الحمداللہ ساجد بھائی ۔ آپ سنائیں ۔ کافی دنوں سے آپ کا فون بھی نہیں آیا ۔ اہل ِ خانہ کیسے ہیں ۔ ؟
ساجد بھائی یہ تو وہ قصہ ہے جس پر ہم 37 سالوں سے بحث کر رہے ہیں ۔ اور اس بحث سے سوائے نفرت اور بدگمانیوں کے کچھ ہاتھ نہیں آیا ہے ۔ میں اپنے ہی ٹاپک سے دو اقتباس پیش کرتا ہوں ۔ اس کے تناظر میں دیکھئے کہ بات کہاں سے کہاں اور کیسے پہنچتی ہے ۔
یہ اقتباس اخلاقی اور مذہبی تناظر میں دیکھئے ۔
اور اس کا ایک سیاسی سطح پر جائزہ لیں ۔
ساجد بھائی ! ۔۔ جن کو کھیل کھیلنا تھا وہ کھیل گئے ۔ اور اب بھی کھیل رہے ہیں ۔ بس انداز بدل گیا ہے ۔ اور ہم آج تک 40 سالہ کدورت اور نفرت اپنے دل سے نہیں نکال سکے ہیں ۔ چلیں بنگالیوں کو پیچھے چھوڑیں ۔ آج ملک میں جو تقسیم ہورہی ہے ۔ اس میں ہم کس کو قصوروار ٹہرایں گے ۔ آج مہاجر ، سندھی ، پنجابی ، پٹھان اور بلوچیوں کے اپنے اپنے وطن کے جو نعرے بلند ہو رہے ہیں ۔ اس کو کیا کہا جائے گا ۔ بنگالی ہم سے سینکڑوں میل دور بیٹھے ہوئے تھے جہاں بھارت بھی درمیان میں آتا تھا ۔ اس کی علیحدگی ایک فطری عمل تھی ۔ مگر آج پھر انہی نظریات کو بچے کھچے پاکستان کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے ۔ اس لیئے ہمیں اس طرف متوجہ ہونا چاہیئے ۔
ظفری بھائی ،
آپ کی تحریر کے ایک ایک لفظ سے مجھے اتفاق ہے۔ واقعی جنہوں نے کھیل کھیلنا تھا کھیل گئے اور اب بنگلہ دیش ایک الگ ملک کی حیثیت سے موجود ہے۔ مجھے اس کی سیاست سے کچھ لینا دینا بھی نہیں ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ میں صوبائی عصبیت کے حد درجہ خلاف ہوں۔ کتنا بھی بڑا مسئلہ کیوں نہ ہو وہ ہمیں ایک پاکستانی کی حیثیت سے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئیے ۔ یہی وجہ ہے کہ میں ہمت بھائی سے بھی محض اس لئیے بحث کر رہا ہوں کہ کسی ایک صوبے یا اس کے باشندوں پر الزام دے کر خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے لینا چاہئیے۔ ہماری فوج یا سیاستدان اگر غلطی کرتے ہیں تو اس کا خمیازہ پوری قوم بھگتتی ہے نا کہ کوئی ایک صوبہ۔
اس تمہید کا مقصد یہی بتانا ہے کہ پاکستان اپنے قیام اور بابائے قوم کی وفات کے بعد ابن الوقت اور مطلب پرست لوگوں کے ہتھے چڑھ گیا اور کسی نے بھی ہم کو ایک قوم کی شکل میں منظم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ جب بنگلہ دیش پاکستان کا حصہ تھا اس وقت بنگالیوں پر بھی لازم آتا تھا کہ وہ بجائے دوسرے ملک کو فوجی مداخلت کی دعوت دینے کی بجائے اپنے معاملات کو مل بیٹھ کر حل کرنے کی کوشش کرتے۔
ظفری بھائی ، موجودہ حالات کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے میں مزید تفصیل میں نہیں جاؤں گا۔ اور اپنے محسوسات سے دوستوں کو پھر کبھی تفصیل سے آگاہ کروں گا۔
حالات آج بھی 1971 جیسے ہی ہیں ۔ ہر صوبہ اپنا راگ الاپنے لگا ہے اور لیڈر بھی صوبائیت کے نام پہ سیاست چمکا رہے ہیں۔ اب اس کو کیا کہا جائے کہ ہماری قوم ایک بار پھر انہی مداریوں کے رحم و کرم پہ ہے کہ جنہوں نے بنگلہ دیش بنانے کی راہ ہموار کی۔
میں جس بات کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا کہ وہ یہ ہے کہ خدا را سوچئیے کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں۔ دیکھئیے کہ جو ہمیں گالیاں دے رہے ہیں ہم انہیں گلے لگا رہے ہیں اور آپس میں صوبائیت کے نام پہ لڑ رہے ہیں۔
آپ کی یہ بات خاص توجہ کے لائق ہے کہ بنگلہ دیش کی علیحدگی فطری تھی۔ لیکن ہم میں سے بہت سارے یہ حقیقت آج بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اور سارا نزلہ پاکستان اور پنجاب پر گرا کر وہی پرانے پنجاب مخالف پراپپیگنڈہ کو ہوا دے رہے ہیں۔
حضور والا ، آپ کو عید کے دنوں میں دو بار فون کیا لیکن آپ کے فون سے نہایت دلکش نسوانی آواز سنائی دیتی تھی کہ اپنا پیغام ریکارڈ کروا دیجئیے ، اب بتائیے بھلا
" زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے"۔