کپتان کا مستقبل - ہارون الرشید

x9661_80316922.jpg.pagespeed.ic.8vXfzcaiCl.jpg
ربط
 

arifkarim

معطل
ہارون الرشید جیسے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ عمران خان پر اقتدار کا بھوت سوار ہے۔ ماشاءاللہ۔ کیا بات ہے اس منطق کی۔ کیا انہیں اتنا نہیں پتا کہ اقتدار کے بھوکوں کا سفر سیدھا وزارت عظمیٰ سے شروع نہیں ہوتا بلکہ اس سے پہلے آرمی جرنیلوں کے تلوے چاٹ کر پنجاب کا وزیر خزانہ اور پھر مزید ترقی کر کے وزیر اعلیٰ بنا جاتا ہے۔ الیکشن میں دھاندلی کے ذریعہ ملک کا وزیر اعظم بننا کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔ اسکام کیلئے بڑی سوجھ بوجھ اور حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ جو عمران خان جیسے سیدھے سادھے انسان میں ہے نہیں۔ اسکو مہران بینک اسکینڈل کی طرح خفیہ ایجنسیوں سے حکومت گرانے کیلئے پیسے بٹورنے نہیں آتے۔ اسکو تو اتنا نہیں معلوم کہ زرداری کی طرح بیرونی ممالک سے دس گناہ قیمت پر لی گئی جدید آبدوزیں یہاں کوڑیوں کے بھاؤ کیسے نیلام کی گئیں۔ اسی طرح اسے لاہور کے ناکام میٹروبس سسٹم کا راولپنڈی اور اسلام آباد کے وسط میں تعمیر کرنا جس سے دونوں شہروں کی خوبصورتی، ٹریفک اور کاروبار بری طرح متاثر ہو گئے ہیں پتا نہیں کیوں برا لگتا ہے۔ آخر کو پنجاب حکومت 50 ارب اس پراجیکٹ میں عوام کی فلاح کیلئے ہی تو جھونک رہی ہے کیونکہ یہی کام دیگر دنیا میں 5 ارب پر ہوتا ہے اسلئے اسے 50 ارب کی طوالت دینا اس قوم کیساتھ حبی الوطنی اور رواداری کا جیتا جاگتا اثبوت ہے :)
اگر عمران خان کو وزارت عظمیٰ پر بیٹھنا ہے تو جائے پہلے وائٹ ہاؤس سے اسکی اسفارش کرے۔ جسکے بعد عسکری قوت متحرک ہوکر اسکا ساتھ دینا شروع کر دیگی۔ ساتھ میں اپنا مؤقف اینٹی انڈیا کر دے اور اسکے خلاف چند شدت آمیز تقریریں کرے جہاں قوم کے ہر سانحہ کا ذمہ دار یہود و ہنود کی سازشیں کو ٹھہرائے۔ جس سے جذباتی عوام پہلے سے زیادہ اسکی طرف متوجہ ہوگی اور دما دم مست قلندر ہو جائے گا۔ اور پھر الیکشن آتے ہی پوری تیاری کیساتھ اس میں دھاندلی کرے کہ انتخابات کا مقصد عوام میں مقبولیت کی جانچ نہیں بلکہ دھاندلی میں مہارت ہوتا ہے۔ :)
قیصرانی ایچ اے خان لئیق احمد ناصر علی مرزا نایاب کاشفی حسینی انیس الرحمن محمود احمد غزنوی زرقا مفتی صائمہ شاہ عبدالقیوم چوہدری عباس اعوان محمداحمد ابن رضا عمار ابن ضیا منقب سید سید ذیشان اوشو امجد میانداد محمد خلیل الرحمٰن خالد محمود چوہدری طالوت فلک شیر جاسمن آبی ٹوکول سید عاصم علی شاہ اقبال جہانگیر سید زبیر روحانی بابا تیز Fawad - باباجی فرحت کیانی خالد محمود چوہدری
 
