کچھ باتیں۔۔ میرے سکول کے حوالے سے:)

ہادیہ

محفلین
شاید آپ سید عمران بھائی کے اس تبصرے کا لنک دینا چاہ رہی تھیں
جی بالکل۔ میں اسی تبصرے کی بات کررہی ہوں۔۔ اسی لیے میں نے سرگوشی میں لکھ دیا تھا تربیت کے حوالے سے جو تبصرہ کیا اسی کا ذکر کررہی۔۔ مجھے معلوم تھا لنک صحیح سے ہونہیں سکا۔۔ بہت شکریہ آپ کا۔ جزاک اللہ خیرا
 

عرفان سعید

محفلین
میں جو پڑھا رہی ہوں وہ میتھس، انگلش اور سائنس۔۔
جن میں سائنس اور انگلش پڑھانے کا مزا آیا۔۔ جبکہ مجھے میتھس پڑھانے کا تجربہ ہونے کے باوجود ناکامی زیادہ ملی۔۔ کیونکہ اتنے چھوٹے بچوں کو پڑھانے کا میرا پہلا تجربہ ہے۔ اس سے پہلے میٹرک، ایف ایس سی ،اور بی اے کے اسٹوڈنٹس کو پڑھایا ہے۔ مجھے سب سے زیادہ جو مشکل پیش آئی وہ یہ تھی اتنے چھوٹے بچوں کو ہم قائل کس طرح سے کرسکتے ہیں۔ کیونکہ جو چیز ہمارے نزدیک بہت عام سی ہوتی ہے وہ ان کے نزدیک بہت زیادہ مشکل ۔میں نے گیمز کے ذریعے، برین سٹارمنگ ، بچوں کا نالج ٹیسٹ کرنے کے لیے مختلف طریقوں سے سمجھانا شروع کیا۔۔ حتی کہ گھر کی چیزوں کی مثالیں بھی دی۔۔ مگر پھر بھی یہی کہوں گی۔۔ میرے اندر اس حوالے سے بہت کمی ہے کہ میں اتنے چھوٹے بچوں کو صحیح طریقے سےسمجھا نہیں پاتی۔۔
مجھے کچھ عرصہ میٹرک، پھر ایف۔ایس۔سی ، بی۔ایس۔سی اور ایم۔ایس۔سی کو پڑھانے کا تجربہ رہا ہے۔ پی۔ایچ۔ڈی کے بعد تحقیق سے ہی وابستہ ہوں۔
حسن (جو اب ساڑھے آٹھ سال کا ہے) جیسے جیسے بڑا ہو رہا ہے میں بیگم کے ساتھ پڑھانے کی جزوی ذمہ داری ادا کر رہا ہوں۔ مجھے اعتراف ہے کہ چھوٹے بچوں کو پڑھانا واقعی بہت مشکل کام ہے۔ ابھی تک سیکھنے کے عمل میں ہوں۔ اس سلسلے میں میرے چند مشاہدات درج ذیل ہیں۔
1۔ بچوں کا دورانیۂ ارتکاز (اٹینشن سپین) بڑوں کے مقابلے میں بہت کم ہوتا ہے۔ 10 سے 15 منٹ سے زیادہ نہیں۔ اس لیے عملی طور پر بچوں کو مسلسل 30، 45 یا 60 منٹ پڑھانا بنیادی اصول کے خلاف ہے۔ 15 منٹ کے بعد حسن کی دلچسپی واقعی کم ہو جاتی ہے۔ اس کا بہترین حل جو مجھے سوجھا وہ یا تو حسن کو دو منٹ کے لیے بریک دے کر کوئی جسمانی ایکٹیوٹی دینا، جیسے کھڑے ہو کر مجھے پُش اپ کر کے دکھاؤ، سٹریچ کرتے ہیں اکٹھے، وغیرہ وغیرہ۔ دوسرا طریقہ کوئی لطیفہ یا مزاحیہ بات سنا کر ہنسانا۔ اس سے دوبارہ توجہ کافی حد تک حاصل ہو جاتی ہے۔

2۔ بچوں کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ انہیں یہ احساسِ تحفظ دلایا جائے کہ وہ کئی بار غلطی کر سکتے ہیں اور سیکھنا صرف غلطی کر کے ہی ممکن ہے۔

3۔ بچوں کی حوصلہ افزائی انہیں بہت موٹیویشن دیتی ہے۔ حسن جب بھی کوئی اچھا کام کرتا ہے میں اسے بتاتا ہوں کہ تمہاری عمر میں تو میں اتنا اچھا کام نہیں کر سکتا تھا۔ آپ تو بہت زبردست کام کررہے ہیں۔

4۔ بچوں کو زندگی کا کوئی نصب العین طے کرنے پر ابھارنا۔ حسن نے اسکندر پر کافی ڈوکومینڑی اور پروگرام دیکھے تھے۔ جس پر وہ کہا کرتا تھا کہ میں بھی اسکندر کی طرح عظیم فاتح بنوں گا۔ اس کے اس جذبے کو میں نے اس جانب موڑا کہ دنیا ضرور فتح کرنا لیکن تلوار سے نہیں بلکہ قلم سے، اور اپنے علم سے۔ حسن نے اس بات کو پلے باندھ لیا۔ جب بھی محسوس ہوتا ہے کہ حسن پڑھنے میں بلاوجہ سستی کر رہا ہے تو اسے اس کی زندگی کا مشن یاد دلاتا ہوں۔ جس پر وہ پُرجوش ہو کر دوبارہ مشغول ہو جاتا ہے۔

یہ چند متفرق مشاہدات ہیں اور ابھی تک سیکھنے کے عمل میں ہوں۔
 
آخری تدوین:

