کچھ آگہی کی سبیلیں ہیں انتشار میں بھی (از قلم نیرنگ خیال)

منجنیق ہوجاتا ہے ہوا جاتا ہے ہونگے نظارہ وہ تیرتے پانی پہ لہریں ہیں مگر پانی رکا ہوتا ہے ٹهیک اپنی جذبات اور احساس کی طرح ہاں ندی کی بہتے پانی کی طرح شور آپکی خیال رقص کرتا ہے
 

سیما علی

لائبریرین
کچھ آگہی کی سبیلیں ہیں انتشار میں بھی
عمر رسیدہ اور جہاندیدہ لوگوں کی باتیں سن کر میں ہمیشہ سوچتا تھا کہ ان سب کو مصنف ہونا چاہیے۔ کتنا اچھا بولتے ہیں۔ دنیا کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ ان کے پاس خیالات و الفاظ کی کتنی فراوانی ہے۔ کتنی سہولت سے یہ واقعات بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔ میں ایسا کیوں نہیں کر سکتا۔ مجھے تو جو دو چار لفظ آتے ہیں، فوراً سے پیشتر نوک قلم کے حوالے کر دیتا ہوں۔ دنیا چیختی رہتی ہے کہ یہ زبان و بیان درست نہیں۔ میاں لکھنے کا یہ انداز درست نہیں۔ تم کب لکھنا سیکھو گے؟ لیکن میں سب سے بےپروا جو الٹا سیدھا دل میں آتا ہے لکھتا ہوں اور خوش ہوتا ہوں۔

لیکن ہر گزرتا دن مجھے چپ رہنا سکھانے لگا ہے۔ میں چاہ کر بھی نہیں لکھ پاتا۔ میں سوچ کر بھی نہیں بول پاتا۔ میرے الفاظ کے آگے خندق اور میری سوچ کے آگے خلا پیدا ہوگیا ہے۔ نیا سال پرانا سال۔۔۔ نئے دن پرانے دن۔۔۔ نئی باتیں پرانی باتیں۔۔۔ سب کتنا بےمعنی ہے۔ سب کتنا مبہم ہے۔ کوئی بات ، کوئی لمحہ، کوئی دن واضح نہیں ہے۔ کسی لفظ میں اثر نہیں ہے۔ کسی بات میں زندگی کی رمق نہیں ہے۔ میں جی رہا ہوں اس لیے کہ ربِ کائنات کی یہی رضا ہے۔ کوئی مر رہا ہے کیوں کہ کاتبِ تقدیر نے یہ لکھا ہے۔ خاموشی۔۔۔ سردی۔۔۔ پھر سر اٹھاتی بہار۔۔۔ گرماتے ہوئے دن۔۔ مختصر راتیں۔۔۔ پھر خزاں ۔۔۔ اور آخر میں سرد راتیں۔۔ خاموشی۔۔۔۔۔ غور سے دیکھتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ سال بھی انسانی زندگی گزار رہاہے۔ کسی سرد رات میں کہرے کے پیچھے چھپ کر آخری ہچکی لے گا اور ختم ہوجائے گا۔ اسی سرد رات کی کوکھ سے ایک نیا سال ابھرے گا۔ جب آنکھیں کھولے گا تو بہار لائے گا۔ جوانی میں گرم ہوگا۔ ادھیڑ عمری میں خزاں کے رنگوں سے دل بہلائے گا۔ اور پھر سرد راتوں میں خاموش ہوتا ہوا اپنی آخری ساعت کا انتظار کرے گا۔ کتنی مماثلت ہے اس دورانیے کی انسان کی زندگی سے۔کتنی زندہ لگتی ہے یہ تخیلاتی تقسیم۔ جیسے یہی تو ہے سب کچھ۔ اور ہم۔۔۔ ہم تو ہیں نہیں۔ ہم کہاں ہیں۔ کس برس میں ہیں۔ بہار میں ہیں کہ خزاں میں۔۔۔۔ سرگرم ہیں کہ سرد راتوں کے رحم و کرم پر۔ کون جانے۔۔۔ انسان اور بدلتی رتوں میں یہی فرق رہ گیا ہے کہ انسان نے ظاہری پہناوے کو اندرونی خوبصورتی پر فوقیت دے دی ہے۔ شاید اسی ظاہری تصنع کی نمود اور برجستگی کی موت کا نام ارتقا ہے۔

