کون ہزارہ؟ - بشکریہ ڈان اردو

iamhazara-text.jpg





کون ہزارہ
قبریں، کتبے اور تصویریں​

ہزارہ کی پہلی شناخت​

پہاڑوں کے دامن میں آباد یہ جگہ جمعے کی نماز کے بعد لوگوں سے بھر جاتی ہے۔ پتھروں کی چھوٹی چھوٹی ڈھیریوں کے بیچ ایک راہداری میں دونوں طرف جیتی جاگتی تصویریں لگی ہیں۔ طالبعلم، اداکار، استاد، بینکر، سپاہی، وکیل اور کھلاڑی۔ خوش پوش، امنگوں سے بھرپور، جن کی آنکھوں سے زندگی چمکتی ہے۔ سورج ڈھلنے کے ساتھ ساتھ قرآن پڑھنے اور بین کرنے کی آوازیں بھی آہستہ آہستہ لرزنا شروع ہو جاتی ہیں۔ یہ ہزارہ قبرستان ہے۔​
فارسی کے سائن بورڈ، سنگتراشوں اور کاتبوں کی دکانوں سے ایک تنگ گلی اوپر کا رخ کرتی ہے، موڑ مڑنے پہ دو دیواروں کے بیچ بہت سے جھنڈے، علم اور نشان دور تک پھیلے نظر آتے ہیں۔ جب قتل و غارت کا سلسلہ چل نکلا تو اپنی مدد آپ کے تحت اس قبرستان کا ایک حصہ شہداء کے نام مختص ہو گیا۔ جتنا وقت زمین کے اس ٹکڑے کے حصول میں لگا اس سے کہیں کم وقت میں یہ جگہ کم پڑ گئی۔ ایک میت دفنانے پہنچے تو پتہ لگا کہ ایک اور میت تیار ہے۔​
قبرستان کے تین حصے ہیں۔ پہلا حصہ بنتے ہی بھر گیا، پھر دوسرا حصہ بنا اور بھر گیا اور اب تیسرا حصہ بھی بھرتا جا رہا ہے۔ قبروں کے کتبوں پہ ان لوگوں کی تصویریں ہیں، تاریخِ پیدائش، مرنے کا دن اور حادثے کی جگہ درج ہے اور سب سے نیچے قرآن کی آیات لکھی گئی ہیں۔ ہر قبر ایک کہانی ہے، کوئی دفتر جاتے مارا گیا، کوئی زیارت کی طرف موت کے حوالے ہوا۔ کوئی دکان کھولنے جا رہا تھا تو کوئی پڑھنے۔ ایک جگہ پانچ قبریں اکٹھی ہیں، یہ سب ایک ہی باپ دادا کی اولاد تھے اور کرکٹ کھیلنے کی خواہش سے گھر سے چلے تھے۔​
ہزارہ آبادی ایک طرف پہاڑ اور دوسری طرف علمدار روڈ کے درمیان قید ہے۔ پہاڑ چونکہ بے ضرر ہیں سو اس طرف آبادی کا جھکاؤ زیادہ ہے۔ علمدار روڈ پار کرنے پر سلامتی کی سرحد بھی پار ہو جاتی ہے۔ مائیں اب اپنے بچے اسکول نہیں بھیجتیں کہ زندگی کو خطرہ ہے اور بہت سے استاد جو کبھی بلوچستان یونیورسٹی میں علم عطا کرنے پر مامور تھے، اب ہاؤسنگ سوسائٹی کی لکیر پار کرنے سے قاصر ہیں۔ دکانوں پر تالے پڑ چکے ہیں اور شہر میں ہزارہ کم کم نظر آتے ہیں۔ یونیورسٹی کی بس پہ دھماکہ ہوا تو باقی لوگوں نے اپنے بچوں کی بسیں علیحدہٰ کروا لیں۔ ہزارہ کے لوگوں پہ زندگی تلخ کرنے والوں نے ہر راستہ مسدود کر رکھا ہے۔​
 
