کوئی اچھا سا جملہ یا اقتباس - ایک تجویز

نور وجدان

لائبریرین
بے خودی ۔ ۔ ۔ ۔ ایسے لمحات جب انسان کا کنیکشن دکھوں ، پریشانیوں اور تفکرات سے ٹوٹ جاتا ہے ۔ جب دنیا میں ہونے کے باوجود آفاقی احساسات ہوں ، جب سرور ،سکوت اور سکون کی کیفیت اپنی لپیٹ میں لے لے ۔جب تمنائیں ، خواہشات اور آرزوئیں بھسم ہو جائیں ، ماضی ،مستقبل اور حتیٰ کہ حال بھی منظر سے غائب ہو جائے ، خاموشی ، گہری خاموشی ۔ ۔ ۔ روح سیراب ہو جائے جیسے بارش سے زمین ہو جاتی ہے ۔ ۔ وہ لمحے شائد ہزاروں سال کی تپسیا کے بعد نصیب ہوتے ہیں یا شائد جن پر نظر کرم ہو جاتی ہے ۔ ۔ ۔ یا شائد جن کے نفس کی کثافتیں دھل جاتی ہیں اور روح پاکیزہ پاکیزہ ، معطر معطر ہو جاتی ہے ۔ ۔ دل پاک پاک ، کسی بچے کی مسکراہٹ جیسا ۔ ۔ ۔

ایسے لمحوں کی چاہ کیسے نہ کی جائے ؟

بقول میر ،

بے خودی لے گئ کہاں ہم کو
دیر سے انتظار ہے اپنا ۔ ۔ ۔

فرح ظفر​
 
لو جی فیر۔۔۔جملہ لبھیا جے
۔۔
کچھ لوگوں کے لیے مصروف زندگی سے وقت نکالنا پڑتا ہے اور کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں دل سے نکالنے کے لیے زندگی کو مصروف کرنا پڑتا ہے
 

وقار..

محفلین
زندگی سے موت تک کئی راستے ہیں ، جس راستے پر بھی پڑ جاؤ اس میں کچھ راحتیں ہوتی ہیں اس میں کچھ تکلیفیں پیش آتی ہیں۔ کچھ اس راہ پر چلنے کے لئے تمغے ہوتے ہیں اور کچھ قیمتیں ادا کرنی پڑتی ہیں در اصل کوئی راہ اختیار کر لو ۔۔۔۔۔۔ کسی راستے پر پڑ جاؤ، وقفہ اتنا لمبا ہے کہ مسافر کا سانس اکھڑے ہی اکھڑے۔۔
- راجہ گدھ سے اقتباس
 
ہر نسل کا حق ہے کہ وہ اپنی سوچیں بزرگوں سے مخفی رکھے کہ بزرگ اُن سوچوں کی تاب نہیں لا سکتے۔ اُن کا ادراک نہیں رکھتے۔ نہیں رکھ سکتے کہ اُن کی مٹّی مختلف ہوتی ہے، وہ کسی اور بھٹی کے پکے ہوتے ہیں۔ ہر نسل اپنی بھٹی میں اپنی آگ اور تجربوں میں پکتی ہے اور وہ اپنے تجربے اپنے نتائج کو آئندہ نسل پر لاگو نہیں کر سکتی۔ اور اسی کو ارتقا کہتے ہیں

( مستنصر حسین تارڑ ۔ سفر نامے "چترال داستان " سے اقتباس )
 
ہر نسل کا حق ہے کہ وہ اپنی سوچیں بزرگوں سے مخفی رکھے کہ بزرگ اُن سوچوں کی تاب نہیں لا سکتے۔ اُن کا ادراک نہیں رکھتے۔ نہیں رکھ سکتے کہ اُن کی مٹّی مختلف ہوتی ہے، وہ کسی اور بھٹی کے پکے ہوتے ہیں۔ ہر نسل اپنی بھٹی میں اپنی آگ اور تجربوں میں پکتی ہے اور وہ اپنے تجربے اپنے نتائج کو آئندہ نسل پر لاگو نہیں کر سکتی۔ اور اسی کو ارتقا کہتے ہیں

( مستنصر حسین تارڑ ۔ سفر نامے "چترال داستان " سے اقتباس )
غیر متفق
ارتقا پرانے تجربے سے نتائج اخذ کرکے نئی راہ تلاشنے کو کہتے ہیں
 