آخری تدوین:
اے ڈاکٹر طاہر دی طرف اشارہ اے
میں نے سنا ہے کہ ہارون الرشید کا اشارہ جہلم کےبابا عرفان الحق کی طرف ہے کیونکہ ہارون الرشید نے کسی اور کالم میں ان پر کافی تنقید کی تھی۔۔۔موصوف کی نظر میں انکے پروفیسر رفیق اختر صاحب کے علاوہ باقی سب فریب خوردہ صوفی ہیں۔۔۔
 
آخری تدوین:

سید زبیر

محفلین
ہارون رشید صاحب سے کوئی یہ پوچھے کہ پچھلے اٹھارہ سال سے کون محنت کر رہا ہے۔

مگر اٹھارہ سال پہلے کے کتنے مخلص ساتھی اب ہم رکاب ہیں اور جو ستارے تحریک انصاف کے فلک پر جگمگا رہے ہیں وہ اٹھارہ سال پہلے کہاں تھے ۔؟ کیا یہی مردم شناسی ہے کہ موقع شناس کو بھی نہ پہچان سکے ۔ رواداری اور مروت میں شیخ رشید جیسے انسان کو بھی تحریک کا پلیٹ فارم دے دیا جو تحریک کے کارکنوں کی امنگوں کے خلاف فیصلے کرواتا رہا ۔ اٹھارہ سال عمران نے سیاست نہیں کی قوم کی خدمت کی ہے ۔ سیلاب اور قدرت آفات میں آگے بڑھا ۔ تبدیلی کی انقلابی سوچ دی مگر آستین کے سانپوں کو روادرای اور مروت میں پالتا رہا ۔ اور یہی سیاست میں اس کی ناکامی کا سبب ہے ۔ پارٹی کی تنظیم میں عمران سے زیادہ جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کا عمل دخل ۔ پرقانے ساتھی اب بھی عمران کے دیوانے ہیں مگر ان درباریوں نے انہیں دور رکھا ہے ۔ اب عمران مکمل طور پر مفاد پرستوں کے ہاتھوں میں ہے کاش شاہ محمود قریشی کے ساتھ کوئی اٹھارہ سال پرانا رفیق بھی مذاکرات کی ٹیم میں شامل ہوتا ۔بہر حال ' سانوں کی ؟ " یہ تمام باتیں میں اپنی دانست کے مطابق نہیں کر رہا بلکہ خلق خدا کی آواز ہے
 

محمداحمد

لائبریرین
مجھے بھی شاہ محمود اور اس طرح کے لوگ پی ٹی آئی میں اچھے نہیں لگتے۔

میرا خیال ہے کہ عارف علوی، اسد عمر، شیریں مزاری، شفقت محمود وغیرہ پی ٹی آئی کے نمائندے کہلانے کے زیادہ حقدار ہیں۔

ہارون رشید صاحب کو بھی پی ٹی آئی جوائن کر لینی چاہیے کہ خیر خواہانہ تنقید پارٹی کی ضرورت ہے۔
 