فطرت کا ساتھ مجھے ہمیشہ سے بھلا لگتا ہے۔ یہ وہ راستہ ہے جو مجھے سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ جو میرے بکھرے حروف کو الفاظ کی شکل عطا کرتا ہے۔ یہ ہی وہ پانی ہے جس کی بدولت الفاظ جملوں کی فصل میں ڈھل جاتے ہیں۔ ذرا اس درخت کو دیکھو۔۔۔ میں ایک درخت سامنے کھڑا ہوں۔ بظاہر کتنا ہرابھرا۔۔۔ اور جڑیں دیکھو تو۔ دیمک چاٹ گئی ہے۔ تنا بالکل کھوکھلا ہو چکا ہے۔ کسی لمحے یہ درخت گر جائےگا۔ لیکن شاید یہ بھی انسانوں سے متاثر ہوگیا ہے۔ جب تک زندہ ہے ہرا بھرا نظر آنا چاہتا ہے۔ میں اس لمحے میں یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہوں کہ یہ دھوکا درخت خود کو دے رہا ہے کہ دیکھنے والوں کو۔ میں اس دوراہے کا بھی شکار ہوں کہ دھوکا دہی انسان سے فطرت سے سیکھی ہے یا اس کا خمیر ہے۔ اور یہ درخت کچھ خزاں رسیدہ پتوں کے ساتھ۔۔ کچھ سرخ پتے ہیں اس کے اور کچھ ہرے بھی۔ کتنے بھلے رنگ ہیں اس کے۔ پر یہ پتے سرخ کیوں ہیں۔ کیا درختوں پر بھی جذباتی رنگ نمایاں ہوتے ہیں۔ کیا جذبات کے اظہار کا طریقہ تمام حیات میں فطری طور پر ایک سا ہے؟ اس میں تنوع کیوں نہیں؟

اور یہ پتھر سے پھوٹتا پانی۔ تو کیا ہم ساری عمر چشمے کے لیے کسی بیرونی ضرب کے منتظر رہیں گے؟ کیا ان تمام پتھروں سے پانی پھوٹ سکتا ہے؟ یا کوئی کوئی پتھر ہی پانی جاری کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ کیا انسان بھی اپنی صلاحیتوں کو دنیا پر آشکار کرنے کے لیے کسی ضرب کا منتظر رہے؟ کوئی واقعہ کوئی حادثہ ، بےاحتیاطی میں لگی ٹھوکر یا نادانستگی میں لگی کوئی ضرب؟ اور جو پھر بھی پانی نہ پھوٹا تو؟ پھر بھی زمین بنجر رہ گئی تو؟ شاخ پر پھول نہ کھلا تو؟ شاید ان سب سوالوں کے جواب نہیں ہیں۔ شاید ان سب سوالوں کا جواب "شاید" ہی ہے۔ اسی اضطراب میں ایک چھوٹا سا کنکر سامنے بہتے پانی میں پھینکتا ہوں۔ کچھ لہریں پیدا ہوتی کناروں کی طرف بڑھتی ہیں۔ پر جوں جوں اپنے مرکز سے دور ہوتی ہیں، مدہم ہوتی غائب ہونے لگتی ہیں۔ ایسے میں ایک لہر ختم ہونے سے پہلے سرگوشی کرتی ہے۔ نادان! ضرب تو ہر پل، ہر ماہ اور ہر سال لگ رہی ہے۔ گزرتے لمحے جو دنوں میں بدل رہے، دن جو ہفتوں سے مہینوں کا سفر کر رہے، مہینے جو سال کے لفافے میں لپٹ رہے، یہ سب ضربیں ہی تو ہیں۔ احساس پر۔ خیال پر۔ اگر پھر بھی ندامت آ نکھوں سے چشموں کی صورت نہیں بہہ رہی، اگر پھر بھی ذہن و دل کی زمیں پر نئی سوچ، نئے راستوں کے تعین کی فصل نہیں بیجی گئی، اگر پھر بھی شاخِ تخیل پر نئے عزم کے پھول نہیں کھل رہے۔ تو پھر یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ضرب تو لگ رہی ہے مگر یہ پتھر کسی چشمے کا ماخذ بننے کا اہل نہیں۔ یہ مٹی بنجر ہے، فصل کا بار نہیں اٹھا سکتی۔ یہ شاخ اپنی اصل سے جدا ہوگئی ہے۔

