آج عمر خیام کی شہرت کی واحد وجہ ان کی شاعری ہے جو گاہے بگاہے لوگوں کی زبان پر آ ہی جاتی ہے لیکن ان کو زندہ کرنے کا کارنامہ انگریزی شاعر اور مصنف ایڈورڈ فٹزجیرالڈ کا ہے جنھوں نے سنہ 1859 میں عمرخیام کی رباعیات کا انگریزی میں ترجمہ پیش کیا اور اس کا عنوان 'رباعیات آف عمر خیام' رکھا اور عمر خیام کو فارس کا نجومی شاعر کہا۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں فارسی کے پروفیسر عراق رضا زیدی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'عمر خیام کی شہرت گرچہ مغرب کی مرہون منت ہے لیکن جس طرح انھیں پیش کیا گيا ہے وہ اصل نہیں ہے۔ ان کی مشرقیت کہیں کھو گئی ہے۔ لہذا اب جب ہم انھیں جان چکے ہیں تو ہمیں انھیں اپنی روایت کے اعتبار سے سمجھنا چاہیے۔ جس طرح شبلی نعمانی یا سید سلیمان ندوی نے انھیں پیش کیا ہے۔'
عمر خیام کی رباعیوں کی تعداد آج ایک ہزار سے دو ہزار کے درمیان بتائی جاتی ہے لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ ان میں بہت سی رباعیات دوسروں کی ہیں اور ان کی اصل رباعیات کی تعداد بہت کم ہیں۔ ایرانی مطالعہ کے ماہر جرمنی کے ہنرک شیڈر کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ عمر خیام کے نام کو فارسی ادب کی تاریخ سے ہٹا دینا چاہیے۔
عمر خیام کے اہم ماہر صادق ہدایت کا کہنا ہے قطیعت کے ساتھ 14 رباعیات کو عمر خیام کی رباعیات کہا جا سکتا ہے۔ جبکہ بعض دوسروں نے اس کی تعد 100 تک بتائی ہے جبکہ فروغی نے ان کی تعداد 178 بتائی ہے تو علی دشتی نے محض 36 بتائی ہے۔
ان کی چند رباعیاں ملاحظہ فرمائيں:
گویند مرا چو سرباحور خوش است
من می گویم کہ آب انگور خوش است
این نقد بگير و دست ازان نسیہ بدار
کاواز اہل شنیدن از دور خوش است
شوکت بلگرامی نے اس کا منظوم ترجمہ مئے دو آتشہ میں اس طرح پیش کیا ہے
زاہد دیوانے خلد اور حور کے ہیں
عاشق میخوار آب انگور کے ہیں
لے جام شراب، بول واعظ کے نہ سن
چھوڑ ان کا خیال ڈھول یہ دور کے ہیں
بہر حال یہ کہا جاتا ہے کہ اس زمانے میں صوفیوں کے یہاں اردو اور فارسی میں بھی بیت اور رباعی کہنے کا رواج رہا ہے۔ عمرخیام کی ایک رباعی یہاں پیش کرتا ہوں جس کی جھلک آپ کو بہت سے اردو اشعار میں نظر آئے گی۔
آورد بہ اضطرابم اول بہ وجود
جز حیرتم از حیات، چیزی نفزود
رفتیم، بہ اکراہ، ندانیم چہ بود
زین آمدن و بودن ورفتن مقصود
(پہلے میں اضطراب کے ساتھ پیدا ہوا اور پوری زندگی میں حیرت کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا۔ بہ حالت مجبوری یہاں سے لے جائے گئے اور یہ بھی معلوم نہ سکا کہ آنے، رہنے اور جانے کا مقصد کیا تھا۔
شیخ محمد ابراہیم ذوق کا مندرجہ ذیل شعر اس کی بہت حد تک ترجمانی کرتا نظر آتا ہے۔
لائی حیات، آئے، قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے