ہادیہ
محفلین
جی بالکل۔ میں اسی تبصرے کی بات کررہی ہوں۔۔ اسی لیے میں نے سرگوشی میں لکھ دیا تھا تربیت کے حوالے سے جو تبصرہ کیا اسی کا ذکر کررہی۔۔ مجھے معلوم تھا لنک صحیح سے ہونہیں سکا۔۔ بہت شکریہ آپ کا۔ جزاک اللہ خیرا
جی بالکل۔ میں اسی تبصرے کی بات کررہی ہوں۔۔ اسی لیے میں نے سرگوشی میں لکھ دیا تھا تربیت کے حوالے سے جو تبصرہ کیا اسی کا ذکر کررہی۔۔ مجھے معلوم تھا لنک صحیح سے ہونہیں سکا۔۔ بہت شکریہ آپ کا۔ جزاک اللہ خیرا
مجھے کچھ عرصہ میٹرک، پھر ایف۔ایس۔سی ، بی۔ایس۔سی اور ایم۔ایس۔سی کو پڑھانے کا تجربہ رہا ہے۔ پی۔ایچ۔ڈی کے بعد تحقیق سے ہی وابستہ ہوں۔میں جو پڑھا رہی ہوں وہ میتھس، انگلش اور سائنس۔۔
جن میں سائنس اور انگلش پڑھانے کا مزا آیا۔۔ جبکہ مجھے میتھس پڑھانے کا تجربہ ہونے کے باوجود ناکامی زیادہ ملی۔۔ کیونکہ اتنے چھوٹے بچوں کو پڑھانے کا میرا پہلا تجربہ ہے۔ اس سے پہلے میٹرک، ایف ایس سی ،اور بی اے کے اسٹوڈنٹس کو پڑھایا ہے۔ مجھے سب سے زیادہ جو مشکل پیش آئی وہ یہ تھی اتنے چھوٹے بچوں کو ہم قائل کس طرح سے کرسکتے ہیں۔ کیونکہ جو چیز ہمارے نزدیک بہت عام سی ہوتی ہے وہ ان کے نزدیک بہت زیادہ مشکل ۔میں نے گیمز کے ذریعے، برین سٹارمنگ ، بچوں کا نالج ٹیسٹ کرنے کے لیے مختلف طریقوں سے سمجھانا شروع کیا۔۔ حتی کہ گھر کی چیزوں کی مثالیں بھی دی۔۔ مگر پھر بھی یہی کہوں گی۔۔ میرے اندر اس حوالے سے بہت کمی ہے کہ میں اتنے چھوٹے بچوں کو صحیح طریقے سےسمجھا نہیں پاتی۔۔
زبردست۔۔۔ متفق ۔۔۔مجھے کچھ عرصہ میٹرک، پھر ایف۔ایس۔سی ، بی۔ایس۔سی اور ایم۔ایس۔سی کو پڑھانے کا تجربہ رہا ہے۔ پی۔ایچ۔ڈی کے بعد تحقیق سے ہی وابستہ ہوں۔
حسن (جو اب ساڑھے آٹھ سال کا ہے) جیسے جیسے بڑا ہو رہا ہے میں بیگم کے ساتھ پڑھانے کی جزوی ذمہ داری ادا کر رہا ہوں۔ مجھے اعتراف ہے کہ چھوٹے بچوں کو پڑھانا واقعی بہت مشکل کام ہے۔ ابھی تک سیکھنے کے عمل میں ہوں۔ اس سلسلے میں میرے چند مشاہدات درج ذیل ہیں۔
1۔ بچوں کا دورانیۂ ارتکاز (اٹینشن سپین) بڑوں کے مقابلے میں بہت کم ہوتا ہے۔ 10 سے 15 منٹ سے زیادہ نہیں۔ اس لیے عملی طور پر بچوں کو مسلسل 30، 45 یا 60 منٹ پڑھانا بنیادی اصول کے خلاف ہے۔ 15 منٹ کے بعد حسن کی دلچسپی واقعی کم ہو جاتی ہے۔ اس کا بہترین حل جو مجھے سوجھا وہ یا تو حسن کو دو منٹ کے لیے بریک دے کر کوئی جسمانی ایکٹیوٹی دینا، جیسے کھڑے ہو کر مجھے پُش اپ کر کے دکھاؤ، سٹریچ کرتے ہیں اکٹھے، وغیرہ وغیرہ۔ دوسرا طریقہ کوئی لطیفہ یا مزاحیہ بات سنا کر ہنسانا۔ اس سے دوبارہ توجہ کافی حد تک حاصل ہو جاتی ہے۔