سال بھی کتنی عجیب چیز ہے۔ دیکھا جائے تو ان لمحوں کا مجموعہ ہے جو کسی شمار میں نہیں۔ ان دنوں کا گوشوارہ ہے جن کا احتساب نہیں۔ یوں ہی سورج کی طرح طلوع ہوتا ہے، یوں ہی سورج کی طرح غروب ہورہا ہے۔ اور میں بےبسی سے اس بوڑھے سال کو دفناتے اس نومولود سال کا شور سن رہا ہوں۔ جبکہ میرے پاس کسی بوڑھے کا خوبصورت بیان نہیں ۔ کسی داستان گو کی زبان نہیں ۔ اس پر ستم یہ کہ محشر بدایونی کا یہ شعر مجھے ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔

کچھ آگہی کی سبیلیں ہیں انتشار میں بھی
کبھی کبھی نکل آیا کرو غبار میں بھی

نیرنگ خیال
یکم جنوری 2019
یکم جنوری 2018 کو لکھی گئی تحریر "تتلیاں"
یکم جنوری 2017 کو لکھی گئی تحریر "عجب تعلق"
یکم جنوری 2016 کو لکھی گئی تحریر "اوستھا"
2 جنوری 2015 کو لکھی گئی تحریر "سال رفتہ"
31 دسمبر 2013 کو لکھی گئی تحریر" کہروا"
نیرنگ خیال !!!!!
صاحب ہم جیسے لوگوں کہ پاس تو الفاظ نہی کہ آپکی تعرلف کرسکیں ۔۔۔بالکل سپیچ لیس پر ہر ہر لفظ دل سے نکلا ہوا
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔۔۔۔۔
الللہ آپ پر اپنا کرم فرمائے آمین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ماشاء اللہ۔خوابیدہ ذہنوں اور زنگ آلود دلوں پر دستک دیتی ایک خوبصورت تحریر۔ بہت خوب نیرنگ خیال بھائی۔
اللہ کرے زور قلم زیادہ۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
نیرنگ خیال !!!!!
صاحب ہم جیسے لوگوں کہ پاس تو الفاظ نہی کہ آپکی تعرلف کرسکیں ۔۔۔بالکل سپیچ لیس پر ہر ہر لفظ دل سے نکلا ہوا
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔۔۔۔۔
الللہ آپ پر اپنا کرم فرمائے آمین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کے اپنے دل کا گداز ہے وگرنہ کہاں اثر ۔۔۔۔
آمین
بہت شکریہ سیما۔ آپ بہت پرانے دھاگے نکال رہی ہیں۔ :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
واہ نیا اوتار بہت خوب صورت آپکی شخصیت کے عین مطابق بے حد کمال لاریب بی بی کا
یہ اوتار تو دعاؤں والی صاحبہ کا ہے۔ ویسے انہوں نے مجھے آجکل دعائیں دینی بند کی ہوئی ہیں۔ لاریب مرزا والا اوتار بھی بہت پیارا ہے۔ان شاء اللہ ایک دو دن بعد وہ لگاؤں گا۔
 