ہادیہ

محفلین
ابتداء کرتی ہوں ۔۔ پیش آنے والے چند مسائل سے
جب پہلے دن سکول گئی۔۔ تو جو ایک سکول کا کانسپٹ ہوتا ہے ہمارے دماغ میں۔۔ کہ وہاں یہ یہ سب ہوگا اور اس طرح سے ہم پڑھائیں گے ۔۔وہاں ایسا کچھ بھی نہیں تھا
سکول پورا کچے مٹی کا۔۔ ایک واحد کلاس روم تھا۔۔وہی ہمارا سٹاف روم، وہی کلاس روم ۔۔ وہیں ایک الماری لوہے کی رکھی ہوئی ہے جس میں ہماری سکول کے حوالے سے ضروری چیزیں موجود ہوتیں ہیں۔۔۔۔ کوئی پیئن نہیں، سکول میں پینے کے پانی کی سہولت تک موجود نہیں ہے( پانی ہم گھر سے بڑا کین بھر کر لے جاتی ہیں)۔ اس گاؤں کا پانی بہت زیادہ کڑوا ہے حد سے زیادہ۔۔ اس لیے وہ پینے کے لیے استعمال نہیں ہوسکتا۔۔ وہاں اکثر لوگ پیسے دے کر نزدیکی قصبے سے پینے کا صاف پانی منگواتے ہیں۔۔
پھر دوسرے نمبر پہ جو وہاں دیکھا وہ تھا بچوں کا حلیہ۔۔ صفائی کے معاملے میں انتہائی بلکہ زیرو سے بھی نچلے لیول پہ۔۔ وہاں والدین کو بھی یہ شعور بالکل نہیں ہے کہ ہمارا بچہ گھر سے باہر ایک ادارے میں پڑھنے جارہا ہے تو کم از کم زیادہ نا سہی تو منہ ہی دھلوا کے بھیج دیں۔۔ نہانا تو بہت دور کی بات۔۔ بچوں کو کنگھی کیے ہوئے کئی کئی دن گزر جاتے۔۔ آپ تصور کرسکتے ہیں ایسے بچوں کی تربیت کرنا کتنا مشکل مرحلہ ہے۔ کیونکہ بچوں سے زیادہ ان کے گھر والوں کو یہ شعور دینا زیادہ ضروری ہے۔
میری اور میری بہن کی جاب ایک ہی سکول میں ہوئی۔ لیکن بہن کی تقرری مجھ سے کچھ عرصہ پہلے ہوئی۔ بہن نے بتایا کہ ایک دن بچی کو اسمبلی کے دوران صرف اتنا کہہ دیا کہ
"بچے آپ نے اپنی مما سے کہنا کہ منہ دھلوا کر سکول بھیجیں مجھے۔ اچھے بچے بن کر آنا ہے۔۔"بقول سسٹر کے اس بچی کو شاید مہینوں ہی گزر گئے ہوں گے نہائے ہوئے اور بالوں میں کنگھی کیے ہوئے۔۔ کہتی ابھی ہم سکول میں ہی تھیں ۔۔ سب بچوں کو چھٹی کرنے کے دس منٹ بعد ہم واپسی کے لیے جاتی ہیں۔۔ تو اس بچی کی والدہ سکول میں آگئی۔۔ اور سسٹر کی کافی انسلٹ کی کہ ہم کوئی نوکر ہیں۔۔ گھر کے اتنے کام ہوتے ہیں ۔۔اب بچوں کے منہ دھلوائیں یا کام کریں۔۔ اور بھی کئی باتیں کافی غصہ میں کیں۔۔ بعد میں ہیڈ کہتیں کہ بیٹا محسوس نا کرو یہاں لوگوں میں اس معاملے میں شعور کی بہت زیادہ کمی ہے۔۔
پھر جب میری تقرری ہوئی تو ہم دونوں بہنوں نے ابتداء اس کام سے کی۔۔ کہ بچیوں کو سکول کی یونیفارمز لیکر سلائی کروا کر دی۔۔ تاکہ جب بچیاں نئے یونیفارم میں سکول آئیں گی تو انہیں اچھا محسوس ہوگا۔ ان میں یہ شعور اجاگر ہوگا کہ ہم گھر سے باہر جارہی ہیں ہم نے صاف ستھرے ہوکرجانا۔۔ زیادہ نا سہی کچھ حد تک اس میں کامیابی بھی ملی۔۔ دوسرے نمبر تمام ٹیچرز نے باہمی مشاورت سے اسمبلی ڈیوٹیز لگوائیں ۔۔ تاکہ جس بھی ٹیچر کی ڈیوٹی ہوگی وہ بچوں کی صفائی وغیرہ کو چیک کرے گی۔۔۔ اس سے یہ ہوا کہ بچوں میں یہ ڈر بھی پیدا ہوا کہ اب تو روزانہ ٹیچرز بالوں، ناخن، یونیفارم، اور جوتے وغیرہ کو چیک کرتی ہیں۔۔ تو وہ کچھ حد تک بہتر حالت میں آگئے۔۔۔ ( نوٹ! شہروں میں اسمبلی اور صفائی چیکنگ بہت عام بات ہے۔۔مگر وہاں اس بات کا تصور تک نہیں تھا۔۔ اللہ جانے ایسا کیوں تھا۔۔ )
ان سب باتوں سے جو بات میرے دماغ میں آئی وہ تھی "تربیت" کی۔۔ کمی والدین کی تربیت میں بھی ہے۔۔اور اساتذہ کی تربیت میں بھی۔۔ عمران صاحب نے بالکل صحیح بات کی کہ جب ماں ہی نا جانتی ہوگی کہ تربیت کس چڑیا کا نام ہے تو بچوں کو کیا سیکھائے گی۔۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
میرے نزدیک چھوٹے بچوں کو پڑھانے میں ایک خاص بات یہ ضروری ہے کہ کسی بھی تصور (یہاں تصور سے ٹاپک مراد ہے ) کا آغاز بچوں کے ذہن پر براہ راست نہ کیا جائے ، بلکہ کچھ مناسب وقت ان کی توجہ کو نفس مضمون کی طرف لانے میں صرف کیا جائے اور پھرجب محسوس ہو کہ اب بچوں کی سوچ اس طرف آرہی ہے تو اب موضوع کو باقاعدہ شروع کیا جائے اس موٹیویشن سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ اس سے بچے موضوع کو اپنے لیے ایک بوجھ نہیں سمجھتے اور اپنی سوچ کو آپ کی تعلیمی سرگرمی سے ہم آہنگ کر کے جلد سیکھنے کی طرف مائل ہو جاتے ہیں ۔کیوں کہ بچے نازک دماغ رکھتے ہیں اس لیے چھوٹی عمر کی تعلیم میں یہ بات بہت اہم ہوتی ہے ۔تاہم یہ موٹیویشن ہر تعلیمی میدان میں اہمیت رکھتی ہے ۔
 

