میں نے تقریباً ہر عمر کے لوگوں کو پڑھایا ہے اور ہمیشہ اچھا رزلٹ رہا ہے الحمد للہ۔ اس کی ایک ہی وجہ سمجھتا ہوں اور وہ یہ کہ جب آپ کسی بھی طالبعلم کی دلچسپی اس کے متعلقہ مضمون میں پیدا کردیتے ہیں تو اس کے لیے سمجھنا اور پڑھنا آسان ہوجاتا ہے۔ اپنے بیٹے کو پڑھانے کے لیے میں کارٹون کہانیوں کی مدد لیتا ہوں، پنجم تک کے بچوں کو کچھ عرصہ پڑھانے کا موقع ملا ان کے لیے میں پریکٹیکل سامان مثلاً ریاضی کے یے مختلف باکسز، کاغذ کے چھوٹے بڑے ٹکڑے اور کچھ بے کار سامان لے کر اسے جمع، نفی ، ضرب تقسیم کرتا رہتا تھا اس طرح وہ با آسانی چیزوں کو سمجھ جاتے تھے۔ نہم دہم کی کیمسٹری اور بائیو جو بچوں کو سب سے مشکل لگتی ہے اس کے لیے میرے پاس او لیول اور اے لیول کی سی ڈیز ہوتی تھیں ان سے ایٹم اور ان سے بننے والے مالیکیولز، ہابرڈائزیشن وغیرہ کو تھری ڈی پکٹورل ماڈلز کے ساتھ اور سٹیپ بائی سٹیپ سمجھایا جاتا تھا اس لیے بچے با آسانی سمجھ لیتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ صابن بنانا، سافٹ ڈرنک تیار کرنا، سرکہ بنانا وغیرہ ایسے بہت سارے کام بھی بچوں کو پڑھاتے ہوئے کروا دیا کرتا تھا۔ اس سے بچوں کی اتنی دلچسپی بڑھ جاتی تھی کہ سمجھنے سمجھانے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی تھی۔ ایک بار تو بڑا کمال ہوا اور وہ یہ کہ کلاس کے دوران ایک دوست کی کال آئی اور ان سے کیچپ کی ریسپی کی بابت بات ہوئی(ان دنوں مجھے نجانے کیوں کچن ریسپیز میں بہت دلچسپی تھی اور پیزا، کیچپ، کیک رس، فروٹ کیک وغیرہ بنانے کے بہت سے ناکام و کامیاب تجربے کرتا رہتا تھا) تو ایک بچے نے سن لیا اور کہا سر ہمیں بھی سکھائیں۔ میں نے انھیں ریسپی لکھوائی اور اس سلسلے میں اپنی مما کی مدد کرنے کو کہا ۔۔۔۔اگلے دن بچے اتنے سارے کیچپ بچے لے کر آئے کہ مزہ آگیا۔اسی طرح سافٹ ڈرنک میں کیا کیا استعمال ہوتا ہے، اس کے انگریڈینٹس کو اردو میں کیا کہتے ہیں اور اسے کیسے بناتے ہیں، جب یہ پڑھایا تو اگلے دن بچے اپنی اپنی سافٹ ڈرنکس لےکر کلاس میں موجود تھے (چونکہ یہ کچھ خطرناک کام تھا اس لیے میں نے اس کے بعد انھیں اس سے باز رکھنے کی پوری کوشش کی)۔ بائیو پڑھاتے ہوئے میں نے ہمیشہ پریکٹیکل کو اہمیت دی اور ریسکیو ٹریننگ کا بڑا حصہ انھیں بھی سمجھانے کی کوشش کی جیسے بلڈ پریشر چیک کرنا، نبض چیک کرنا، پٹی کرنا وغیرہ وغیرہ بلکہ انجکشن لگانا بھی سکھایا تھا۔ اردو پڑھاتے ہوئے میں تمام نعوت، حمود، ملی نغمات وغیرہ وغیرہ کو ہمیشہ گا کر اور بچوں کو ساتھ گوا کر پڑھاتا تھا۔مزے داری کی بات یہ کہ طرزیں ہم کلاس میں خود بناتے تھے،اسی طرح مکالمے کے لیے باقاعدہ کلاس میں دو بچوں کا مکالمہ اور ایسی بہت سارے مکالمے، کہانیوں کے لیے بچوں کے ڈرامے وغیرہ کی تیاری کروانے سے بچوں کو رٹا نہیں لگوانا پڑتا تھا۔
بڑی کلاسز میں ایم اے اور اعزازی طور پرایم فل کو پڑھایا اور مجھے لگا کہ انھیں پڑھانا اس حوالے سے تو مشکل نہیں کہ بہت زیادہ پریزینٹیشن یا پریکٹیکل کرنا مشکل ہے البتہ اس حوالے سے یہ کام مشکل ہے کہ زیادہ تر بچے پڑھنے کے لیے تیار ہی نہ ہوتے تھے(زیادہ تعداد ملازمت پیشہ ان افراد کی ہوتی جو جن کا مقصد محض ایم فل الاونس لینا ہوتاتھا)۔ اس کے لیے بس یہ کیا کہ ہر ٹاپک کو اتنی بار اور اتنی شدت سے (شدت مطلب بار بار اصرار) سے پڑھایا اور کراس کویسچن کیے کہ بچوں کے دماغ میں تیس چالیس فیصد بھی رہ جائے تو کافی ہے۔ میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ اس لیول پر ڈائریکٹ پریزینٹیشن سے بچے گھبراتے ہیں اس لیے ایک سے زیادہ ٹاپکس دے کر ان میں سے کسی ایک پر کبھی پانچ سطور اور کبھی دس سطور لکھوا لیا کرتا۔ اس سے خاطر خواہ نتائج نکلے۔ میرے خیال میں کسی بھی درجے کے بچوں کو پڑھانا یا سمجھانا ہو جب تک آپ ان کی دلچپسی اس میں پیدا نہیں کرتے، آپ کے لیے انھیں پڑھانا اور ان کے لیے پڑھنا مشکل ہے۔ جو لوگ دلچسپی پیدا کیے بنا ربوٹ کی طرح اپنا لیکچر دے کر یا نوٹس لکھوا کر گم ہوجاتے ہیں مجھے ہمیشہ ان سے چڑ رہتی ہے۔ یا پھر وہ لوگ جو اچھے استاد تو ہیں لیکن ان کی زبان و بیان بہت مشکل ہے ان سے بھی خوامخواہ کی چڑ ہونے لگتی ہے اور کلاس کی دلچسپی محض حاضری پوری ہونے تک ہی رہ جاتی ہے۔
ہادیہ بہنامیں آپ کی اس سلسلے میں زیادہ مدد تو نہیں کر پاوں گا البتہ آپ جس کلاس کے جس کورس سے متعلق سوال کریں گی ان شا اللہ اس حوالے سے بچوں کی تربیت کو مدنظررکھتے ہوئے کچھ مشورے دینے کی ضرور کوشش کروں گا۔