جاسمن

لائبریرین
یہ اوتار تو دعاؤں والی صاحبہ کا ہے۔ ویسے انہوں نے مجھے آجکل دعائیں دینی بند کی ہوئی ہیں۔
اللہ پاک آپ اور آپ سے جڑے سب لوگوں کی زندگی کامل ایمان کی روشنی، خوشیوں، اچھی صحت، سکھ اور آسانیوں کے رنگوں سے بھر دے۔ کبھی تتی ہوا نہ لگے۔ شالا ہمیشہ شاد و آباد رہیں۔ دل ٹھنڈا رکھے اللہ پیارا اپنے سب رشتوں سے۔ حلال روزی میں برکتیں ہوں۔ زندگی میں سکون ہو ہمیشہ۔ اللہ اپنے پیارے بندوں میں شامل رکھے اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیارا امتی بنائے۔ آمین!
ثم آمین!
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اللہ پاک آپ اور آپ سے جڑے سب لوگوں کی زندگی کامل ایمان کی روشنی، خوشیوں، اچھی صحت، سکھ اور آسانیوں کے رنگوں سے بھر دے۔ کبھی تتی ہوا نہ لگے۔ شالا ہمیشہ شاد و آباد رہیں۔ دل ٹھنڈا رکھے اللہ پیارا اپنے سب رشتوں سے۔ حلال روزی میں برکتیں ہوں۔ زندگی میں سکون ہو ہمیشہ۔ اللہ اپنے پیارے بندوں میں شامل رکھے اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیارا امتی بنائے۔ آمین!
ثم آمین!
آمین
اللہ پاک یہ سب دعائیں میرے حق میں قبول کرے۔ اور جزا میں اس سے ہزارہا درجہ بھلائیاں آپ کو عطا کرے۔ آمین یا رب العالمین
 

سیما علی

لائبریرین
آپ کے اپنے دل کا گداز ہے وگرنہ کہاں اثر ۔۔۔۔
آمین
بہت شکریہ سیما۔ آپ بہت پرانے دھاگے نکال رہی ہیں۔ :)
فکر محتاج بصیرت کی ہے
آگہی روشنی حکمت کی ہے

دونوں اب فکرِ آگہی بن کر
صورت اک حسنِ تربیت کی ہے
سيد شبير احمد کاکا خيل

سال بھی کتنی عجیب چیز ہے۔ دیکھا جائے تو ان لمحوں کا مجموعہ ہے جو کسی شمار میں نہیں۔ ان دنوں کا گوشوارہ ہے جن کا احتساب نہیں۔ یوں ہی سورج کی طرح طلوع ہوتا ہے، یوں ہی سورج کی طرح غروب ہورہا ہے۔ اور میں بےبسی سے اس بوڑھے سال کو دفناتے اس نومولود سال کا شور سن رہا ہوں۔ جبکہ میرے پاس کسی بوڑھے کا خوبصورت بیان نہیں ۔ کسی داستان گو کی زبان نہیں ۔ اس پر ستم یہ کہ محشر بدایونی کا یہ شعر مجھے ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔

کچھ آگہی کی سبیلیں ہیں انتشار میں بھی
کبھی کبھی نکل آیا کرو غبار میں بھی
سچ کہا آپ نے آگہی کا اپنا دکھ ہے اور کسک محسوس کرنے ک لئے دل انسانیت، شرافت، خلوص، اپنائیت، سے لبریز چاہیے۔ کیونکہ فی زمانہ اگر کوئی چیز بکتی ہے تو وہ ہے خوشامد اور منافقت۔
؀
روپ رنگ ملتا ہے خد و خال ملتے ہیں
آدمی نہیں ملتا آدمی کے پیکر میں!!!!!!!
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
فکر محتاج بصیرت کی ہے
آگہی روشنی حکمت کی ہے

دونوں اب فکرِ آگہی بن کر
صورت اک حسنِ تربیت کی ہے
سيد شبير احمد کاکا خيل


سچ کہا آپ نے آگہی کا اپنا دکھ ہے اور کسک محسوس کرنے ک لئے دل انسانیت، شرافت، خلوص، اپنائیت، سے لبریز چاہیے۔ کیونکہ فی زمانہ اگر کوئی چیز بکتی ہے تو وہ ہے خوشامد اور منافقت۔
؀
روپ رنگ ملتا ہے خد و خال ملتے ہیں
آدمی نہیں ملتا آدمی کے پیکر میں!!!!!!!
کیا شک ہے۔ بالکل درست کہا اپیا
 

محمداحمد

لائبریرین
نین بھائی آپ کی یہ خوبصورت تحریر آج پھر پڑھی۔ بہت لطف آیا۔ ایسی لطیف نثر اب خال خال ہی پڑھنے کا اتفاق ہوتا ہے۔ ماشاء اللہ!

