یوسف سلطان
محفلین
ایک دفعہ ہمیں خواتین کے ایک بڑے اجتماع سے عشائیے سے پہلے خطاب کرنے کا اتفاق ہوا۔ جس ہال میں ہمیں تقریر کرنے کے لیے کھڑا کیا گیا اس سے مُتصل ہال میں کھانے کا اہتمام تھا۔ چار پانچ منٹ تو اندھا دُھند جوشِ خطابت میں گزر گئے۔ اس کے بعد ہمیں ایسی خوشبوئیں آنے لگیں جن سے ہماری توجہ، تقریر کے تسلسل اور تلفظ میں فتور آنے لگا۔ خیر، شاہی ٹکڑوں اور زعفرانی قورمے کی مہک تو ہم برداشت کر گئے، لیکن سیخ کباب کا دھواں دار باربی کیو جھونکے نے ہمیں کچھ اس لیے بھی نڈھال کر دیا کہ ہم نے دوپہر کا کھانا نہیں کھایا تھا۔ پھر جب ہماری فیورٹ ڈِش یعنی پلاؤ کی لَپَٹ آئی تو ہمارے Salivary glands یعنی رال بنانے کے غدودوں کا فعل اتنا تیز ہوگیا کہ الفاظ لذتِ تصور میں لتھڑ کر زبان سے لپٹ گئے۔ سامعین کا حال ہمیں معلوم نہیں تھا، خود ہمارا جی بولنے کو نہیں چاہ رہا تھا۔ ہم نے پانی کے گھونٹ پیتے ہوئے سیکٹری صاحبہ سے کہا کہ "بی بی، ان خوشبوؤں کی مجھ میں تاب نہیں۔ میں اس طرح تقریر نہیں کر سکتا۔" وہ کچھ اور سمجھیں! انگریزی میں کہنے لگیں " آپ ذرا ضبط سے کام لیجئے۔ میں نوجوان خواتین کو Seductive perfumes لگانے سے بھلا کیسے روک سکتی ہوں؟"
شامِ شعرِ یاراں
مشتاق احمد یوسفی
شامِ شعرِ یاراں
مشتاق احمد یوسفی