توپ میں گولا بھر کر اسے توتے کے آگے رکھ دیا تو پھر توتے نے اپنی چونچ سے توپ کا ایک تار کھینچا اور گولا توپ سے نکلا۔ ہلکا سا دھماکا ہوا۔ توتا اپنی جگہ چلا گیا۔ "دیکھا جناب! یہ توتا توپ چلاتا ہے۔" توتے والے کی زبان بھی چل رہی تھی! دوسرا تماشا بیا کا تھا۔ اس نے اپنی چونچ میں ایک ایسی لکڑ پکڑی ہوئی تھی جس کے دونوں سروں پر آگ لگی ہوئی تھی۔ وہ اس کو گول گول گھماتا تو آگ کا دائرہ سا بن جاتا۔
اس کے بعد یہ لکڑی اس سے لے لی جاتی۔ پھر وہ ایک تیر چلاتا کمان ایک جگہ لٹکی ہوئی تھی۔ آدمی چڑیا کی چونچ میں تیر دیتا۔ وہ آرام سے تیر کمان پر چڑھاتی اور کمان کھینچتی۔ تیر دور جا گرتا۔ اس تماشے پر بھی لوگ زور زور سے تالیاں بجاتے۔ بچوں کو بھی چڑیوں کا یہ تماشا بہت پسند آیا۔
جب یہ لوگ جیپ میں واپس آئے تو زاہد اور عابد کی زبانوں کر چڑیوں کی تعریفیں تھی۔
"یہ بیا تھا نا بھیا!" عابد نے کہا۔
"ہاں، اور اس قدر خوب صورت گھر بناتا ہے کہ کیا بتاؤں،" زاہد نے کہا۔
"واقعی۔۔ بیا کا گھونسلا تو اس کی کاریگری کا بہترین نمونہ ہوتا ہے۔" چچا جان نے کہا۔
"میں نے بھی بیا کا گھونسلا ایک دوست کے درائنگ روم میں سجا دیکھا تھا۔" زاہد نے بتایا۔
"کتنی حیرت کی بات ہے کہ یہ چھوٹے چھوٹے پرندے اپنے پنجوں اور چونچوں کی مدد سے اس قدر خوب صورت گھر بناتے ہیں۔" ھامد نے کہا۔
"اللہ کی قدرت ہے کہ اس نے پرندوں کو بھی اتنی عقل دی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو دشمنوں سے محفوظ رکھ سکیں۔ بیا کا گھونسلا شاخوں سے لٹکتا رہتا ہےا۔ بلی جیسے جانور بھی اس میں جاکر بچوں کو ستا نہٰن سکتے اور وہ ان میں محفوظ رہتے ہیں۔" زاہد نے کہا
"اور یہ بھی کہ گھونسلے میں پرندے کے داخکل ہونے کی جگہ اتنی تنگ ہوتی ہے کہ بیا کے دشمن مشکل ہی سے اس کا راستہ ڈھونڈ پاتے ہیں۔"