پھر سے داد حاضر ہے۔
گر قبول افتد زہے عز و شرف
 

محمداحمد

لائبریرین
اس تحریر کے تبصرے بھی جاندار ہیں۔ جب کئی دوست محفل پر فعال تھے تو خوب رنگ جمتا تھا۔ باقی سفیر آفریدی کی گوگل ٹرانسلیشن یا این ایل پی قسم کی نثر بھی ایک تفریحی اسپیمنگ معلوم ہوئی۔ :) :)
 
ذوالقرنین نیرنگِ خیال
کچھ آگہی کی سبیلیں ہیں انتشار میں بھی!
عمر رسیدہ اور جہاندیدہ لوگوں کی باتیں سن کر میں ہمیشہ سوچتا تھا کہ ان سب کو مصنف ہونا چاہیے۔ کتنا اچھا بولتے ہیں۔ دنیا کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ ان کے پاس خیالات و الفاظ کی کتنی فراوانی ہے۔ کتنی سہولت سے یہ واقعات بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔ میں ایسا کیوں نہیں کر سکتا۔ مجھے تو جو دو چار لفظ آتے ہیں، فوراً سے پیشتر نوک قلم کے حوالے کر دیتا ہوں۔ دنیا چیختی رہتی ہے کہ یہ زبان و بیان درست نہیں۔ میاں لکھنے کا یہ انداز درست نہیں۔ تم کب لکھنا سیکھو گے؟ لیکن میں سب سے بےپروا جو الٹا سیدھا دل میں آتا ہے لکھتا ہوں اور خوش ہوتا ہوں۔
لیکن ہر گزرتا دن مجھے چپ رہنا سکھانے لگا ہے۔ میں چاہ کر بھی نہیں لکھ پاتا۔ میں سوچ کر بھی نہیں بول پاتا۔ میرے الفاظ کے آگے خندق اور میری سوچ کے آگے خلا پیدا ہوگیا ہے۔ نیا سال پرانا سال۔۔۔ نئے دن پرانے دن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نئی باتیں پرانی باتیں۔۔۔ سب کتنا بےمعنی ہے۔ سب کتنا مبہم ہے۔ کوئی بات ، کوئی لمحہ، کوئی دن واضح نہیں ہے۔ کسی لفظ میں اثر نہیں ہے۔ کسی بات میں زندگی کی رمق نہیں ہے۔ میں جی رہا ہوں اس لیے کہ ربِ کائنات کی یہی رضا ہے۔ کوئی مر رہا ہے کیوں کہ کاتبِ تقدیر نے یہ لکھا ہے۔ خاموشی۔۔۔۔۔۔۔ سردی۔۔۔ پھر سر اٹھاتی بہار۔۔۔ گرماتے ہوئے دن۔۔۔۔۔ مختصر راتیں۔۔۔۔۔۔ پھر خزاں ۔۔۔ اور آخر میں سرد راتیں۔۔۔۔۔۔۔ خاموشی۔۔۔۔۔ غور سے دیکھتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ سال بھی انسانی زندگی گزار رہاہے۔ کسی سرد رات میں کہرے کے پیچھے چھپ کر آخری ہچکی لے گا اور ختم ہوجائے گا۔ اسی سرد رات کی کوکھ سے ایک نیا سال ابھرے گا۔ جب آنکھیں کھولے گا تو بہار لائے گا۔ جوانی میں گرم ہوگا۔ ادھیڑ عمری میں خزاں کے رنگوں سے دل بہلائے گا۔ اور پھر سرد راتوں میں خاموش ہوتا ہوا اپنی آخری ساعت کا انتظار کرے گا۔ کتنی مماثلت ہے اس دورانیے کی انسان کی زندگی سے۔کتنی زندہ لگتی ہے یہ تخیلاتی تقسیم۔ جیسے یہی تو ہے سب کچھ۔ اور ہم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم تو ہیں نہیں۔ ہم کہاں ہیں۔ کس برس میں ہیں۔ بہار میں ہیں کہ خزاں میں۔۔۔۔ سرگرم ہیں کہ سرد راتوں کے رحم و کرم پر۔ کون جانے۔۔۔ انسان اور بدلتی رتوں میں یہی فرق رہ گیا ہے کہ انسان نے ظاہری پہناوے کو اندرونی خوبصورتی پر فوقیت دے دی ہے۔ شاید اسی ظاہری تصنع کی نمود اور برجستگی کی موت کا نام ارتقا ہے۔