ہادیہ

محفلین
مجھے کچھ عرصہ میٹرک، پھر ایف۔ایس۔سی ، بی۔ایس۔سی اور ایم۔ایس۔سی کو پڑھانے کا تجربہ رہا ہے۔ پی۔ایچ۔ڈی کے بعد تحقیق سے ہی وابستہ ہوں۔
حسن (جو اب ساڑھے آٹھ سال کا ہے) جیسے جیسے بڑا ہو رہا ہے میں بیگم کے ساتھ پڑھانے کی جزوی ذمہ داری ادا کر رہا ہوں۔ مجھے اعتراف ہے کہ چھوٹے بچوں کو پڑھانا واقعی بہت مشکل کام ہے۔ ابھی تک سیکھنے کے عمل میں ہوں۔ اس سلسلے میں میرے چند مشاہدات درج ذیل ہیں۔
1۔ بچوں کا دورانیۂ ارتکاز (اٹینشن سپین) بڑوں کے مقابلے میں بہت کم ہوتا ہے۔ 10 سے 15 منٹ سے زیادہ نہیں۔ اس لیے عملی طور پر بچوں کو مسلسل 30، 45 یا 60 منٹ پڑھانا بنیادی اصول کے خلاف ہے۔ 15 منٹ کے بعد حسن کی دلچسپی واقعی کم ہو جاتی ہے۔ اس کا بہترین حل جو مجھے سوجھا وہ یا تو حسن کو دو منٹ کے لیے بریک دے کر کوئی جسمانی ایکٹیوٹی دینا، جیسے کھڑے ہو کر مجھے پُش اپ کر کے دکھاؤ، سٹریچ کرتے ہیں اکٹھے، وغیرہ وغیرہ۔ دوسرا طریقہ کوئی لطیفہ یا مزاحیہ بات سنا کر ہنسانا۔ اس سے دوبارہ توجہ کافی حد تک حاصل ہو جاتی ہے۔

2۔ بچوں کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ انہیں یہ احساسِ تحفظ دلایا جائے کہ وہ کئی بار غلطی کر سکتے ہیں اور سیکھنا صرف غلطی کر کے ہی ممکن ہے۔

3۔ بچوں کی حوصلہ افزائی انہیں بہت موٹیویشن دیتی ہے۔ حسن جب بھی کوئی اچھا کام کرتا ہے میں اسے بتاتا ہوں کہ تمہاری عمر میں تو میں اتنا اچھا کام نہیں کر سکتا تھا۔ آپ تو بہت زبردست کام کررہے ہیں۔

4۔ بچوں کو زندگی کا کوئی نصب العین طے کرنے پر ابھارنا۔ حسن نے اسکندر پر کافی ڈوکومینڑی اور پروگرام دیکھے تھے۔ جس پر وہ کہا کرتا تھا کہ میں بھی اسکندر کی طرح عظیم فاتح بنوں گا۔ اس کے اس جذبے کو میں نے اس جانب موڑا کہ دنیا ضرور فتح کرنا لیکن تلوار سے نہیں بلکہ قلم سے، اور اپنے علم سے۔ حسن نے اس بات کو پلے باندھ لیا۔ جب بھی محسوس ہوتا ہے کہ حسن پڑھنے میں بلاوجہ سستی کر رہا ہے تو اسے اس کی زندگی کا مشن یاد دلاتا ہوں۔ جس پر وہ پُرجوش ہو کر دوبارہ مشغول ہو جاتا ہے۔

