محمد وارث
لائبریرین
واہ! آپ کے ایک مراسلہ نے تین اشعار یاد کروا دیے:
وہ دن ہوا ہوئے کہ پسینا گلاب تھا
اب عطر بھی ملیں تو محبت کی بو نہیں
اور حضور کچھ اس خستہ حال، نامہ سیاہ کی بھی سن لیں
بیدادِ عشق سے نہیں ڈرتا مگر اسد
جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا
باہر کا دھن آتا جاتا، اصل خزانہ گھر میں ہے
ہر دھوپ میں جو مجھے سایا دے، وہ سچا سایا گھر میں ہے
آپ کا حکم سر آنکھوں پر لیکن ہم تو پہلے ہی بشیر بدر کے اس شعر پر عمل فرما ہیں طوعاً و کرہاً
یوُنہی بے سبب نہ پھرا کرو، کوئی شام گھر میں رھا کرو
وہ غزل کی سچی کتاب ھے ، اُسے چُپکے چُپکے پڑھا کرو
بس ایک چہرہ کتابی نظر میں ہے ناصر
کسی کتاب سے میں استفادہ کیا کرتا
مہِ دو ہفتہ بھی ہوتا تو لطف تھا آتش
اکیلے پی کے شرابِ دو سالہ کیا کرتا