2۔ بچوں کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ انہیں یہ احساسِ تحفظ دلایا جائے کہ وہ کئی بار غلطی کر سکتے ہیں اور سیکھنا صرف غلطی کر کے ہی ممکن ہے۔
3۔ بچوں کی حوصلہ افزائی انہیں بہت موٹیویشن دیتی ہے۔ حسن جب بھی کوئی اچھا کام کرتا ہے میں اسے بتاتا ہوں کہ تمہاری عمر میں تو میں اتنا اچھا کام نہیں کر سکتا تھا۔ آپ تو بہت زبردست کام کررہے ہیں۔
4۔ بچوں کو زندگی کا کوئی نصب العین طے کرنے پر ابھارنا۔ حسن نے اسکندر پر کافی ڈوکومینڑی اور پروگرام دیکھے تھے۔ جس پر وہ کہا کرتا تھا کہ میں بھی اسکندر کی طرح عظیم فاتح بنوں گا۔ اس کے اس جذبے کو میں نے اس جانب موڑا کہ دنیا ضرور فتح کرنا لیکن تلوار سے نہیں بلکہ قلم سے، اور اپنے علم سے۔ حسن نے اس بات کو پلے باندھ لیا۔ جب بھی محسوس ہوتا ہے کہ حسن پڑھنے میں بلاوجہ سستی کر رہا ہے تو اسے اس کی زندگی کا مشن یاد دلاتا ہوں۔ جس پر وہ پُرجوش ہو کر دوبارہ مشغول ہو جاتا ہے۔
یہ چند متفرق مشاہدات ہیں اور ابھی تک سیکھنے کے عمل میں ہوں۔
بس پھر بسم اللہ سلام سے ہی کریں۔۔۔سلام کرنے کی بات میں نے اپنے استاد سے سیکھی۔۔ جبکہ پہلے صرف یہ علم تھا کہ سلام صرف اسٹوڈنٹس کو ہی کرنا چاہیے۔ گھر میں قاری صاحب آتے تھے ہمیں قرآن پاک کا پڑھانے ۔۔ ان کے آنے سے پہلے ہی ہم لوگ قرآن پاک لیکر بیٹھ جاتی اور ریوائز کرنے لگتی اپنے سبق کو۔۔ قاری صاحب جب بھی آتے ہم فورا سلام کرتیں۔۔ ایک دن انہوں نے ہمیں ٹوک دیا کہ وہ باہر سے آئے ہیں ۔۔ سلام میں پہل انہیں کرنی چاہیئے۔ ہم نے کہا استاد صاحب آپ ہمارے استاد ہیں تو پہل کرنا ہم پہ فرض ہے۔ انہوں نے جواب میں کہا کہ ادب کی بات اپنی جگہ اور اصول کی بات اپنی جگہ۔۔ اور اب میں نے اس بات کو امپلیمنٹ کیا ہے ۔۔ جہاں بھی پڑھانے گئی ہوں سب سے پہلے سلام کرنا، حال پوچھنا پھر کوئی ایک اچھی بات کہنی اور پھر اس کے بعد باقاعدہ کلاس کا آغاز کرنا۔۔
اور ٹریننگ کے دوران بھی سب سے زیادہ اسی بات پہ زور دیا گیا کہ آپ کلاس میں داخل ہونے کے بعد فورا بچوں کی ڈانٹ ڈپٹ ہرگز شروع نہیں کرنی بلکہ اس انداز میں کلاس کی ابتداء کرنی ہے کہ بچوں کی مکمل توجہ آپ کی طرف ہوسکے۔۔ اس سے بچہ زیادہ نا سہی کم از کم ایک اچھی بات لازمی سیکھے گا۔۔
اب آپ نے بھی یہی بات کی۔۔ ان شاء اللہ تعالی۔۔ مزید اس پہ عمل پختہ کروں گی۔۔
