کوئی سامان ِتشنگی مہیا کرو

نور وجدان

لائبریرین
کوئی سامان ِتشنگی مہیا کرو
اب ابر کی نہ برسات کی ضرورت
ایک بادل کے کئی ٹکرے ہیں
ہر ٹکرا پھر ایک بادل ہے
اور ہر بادل کے پاس آسمان ہے
سیلاب بہتا رہا یہاں وہاں
لوگ سمجھتے رہے مکاں بہا ہے
میں کہتی سب خاک خاک ہوگیا
جو دنیا درد سمجھ رہی ہے
اس کو میں نے ہنس کے پینا
جو درد مجھے ملا ہے
اس کو کوئی نہیں جانا
میرا اندر خالی ہے
اس میں کون سمانا
اس رمز کو وہ جانا
جس کے پاس سب نے جانا
یہ دنیا بڑی بے مایا
کون یہاں پر چھایا
ہم نے بوریا سنبھالا
سمجھا کہ روگ پالا
ہم ہوتے روگی تو اچھا ہوتا!
بنتے ہم جوگی تو اچھا ہوتا!
یہ دنیا بڑی بے ثمر ہے
میرا پاؤں اس کی نظر ہے
میں کیا کہوں جواب میں،
کچھ نہیں اس کتاب میں،
دل درد کے لکھ نہ پائے گا!
یہ درد کیا کون سمجھ پائے گا!
جو سمجھے وہ چپ رہ جائے گا!
جو نہ سمجھے وہ مجھے تڑپائے گا!
میں نے کہا بڑا برا کردیا!
ڈ رتو میری نظر سے گر گیا ہے
میرا تعصب مجھے کھا گیا!
میری حرص نے دغا دیا!
میری آنکھ میں ریا کاری،
دل !دل شرم سے عاری،
کیسے ہو دور اب گنہ گاری؟
ہم کو اُس دنیا جانا ہے!
جہاں انسان بستے ہوں!
وہاں مکان گر جانے سے،
کوئی فرق نہ پڑتا ہو!
دلوں میں چراغ جلتے ہوں!
ان چراغوں کی لو سے،
خود کو جلا جانا ہے،
ہم کو اس دنیا میں جانا ہے!
جہاں سے روشنی بن کے نور،
ذات کو نور کردے،
میرے من کے اندھیروں کو
دور کردے ۔۔۔!
اندھیرا دور ہوجانے کے بعد
ہمیں سب سمجھ آئے گا!​
اب کہ کوئی سوال نہ ہو،
یاس کو اب جواز نہیں!
درد کا اب حساب نہیں!
یہ مجاز کی رمز کی بات نہیں!
جل کے مرنا اس میں پیاس نہیں!
غلطی سے دل کی بات لکھی!
اس کی سزا میں نے چکھی!
مجھے معاف احباب کردو،
میرے الفاظ میں ندامت ہے
ان کو اب نظر انداز کردو
یہ سمجھ ، وہ سمجھ اور نہ سمجھی!
سمجھ کر بھی جہاں میں نہ سمجھی!

دنیا میں آتے جاتے رہیے
آنے جانا ایک میلا ہے
کون اس دنیا میں اکیلا ہے
وہ ذات جو کمال حق ہے
وہ نصیب کی بات ہے
یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے
یہ بڑے نصیب کی بات ہے
 
آخری تدوین:

لاریب مرزا

محفلین

La Alma

لائبریرین
اب ابر کی نہ برسات کی ضرورت
کوئی سامانِ تشنگی مہیا کرو
خوبصورت خیال، عمدہ آغاز ... لیکن پھر اس کے بعد کیا ہوا ... بادل کے ٹکڑوں کے ساتھ ساتھ آ پ کی سوچ بھی منقسم ہوتی گئی .پتا ہی نہیں چلا کہ بن موسم کا یہ ابر کہاں کہاں برسا .اس جل تھل سے قاری تو دامن بچا کر گزر جائے گا لیکن احساس کی یہ دلدل آپ کے پاؤں جکڑ لے گی.
نورماشا اللہ آپ میں بہت پوٹینشل ہے, فکر و احساسات کے یہ خزانے آپ ہی کے ہیں. ان کوایک دم سمیٹنے کی کوشش مت کیجئے. دھیرے دھیرے تصرف میں لائیے.
 