جلاوطنی

ہزارہ کی دوسری شناخت

ضیاء آسٹریلیا نہیں جانا چاہتا تھا۔ شاید کوئی بھی ہزارہ آسٹریلیا نہیں جانا چاہتا۔ بھرے پرے گھر جو ہر وقت ایک دوسرے سے محبت کی مدہم حرارت سے گرم رہتے ہیں، کسی بھی شخص کا فیصلہ بدلنے پر قادر ہیں۔ ایک ہی گلی میں سارے قرابت دار اور ایک دوسرے کے اردگرد گھومتی ہوئی زندگی۔ آغئی، مامائی، جوہری، یہ سب رشتہ دار۔ مگر پھر ایک دن طالب آغا کی میت گھر آ گئی اور بھرا پرا شہر، پل میں اجنبی ہو گیا۔ ۲۰۰۲ سے اب تک آٹھ سو ہزارہ زندگی کی جنگ ہار چکے ہیں۔​
ضیاء نے بچپن سے آغا کو بےداغ لباس میں دیکھا تھا اب جو گولیوں سے چھلنی قمیض دیکھی تو پنجرے کا تیتر اور ضیاء کا دل اکٹھے پھڑپھڑائے، جیسا جرگہ اسلام قبول کرنے کے لئے ہوا ہو گا ویسا ہی جرگہ آغا طالب کے گھر ہوا اور ضیاء خاموشی سے موت کے منتظر ان آٹھ لاکھ ہزاروں سے نکل کر زندگی کے خواہاں ساٹھ ہزار آسٹریلوی نژاد پاکستانی ہزاروں میں شامل ہو گیا۔ ضیاء کے سفر سے سب آشنا تھے مگر گھر والوں کے مقدر میں جو بن باس تھا، اس کا کسی کو گمان تک نہ تھا.

آسٹریلیا جانے کے دو راستے ہیں، ایک قانونی راستہ اور دوسرا فریکوئینٹ روٹ۔ قانونی راستہ اختیار کرنے والوں کے پاس وقت اور وسائل دونوں ہوتے ہیں، سو وہ انتظار کرتے ہیں جب کہ دوسرے راستے کے مسافر کے پاس نہ تو وقت بچتا ہے نہ وسائل۔ اس راستے کے مسافر کراچی سے سفر کا آغاز کرتے ہیں۔ پاکستان سے بنکاک کا سفر ہوائی جہاز کا ہے جس کے بعد زمینی راستے سے ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور پہنچا جاتا ہے۔ یہاں سے سڑک کے راستے کسی ساحل اور سمندر کے راستے انڈونیشیا۔ انڈونیشیا میں کچھ روز قیام کے بعد مناسب موقع دیکھ کر ایجنٹ انہیں سمندر کے حوالے کر دیتے ہیں۔ قسمت یاوری کرے تو جانے والے کرسمس آئی لینڈ نامی جزیرے پہ پہنچ جاتے ہیں جہاں پھر سے ایک لمبا انتطار ہے مگر انتظار کا یہ راستہ آسٹریلیا کی جنت کو جاتا ہے۔ چند ماہ سے چند سالوں کے انتظار کے بعد کسی دن آسٹریلیا کی حکومت ان پر نظرِ کرم کرتی ہے اور یوں یہ ایک نئی زندگی کا آغاز کرتے ہیں۔​
 