فطرت کا ساتھ مجھے ہمیشہ سے بھلا لگتا ہے۔ یہ وہ راستہ ہے جو مجھے سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ جو میرے بکھرے حروف کو الفاظ کی شکل عطا کرتا ہے۔ یہ ہی وہ پانی ہے جس کی بدولت الفاظ جملوں کی فصل میں ڈھل جاتے ہیں۔ ذرا اس درخت کو دیکھو۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ایک درخت سامنے کھڑا ہوں۔ بظاہر کتنا ہرابھرا۔۔۔ اور جڑیں دیکھو تو۔ دیمک چاٹ گئی ہے۔ تنا بالکل کھوکھلا ہو چکا ہے۔ کسی لمحے یہ درخت گر جائےگا۔ لیکن شاید یہ بھی انسانوں سے متاثر ہوگیا ہے۔ جب تک زندہ ہے ہرا بھرا نظر آنا چاہتا ہے۔ میں اس لمحے میں یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہوں کہ یہ دھوکا درخت خود کو دے رہا ہے کہ دیکھنے والوں کو۔ میں اس دوراہے کا بھی شکار ہوں کہ دھوکا دہی انسان نے فطرت سے سیکھی ہے یا اس کا خمیر ہے۔ اور یہ درخت کچھ خزاں رسیدہ پتوں کے ساتھ۔۔۔ کچھ سرخ پتے ہیں اس کے اور کچھ ہرے بھی۔ کتنے بھلے رنگ ہیں اس کے۔ پر یہ پتے سرخ کیوں ہیں۔ کیا درختوں پر بھی جذباتی رنگ نمایاں ہوتے ہیں۔ کیا جذبات کے اظہار کا طریقہ تمام حیات میں فطری طور پر ایک سا ہے؟ اس میں تنوع کیوں نہیں؟
اور یہ پتھر سے پھوٹتا پانی۔ تو کیا ہم ساری عمر چشمے کے لیے کسی بیرونی ضرب کے منتظر رہیں گے؟ کیا ان تمام پتھروں سے پانی پھوٹ سکتا ہے؟ یا کوئی کوئی پتھر ہی پانی جاری کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ کیا انسان بھی اپنی صلاحیتوں کو دنیا پر آشکار کرنے کے لیے کسی ضرب کا منتظر رہے؟ کوئی واقعہ کوئی حادثہ ، بےاحتیاطی میں لگی ٹھوکر یا نادانستگی میں لگی کوئی ضرب؟ اور جو پھر بھی پانی نہ پھوٹا تو؟ پھر بھی زمین بنجر رہ گئی تو؟ شاخ پر پھول نہ کھلا تو؟ شاید ان سب سوالوں کے جواب نہیں ہیں۔ شاید ان سب سوالوں کا جواب "شاید" ہی ہے۔ اسی اضطراب میں ایک چھوٹا سا کنکر سامنے بہتے پانی میں پھینکتا ہوں۔ کچھ لہریں پیدا ہوتی کناروں کی طرف بڑھتی ہیں۔ پر جوں جوں اپنے مرکز سے دور ہوتی ہیں، مدہم ہوتی غائب ہونے لگتی ہیں۔ ایسے میں ایک لہر ختم ہونے سے پہلے سرگوشی کرتی ہے۔ نادان! ضرب تو ہر پل، ہر ماہ اور ہر سال لگ رہی ہے۔ گزرتے لمحے جو دنوں میں بدل رہے، دن جو ہفتوں سے مہینوں کا سفر کر رہے، مہینے جو سال کے لفافے میں لپٹ رہے، یہ سب ضربیں ہی تو ہیں۔ ۔۔احساس پر۔۔۔۔۔۔۔۔خیال پر۔ اگر پھر بھی ندامت
آ نکھوں سے چشموں کی صورت نہیں بہہ رہی، اگر پھر بھی ذہن و دل کی زمیں پر نئی سوچ، نئے راستوں کے تعین کی فصل نہیں بیجی گئی، اگر پھر بھی شاخِ تخیل پر نئے عزم کے پھول نہیں کھل رہے۔ تو پھر یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ضرب تو لگ رہی ہے مگر یہ پتھر کسی چشمے کا ماخذ بننے کا اہل نہیں۔ یہ مٹی بنجر ہے، فصل کا بار نہیں اٹھا سکتی۔ یہ شاخ اپنی اصل سے جدا ہوگئی ہے۔
سال بھی کتنی عجیب چیز ہے۔ دیکھا جائے تو ان لمحوں کا مجموعہ ہے جو کسی شمار میں نہیں۔ ان دنوں کا گوشوارہ ہے جن کا احتساب نہیں۔ یوں ہی سورج کی طرح طلوع ہوتا ہے، یوں ہی سورج کی طرح غروب ہورہا ہے۔ اور میں بےبسی سے اس بوڑھے سال کو دفناتے اس نومولود سال کا شور سن رہا ہوں۔ جبکہ میرے پاس کسی بوڑھے کا خوبصورت بیان نہیں ۔ کسی داستان گو کی زبان نہیں ۔ اس پر ستم یہ کہ محشؔربدایونی کا یہ شعر مجھے ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔​
کچھ آگہی کی سبیلیں ہیں انتشار میں بھی
کبھی کبھی نکل آیا کرو۔۔ غبار میں بھی​
 