یہ چند متفرق مشاہدات ہیں اور ابھی تک سیکھنے کے عمل میں ہوں۔
زبردست۔۔۔ متفق ۔۔۔:)
ماشاء اللہ ۔۔اللہ پاک آپ کے بیٹے کو دین و دنیا کا بہترین اور نافع علم حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔ اپنے والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور ذریعہ نجات بنائے ۔۔آمین ثم آمین
آپ نے بالکل صحیح بات کی چھوٹے بچوں کی توجہ کا دورانیہ بہت کم ہوتا ہے۔۔ زیادہ سے زیادہ دس یا پندرہ منٹ۔۔ سکول میں کچھ بچے ایسے بھی ہیں جن کو شروع شروع میں میں پکڑکر ہلا دیتی تھی کہ بیٹا آپ کو سنائی نہیں دے رہا کہ ٹیچر کیا پوچھ رہی ہیں کیا بات کررہی ہیں۔۔ مگر جواب ندارد۔۔ اور کچھ بچے ایسے ہوتے تھے جو مٹی میں کھیلنے لگ جاتے تھے۔۔ شروع شروع میں مجھے لگا تھا یہ جاب کرتے میں نے خود "پاگل" ہوجانا ہے۔۔ کیونکہ میری جاب کی ابتداء ٹریننگ سے نہیں ہوئی تھی۔۔ بلکہ ایک ماہ میں سکول میں گئی ہوں اس کے بعد ہمیں ٹریننگ آرڈر ملے ہیں۔۔ اور پھر کچھ حد تک میں نے اپنی "irritation" پہ قابو پا لیا۔۔ وہ اس طرح سے کہ مجھے سیکھانے کے مختلف آئیڈیاز مل چکے تھے۔ جیسے گیمز کھیلنا، یا ایکسرسائز کروانا۔۔ وغیرہ۔۔ نرسری کلاس میں میتھ پڑھاتی ہوں۔۔ تو گنتی سیکھانے کے لیے میں نے کہنا سب بچے ایک دائرہ بنائیں ۔۔ اب جس کے کندھے پہ میں نے ٹیپ کیا وہ بچہ اس دائرے سے نکل کر بھاگے گا اور پورا راؤنڈ سرکل لیکر واپس اپنی جگہ پہ آئے گا۔۔ اور تب تک باقی بچے کاؤنٹنگ پڑھیں گے۔۔ اگر دس گننے تک وہ اپنی جگہ پہ واپس آگیا تو وہ ونر آدر وائز لوزر۔۔ اب یہ ایک طرح سے گیم بھی ہوگئی اور گنتی سیکھنے کا عمل بھی ہوگیا ۔۔
نمبر ٹو پہ جو آپ نے لکھا کہ بچوں کو تحفظ کا احساس ضرور دلوانا چاہیئے۔۔ ایسا اکثر ہوتا ہے بچہ جب غلطی کرتا ہے تو استاد غصے میں آجاتا ہے ۔۔۔اور بچوں کے اندر بھی ایک ڈر پیدا ہوجاتا ہے۔۔اس سے اس کا سیکھنے کا عمل بھی رک جاتا ہے۔۔ آپ کی بات سے متفق ہوں کہ بچوں کو غلطی پہ سرزنش کرنے کے بجائے اگر ہم پیار سے سمجھا دیں گے تو اس میں خود اعتمادی بھی پیدا ہوگی اور سیکھنے کا عمل بھی نہیں رکے گا۔۔
نمبر تھری پہ جو آپ نے لکھا کہ حوصلہ افزائی۔۔ یہ سب سے اہم کام ہے۔۔ کیونکہ اکثر بچے اچھا کام کریں تب بھی استاد حوصلہ افزائی میں کنجوسی کرجاتے ہیں۔۔ جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا کہ بچوں میں نیٹنیس کا بالکل بھی خیال نہیں رکھا جاتا تھا۔۔ مگر اس کے باوجود جب بھی بچے اچھا پڑھتے ہم اس کو گلے لگاتے ہیں اور پیار سے گال پہ سٹار بنا دیا ۔۔ صرف ان کے خراب حلیے کی وجہ سے ان سے پیچھے ہٹنا بیوقوفی ہے۔۔ مزید اس میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔۔ ان شاء اللہ اب سکول کھلیں گے تو ان باتوں پہ عمل مزید بہتر انداز میں کرسکوں گی۔۔ کیونکہ کوئی بھی انسان پرفیکٹ نہیں ہوتا۔۔ چھوٹے بچوں سے غلطیاں سب سے زیادہ ہوتی ہیں اس کے لیے خود میں برداشت سب سے زیادہ ضروری چیز ہے۔۔ میری کمزوری ہے کہ مجھ میں برداشت کی کمی ہے ۔لیکن تعلیم و تربیت کے معاملے میں میں نےابتدا خود سے کی ہے۔۔ اللہ کامیاب کرے۔۔ آمین
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
سلام کرنے کی بات میں نے اپنے استاد سے سیکھی۔۔ جبکہ پہلے صرف یہ علم تھا کہ سلام صرف اسٹوڈنٹس کو ہی کرنا چاہیے۔ گھر میں قاری صاحب آتے تھے ہمیں قرآن پاک کا پڑھانے ۔۔ ان کے آنے سے پہلے ہی ہم لوگ قرآن پاک لیکر بیٹھ جاتی اور ریوائز کرنے لگتی اپنے سبق کو۔۔ قاری صاحب جب بھی آتے ہم فورا سلام کرتیں۔۔ ایک دن انہوں نے ہمیں ٹوک دیا کہ وہ باہر سے آئے ہیں ۔۔ سلام میں پہل انہیں کرنی چاہیئے۔ ہم نے کہا استاد صاحب آپ ہمارے استاد ہیں تو پہل کرنا ہم پہ فرض ہے۔ انہوں نے جواب میں کہا کہ ادب کی بات اپنی جگہ اور اصول کی بات اپنی جگہ۔۔ اور اب میں نے اس بات کو امپلیمنٹ کیا ہے ۔۔ جہاں بھی پڑھانے گئی ہوں سب سے پہلے سلام کرنا، حال پوچھنا پھر کوئی ایک اچھی بات کہنی اور پھر اس کے بعد باقاعدہ کلاس کا آغاز کرنا۔۔
اور ٹریننگ کے دوران بھی سب سے زیادہ اسی بات پہ زور دیا گیا کہ آپ کلاس میں داخل ہونے کے بعد فورا بچوں کی ڈانٹ ڈپٹ ہرگز شروع نہیں کرنی بلکہ اس انداز میں کلاس کی ابتداء کرنی ہے کہ بچوں کی مکمل توجہ آپ کی طرف ہوسکے۔۔ اس سے بچہ زیادہ نا سہی کم از کم ایک اچھی بات لازمی سیکھے گا۔۔
اب آپ نے بھی یہی بات کی۔۔ ان شاء اللہ تعالی۔۔ مزید اس پہ عمل پختہ کروں گی۔۔
بس پھر بسم اللہ سلام سے ہی کریں۔۔۔
سلام کے سلسلے میں بچوں کو تین باتیں سکھائیں (ان باتوں پر بڑوں کو تو اور بھی زیادہ عمل کرنا چاہیے۔۔۔)

