آجکل امورِ خانہ داری خود ہی سرانجام دینے پڑ رہے ہیں۔ سمجھا کریں ناں۔
ہم غریب لوگ ہیں۔ ایک کونے میں ام القیوین میں پڑے ہیں۔ شارجہ دبئی امیروں کے شہر ہیں ہمارا کیا کام وہاں
زینب تو لگتا ہے کمپیوٹر کے سامنے بیٹھی سو گئی ہیں۔
ہو اے ائ پورے کا پورا ہی مہنگا ہے بھائ کیا دبیئ کیا شارجہ۔۔۔۔۔۔۔اب تو کراہوں میں بھی کوئ خاص فرق نہیں رہا
جی ابھی اٹھارہ دن باقی ہیں جن میں دس دن رمضان کے بھی شامل ہیں۔
اب نکلتا ہوں کہ دو ڈھائی گھنٹے بعد پھر محنت مزدوری کے لیے نکلنا ہے۔
پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ
ویسے رمضان میں سحر و افطار ہماری طرف کر لیا کیجیے گا۔ صرف ڈیڑھ گھنٹے کی تو فلائٹ ہے۔
چلیے جی میں بھی نکلوں گا اب۔ آج تو نری گپیں ہی ہانکی ہیں کمپیوٹر پر بیٹھ کر۔ اب صبح اٹھ کر کام کرنا پڑے گا۔ اللہ حافظ!
کیوں بھائ اچھی خاصی جاگی ھوئ ھوں۔۔۔۔۔اپ نیند میں ھو جو میں اپ کو نظر ہی نہیں آرھی
فقیہِ وقت نے دی ہے ضمانت امنِ عالم کی
مگر پھر بھی اے لوگو! احتیاطاً جاگتے رہنا
ویسے ایک بات بتائیں، آپ کو سکول، کالج یا کام پر نہیں جانا ہوتا یا میری طرح سارا وقت گھر پر کرسیاں اور چارپائیاں ہی توڑتی رہتی ہیں؟
صرف کرایہ نہیں ویسے ہی بہت مہنگائ ھو گیئ ہے پچھلے چند سالوں کی نسبت۔۔۔۔۔۔۔ ام القیوین عجمان اور راس الخیمہ کچھ بہتر ہیں۔۔۔۔۔۔۔ویسے بھائ آپ کی جاب کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جی فلائٹ تو ڈیڑھ گھنٹے کی ہے اور ٹکٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پاکستان سے بھی مہنگی
یہ تو ہے جتنے کا ٹکٹ لے کر ایک سحر و افطار کرنے یہاں آنا ہے اس سے کم خرچ میں پورا رمضان نہ صرف سحر و افطار بلکہ عید بھی گزار سکتے ہیں۔
شمشاد بھائی، رمضان کب شروع ہو رہا ہے؟