جاسمن

لائبریرین
یہاں کے محفلین کس اعلیٰ ذوق اور میعار کے ہیں ( بلا شبہ ..اس میں کوئی دو رائے نہیں )..جاننے والے جانتے ہیں اور جو نہیں جانتے وہ جان جاتے ہیں ... یہ ذوق اور معیار یقیناً . . ان کے مطالعہ کا بھی آینہ دار ہوتا ہے اسی مناسبت سے تجویز یہ تھی کے اگر آپ کچھ پڑھ رہے ہوں یا پڑھ چکے ہوں تو اس میں کوئی جملہ یا کوئی اقتباس جو آپ کو بہت اچھا لگا ہو ذہن میں رہ گیا ہو . . یہاں محفل میں شئر کریں ...ایک تحریک بھی ملے گی مذکورہ جملے یا اقتباس کے حامل مصنف کو پڑھنے کی اور ہمارے علم میں بھی اضافہ ہوگا ....

آپ کے response کا منتظر . . .
اور بسا اوقات کوئی اچھی بات ہماری زندگی کی کسی گتھی کو سلجھا دیتی ہے ،ہمیں عمل کے لیے ایک تحریک مل جاتی ہے۔
جزاک اللہ خیرا۔
 

جاسمن

لائبریرین
کسی دانشور نے سچ ہی کہا ہے ۔زندگی دو ہی دن کی ہے۔
ہفتہ اور اتوار
باقی دن تو بندہ ذلیل ہی ہوتا ہے۔
بشکریہ فیس بک
 

فاخر رضا

محفلین
یہاں ساری عمر لوگوں کو راضی کرنے اور رکھنے میں کھپا دی جاتی ہے۔۔۔۔ بندہ تو مخلوق ہے اس نے آپ کو کیا دیا|عطا کیا ہے جو وہ راضی ہو۔ راضی تو وہ ہو جس نے عطا کیا اور اس کی عطا پر اس کا شکر بجا لایا جائے اور اس کا اظہار عملا اس کے احکام کی پیروی کر کے کیا جا سکتا ہے۔ رب کی رضا اس کی مخلوق کی بلا امتیاز خدمت میں ہے۔ ہاں انسان کو اس نے خود شرف دیا ہے تو اس اعتبار سے انسان کو فوقیت دی جا سکتی ہے۔ لہذا مخلوق کو راضی کرنے کی بجائے، رضائے مولا کے لیے مخلوق کی خدمت کر کے اسے خوشی دی جائے۔۔۔۔۔۔

جہاں تک اس بات کے مشکل ہونے کا تعلق ہے۔ تو جب کبھی میں یہ جملہ بول دوں تو قبلہ والد محترم ارشاد فرماتے ہیں۔ بیٹا کس نے کہا مشکل ہے۔ اس پر وہ یہ واقعہ اکثر سنایا کرتے ہیں۔۔۔