۱)۔۔۔۔بچوں کو پہلا سبق واضح انداز میں سلام کرنے کا دیں۔۔۔
ساما لیکم، سائی کُم، سلاما علیکم جیسے مجہول اندا ز کی اصلاح کریں۔۔۔
اور بچوں سے واضح انداز میں ’’الف‘‘ ، ’’س‘‘ پر تشدید اور ’’ل‘‘ وغیرہ صحیح سے ادا کروائیں۔۔۔

۲)۔۔۔۔بچوں کو سلام کی فضیلت بتائیں کہ ۔۔۔
سلام کرنے والے کو تیس نیکیاں ملتی ہیں اور جواب دینے والے کو دس۔۔۔
تو ہمیں زیادہ ثواب کی طرف بڑھنا چاہیے۔۔۔
جب کوئی سلام کرے تو اس کا جواب دینا واجب ہوجاتا ہے، چاہے وہ جواب نہ سن سکتا ہو، مثلاً بہرا ہو، یا راستے میں سلام کرکے اتنا آگے بڑھ گیا ہو کہ آپ کی آواز اس تک نہ جائے، یا تحریر میں سلام لکھا ہو۔ آپ کو منہ سے وعلیکم السلام ضرور کہنا ہے۔۔۔
اور جب ہم سلام کرتے ہیں تو اصل میں دعا دیتے ہیں کہ اللہ تمہیں سلامتی کے ساتھ رکھے۔۔۔
اور سلامتی کا مطلب ہے کہ ایمان کی سلامتی بھی رہے، جسم و جان کی سلامتی بھی رہے اور مال کی سلامتی بھی رہے۔۔۔
ایمان کی سلامتی یہ کہ اسلام پر قائم رہیں۔۔۔
جسم و جان کی سلامتی کا مطلب یہ کہ ہر قسم کے حادثات، جسمانی معذوریوں، بڑی بڑی لاعلاج اور خطرناک بیماریوں سے حفاظت رہے۔۔۔
ہر وقت ڈاکٹروں، ہسپتالوں کے چکر لگانے سے جان چھوٹ جائے ۔۔۔
اور مال کی سلامتی یہ کہ اتنا بڑا مالی نقصان نہ ہوجائے کہ فقر و فاقے کی نوبت آکر کھانے پینے کے لالے پڑجائیں۔۔۔
اور لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ذلت اٹھائیں۔۔۔

اگر کوئی کہے کہ سلام کرنے سے تو دوسرے کو یہ فضیلتیں حاصل ہوں گی، ہمیں کیا ملے گا؟ تو اسے بتائیں کہ حدیث میں ہے کہ جب کوئی مسلمان دوسرے کو دعا دیتا ہے تو ایک فرشتہ کہتا ہے کہ یااللہ اس نے جو اپنے بھائی کے لیے مانگا ہے آپ اسے بھی وہی نعمت عطا فرمائیں۔ چوں کہ فرشتے معصوم ہوتے ہیں اور یہ دعا دینے کی ڈیوٹی خود اللہ تعالیٰ نے ان کے ذمے لگائی ہوتی ہے لہٰذا ان کی دعا رد ہوتی ہی نہیں، سب قبول ہی قبول ہے۔۔۔

۳)۔۔۔۔ بچوں کو یہ ساری فضیلتیں حاصل کرنے کے لیے کثرت سے سلام کرنے کی ترغیب دیں۔۔۔
گھر میں جتنی بار بھی داخل ہوں سلام کریں، گھر کے افراد جب بھی سامنے آئیں سلام کریں، گھر میں مہمان آئیں یا کسی کے گھر مہمان بن کر جائیں سب سے پہلے سلام کریں، راہ چلتے لوگوں کو سلام کریں چاہے جان پہچان والے ہوں یا اجنبی۔۔۔
بڑے تو بڑے چھوٹوں کو بھی سلام میں پہل کریں۔کئی صحابہ نے کوشش کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے سلام کرلیں ، مگر کسی کی یہ کوشش کامیاب نہ ہوسکی اور آپ ہمیشہ سلام کرنے میں پہل کرجاتے ، چاہے وہ چھوٹے بچے ہی کیوں نہ ہوں۔۔۔
آج کل جو رجحان چلا ہے کہ ملتے وقت تو سلام کرتے ہیں لیکن جدا ہوتے وقت خدا حافظ یا اللہ حافظ کہتے ہیں۔۔۔
اگرچہ یہ بھی دعا ہے اور دعا دینا بری بات نہیں لیکن اس کی وجہ سے سلام کرنے کا عمل چھوٹ گیا جس کی تعلیم حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی۔۔۔
لہٰذا بچوں کو رخصت ہوتے وقت بھی سلام کرنا سکھائیں کہ اس سے دعا بھی ملے گی اور سنت پر عمل کرنے کا ثواب بھی ۔۔۔
سنگل عمل سے ڈبل فوائد!!!
 