آخری تدوین:

عمار نقوی

محفلین
حد ہے بھئی کوئی اتنا اچھا کیسا لکھ سکتا ہے!
کاش کاش کاش زبان و بیان پر یہ قدرت،یہ شگفتگی،یہ چاشنی، تخیل کے پردے میں حقیقت بیانی کا فن مجھے بھی حاصل ہو جائے !
 

سیما علی

لائبریرین
نیرنگ خیال !!!!!
صاحب ہم جیسے لوگوں کہ پاس تو الفاظ نہی کہ آپکی تعرلف کرسکیں ۔۔۔بالکل سپیچ لیس پر ہر ہر لفظ دل سے نکلا ہوا
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔۔۔۔۔
الللہ آپ پر اپنا کرم فرمائے آمین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سچ اب جب نین بھیا کو جان۔ گیے۔ تو۔ بھی۔ کیفیت۔ یہی۔ ہے🥇🥇🥇🥇🥇
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
نین بھائی آپ کی یہ خوبصورت تحریر آج پھر پڑھی۔ بہت لطف آیا۔ ایسی لطیف نثر اب خال خال ہی پڑھنے کا اتفاق ہوتا ہے۔ ماشاء اللہ!

پھر سے داد حاضر ہے۔
گر قبول افتد زہے عز و شرف
احمد بھائی۔۔۔ آپ سراپا محبت ہیں۔۔۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
حد ہے بھئی کوئی اتنا اچھا کیسا لکھ سکتا ہے!
کاش کاش کاش زبان و بیان پر یہ قدرت،یہ شگفتگی،یہ چاشنی، تخیل کے پردے میں حقیقت بیانی کا فن مجھے بھی حاصل ہو جائے !
سراسر آپ کی محبت اور ذرہ نوازی ہے۔ محبت سئیں۔
 
Top