیلہ کے افراد نے تخت سلیمان سے آکر کوئٹی میں بڑی تعداد میں سکونت اختیار کی۔ 1543ء میں مغل شہنشاہ ہمایوں جب شیر شاہ سوری سے شکست کھا کر ایران کی طرف فرار ہو رہا تھا تو یہاں کچھ عرصہ قیام کیا تھا اور جاتے ہوئے اپنے بیٹے اکبر کو یہیں چھوڑ گیا جو دو سال تک یہیں رہا۔ 1556ء تک کوئٹہ مغل سلطنت کا حصہ رہا جس کے بعد ایرانی سلطنت کا حصہ بنا۔ 1595ء میں دوبارہ شہنشاہ اکبر نے کوئٹہ کا اپنی سلطنت کا حصہ بنا لیا۔ 1730ء کے بعد یہ ریاست قلات میں شامل رہا۔ 1828ء میں ایک یورپی مسافر کے مطابق کوئٹہ کے اردگرد مٹی کی ایک بڑی دیوار تھی جس نے اسے ایک قلعہ کی شکل دے دی تھی اور اس میں تقریباً تین سو گھر آباد تھے۔ 1828ء اور اس کے بعد کوئٹہ کا جائزہ لینے کے لیے کئی انگریز مسافر کوئٹہ آئے جن کا مقصد انگریزوں کو معلومات مہیا کرنا تھا۔ 1839ء کی پہلی برطانوی و افغان جنگ کے دوران انگریزوں نے کوئٹہ پر قبضہ کر لیا۔ 1876ء میں اسے باقاعدہ برطانوی سلطنت میں شامل کر لیا گیا اور رابرٹ گروو سنڈیمن کو یہاں کا نمائندۂ سیاسی (پولیٹیکل ایجنٹ) مقرر کیا گیا۔ اس دوران ہزارہ قبائل کے افراد بڑی تعداد میں کوئٹہ میں آباد ہوئے۔ انگریزوں نے کوئٹہ کو ایک فوجی اڈہ میں تبدیل کر دیا چنانچہ اس دور میں کوئٹہ کی آبادی میں کافی اضافہ ہوا جو 1935ء کے مشہور زلزلہ تک جاری رہا۔
بیسویں صدی اور کوئٹہ کا زلزلہ
1876 ء میں کوئٹہ شال کوٹ کو باقاعدہ برطانوی سلطنت میں شامل کر لیا گیا۔ اس دوران ہزارہ قبائل کے افراد بڑی تعداد میں کوئٹہ میں آباد ہوئے۔ انگریزوں نے کوئٹہ کو ایک فوجی اڈہ میں تبدیل کر دیا چنانچہ اس دور میں کوئٹہ کی آبادی میں کافی اضافہ ہوا جو 1935ء کے مشہور زلزلہ تک جاری رہا۔ 31 مئی 1935ء کو کوئٹہ میں ایک بڑا زلزلہ آیا جس نے پورے شہر کو آناً فاناً مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کردیا اور ایک اندازہ کے مطابق 40،000 افراد چند دقیقوں میں ہلاک ہو گئے۔ اس قیامت خیز زلزلہ نے کوئٹہ کو بالکل تباہ کر دیا اور شہر میں کوئی عمارت نہ چھوڑی۔ یہ زلزلہ رچرڈ کے معیار کے مطابق 7.1 کی شدت کا تھا۔ اس کا شمار جنوبی ایشیاء کی تاریخ کے چار بڑے ترین زلزلوں میں کیا جاتا ہے جس کے بغیر کوئٹہ کی تاریخ نامکمل ہے۔ اس زلزلہ کے بعد کوئٹہ کی تعمیرِ نو ہوئی مگر تمام عمارات یک منزلہ تھیں۔ اس کے علاوہ برطانوی لوگوں نے چونکہ اپنے فوجی اڈے افغانستان کی سرحد کے ساتھ بنا لیے تھے اس لیے انہوں نے کوئٹہ کی تعمیرِ نو میں کوئی دلچسپی نہ لی۔ لیکن کوئٹہ چونکہ افغانستان اور ایران کے تجارتی راستے پر تھا اس لیے آہستہ آہستہ اس نے اپنی حیثیت دوبارہ مستحکم کر لی۔ اس کی تجارت افغانستان کے ساتھ چمن کے راستے اور ایران کے ساتھ نوشکی، دالبندین اور تفتان کے راستے دوبارہ شروع ہو گئی۔آزادی کے بعد1947ء میں پاکستان کی آزادی کے بعد کوئٹہ بلوچ علاقے کا صدر مقام تھا۔ بعد میں جب بلوچستان کو صوبہ بنایا گیا تو اس کی یہ حیثیت برقرار رہی۔ یہ اپنی پھلوں کی تجارت اور کرومائیٹ کی کانوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ سطح سمندر سے 5000 فٹ کی بلندی پر ہونے کی وجہ سے پرفضا مقام ہے اور سیاحت نے بڑی ترقی کی ہے۔ خصوصاً زیارت، جو کوئٹہ سے قریب ہے، پاکستان کے پہلے گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح کا پسندیدہ مقام تھا۔ صوبائی دارالحکومت ہونے کی وجہ سے بہت سے دفاتر قائم ہوئے ہیں اور صوبائی اسمبلی بھی متحرک رہتی ہے۔ 1979ء کے افغان مسئلہ کے بعد ہزاروں کی تعداد میں افغان مہاجرین کی آمد نے شہر کی شکل بدل دی اور جرائم کو فروغ دیا۔ آبادی میں اس اضافہ کی وجہ سے کوئٹہ بہت پھیل گیا ہے اور شہر کے اردگرد کافی نئی آبادیوں نے جنم لیا ہے۔ یہ پاکستان کا نواں بڑا شہر ہے جس کی ابادی چھ لاکھ کے قریب ہو چکی ہے (اس میں افغان مہاجرین شامل نہیں)۔ کوئٹہ کو پاکستان کے دیگر علاقوں سے ملانے کے لیے 1600 کلومیٹر طویل ریلوے لائن موجود ہے۔ اس کے علاوہ ایران کے شہر زاھدان سے ایک ریلوے لائن ملاتی ہے۔ کراچی اور کوئٹہ کے درمیان ایک سڑک براستہ سبی، جیکب آباد و سکھر پہلے موجود تھی۔ ایک نئی سڑک کوئٹہ کو براستہ مستونگ، قلات، خضداراور لسبیلہ ملاتی ہے۔ بہاولپور اور ملتان کے لیے بھی براستہ سڑک اچھے راستے موجود ہیں۔ کوئٹہ کی اہمیت پاکستان میں گوادر کی بندرگاہ کی تعمیر کے بعد بڑھ گئی ہے اور استعماری طاقتوں نے اسے اپنی سازشوں کا گڑھ بنا لیا ہے۔موسمیہاں گرمیوں میں شدید گرمی (46 ڈگری سینٹی گریڈ تک) اور سردیوں میں میں شدید سردی (-25 ڈگری سینٹی گریڈ تک) پڑتی پے۔