آخری تدوین:

عرفان سعید

محفلین
زبردست۔۔۔ متفق ۔۔۔:)
ماشاء اللہ ۔۔اللہ پاک آپ کے بیٹے کو دین و دنیا کا بہترین اور نافع علم حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔ اپنے والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور ذریعہ نجات بنائے ۔۔آمین ثم آمین
آپ نے بالکل صحیح بات کی چھوٹے بچوں کی توجہ کا دورانیہ بہت کم ہوتا ہے۔۔ زیادہ سے زیادہ دس یا پندرہ منٹ۔۔ سکول میں کچھ بچے ایسے بھی ہیں جن کو شروع شروع میں میں پکڑکر ہلا دیتی تھی کہ بیٹا آپ کو سنائی نہیں دے رہا کہ ٹیچر کیا پوچھ رہی ہیں کیا بات کررہی ہیں۔۔ مگر جواب ندارد۔۔ اور کچھ بچے ایسے ہوتے تھے جو مٹی میں کھیلنے لگ جاتے تھے۔۔ شروع شروع میں مجھے لگا تھا یہ جاب کرتے میں نے خود "پاگل" ہوجانا ہے۔۔ کیونکہ میری جاب کی ابتداء ٹریننگ سے نہیں ہوئی تھی۔۔ بلکہ ایک ماہ میں سکول میں گئی ہوں اس کے بعد ہمیں ٹریننگ آرڈر ملے ہیں۔۔ اور پھر کچھ حد تک میں نے اپنی "irritation" پہ قابو پا لیا۔۔ وہ اس طرح سے کہ مجھے سیکھانے کے مختلف آئیڈیاز مل چکے تھے۔ جیسے گیمز کھیلنا، یا ایکسرسائز کروانا۔۔ وغیرہ۔۔ نرسری کلاس میں میتھ پڑھاتی ہوں۔۔ تو گنتی سیکھانے کے لیے میں نے کہنا سب بچے ایک دائرہ بنائیں ۔۔ اب جس کے کندھے پہ میں نے ٹیپ کیا وہ بچہ اس دائرے سے نکل کر بھاگے گا اور پورا راؤنڈ سرکل لیکر واپس اپنی جگہ پہ آئے گا۔۔ اور تب تک باقی بچے کاؤنٹنگ پڑھیں گے۔۔ اگر دس گننے تک وہ اپنی جگہ پہ واپس آگیا تو وہ ونر آدر وائز لوزر۔۔ اب یہ ایک طرح سے گیم بھی ہوگئی اور گنتی سیکھنے کا عمل بھی ہوگیا ۔۔
نمبر ٹو پہ جو آپ نے لکھا کہ بچوں کو تحفظ کا احساس ضرور دلوانا چاہیئے۔۔ ایسا اکثر ہوتا ہے بچہ جب غلطی کرتا ہے تو استاد غصے میں آجاتا ہے ۔۔۔اور بچوں کے اندر بھی ایک ڈر پیدا ہوجاتا ہے۔۔اس سے اس کا سیکھنے کا عمل بھی رک جاتا ہے۔۔ آپ کی بات سے متفق ہوں کہ بچوں کو غلطی پہ سرزنش کرنے کے بجائے اگر ہم پیار سے سمجھا دیں گے تو اس میں خود اعتمادی بھی پیدا ہوگی اور سیکھنے کا عمل بھی نہیں رکے گا۔۔
نمبر تھری پہ جو آپ نے لکھا کہ حوصلہ افزائی۔۔ یہ سب سے اہم کام ہے۔۔ کیونکہ اکثر بچے اچھا کام کریں تب بھی استاد حوصلہ افزائی میں کنجوسی کرجاتے ہیں۔۔ جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا کہ بچوں میں نیٹنیس کا بالکل بھی خیال نہیں رکھا جاتا تھا۔۔ مگر اس کے باوجود جب بھی بچے اچھا پڑھتے ہم اس کو گلے لگاتے ہیں اور پیار سے گال پہ سٹار بنا دیا ۔۔ صرف ان کے خراب حلیے کی وجہ سے ان سے پیچھے ہٹنا بیوقوفی ہے۔۔ مزید اس میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔۔ ان شاء اللہ اب سکول کھلیں گے تو ان باتوں پہ عمل مزید بہتر انداز میں کرسکوں گی۔۔ کیونکہ کوئی بھی انسان پرفیکٹ نہیں ہوتا۔۔ چھوٹے بچوں سے غلطیاں سب سے زیادہ ہوتی ہیں اس کے لیے خود میں برداشت سب سے زیادہ ضروری چیز ہے۔۔ میری کمزوری ہے کہ مجھ میں برداشت کی کمی ہے ۔لیکن تعلیم و تربیت کے معاملے میں میں نےابتدا خود سے کی ہے۔۔ اللہ کامیاب کرے۔۔ آمین
بہت اچھے!
آپ نئے نئے تجربات کر رہی ہیں جو اس جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ آپ مسلسل بہتری کی طرف بڑھنا چاہتی ہیں۔ اس جوش اور ولولے کی حفاظت کیجیے گا۔
ایریٹیشن زیادہ ہو جائے تو ایریٹیشن کو انجوائے کرنا شروع کر دیں، پھر دیکھیں یہ کیسے بھاگتی ہے۔
اللہ آپ کی مشکلات آسان فرمائے۔ آمین
 

جاسمن

لائبریرین
ہادیہ۔
اس دھاگہ میں محفلین کے تجربات و مشاہدات پہ مشتمل اسباق پڑھ کے بہت اچھا محسوس ہورہا ہے۔
 