جہاں تک اس بندی کو میں نے پڑھا ہے۔۔۔۔ یہ اس برکھا سے بھیگی نہیں ہیں۔۔۔۔ یہ کھڑکی بیٹھ برسات کا منظر تک۔۔۔۔ بوندوں کی چھنچھناہٹ تو سنتی ہے۔۔۔۔ مگر اس برسات سے دامن نہیں بھگوتی۔۔۔۔ یہ بوندوں کے سر پہ سر دھنتی ہے۔۔۔۔ کبھی اٹھ کے دھمال نہیں ڈالی۔۔۔۔۔۔ دامن اب بھی سوکھا ہے۔۔۔۔ ہے نہیں رکھا ہے۔۔۔!!

تلاش


ہوائیں جھوم کی آئیں
کلی کو چوم کی آئیں
مرے دامن مرے آنگن کا ہر کونہ
تری خوشبو سے بھر ڈالا
مہک پھیلا گئی ہر سو
ترا پیغام لائیں ہیں
تری گلیوں سے ہو کے وہ
مرے در کو
پٹختی جارہی ہیں
کہہ رہی ہیں
کہ اب تنھائی کے اس قید خانے سے
نکل آئو
کہ اب ان بیڑیوں کو
جو یہ خود ساختہ زنجیر سے ہے باندھ کے رکھا
نکل آئو
کہ گلشن میں بہاریں آگئی ہیں
شجر دامن کو پھیلائے
تمھارے منتظر ہیں
وہ دیکھو پھول مہکے ہیں
وہ دیکھو رنگ بکھرے ہیں
تمہارے حق میں سارے کہہ رہے ہیں
یہ دیکھو زندگی کا دائرہ یوں تنگ نہیں ہوتا
سمٹ کے ساری دنیا ایک کونے میں
کبھی بھی آ نہیں سکتی
ہر اک لمحہ گزارہ بھی نہیں ہوتا
تو آنکھیں کھول کے دیکھو
انہیں محسوس کر لو تم
تم ان لمحات کو دل میں اترنے دو
دل مضطر کو تر کر لو
اسے بھر لو
کہ جو پیمانہء قدرت سے چھلکی ہے
وہ اس جان حزیں کو
اک نئی رنگت سے رنگ دے گی
چلو صاحب۔۔۔!!
دل مایوس کی رنگ فضا کو پھر بدلتے ہیں
چلو اس سمت چلتے ہیں
دل نا مطمئن کا ڈھنگ بدلتے ہیں
سمجھتے ہیں۔۔۔
کہ خالق کے یہ جتنے رنگ بکھرے ہیں
ہمارے ہیں۔۔
چلو پھر جان لیں سب کو
چلو پھر مان لیں رب کو۔۔۔۔
 

نور وجدان

لائبریرین
اب ابر کی نہ برسات کی ضرورت
کوئی سامانِ تشنگی مہیا کرو
خوبصورت خیال، عمدہ آغاز ... لیکن پھر اس کے بعد کیا ہوا ... بادل کے ٹکڑوں کے ساتھ ساتھ آ پ کی سوچ بھی منقسم ہوتی گئی .پتا ہی نہیں چلا کہ بن موسم کا یہ ابر کہاں کہاں برسا .اس جل تھل سے قاری تو دامن بچا کر گزر جائے گا لیکن احساس کی یہ دلدل آپ کے پاؤں جکڑ لے گی.
نورماشا اللہ آپ میں بہت پوٹینشل ہے, فکر و احساسات کے یہ خزانے آپ ہی کے ہیں. ان کوایک دم سمیٹنے کی کوشش مت کیجئے. دھیرے دھیرے تصرف میں لائیے.

آپ کی بات ایسی پرپیچ نہیں مگر تہ در تہ معانی لیے ہوئے ہے بلاشک آنکھ کو وہی دکھتا ہے جس کو عطا جیسی ہوتی ہے. اللہ سائیں نے "آنکھ " دی. ایسی آنکھ ملے تو سب کو مگر دیکھتا کوئ کوئ ہے ... نام بھی استعارا بن جاتا ہے جو دیکھتا ہے. آپ کا نام ایسا مفہوم لیے ہوئے ہے ... میں اک.بکھری سی بندی ہوں ...بس میں اس بکھرنے پر خوش ہوں کہ بہار میں بکھر رہی ہوں کہ خزاں تو خود بکھر جاتی ہے. اس لیے میری تحریر ٹوٹی پھوٹی مجہول ہوتی ہے مگر جس طرح آپ نے اچھے الفاظ سے برتا ہے. جی خوش کردیا. سلامت رہیے
 