جفا کش اور پر اُمید

ہزارہ کی تیسری شناخت

خوبصورت گلیوں سے ہوتے ہوئے ہم خشک تالاب نامی اس جگہ پہنچے جہاں ابراہیم ہمارا منتظر تھا۔​
خشک تالاب کو مقامی زبان میں تالاؤ خشک بھی کہتے ہیں اور پوری ہزارہ داستان میں صرف یہی وہ نام ہے جو خشک ہے۔ لمبی سی گلی کے آخر میں دکان کے سامنے بیٹھے چند بچوں نے ہمیں محمد ابراہیم کا گھر دکھایا۔ صحن میں ایک طرف پانی کی بڑی ٹینکی تھی اور دوسری طرف تنور کے ساتھ جھکاؤ ڈال کر کھڑی سائیکل۔ گارے سے چنی دیواروں اور شہتیروں سے چھتے آنگن نے سب سے پہلے ایک سوال کو جنم دیا۔ اتنی پرسکون زندگی چھوڑ کر کون جانا چاہے گا، تھوڑی دیر بعد چند بچے کھیلتے ہوئے سامنے آگئے ، ان کا والد کچلاک کا “شہید” تھا۔ سوال ادھورا رہ گیا۔​
ابراہیم پولیس کا ملازم تھا، پھر آہستہ آہستہ اس کی ڈیوٹی دینے والی جگہیں کم پڑتی گئیں اور ایک دن اسے لگا کہ یہ شہر اس کے لئے چھوٹا پڑ گیا ہے۔ فیصلہ ہجرت کے حق میں ہوا اور فیصلہ ہی مشکل مرحلہ تھا۔ بیوی کا زیور، رشتہ داروں کا ادھار، جمع جوڑ سب ایجنٹ کے سامنے ڈھیر ہوا اور بنکاک کے لئے ابراہیم کا “داخل کشور”، “خارج کشور” (پاسپورٹ) تیار ہو گیا۔​
ہم سفر افغانی، پاکستانی ہزارہ اور ایرانی تھے۔ بنکاک تک سب اپنے فیصلے سے خوش تھے، ملائیشیا میں ہلکا ہلکا تاسف ہوا اور انڈونیشیا پہنچ کر پچھتاوے نے سب کو اپنی آغوش میں لے لیا۔​
یہاں سے کرسمس آئی لینڈ کے دو راستے ہیں۔ ایک بھنور کا راستہ ہے جو بشرط زندگی، تیس گھنٹے میں منزل تک پہنچا دیتا ہے. دوسرا راستہ بھنور سے پاک ہے مگر اس میں ہفتہ دس دن لگ جاتے ہیں۔ لوگ اپنے پیاروں کو انڈونیشیا سے فون کر کے صرف اتنا بتا پاتے ہیں کہ کل صبح نکلیں گے اور زندگی رہی تو آسٹریلیا پہنچ کر فو ن کریں گے۔ پھر ایک تاریک رات میں اچانک ایجنٹ انہیں اٹھا کر ٹرکوں میں بھرتے ہیں، کچھ راستہ جنگلوں میں اور کچھ پیدل طے کرنے کے بعد ایک کشتی میں سوار کروا دیتے ہیں۔​
ابراہیم اپنے ہم سفروں کی طرح کشتی میں بیٹھا بیٹھا بیمار ہوچکا تھا جب کشتی بھنور میں پھنس گئی اور ملاح انہیں چھوڑ کر بھاگ گیا۔ کئی گھنٹوں تک موت اور زندگی کی جنگ جاری رہی۔​
ڈیٹینشن سینٹر

بچ جانے والے یہاں ایک اور اذیت کے ہتھے چڑھتے ہیں جسے ڈیٹینشن سینٹر کہا جاتا ہے۔ بدبو دار سیلن زدہ عمارات کے ڈربوں میں قیدی یہ لوگ صرف پیچھے رہ جانے کی دعاؤں کے سہارے دن گزارتے ہیں۔ کچھ وطن واپس آ جاتے ہیں تو کئی دنیا سے ہی چلے جاتے ہیں۔

ڈیٹنشن سینٹر میں مہینوں ٹھوکریں کھانے کے بعد ایک دن ابراہیم نے اپنے گھر فون کیا تو پتہ چلا کہ اس کا بھائی بھی عنقریب آسٹریلیا کے لئے نکلنے والا ہے۔ ابراہیم نے اس رات اسے ہر طرح سے سمجھایا مگر جانے والے کو بھلا کوئی کیسے روک سکتا ہے۔
ہزارہ ہاؤسنگ سوسائٹی میں ایسے بہت سے گھر ہیں جن کے مکین آسٹریلیا جانے کے لئے انڈونیشیا سے نکلے اور اس کے بعد کشتی ڈوبنے کی اطلاع ملی اور پھر کوئی رابطہ نہیں ہو سکا۔ گھر کے آدھے لوگ انہیں مرد ہ مان چکے ہیں۔ باقی کے آدھے، گھر سے باہر بھلے ان کی موت کا اعتراف کر لیں مگر واپس آ کر دستر خوان پر ان کی جگہ خالی ضرور چھوڑتے ہیں۔
ابراہیم تو واپس کویٹہ پہنچ گیا مگر اس کا بھائی اب بھی لاپتہ ہے۔ ڈھونڈنے کی کوشش کی تو نہ پاکستان سے کسی نے ہاتھ پکڑا اور نہ ہی انڈونیشیا سے، ہو سکتا ہے نیل کے ساحل سے تا بہ خاک کاشغر میں یہ خطہ شامل ہی نہ ہو۔

کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو آسٹریلیا تو نہیں گئے مگر زندگی بالکل اسی طرح گزار رہے ہیں گویا ساحل پہ بیٹھے ہیں۔ یہ وہ بچے ہیں جو پڑھنے کے لئے اسکول یا کالج نہیں جا سکتے کیونکہ اسکول بند ہیں اور کالج میں کوئی پڑھانے نہیں آتا، سو یہ لوگ تمام دن کمپیوٹر اسکرین کی نذر کرتے ہیں یا گلیوں میں بیٹھے رہتے ہیں۔ یہیں تاریخ میں اپنا نام لکھوانے کے جنون میں نوجوان چپ چاپ آسٹریلیا جانے کے منصوبے بناتے ہیں۔ گھر والوں کو جب آخری وقت پر علم پڑتا ہے تو خوب بحث ہوتی ہے پھر ایک دن کوئی بم دھماکہ، گولی یا اغوا, ان کے ارادے کو سفر میں بدل دیتا ہے۔
 
ہم وطنوں کے خیالات

ہزارہ کی چوتھی شناخت

تیس سال پہلے تک ہزارہ کوئٹہ کی شناخت میں شامل تھے مگر افغان جہاد نے جہاں پاکستان سے ایک آزاد انداز فکر چھین لیا، وہیں داخلی اور خارجی رویوں میں بھی نمایاں تبدیلی آگئی۔ مفاہمت کی جگہ مسابقت نے لے لی اور آہستہ آہستہ کوئٹہ بدلنا شروع ہو گیا۔ جن کی بات پسند نہیں آئی ان کو مار دیا اور جن کی سوچ مختلف لگی ان کو غائب کروا دیا۔ مرد مومن مرد حق کی لگائی ہوئی پنیری اب بہار دکھا رہی تھی۔
کوئٹہ شہر میں پہلا حملہ سردار نثار کی گاڑی پہ ہوا جس کے نتیجے میں ان کا گارڈ اور ڈرائیور ختم ہوئے۔ یہ پہلا قتل تھا مگر اب یہ تعداد ایک ہزار کی حد عبور کر گئی ہے۔ مارنے والے اتنے اطمینان سے مارنے آتے ہیں گویا انہیں اس چیز کا مکمل یقین ہے کہ ان کے اس فعل کے پیچھے مذہب سے لے کر ریاست تک اور معاشرے سے سیاست تک تمام سرکردہ لوگ موجود ہیں۔

یوں تو ہزارہ قوم کی آٹھ شاخیں ہیں جن میں سے چار سنی ہیں اور چار شیعہ، مگر مارنے والوں کے پاس اتنی فرصت کہاں کے تصدیق کریں، ان کے نزدیک تمام ہزارہ شیعہ ہیں اور ان کا جرم ان کا مسلک ہے۔
ایک مقامی ماہر اقتصادیات کا خیال ہے کہ ہزارہ چونکہ تجارت اور معیشت میں نسبتاً بہتر ہیں اس لئے ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے۔ کچھ سیاستدانوں نے اس کے ڈانڈے بلوچ علیحدگی پسند تحریک سے بھی ملائے۔ ایک دکھ کا اظہار البتہ ہر کسی نے کیا، ان کا کہنا ہے کہ ہم شہر کی انتظامیہ کو بارہا بتاتے ہیں ، مشکوک افراد کی نشاندہی بھی کرتے ہیں اور مبینہ قاتلوں کی موجودگی کا بھی بتاتے ہیں اس کے باوجود حملہ آور انتہائی اطمینان سے اپنا کام کر کے چلے جاتے ہیں۔ کبھی کبھار تو لگتا ہے کہ باقی ماندہ پاکستان کو ہزارہ کی نسبت ٹوئنٹی ٹوئنٹی کپ، حکومت ۔ عدلیہ تنازع اور لاہور چڑیا گھر کے جانوروں کی زیادہ فکر ہے۔
ایک سیاستدان کے گھر بیٹھے سامنے کی دیوار پر ایک تصویر پہ نظر پڑی۔ ایک لمبے ہاتھ کے نیچے ایران کا جھنڈا دکھائی دیا اور کونے میں ایک تحریر نظر آئی۔ ’شیعہ کافر ہے، واجب ا لقتل ہے، غلط عقیدے کے لوگ ہیں‘۔ اس تحریر کے نیچے لکھا تھا ’میرے بارے میں میرے ہم وطنو کے خیالات‘۔۔۔میں نے گھر کے مالک سے پوچھا کہ کیا تصویر بنانے والے کی عمر حادثوں میں گزری ہے، جواب ملا۔ “پندرہ سولہ سال کا لڑکا ہے”۔
 
علم و فن کی لگن

ہزارہ کی پانچویں شناخت

ہزارہ کے حصے میں جہاں بدترین تشدد آیا ہے وہیں خدا نے ان لوگوں کو ایک اور دولت سے سرفراز کیا ہے۔ علمدار روڈ سے پہاڑ کی جانب چلیں تو ایک موڑ قبرستان کو مڑتا ہے اور ایک سیدھی سڑک اوپر کو جاتی ہے۔ ندی کے ساتھ ساتھ اور حاجی بوستان کے پل کے پار مومن آباد کا علاقہ ہے۔ اس علاقے میں پہاڑ کی ایک کھوہ ہے۔ سیڑھیاں اوپر چڑھ کر ایک کمرے کی پڑچھتی کے سامنے ایک دالان ، زمین پر مخصوص زاویے سے رکھی خالی بوتلیں، مرتبان اور اینٹیں اور دیوار کے ساتھ ساتھ بیٹھے ہر عمر کے بچے بچیاں۔ کمرے میں ایک ہزارہ نین نقش کا گیانی، نستعلیق میں فارسی کی کتابت سکھا رہا ہے۔ ایک موبائل فون سے لتا منگیشکر نغمہ سرا ہیں “کہیں دیپ جلے کہیں دل”۔ یہ اسکیچ کلب ہے۔
جونہی سورج واپسی کا سفر شروع کرتا ہے، ہزارہ بچے اسکیچ کلب میں اکٹھے ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ قبرستان میں بڑھتی ہوئی قبروں سے بے نیاز بچے ہر روز یہ سیڑھیاں چڑھتے ہیں۔ کمرے میں نہ تو بجلی ہے اور نہ ہی پنکھا۔ یہ شکایت نہیں کرتے، چپ چاپ آتے ہیں ، اپنا کام کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ بارش ہو تو یہ لوگ اندر بیٹھ جاتے ہیں اور دنیا میں اہل فن کے کارناموں پر بحث کرتے ہیں۔ اسکیچ کلب کیا ہے، ایک مکتب ہے جہاں ایک ارسطو صفت درویش بچوں کو زندگی کا گیان دے رہا ہے۔ مصوری یہ خود بخود ہی سیکھ جاتے ہیں۔

موسوی صاحب اس اسکیچ کلب کے روح رواں ہیں۔ ان کا سفر آرٹس کونسل سے شروع ہوا، کچھ عرصہ دوسرے سرکاری اداروں میں تدریس کے فرائض سر انجام دیے اور اب یہاں بیٹھ کر ان بچوں کو تعلیم دیتے ہیں۔ نفرت کی اس آگ میں ان کا اپنا گھر بھی جلا ہے۔ یونیورسٹی کی بس کے دھماکے میں ان کا بیٹا شدید زخمی ہوا اور بیٹی بھی زخمی ہوئی مگر ہہاں کوئی ان چیزوں کا ذکر نہیں کرتا۔ لکیروں سے نقش ابھارنے والے ان تمام فنکاروں کے ذہن میں کوئی نہ کوئی حادثہ ہے مگر اسکیچ کلب کے جزیرے میں کوئی ان تاریک پانیوں کی طرف نظر نہیں کرتا۔
یہاں سے فارغ التحصیل بچے، آگے چل کر این سی اے جیسے اداروں میں استادوں کا نام روشن کرتے ہیں۔ حال ہی میں آسٹریلیا میں اس اسکیچ کلب کی ایک نمائش بھی ہوئی جسے بہت سراہا گیا۔
اختتامیہ

