سید شہزاد ناصر
محفلین
کون ہزارہ
قبریں، کتبے اور تصویریں
ہزارہ کی پہلی شناخت
پہاڑوں کے دامن میں آباد یہ جگہ جمعے کی نماز کے بعد لوگوں سے بھر جاتی ہے۔ پتھروں کی چھوٹی چھوٹی ڈھیریوں کے بیچ ایک راہداری میں دونوں طرف جیتی جاگتی تصویریں لگی ہیں۔ طالبعلم، اداکار، استاد، بینکر، سپاہی، وکیل اور کھلاڑی۔ خوش پوش، امنگوں سے بھرپور، جن کی آنکھوں سے زندگی چمکتی ہے۔ سورج ڈھلنے کے ساتھ ساتھ قرآن پڑھنے اور بین کرنے کی آوازیں بھی آہستہ آہستہ لرزنا شروع ہو جاتی ہیں۔ یہ ہزارہ قبرستان ہے۔
فارسی کے سائن بورڈ، سنگتراشوں اور کاتبوں کی دکانوں سے ایک تنگ گلی اوپر کا رخ کرتی ہے، موڑ مڑنے پہ دو دیواروں کے بیچ بہت سے جھنڈے، علم اور نشان دور تک پھیلے نظر آتے ہیں۔ جب قتل و غارت کا سلسلہ چل نکلا تو اپنی مدد آپ کے تحت اس قبرستان کا ایک حصہ شہداء کے نام مختص ہو گیا۔ جتنا وقت زمین کے اس ٹکڑے کے حصول میں لگا اس سے کہیں کم وقت میں یہ جگہ کم پڑ گئی۔ ایک میت دفنانے پہنچے تو پتہ لگا کہ ایک اور میت تیار ہے۔
قبرستان کے تین حصے ہیں۔ پہلا حصہ بنتے ہی بھر گیا، پھر دوسرا حصہ بنا اور بھر گیا اور اب تیسرا حصہ بھی بھرتا جا رہا ہے۔ قبروں کے کتبوں پہ ان لوگوں کی تصویریں ہیں، تاریخِ پیدائش، مرنے کا دن اور حادثے کی جگہ درج ہے اور سب سے نیچے قرآن کی آیات لکھی گئی ہیں۔ ہر قبر ایک کہانی ہے، کوئی دفتر جاتے مارا گیا، کوئی زیارت کی طرف موت کے حوالے ہوا۔ کوئی دکان کھولنے جا رہا تھا تو کوئی پڑھنے۔ ایک جگہ پانچ قبریں اکٹھی ہیں، یہ سب ایک ہی باپ دادا کی اولاد تھے اور کرکٹ کھیلنے کی خواہش سے گھر سے چلے تھے۔
ہزارہ آبادی ایک طرف پہاڑ اور دوسری طرف علمدار روڈ کے درمیان قید ہے۔ پہاڑ چونکہ بے ضرر ہیں سو اس طرف آبادی کا جھکاؤ زیادہ ہے۔ علمدار روڈ پار کرنے پر سلامتی کی سرحد بھی پار ہو جاتی ہے۔ مائیں اب اپنے بچے اسکول نہیں بھیجتیں کہ زندگی کو خطرہ ہے اور بہت سے استاد جو کبھی بلوچستان یونیورسٹی میں علم عطا کرنے پر مامور تھے، اب ہاؤسنگ سوسائٹی کی لکیر پار کرنے سے قاصر ہیں۔ دکانوں پر تالے پڑ چکے ہیں اور شہر میں ہزارہ کم کم نظر آتے ہیں۔ یونیورسٹی کی بس پہ دھماکہ ہوا تو باقی لوگوں نے اپنے بچوں کی بسیں علیحدہٰ کروا لیں۔ ہزارہ کے لوگوں پہ زندگی تلخ کرنے والوں نے ہر راستہ مسدود کر رکھا ہے۔