بہت عمدہ لڑی۔ نہ صرف اساتذہ کے لیے، بلکہ والدین کے لیے بھی بہت فائدہ مند ہے۔
ہمارے ایک مربی ہیں۔ ان کا انداز یہ ہے کہ جب بھی کوئی گفتگو شروع کرتے ہیں تو مثال سے کرتے ہیں۔ اور مثال بھی سامنے موجود کسی چیز کی لیتے ہیں۔ مثلاً پین اٹھا کر اس سے مثال دے دی۔ پانی کا گلاس اٹھا لیا اور اس سے متعلق کسی مثال سے بات شروع کی۔
اس سے ہوتا یہ ہے کہ سامعین کی توجہ بھی مرکوز ہو جاتی ہے، بات سمجھ بھی آتی ہے اور موضوع کی تفہیم آسان ہو جاتی ہے۔
یہ غالباً اسی قسم کی بات ہے، جس کی جانب عاطف بھائی نے اشارہ کیا ہے۔ کہ موضوع سے پہلے موضوع کی طرف لے کر آنا۔ پھر موضوع پر گفتگو شروع کرنا۔

ابتدائی اسباق پر پہلے بات ہو چکی ہے۔ ان میں ایک اہم سبق اور شامل کر لیں۔ وقت کی پابندی۔ جب بحیثیت استاد یا والدین آپ وقت کی پابندی کریں گے تو بچے آپ سے سیکھیں گے۔
 
راہ چلتے لوگوں کو سلام کریں چاہے جان پہچان والے ہوں یا اجنبی۔۔۔
الحمد للہ۔ اس کام کی عادت بچپن سے ہی ایسی پڑی کہ ابھی بھی جاری ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ اکثر لوگ یوں غور سے دیکھتے ہیں، جیسے پہچاننے کی کوشش کر رہے ہوں۔ :)
 

زیک

مسافر
میں ٹیچر تو نہیں لیکن جو تھوڑا بہت پڑھایا ہے تو ہائی سکول کے بچوں کو پڑھانا سب سے مشکل لگا۔ ان کی توجہ حاصل کرنا اور رکھنا اتنا آسان نہیں جتنا چھوٹے بچوں کا ہے اور نہ وہ یونیورسٹی کے بچوں کی طرح سیلف موٹیویٹڈ ہوتے ہیں
 
میں نے تقریباً ہر عمر کے لوگوں کو پڑھایا ہے اور ہمیشہ اچھا رزلٹ رہا ہے الحمد للہ۔ اس کی ایک ہی وجہ سمجھتا ہوں اور وہ یہ کہ جب آپ کسی بھی طالبعلم کی دلچسپی اس کے متعلقہ مضمون میں پیدا کردیتے ہیں تو اس کے لیے سمجھنا اور پڑھنا آسان ہوجاتا ہے۔ اپنے بیٹے کو پڑھانے کے لیے میں کارٹون کہانیوں کی مدد لیتا ہوں، پنجم تک کے بچوں کو کچھ عرصہ پڑھانے کا موقع ملا ان کے لیے میں پریکٹیکل سامان مثلاً ریاضی کے یے مختلف باکسز، کاغذ کے چھوٹے بڑے ٹکڑے اور کچھ بے کار سامان لے کر اسے جمع، نفی ، ضرب تقسیم کرتا رہتا تھا اس طرح وہ با آسانی چیزوں کو سمجھ جاتے تھے۔ نہم دہم کی کیمسٹری اور بائیو جو بچوں کو سب سے مشکل لگتی ہے اس کے لیے میرے پاس او لیول اور اے لیول کی سی ڈیز ہوتی تھیں ان سے ایٹم اور ان سے بننے والے مالیکیولز، ہابرڈائزیشن وغیرہ کو تھری ڈی پکٹورل ماڈلز کے ساتھ اور سٹیپ بائی سٹیپ سمجھایا جاتا تھا اس لیے بچے با آسانی سمجھ لیتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ صابن بنانا، سافٹ ڈرنک تیار کرنا، سرکہ بنانا وغیرہ ایسے بہت سارے کام بھی بچوں کو پڑھاتے ہوئے کروا دیا کرتا تھا۔ اس سے بچوں کی اتنی دلچسپی بڑھ جاتی تھی کہ سمجھنے سمجھانے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی تھی۔ ایک بار تو بڑا کمال ہوا اور وہ یہ کہ کلاس کے دوران ایک دوست کی کال آئی اور ان سے کیچپ کی ریسپی کی بابت بات ہوئی(ان دنوں مجھے نجانے کیوں کچن ریسپیز میں بہت دلچسپی تھی اور پیزا، کیچپ، کیک رس، فروٹ کیک وغیرہ بنانے کے بہت سے ناکام و کامیاب تجربے کرتا رہتا تھا) تو ایک بچے نے سن لیا اور کہا سر ہمیں بھی سکھائیں۔ میں نے انھیں ریسپی لکھوائی اور اس سلسلے میں اپنی مما کی مدد کرنے کو کہا ۔۔۔۔اگلے دن بچے اتنے سارے کیچپ بچے لے کر آئے کہ مزہ آگیا۔اسی طرح سافٹ ڈرنک میں کیا کیا استعمال ہوتا ہے، اس کے انگریڈینٹس کو اردو میں کیا کہتے ہیں اور اسے کیسے بناتے ہیں، جب یہ پڑھایا تو اگلے دن بچے اپنی اپنی سافٹ ڈرنکس لےکر کلاس میں موجود تھے (چونکہ یہ کچھ خطرناک کام تھا اس لیے میں نے اس کے بعد انھیں اس سے باز رکھنے کی پوری کوشش کی)۔ بائیو پڑھاتے ہوئے میں نے ہمیشہ پریکٹیکل کو اہمیت دی اور ریسکیو ٹریننگ کا بڑا حصہ انھیں بھی سمجھانے کی کوشش کی جیسے بلڈ پریشر چیک کرنا، نبض چیک کرنا، پٹی کرنا وغیرہ وغیرہ بلکہ انجکشن لگانا بھی سکھایا تھا۔ اردو پڑھاتے ہوئے میں تمام نعوت، حمود، ملی نغمات وغیرہ وغیرہ کو ہمیشہ گا کر اور بچوں کو ساتھ گوا کر پڑھاتا تھا۔مزے داری کی بات یہ کہ طرزیں ہم کلاس میں خود بناتے تھے،اسی طرح مکالمے کے لیے باقاعدہ کلاس میں دو بچوں کا مکالمہ اور ایسی بہت سارے مکالمے، کہانیوں کے لیے بچوں کے ڈرامے وغیرہ کی تیاری کروانے سے بچوں کو رٹا نہیں لگوانا پڑتا تھا۔
بڑی کلاسز میں ایم اے اور اعزازی طور پرایم فل کو پڑھایا اور مجھے لگا کہ انھیں پڑھانا اس حوالے سے تو مشکل نہیں کہ بہت زیادہ پریزینٹیشن یا پریکٹیکل کرنا مشکل ہے البتہ اس حوالے سے یہ کام مشکل ہے کہ زیادہ تر بچے پڑھنے کے لیے تیار ہی نہ ہوتے تھے(زیادہ تعداد ملازمت پیشہ ان افراد کی ہوتی جو جن کا مقصد محض ایم فل الاونس لینا ہوتاتھا)۔ اس کے لیے بس یہ کیا کہ ہر ٹاپک کو اتنی بار اور اتنی شدت سے (شدت مطلب بار بار اصرار) سے پڑھایا اور کراس کویسچن کیے کہ بچوں کے دماغ میں تیس چالیس فیصد بھی رہ جائے تو کافی ہے۔ میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ اس لیول پر ڈائریکٹ پریزینٹیشن سے بچے گھبراتے ہیں اس لیے ایک سے زیادہ ٹاپکس دے کر ان میں سے کسی ایک پر کبھی پانچ سطور اور کبھی دس سطور لکھوا لیا کرتا۔ اس سے خاطر خواہ نتائج نکلے۔ میرے خیال میں کسی بھی درجے کے بچوں کو پڑھانا یا سمجھانا ہو جب تک آپ ان کی دلچپسی اس میں پیدا نہیں کرتے، آپ کے لیے انھیں پڑھانا اور ان کے لیے پڑھنا مشکل ہے۔ جو لوگ دلچسپی پیدا کیے بنا ربوٹ کی طرح اپنا لیکچر دے کر یا نوٹس لکھوا کر گم ہوجاتے ہیں مجھے ہمیشہ ان سے چڑ رہتی ہے۔ یا پھر وہ لوگ جو اچھے استاد تو ہیں لیکن ان کی زبان و بیان بہت مشکل ہے ان سے بھی خوامخواہ کی چڑ ہونے لگتی ہے اور کلاس کی دلچسپی محض حاضری پوری ہونے تک ہی رہ جاتی ہے۔
ہادیہ بہنامیں آپ کی اس سلسلے میں زیادہ مدد تو نہیں کر پاوں گا البتہ آپ جس کلاس کے جس کورس سے متعلق سوال کریں گی ان شا اللہ اس حوالے سے بچوں کی تربیت کو مدنظررکھتے ہوئے کچھ مشورے دینے کی ضرور کوشش کروں گا۔
 