ہزارہ کیوں مارے جاتے ہیں اس کا جواب مجھے، سیاست، سماجیات، تاریخ اور اقتصادیات کے ماہر نہیں دے سکے بلکہ اس کا جواب مجھے تصویروں والی قبروں، سلیقے سے بنے صاف ستھرے چھوٹے چھوٹے گھروں، اپنے کام سے کام رکھنے والے لوگوں اور فنون لطیفہ میں دلچسپی رکھنے والے بچوں سے ملا۔ شاید ہزارہ ہم سے بہت مختلف ہیں، اس لئے ہم ان کی موت پر خاموش بھی رہتے ہیں اور باہر بھی نہیں نکل پاتے۔
شاید ہزارہ کا وجود روشنی کی وہ کرن ہے جو معاشرے کی جہالت کو کھٹکتا ہے؟ یا ہم ان کی
موت پہ اس لئے بے حس ہیں کہ ہم ہزارہ نہیں اور کوئی ہمہیں ہماری رنگت، ناک نقشے اور آنکھوں کی ساخت، لب و لہجے یا عقیدے کی وجہ سے نہیں مارتا؟ سولہ ایکڑ سے ناصر آباد اور سید آباد سے نو آباد تک پھیلے ہوئے یہ لوگ اس لئے بھی چپ چاپ مارے جا رہے ہیں کہ بہت سے لوگ انہیں جانتے تک نہیں اور ساری بات سن کر پوچھتے ہیں “کون۔۔۔ہزارہ؟”

ربط
http://urdu.dawn.com/kon-hazara/
 
کوئٹہ کو جہاں تک میں نے دیکھا اور سمجھا ہے وہاں، زیادہ تر پشتو بان اور فارسی بان (ہزارہ) تجارت پیشہ ہیں، کاروباری پختون زیادہ تر مستونگ اور پشین کے علاقے سے ہجرت کرکے کوئٹہ آئے ہیں جبکہ ہزارہ افغانستان کے مختلف علاقوں جیسے بامیان، ہرات، مزار شریف اور کابل سے ہجرت کرکے آئے ہیں۔۔ افغانستان کی جنگ آزادی اور اسکے بعد کی سرداروں کی آپس کی چقلش اور پھر طالبان کا عروج اور زوال نے ہزارہ اور پختونوں کے زندگیوں پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں، جس سے کوئٹہ اور اس کے باسی شدید متاثر ہوئے ہیں، یہ تلخیاں اور بدگمانیاں پہلے بھی تھیں لیکن ان میں شدت اور تشدد کا رنگ افغانستان سے آیا ہے۔۔ اس سے پہلے بھی کسی دھاگہ کسی نے بڑی اچھی بات کہی تھی کہ بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہونے کی وجہ سے لوگوں کے ساتھ گھلنے ملنے یا ایڈجسٹ ہونے میں بہت مشکل ہوتی ہے اور مہاجر اپنی شناخت اور ثقافت کے خول سے باہر نہیں نکل پاتے اور عددی تناسب تیزی سے تبدیل ہونے کی وجہ سے مقامی لوگ انہیں اپنی شناخت ،طاقت اور ثقافت کے لئے خطرہ سمجھنے لگتے ہیں۔
 
کوئٹہ کو جہاں تک میں نے دیکھا اور سمجھا ہے وہاں، زیادہ تر پشتو بان اور فارسی بان (ہزارہ) تجارت پیشہ ہیں، کاروباری پختون زیادہ تر مستونگ اور پشین کے علاقے سے ہجرت کرکے کوئٹہ آئے ہیں جبکہ ہزارہ افغانستان کے مختلف علاقوں جیسے بامیان، ہرات، مزار شریف اور کابل سے ہجرت کرکے آئے ہیں۔۔ افغانستان کی جنگ آزادی اور اسکے بعد کی سرداروں کی آپس کی چقلش اور پھر طالبان کا عروج اور زوال نے ہزارہ اور پختونوں کے زندگیوں پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں، جس سے کوئٹہ اور اس کے باسی شدید متاثر ہوئے ہیں، یہ تلخیاں اور بدگمانیاں پہلے بھی تھیں لیکن ان میں شدت اور تشدد کا رنگ افغانستان سے آیا ہے۔۔ اس سے پہلے بھی کسی دھاگہ کسی نے بڑی اچھی بات کہی تھی کہ بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہونے کی وجہ سے لوگوں کے ساتھ گھلنے ملنے یا ایڈجسٹ ہونے میں بہت مشکل ہوتی ہے اور مہاجر اپنی شناخت اور ثقافت کے خول سے باہر نہیں نکل پاتے اور عددی تناسب تیزی سے تبدیل ہونے کی وجہ سے مقامی لوگ انہیں اپنی شناخت ،طاقت اور ثقافت کے لئے خطرہ سمجھنے لگتے ہیں۔
بھائی اصل بات یہ ہے ان مظلوم لوگوں کو تو پتہ ہی نہیں کہ کچھ لوگ ان کی لاشوں پر سیاست چمکا رہے ہیں
اور میرا یہ دھاگہ لگانے کا مقصد ہی یہی ہے
 