میرا خیال ہے کہ عارف علوی، اسد عمر، شیریں مزاری، شفقت محمود وغیرہ پی ٹی آئی کے نمائندے کہلانے کے زیادہ حقدار ہیں۔
ڈاکٹر عارف علوی صاحب کے علاوہ کوئی بھی پی ٹی آئی کا بانی رکن نہیں ہے۔
۔۔۔
اسد عمر صاحب کے بھائی وفاقی حکومت میں نجی کاری بورڈ کے چئیرمین کا عہدہ سنبھالے ہوئے ہیں، اور اس بورڈ کے ممبر یہ خود بھی ہیں۔ تیسرے بھائی بینکر ہیں۔ اور مل جل کر کچھ نہ کچھ اپنے لیے کرتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے ایک کزن ایم کیو ایم کی سیٹ پر کراچی سے ممبر قومی اسمبلی ہیں۔ 2012 میں تحریک انصاف کو جوائن کیا۔
شفقت محمود صاحب 6 سال پیپلز پارٹی کے سینیٹر اور پھر ایک نگران حکومت میں وزیر رہے۔ اکتوبر 2011 میں تبدیل ہوئے سیاسی منظر نامے کو دیکھ کر دسمبر 2011 میں تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔
بی بی شیریں مہرالنساء مزاری ایک سیاستدان کی بیٹی ہیں، بہنوئی ق لیگ کے دور حکومت میں پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر تھے۔اسی بہنوئی کا ایک بھتیجا اس وقت مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر رکن پنجاب اسمبلی ہے ۔ ایک اور رشتے دار پاکستان کے نگران وزیر اعظم رہے۔
2008 میں پارٹی میں شامل ہوئی، 2012 میں پارٹی سے استعفی دے دیا اور الیکشن سے دو ماہ پہلے واپس لوٹ آئیں۔
اول الذکر کو چھوڑ کر باقی تینوں پاکستان میں موجود اکنامک اور پولیٹیکل مافیا کا حصہ ہیں ( تبدیلی ;))
 

محمداحمد

لائبریرین
ڈاکٹر عارف علوی صاحب کے علاوہ کوئی بھی پی ٹی آئی کا بانی رکن نہیں ہے۔

اگر اس بنیاد پر سب کو دیس نکالا دے دیا جائے تو آخر میں صرف عمران خان ہی بچیں گے۔ :)

اسد عمر صاحب کے بھائی وفاقی حکومت میں نجی کاری بورڈ کے چئیرمین کا عہدہ سنبھالے ہوئے ہیں، اور اس بورڈ کے ممبر یہ خود بھی ہیں۔ تیسرے بھائی بینکر ہیں۔ اور مل جل کر کچھ نہ کچھ اپنے لیے کرتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے ایک کزن ایم کیو ایم کی سیٹ پر کراچی سے ممبر قومی اسمبلی ہیں۔ 2012 میں تحریک انصاف کو جوائن کیا۔
شفقت محمود صاحب 6 سال پیپلز پارٹی کے سینیٹر اور پھر ایک نگران حکومت میں وزیر رہے۔ اکتوبر 2011 میں تبدیل ہوئے سیاسی منظر نامے کو دیکھ کر دسمبر 2011 میں تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔
بی بی شیریں مہرالنساء مزاری ایک سیاستدان کی بیٹی ہیں، بہنوئی ق لیگ کے دور حکومت میں پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر تھے۔اسی بہنوئی کا ایک بھتیجا اس وقت مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر رکن پنجاب اسمبلی ہے ۔ ایک اور رشتے دار پاکستان کے نگران وزیر اعظم رہے۔
2008 میں پارٹی میں شامل ہوئی، 2012 میں پارٹی سے استعفی دے دیا اور الیکشن سے دو ماہ پہلے واپس لوٹ آئیں۔

اس چارج شیٹ سے یہ کسی طرح ثابت نہیں ہوتا کہ یہ لوگ ملک دشمن ہیں۔
 
اگر اس بنیاد پر سب کو دیس نکالا دے دیا جائے تو آخر میں صرف عمران خان ہی بچیں گے۔ :)



اس چارج شیٹ سے یہ کسی طرح ثابت نہیں ہوتا کہ یہ لوگ ملک دشمن ہیں۔
اجی۔۔۔ کون کمبخت ملک دشمن ثابت کر رہا ہے۔ بس ۔۔۔۔۔موقع و مفاد پرستوں کی فہرست کو ذرا اپڈیٹ کیا ہے
 