ہماری اتنی عزت افزائی ؟ آج ہی بیگم کو یہ کمنٹ دکھاتا ہوںفرحت کیانی آپی ، سید عمران صاحب، عرفان سعید صاحب، محمد خرم یاسین صاحب ، م حمزہ صاحب یہ سب ہمارے اساتذہ ہی ہیں۔۔
خبردار اگر کسی نے انکار کیا تو۔۔
پلیززز۔۔
بہت اچھے!زبردست۔۔۔ متفق ۔۔۔
ماشاء اللہ ۔۔اللہ پاک آپ کے بیٹے کو دین و دنیا کا بہترین اور نافع علم حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔ اپنے والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور ذریعہ نجات بنائے ۔۔آمین ثم آمین
آپ نے بالکل صحیح بات کی چھوٹے بچوں کی توجہ کا دورانیہ بہت کم ہوتا ہے۔۔ زیادہ سے زیادہ دس یا پندرہ منٹ۔۔ سکول میں کچھ بچے ایسے بھی ہیں جن کو شروع شروع میں میں پکڑکر ہلا دیتی تھی کہ بیٹا آپ کو سنائی نہیں دے رہا کہ ٹیچر کیا پوچھ رہی ہیں کیا بات کررہی ہیں۔۔ مگر جواب ندارد۔۔ اور کچھ بچے ایسے ہوتے تھے جو مٹی میں کھیلنے لگ جاتے تھے۔۔ شروع شروع میں مجھے لگا تھا یہ جاب کرتے میں نے خود "پاگل" ہوجانا ہے۔۔ کیونکہ میری جاب کی ابتداء ٹریننگ سے نہیں ہوئی تھی۔۔ بلکہ ایک ماہ میں سکول میں گئی ہوں اس کے بعد ہمیں ٹریننگ آرڈر ملے ہیں۔۔ اور پھر کچھ حد تک میں نے اپنی "irritation" پہ قابو پا لیا۔۔ وہ اس طرح سے کہ مجھے سیکھانے کے مختلف آئیڈیاز مل چکے تھے۔ جیسے گیمز کھیلنا، یا ایکسرسائز کروانا۔۔ وغیرہ۔۔ نرسری کلاس میں میتھ پڑھاتی ہوں۔۔ تو گنتی سیکھانے کے لیے میں نے کہنا سب بچے ایک دائرہ بنائیں ۔۔ اب جس کے کندھے پہ میں نے ٹیپ کیا وہ بچہ اس دائرے سے نکل کر بھاگے گا اور پورا راؤنڈ سرکل لیکر واپس اپنی جگہ پہ آئے گا۔۔ اور تب تک باقی بچے کاؤنٹنگ پڑھیں گے۔۔ اگر دس گننے تک وہ اپنی جگہ پہ واپس آگیا تو وہ ونر آدر وائز لوزر۔۔ اب یہ ایک طرح سے گیم بھی ہوگئی اور گنتی سیکھنے کا عمل بھی ہوگیا ۔۔
نمبر ٹو پہ جو آپ نے لکھا کہ بچوں کو تحفظ کا احساس ضرور دلوانا چاہیئے۔۔ ایسا اکثر ہوتا ہے بچہ جب غلطی کرتا ہے تو استاد غصے میں آجاتا ہے ۔۔۔اور بچوں کے اندر بھی ایک ڈر پیدا ہوجاتا ہے۔۔اس سے اس کا سیکھنے کا عمل بھی رک جاتا ہے۔۔ آپ کی بات سے متفق ہوں کہ بچوں کو غلطی پہ سرزنش کرنے کے بجائے اگر ہم پیار سے سمجھا دیں گے تو اس میں خود اعتمادی بھی پیدا ہوگی اور سیکھنے کا عمل بھی نہیں رکے گا۔۔