نور وجدان

لائبریرین
جہاں تک اس بندی کو میں نے پڑھا ہے۔۔۔۔ یہ اس برکھا سے بھیگی نہیں ہیں۔۔۔۔ یہ کھڑکی بیٹھ برسات کا منظر تک۔۔۔۔ بوندوں کی چھنچھناہٹ تو سنتی ہے۔۔۔۔ مگر اس برسات سے دامن نہیں بھگوتی۔۔۔۔ یہ بوندوں کے سر پہ سر دھنتی ہے۔۔۔۔ کبھی اٹھ کے دھمال نہیں ڈالی۔۔۔۔۔۔ دامن اب بھی سوکھا ہے۔۔۔۔ ہے نہیں رکھا ہے۔۔۔!!

تلاش


ہوائیں جھوم کی آئیں
کلی کو چوم کی آئیں
مرے دامن مرے آنگن کا ہر کونہ
تری خوشبو سے بھر ڈالا
مہک پھیلا گئی ہر سو
ترا پیغام لائیں ہیں
تری گلیوں سے ہو کے وہ
مرے در کو
پٹختی جارہی ہیں
کہہ رہی ہیں
کہ اب تنھائی کے اس قید خانے سے
نکل آئو
کہ اب ان بیڑیوں کو
جو یہ خود ساختہ زنجیر سے ہے باندھ کے رکھا
نکل آئو
کہ گلشن میں بہاریں آگئی ہیں
شجر دامن کو پھیلائے
تمھارے منتظر ہیں
وہ دیکھو پھول مہکے ہیں
وہ دیکھو رنگ بکھرے ہیں
تمہارے حق میں سارے کہہ رہے ہیں
یہ دیکھو زندگی کا دائرہ یوں تنگ نہیں ہوتا
سمٹ کے ساری دنیا ایک کونے میں
کبھی بھی آ نہیں سکتی
ہر اک لمحہ گزارہ بھی نہیں ہوتا
تو آنکھیں کھول کے دیکھو
انہیں محسوس کر لو تم
تم ان لمحات کو دل میں اترنے دو
دل مضطر کو تر کر لو
اسے بھر لو
کہ جو پیمانہء قدرت سے چھلکی ہے
وہ اس جان حزیں کو
اک نئی رنگت سے رنگ دے گی
چلو صاحب۔۔۔!!
دل مایوس کی رنگ فضا کو پھر بدلتے ہیں
چلو اس سمت چلتے ہیں
دل نا مطمئن کا ڈھنگ بدلتے ہیں
سمجھتے ہیں۔۔۔
کہ خالق کے یہ جتنے رنگ بکھرے ہیں
ہمارے ہیں۔۔
چلو پھر جان لیں سب کو
چلو پھر مان لیں رب کو۔۔۔۔
مجھے بارش پسند ہے دیکھنے کی حد تک. بارش طوفان بن جاتی ہے اس لیے کھڑکی تک بند کردیتی ہوں کہیں طوفان سیلاب نہ بن جائے. یہ ڈر بھی فطری ہے بارش پسند ہے مگر بھیگنا ہے. سب دیکھیں بھیگے کو تو اچھا.نہین ہے! آپ.سے دعا کی درخواست ہے کہ آپ دعا کریں میرا ڈر ختم ہو جائے
 
مجھے بارش پسند ہے دیکھنے کی حد تک. بارش طوفان بن جاتی ہے اس لیے کھڑکی تک بند کردیتی ہوں کہیں طوفان سیلاب نہ بن جائے. یہ ڈر بھی فطری ہے بارش پسند ہے مگر بھیگنا ہے. سب دیکھیں بھیگے کو تو اچھا.نہین ہے! آپ.سے دعا کی درخواست ہے کہ آپ دعا کریں میرا ڈر ختم ہو جائے
آآآآآآآآآآہہہہہہہہہ!!
کہاں سے سنائیں کہاں تک سنو گے۔ موئا ڈر کہاں سے آ گیا؟؟ کس کا ڈر کیسا ڈر کونسا ڈر؟؟
دعا۔۔۔۔۔۔۔آہہہہ!! میرے خدایا!!