آخری تدوین:

ہادیہ

محفلین
میرے نزدیک چھوٹے بچوں کو پڑھانے میں ایک خاص بات یہ ضروری ہے کہ کسی بھی تصور (یہاں تصور سے ٹاپک مراد ہے ) کا آغاز بچوں کے ذہن پر براہ راست نہ کیا جائے ، بلکہ کچھ مناسب وقت ان کی توجہ کو نفس مضمون کی طرف لانے میں صرف کیا جائے اور پھرجب محسوس ہو کہ اب بچوں کی سوچ اس طرف آرہی ہے تو اب موضوع کو باقاعدہ شروع کیا جائے اس موٹیویشن سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ اس سے بچے موضوع کو اپنے لیے ایک بوجھ نہیں سمجھتے اور اپنی سوچ کو آپ کی تعلیمی سرگرمی سے ہم آہنگ کر کے جلد سیکھنے کی طرف مائل ہو جاتے ہیں ۔کیوں کہ بچے نازک دماغ رکھتے ہیں اس لیے چھوٹی عمر کی تعلیم میں یہ بات بہت اہم ہوتی ہے ۔تاہم یہ موٹیویشن ہر تعلیمی میدان میں اہمیت رکھتی ہے ۔
زبردست اور متفق۔
بچے کو موضوع کی طرف لانے کے لیے ہم یہ بھی کرسکتے ہیں کہ۔ جیسے جمع سیکھانی ہوتو اس سے ہم مختلف چیزوں کا کہہ سکتے ہیں ۔مثلا آپ کے پاس کلر پنسلز کتنی ہیں وغیرہ۔اور اگر ٹو ڈیجٹ ایڈیشن سیکھا رہے ہیں تو بچے کا اسی حوالے(جمع) سے Previous knowledge بھی چیک کرسکتے ہیں۔ اگر وہ سنگل ڈیجٹ کرنا سیکھ چکے ہوں تو یقینا ڈبل ڈیجٹ ان کے لیے زیادہ مشکل نہیں ہوگا۔۔ متفق آپ نے بالکل صحیح جانب توجہ مبذول کروائی۔۔ بہت شکریہ:)۔جزاک اللہ خیرا
 
Top