گُلِ یاسمیں
لائبریرین
ہر گز نہیں لگتا ایسا کچھ۔ اس کے لیے الگ سء خدام ہوں گے نا ۔ایک آلکسی نے کہا تھا
اک بار ہی آزما تو لیتے
در بند نہ تھا بھڑا ہوا تھا
ویسے بھی جو لوگ دروازہ بند کرنے تک نہیں آرہے آپ کو لگتا ہے اٹھ کر چٹخنی چڑھانے آئیں گے۔۔۔
ہر گز نہیں لگتا ایسا کچھ۔ اس کے لیے الگ سء خدام ہوں گے نا ۔ایک آلکسی نے کہا تھا
اک بار ہی آزما تو لیتے
در بند نہ تھا بھڑا ہوا تھا
ویسے بھی جو لوگ دروازہ بند کرنے تک نہیں آرہے آپ کو لگتا ہے اٹھ کر چٹخنی چڑھانے آئیں گے۔۔۔
اتنا جان جوکھوں کا کام ہے اُٹھ کر دروازہ بند کرنا۔ اس میں سب سے بڑی قباحت یہ ہے کہ پھر کوئی آگیا تو اُٹھ کر کھولنا بھی پڑے گا۔ایک آلکسی نے کہا تھا
اک بار ہی آزما تو لیتے
در بند نہ تھا بھڑا ہوا تھا
ویسے بھی جو لوگ دروازہ بند کرنے تک نہیں آرہے آپ کو لگتا ہے اٹھ کر چٹخنی چڑھانے آئیں گے۔۔۔
اتنی محنت سے سرداری حاصل کی ہے تو آپ کا کیا خیال ہے کہ خدام اپنے سے جدا ہونگے بھلا؟ہر گز نہیں لگتا ایسا کچھ۔ اس کے لیے الگ سء خدام ہوں گے نا ۔
کہاں کی سرداری؟اتنی محنت سے سرداری حاصل کی ہے تو آپ کا کیا خیال ہے کہ خدام اپنے سے جدا ہونگے بھلا؟
یہاں اس لیے جواب دے رہا ہوں کہ کوچے کا دروازہ کبھی کسی نے بند نہیں کیا۔ کجا یہ کہ کھولنا پڑے۔پھر ہم دروازہ کھٹکٹائیں گے تو کھولنا ہی پڑے گا😊😊😊😊😊
پائن یہ کجا کھولا تو نہیں جاتا ۔ اسے تو توڑتے ہیں شاینطکجا یہ کہ کھولنا پڑے
یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ دروازہ لگوایا ہی نہ ہو۔ دروازہ لگانا بھی تو محنت کا کام ہے۔یہاں اس لیے جواب دے رہا ہوں کہ کوچے کا دروازہ کبھی کسی نے بند نہیں کیا۔ کجا یہ کہ کھولنا پڑے۔
کیسے ہیں صمد بھیا اتنے مصروف ہوگئے ہیں ۔۔یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ دروازہ لگوایا ہی نہ ہو۔ دروازہ لگانا بھی تو محنت کا کام ہے۔
ایک انگریزوں کے جیمز بانڈ تھے دوسرے ہمارے صمد ۔۔۔۔کیسے ہیں صمد بھیا اتنے مصروف ہوگئے ہیں ۔۔
میرا بھانجا ہے معظم لاہور میں اسٹیٹ ایجنسی کرتا ہے اسے ہم پیار سے موجو پکارتے تھے ۔ جب چھوٹا تھا تو جب کچھ کھانے لگتے وہ ان پہنچتا ۔ اب تین چار برس کا بچہ پیار کا حقدار تھا تو ہمارا ایک تکیہ کلام بن گیا ان دنوں
یعنی ہم کھلے میدان میں پڑے ہیں۔۔۔یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ دروازہ لگوایا ہی نہ ہو۔ دروازہ لگانا بھی تو محنت کا کام ہے۔
پرائیویٹ سکولز کے پیپرز کی وجہ سے مصروفیت۔۔۔۔۔کیسے ہیں صمد بھیا اتنے مصروف ہوگئے ہیں ۔۔