خدایا رحم کُن بر من، پریشاں وار می گردم
خطا کارم گنہگارم، بہ حالِ زار می گردم

شرابِ شوق می نوشم، بہ گردِ یار می گردم
سخن مستانہ می گویم، ولے ہشیار می گردم

بیا جاناں عنایت کُن تو مولانائے رُومی را
غلامِ شمس تبریزم، قلندر وار می گردم

 

لاریب مرزا

محفلین
ارے کس نے کہا نہیں لگتا۔۔۔ ہم تو اپنے سائے سے بھی ڈرتے ہیں۔۔۔۔!!
تو اتنا لمبا لیکچر کاہے دے ڈالا؟؟ :question:
آآآآآآآآآآہہہہہہہہہ!!
کہاں سے سنائیں کہاں تک سنو گے۔ موئا ڈر کہاں سے آ گیا؟؟ کس کا ڈر کیسا ڈر کونسا ڈر؟؟
دعا۔۔۔۔۔۔۔آہہہہ!! میرے خدایا!!

خدایا رحم کُن بر من، پریشاں وار می گردم
خطا کارم گنہگارم، بہ حالِ زار می گردم

شرابِ شوق می نوشم، بہ گردِ یار می گردم
سخن مستانہ می گویم، ولے ہشیار می گردم

بیا جاناں عنایت کُن تو مولانائے رُومی را
غلامِ شمس تبریزم، قلندر وار می گردم

 
تو اتنا لمبا لیکچر کاہے دے ڈالا؟؟ :question:
دونوں باتوں کو الگ ہی رکھیں۔۔۔ ڈر والی بات میں ڈر کا ذکر ہے اور نیچے دعا کا۔
جہاں ذکر یار ہوتا وہاں ڈر نہیں ہوتا۔ وہاں فقط سر ہوتا۔
جھکنے کے لیے
بکنے کے لیے
کٹنے کے لیے
انہوں دعا چاہی تو اس پر آہ نکلنا۔۔۔ ہاں ہم ٹھہرے پرلے درجے کے کافر۔ دعا دارو مومنو کا کام ہے۔۔۔۔!!
 

نور وجدان

لائبریرین
آآآآآآآآآآہہہہہہہہہ!!
کہاں سے سنائیں کہاں تک سنو گے۔ موئا ڈر کہاں سے آ گیا؟؟ کس کا ڈر کیسا ڈر کونسا ڈر؟؟
دعا۔۔۔۔۔۔۔آہہہہ!! میرے خدایا!!


آپ کی بات سولہ فیصد درست ہے ۔ جس کے دل میں ڈر بیٹھے تو وہ کیا بھیگے ۔ ڈر ہے نا تو بس نہ سر کٹا ، نا جھکا ، نا میں اس بات میں نا میں اس بات میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مری ذات کو کافی اپنی ذات ہے
 

ماہی احمد

لائبریرین
مجھے بارش پسند ہے دیکھنے کی حد تک. بارش طوفان بن جاتی ہے اس لیے کھڑکی تک بند کردیتی ہوں کہیں طوفان سیلاب نہ بن جائے. یہ ڈر بھی فطری ہے بارش پسند ہے مگر بھیگنا ہے. سب دیکھیں بھیگے کو تو اچھا.نہین ہے! آپ.سے دعا کی درخواست ہے کہ آپ دعا کریں میرا ڈر ختم ہو جائے
یہ جو ڈر ہے، تمہارا سارا مسئلہ ہی یہ بدبخت ہے... یہ ڈر ختم ہو جائے تو بارش میں بھیگتے ہوئے طوفان کی خواہش اور اس طوفان سے تہس نہس ہونے کی خواہش خود جنم لیتی ہے.... کیونکہ ٹوٹ کر بکھرنا اور پھر بکھر کر بنانے والے کے ہاتھوں دوبارہ جڑنا اس سے بڑھ کر کیا چاہئیے ہوتا ہے؟ :)
 

ماہی احمد

لائبریرین
موئا ڈر کہاں سے آ گیا؟؟ کس کا ڈر کیسا ڈر کونسا ڈر؟

جب ایسے کاموں میں عقل اور دل دونوں کو ساتھ لے کر چلا جائے تو ڈر تو آتا ہے راستے میں.... اب سب میں ابراہیم علیہ السلام جیسا حوصلہ تو ہوتا نہیں کہ عقل اور منطق کو رکھیں ایک طرف اور بے خطر کود پڑیں.... کچھ دیر لگتی ہے ذرا سنبھلنے میں...
 
کیونکہ ٹوٹ کر بکھرنا اور پھر بکھر کر بنانے والے کے ہاتھوں دوبارہ جڑنا اس سے بڑھ کر کیا چاہئیے ہوتا ہے؟
یہاں بکھرنے کا غم، سمٹنے کی لذتیں منکشف ہیں جس پر
وہ ایک دھاگے میں سارے موتی پرو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔۔۔۔
 
Top