اس مضمون سے ایک بات تو واضع ہو گئی ہے کہ ہزارہ کا قتل عام ان کے "شیعہ" ہونے کی وجہ سے نہیں ہو رہا بلکہ ان کی علم سے محبت کی وجہ سے ہو رہا ہے۔بالکل ویسے ہی جیسے ملالہ پر حملہ ہوا تھا۔
اگر آپ غور کریں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ ایک سازش کے تحت پاکستان کو "انتہا پسندی" کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ان لوگوں کی کوشش ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی معتدل مزاج آدمی نہ رہے۔
 
مجھے ڈر ہے کہ ادھر بھی وہ ہی حا لات نہ پیدا ہو جائیں جو کراچی میں ہوئے تھے سندھی قوم پرستوں نے ایک منصوبے کے تحت پٹھانوں اور مہاجروں کو آپس میں لڑایا درپردہ پٹھانوں کی پیٹھ ٹھونکی اور اپنے مقاصد پورے ہونے کے بعد متحدہ ہے اتحاد کر لیا پھر متحدہ سے اپنے مقاصد پورے کرنے کے بعد ان کو بھی دودھ کی مکھی کی طرح نکال کر پھینک دیا
 
اس مضمون سے ایک بات تو واضع ہو گئی ہے کہ ہزارہ کا قتل عام ان کے "شیعہ" ہونے کی وجہ سے نہیں ہو رہا بلکہ ان کی علم سے محبت کی وجہ سے ہو رہا ہے۔بالکل ویسے ہی جیسے ملالہ پر حملہ ہوا تھا۔
اگر آپ غور کریں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ ایک سازش کے تحت پاکستان کو "انتہا پسندی" کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ان لوگوں کی کوشش ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی معتدل مزاج آدمی نہ رہے۔
بالکل درست تجزیہ کیا آپ نے اور کچھ موقع پرست ان کی لاشوں پر اپنی سیاست چمکا رہے ہیں
 
بالکل درست تجزیہ کیا آپ نے اور کچھ موقع پرست ان کی لاشوں پر اپنی سیاست چمکا رہے ہیں
اگر وہ ایسا نہ کریں تو پھر ان کو موقع پرست کون کہے گا؟؟
آپ دیکھیں کہ پاکستان میں ہونے والے ہر "انتہا پسندانہ" واقعے کو جتنی تشہیر مغربی میڈیا میں ملتی ہے مثبت باتوں کو اس کا ایک فیصد بھی نہیں ملتی۔
اور ہم ہیں کہ بری باتوں میں اضافہ ہی کیے جارہے ہیں۔اپنا آپ بیچ کر
 
اگر وہ ایسا نہ کریں تو پھر ان کو موقع پرست کون کہے گا؟؟
آپ دیکھیں کہ پاکستان میں ہونے والے ہر "انتہا پسندانہ" واقعے کو جتنی تشہیر مغربی میڈیا میں ملتی ہے مثبت باتوں کو اس کا ایک فیصد بھی نہیں ملتی۔
اور ہم ہیں کہ بری باتوں میں اضافہ ہی کیے جارہے ہیں۔اپنا آپ بیچ کر
اسی بات کا تو دکھ ہے ہمارے سیاستدان اور مذہبی طبقہ بھی مفادات کی سیاست کر رہا ہے
 

قیصرانی

لائبریرین
جزاک اللہ محترم۔ بہت عمدہ شراکت ہے۔ آج فیس بک پر پڑھ رہا تھا کہ ایک جرمن پادری نے لکھا
وہ فلاں کو مارنے آئے، مجھے اس سے کیا غرض۔ میں چپ رہا
پھر وہ فلاں کو مارنے آئے، مجھے اس سے بھی کیا غرض، میں چپ رہا
پھر وہ فلاں کو مارنے آئے، میں حسبِ معمول چپ رہا
پھر وہ مجھے مارنے آئے، کوئی نہیں بولا۔ کوئی زندہ ہی نہیں بچا تھا
 
Top