نمبر تھری پہ جو آپ نے لکھا کہ حوصلہ افزائی۔۔ یہ سب سے اہم کام ہے۔۔ کیونکہ اکثر بچے اچھا کام کریں تب بھی استاد حوصلہ افزائی میں کنجوسی کرجاتے ہیں۔۔ جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا کہ بچوں میں نیٹنیس کا بالکل بھی خیال نہیں رکھا جاتا تھا۔۔ مگر اس کے باوجود جب بھی بچے اچھا پڑھتے ہم اس کو گلے لگاتے ہیں اور پیار سے گال پہ سٹار بنا دیا ۔۔ صرف ان کے خراب حلیے کی وجہ سے ان سے پیچھے ہٹنا بیوقوفی ہے۔۔ مزید اس میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔۔ ان شاء اللہ اب سکول کھلیں گے تو ان باتوں پہ عمل مزید بہتر انداز میں کرسکوں گی۔۔ کیونکہ کوئی بھی انسان پرفیکٹ نہیں ہوتا۔۔ چھوٹے بچوں سے غلطیاں سب سے زیادہ ہوتی ہیں اس کے لیے خود میں برداشت سب سے زیادہ ضروری چیز ہے۔۔ میری کمزوری ہے کہ مجھ میں برداشت کی کمی ہے ۔لیکن تعلیم و تربیت کے معاملے میں میں نےابتدا خود سے کی ہے۔۔ اللہ کامیاب کرے۔۔ آمین
ہرگز نہیں
میں تو اسے بٹر ہی سمجھوں گا۔
آپ کی مرضیہماری اتنی عزت افزائی ؟ آج ہی بیگم کو یہ کمنٹ دکھاتا ہوں
الحمد للہ۔ اس کام کی عادت بچپن سے ہی ایسی پڑی کہ ابھی بھی جاری ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ اکثر لوگ یوں غور سے دیکھتے ہیں، جیسے پہچاننے کی کوشش کر رہے ہوں۔راہ چلتے لوگوں کو سلام کریں چاہے جان پہچان والے ہوں یا اجنبی۔۔۔
الٹا جو کچھ سننے کو ملتا ہے، وہ یہاں نہیں لکھ سکتے۔آپ کی مرضی
ہم کئی ایسے کمنٹ دکھا اور سنوا چکے، کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔
ویسے نوبت ابھی یہاں تک نہیں پہنچی۔الٹا جو کچھ سننے کو ملتا ہے، وہ یہاں نہیں لکھ سکتے۔
چلیے ہم پھر سے آزماتے ہیں شاید اس بار قسمت پڑی ہمارے نام نکل ہی آئےآپ کی مرضی
ہم کئی ایسے کمنٹ دکھا اور سنوا چکے، کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔
زبردست اور متفق۔میرے نزدیک چھوٹے بچوں کو پڑھانے میں ایک خاص بات یہ ضروری ہے کہ کسی بھی تصور (یہاں تصور سے ٹاپک مراد ہے ) کا آغاز بچوں کے ذہن پر براہ راست نہ کیا جائے ، بلکہ کچھ مناسب وقت ان کی توجہ کو نفس مضمون کی طرف لانے میں صرف کیا جائے اور پھرجب محسوس ہو کہ اب بچوں کی سوچ اس طرف آرہی ہے تو اب موضوع کو باقاعدہ شروع کیا جائے اس موٹیویشن سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ اس سے بچے موضوع کو اپنے لیے ایک بوجھ نہیں سمجھتے اور اپنی سوچ کو آپ کی تعلیمی سرگرمی سے ہم آہنگ کر کے جلد سیکھنے کی طرف مائل ہو جاتے ہیں ۔کیوں کہ بچے نازک دماغ رکھتے ہیں اس لیے چھوٹی عمر کی تعلیم میں یہ بات بہت اہم ہوتی ہے ۔تاہم یہ موٹیویشن ہر تعلیمی میدان میں اہمیت رکھتی ہے ۔