محمداحمد

لائبریرین
آپ کپتان کا کیا مستقبل دیکھ رہے ہیں عبدالقیوم چوہدری صاحب؟
کپتان کا اپنا ذاتی مستقبل تو بہت بہتر ہے، وہ سیاست میں بھلے کچھ بھی نہ رہے، پھر بھی پاکستانی قوم کا سپورٹس ہیرو تو ہے ہی۔
البتہ پارٹی کا ڈانواڈول ہے کہ پارٹی میں گھس آئے دراندازوں کی وجہ سے سیاسی مستقبل کا سوا ستیاناس کچھ عرصہ پہلے تک زوروشور سے جاری تھا، جس میں اب تنزلی تقریباً رک گئی ہے اور ایک عارضی سا جمود طاری ہو چکا ہے۔ اور اگر کپتان اس سیاسی تنزلی کو اب بھی حقیقی عمل سے نہ سنبھال پایا تو پھر سے خلا پیدا ہونا شروع ہو جائے گا اور خلا زیادہ دیر برقرار نہیں رہتا۔
 
آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
کپتان کا اپنا ذاتی مستقبل تو بہت بہتر ہے، وہ سیاست میں بھلے کچھ بھی نہ رہے، پھر بھی پاکستانی قوم کا سپورٹس ہیرو تو ہے ہی۔
البتہپارٹی کا ڈانواڈول ہے کہ پارٹی میں گھس آئے دراندازوں کی وجہ سے سیاسی مستقبل کا سوا ستیاناس کچھ عرصہ پہلے تک زوروشور سے جاری تھا، جس میں اب تنزلی تقریباً رک گئی ہے اور ایک عارضی سا جمود طاری ہو چکا ہے۔ اور اگر کپتان اس سیاسی تنزلی کو اب بھی حقیقی عمل سے نہ سنبھال پایا تو پھر سے خلا پیدا ہونا شروع ہو جائے گا اور خلا زیادہ دیر برقرار نہیں رہتا۔

شکریہ۔

اگر آپ سے "مخالف ٹیم کے کپتان" کے بارے میں بھی کچھ کہنے کی درخواست کی جائے تو: :)
 
شکریہ۔

اگر آپ سے "مخالف ٹیم کے کپتان" کے بارے میں بھی کچھ کہنے کی درخواست کی جائے تو: :)
مخالف ایک تو نہیں، بہرحال اگر آپ کا اشارہ جناب نواز شریف صاحب کی طرف ہے تو وہ سیاسی طور پر انتہائی کمزور ہیں، لیکن 30 سال سیاسی اکھاڑ بچھاڑ کی ماریں سہہ لینے کے بعد وہ اکثریت کی قبول عام کی سند پاجانے والے فیصلے کرنے کی صلاحیت حاصل کر چکے ہیں اور ایک مخصوص ذہنیت رکھنے والے پاکستانیوں کے رہنما رہیں گے۔
لیکن اگر یہ حقیقی عمل کر کے نہیں دیکھا پاتے، تو انھیں بھی پیپلز پارٹی کی طرح منہ کے بل گرنے میں وقت نہیں لگے گا
 

محمداحمد

لائبریرین
مخالف ایک تو نہیں، بہرحال اگر آپ کا اشارہ جناب نواز شریف صاحب کی طرف ہے تو وہ سیاسی طور پر انتہائی کمزور ہیں، لیکن 30 سال سیاسی اکھاڑ بچھاڑ کی ماریں سہہ لینے کے بعد وہ اکثریت کی قبول عام کی سند پاجانے والے فیصلے کرنے کی صلاحیت حاصل کر چکے ہیں اور ایک مخصوس ذہنیت رکھنے والے پاکستانیوں کے رہنما رہیں گے۔
لیکن اگر یہ حقیقی عمل کر کے نہیں دیکھا پاتے، تو انھیں بھی پیپلز پارٹی کی طرح منہ کے بل گرنے میں وقت نہیں لگے گا

شکریہ ۔ :)

لیکن اگر یہ حقیقی عمل کر کے نہیں دیکھا پاتے، تو انھیں بھی پیپلز پارٹی کی طرح منہ کے بل گرنے میں وقت نہیں لگے گا

یعنی پانچ سال :)
 
Top