"حضرت بایزید بسطامی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا آپ نے یہ مقام کیسے حاصل کیا، آپ فرماتے ہیں ایک دن میری والدہ نے رات کو پانی مانگا میں نے دیکھا تو گھڑا خالی تھا۔ سردی کی یخ بستہ رات تھی، لیکن میں پانی لینے نہر پہ چلا گیا واپس آیا تو والدہ سو چکی تھیں۔ میں پیالہ ہاتھ میں تھامے وہیں کھڑا رہا کہ ناجانے کب ان کی دوبارہ آنکھ کھلے اور پانی مانگیں اور میں سو نہ جاؤں۔ آپکی والدہ کی جب آنکھ کھلی اور یہ ماجرا بیٹے سے سنا تو دعا کی یا باری تعالی میں اس سے راضی ہو تو بھی اس سے راضی ہوجا۔۔۔۔۔"
قبلہ والد محترم میری والدہ کی طرف اشارہ فرما کے کہتے ہیں جاؤ لے لو اپنی ولایت وہ سامنے کھڑی ہے۔۔۔۔۔
اب بتائيں کتنی مشکل ہے۔۔۔؟؟
میں خدا کو تلاش کرتے کرتے مکہ پہنچا، نظریں نیچے جھکائے حرم میں داخل ہوا، پھر سجدہ بجا لایا. اس کے بعد کعبۃ اللہ پر پہلی نظر پڑی، بے اختیار آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے. دل چاہا اس سے لپٹ جاؤں، بے اختیار کعبہ کی طرف دوڑا مگر جب بالکل قریب پہنچا تو آواز آئی، مجھ سے لپٹنا نہیں ہے میرا طواف کرنا ہے. طواف شروع کرتے ہی احساس ہوا کہ یہاں تو اور لوگ بھی موجود ہیں. یہی بات تو خدا مجھے سمجھا رہا تھا کہ مجھے تلاش کرنا ہے تو لوگوں کے درمیان کرو.
بے شک کسی انسان کا دل دکھا کر کوئی خدا کو راضی نہیں کرسکتا. ہاں اسے خوش کرکے ضرور کرسکتا ہے.
میں تو درخواست کروں گا کہ کبھی کبھی اسپتال کی ایمرجنسی میں جاکر کسی کی دلجوئی کرکے دیکھیں کتنا سکون ملتا ہے. کتنے ہی لوگ ہیں جو ہماری جھوٹی تسلی کے انتظار میں ہیں اور اس کے سہارے زندہ ہیں. ان کا دل نہ توڑیں
نوٹ
یہ الفاظ تو میرے ہیں مگر خیالات کچھ بڑے افراد کے ہیں
 
میں خدا کو تلاش کرتے کرتے مکہ پہنچا، نظریں نیچے جھکائے حرم میں داخل ہوا، پھر سجدہ بجا لایا. اس کے بعد کعبۃ اللہ پر پہلی نظر پڑی، بے اختیار آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے. دل چاہا اس سے لپٹ جاؤں، بے اختیار کعبہ کی طرف دوڑا مگر جب بالکل قریب پہنچا تو آواز آئی، مجھ سے لپٹنا نہیں ہے میرا طواف کرنا ہے. طواف شروع کرتے ہی احساس ہوا کہ یہاں تو اور لوگ بھی موجود ہیں. یہی بات تو خدا مجھے سمجھا رہا تھا کہ مجھے تلاش کرنا ہے تو لوگوں کے درمیان کرو.
بے شک کسی انسان کا دل دکھا کر کوئی خدا کو راضی نہیں کرسکتا. ہاں اسے خوش کرکے ضرور کرسکتا ہے.
میں تو درخواست کروں گا کہ کبھی کبھی اسپتال کی ایمرجنسی میں جاکر کسی کی دلجوئی کرکے دیکھیں کتنا سکون ملتا ہے. کتنے ہی لوگ ہیں جو ہماری جھوٹی تسلی کے انتظار میں ہیں اور اس کے سہارے زندہ ہیں. ان کا دل نہ توڑیں
نوٹ
یہ الفاظ تو میرے ہیں مگر خیالات کچھ بڑے افراد کے ہیں
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اسکا بندہ بنوں گا جسکو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا...
 

اکمل زیدی

محفلین
لفظ کتنے مہنگے ھوتے ہیں لیکن بے حسوں کے بازار میں کتنے سستے۔ ۔ ۔ ۔ ! لفظوں کے بیوپاری اپنی گھٹیا سوچوں کا سودا لفظوں کے ہیر پھیر سے کرتے ہیں ، خوبصورت جذبوں کو بے مول کرنے والے لفظوں کے کھلاڑی، شائد جانتے نہیں کہ لفظ ہی چہروں کو مسکراہٹ بخشتے ہیں ، لفظ ہی چھین لیتے ہیں ۔۔ ۔ ۔ لفظوں کی ردا کسی کو تحفظ دیتی ہے تو لفظ ہی بے آبرو کر دیتے ہیں ، ۔ ۔ ۔ لفظ مصری کی ڈلی بھی ہوتے ہیں اور زہر کی پڑیا بھی ۔ ۔ ۔کسی کو سر تا پیر بدل بھی سکتے ہیں اور کسی کو جیتے جی مار بھی ڈالتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔

لفظوں کے جال میں مچھلیاں پکڑتے ہیں۔ ۔ ۔لفظوں کے سکے پھینک کے تماشا دیکھتے ہیں ۔ ۔ ۔لفظوں کی آگ سے دھواں اٹھتا دیکھتے ہیں ۔ ۔ ۔لفظوں کے خنجر سے سینہ چھلنی کر دیتے ہیں۔ ۔ ۔لفظوں کی ماچس سے گھر پھونک دیتے ہیں ۔ ۔ ۔ لفظوں کے نشے سے مدہوشی طاری کر دیتے ہیں ۔ ۔ ۔لفظوں کے کھلاڑی لفظوں کا کاروبار کرتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔

سوچنے کی بات ہے کہ صرف منافع ہی نہیں ہوتا ۔ ۔ ۔ ۔ خسارہ بھی ہو جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ عمریں بیت جاتی ہیں تاوان
بھرتے بھرتے ۔ ۔ ۔ ! بمع سود لوٹانا پڑتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ !!! ۔

فرح ظفر​
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خوبصورت انتخاب ۔ ۔ ۔ ۔
 

اکمل زیدی

محفلین
میں خدا کو تلاش کرتے کرتے مکہ پہنچا، نظریں نیچے جھکائے حرم میں داخل ہوا، پھر سجدہ بجا لایا. اس کے بعد کعبۃ اللہ پر پہلی نظر پڑی، بے اختیار آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے. دل چاہا اس سے لپٹ جاؤں، بے اختیار کعبہ کی طرف دوڑا مگر جب بالکل قریب پہنچا تو آواز آئی، مجھ سے لپٹنا نہیں ہے میرا طواف کرنا ہے. طواف شروع کرتے ہی احساس ہوا کہ یہاں تو اور لوگ بھی موجود ہیں. یہی بات تو خدا مجھے سمجھا رہا تھا کہ مجھے تلاش کرنا ہے تو لوگوں کے درمیان کرو.
بے شک کسی انسان کا دل دکھا کر کوئی خدا کو راضی نہیں کرسکتا. ہاں اسے خوش کرکے ضرور کرسکتا ہے.
میں تو درخواست کروں گا کہ کبھی کبھی اسپتال کی ایمرجنسی میں جاکر کسی کی دلجوئی کرکے دیکھیں کتنا سکون ملتا ہے. کتنے ہی لوگ ہیں جو ہماری جھوٹی تسلی کے انتظار میں ہیں اور اس کے سہارے زندہ ہیں. ان کا دل نہ توڑیں
نوٹ
یہ الفاظ تو میرے ہیں مگر خیالات کچھ بڑے افراد کے ہیں
بہت ۔ ۔ اعٰلی ۔ ۔ ۔
 
کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کا کو ئی فیصلہ کو ئی تُک نہیں بنتا کہ ایسا کیوں ، لیکن ہوتا رہتا ہے ۔۔ وہ جو علیم مطلق ہے ۔ جو مالک ہے سب کا ، اپنی مرضی سے جو چاہتا ہے کرتا ہے ، اور اس کی مرضی میں کو ئی راز ہوتا ہے تو ہم پوچھتے ہیں اس میں کیا راز ہے ؟ ہم بھی تو دانش رکھتے ہیں ، عقل رکھتے ہیں ۔ ہمارے بابے کہتے ہیں کہ اگر کو ئی چار پانچ سال کا بچہ اتفاق سے ہسپتال کے کسی آپریشن تھیٹر میں چلا جا ئے ، اور دروازہ کھلا ہوا ہو اور سرجن کام کر رہے ہوں ایک بندے کے اوپر ، اس کے ہاتھ میں چُھریاں اور نشتر پکڑے ہوں ، اور ان کے منہ پر ماسک ہوں تو وہ چیخیں مارتا ہوا باہر نکلے گا کہ ظلم ہو رہا ہے اچھے بھلے آدمی کا پیٹ کاٹ رہے ہیں ، چھریوں کے ساتھ ۔اے لوگو جا ئو اور ۔ بچا ئو ،
تو کچھ ایسا ہی حال انسان کا ہے ۔ وہ بھی یہ سمجھتا ہے کہ سب کچھ میری عقل و دانش کے مطابق ہے لیکن انسان اللہ کے راز، افعال، اس کے کام اور قانون کو نہیں جان سکتا ۔
خوش قسمتی یہ ہے کہ اُس نے ہمیں احکام دیئے ہیں ۔ بڑی خوش قسمتی ہے

اشفاق احمد اززاویہ 1
 
Top