یہاں تو پتھر زیادہ کام آتے
میرے سکول کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے۔۔وغیرہ وغیرہ
پاء جی آج ہفتے کے بعد سرورق پہ آئی ہے۔۔ ایک ہفتہ تو گیپ تھا اس کا۔۔یہ پوسٹ ہفتہ بھر سے سر ورق پر نظر آ رہی ہے، صبح کھولو یا شام... آج بالآخر دیکھ ہی لی...
بس یہی کہنا تھا آپ نے۔۔یہ پوسٹ ہفتہ بھر سے سر ورق پر نظر آ رہی ہے، صبح کھولو یا شام... آج بالآخر دیکھ ہی لی...
کمنٹ کر کے فالو کر لیا ہے بہانے سے... حسب موقع و دستور کچھ حصہ لگ جائے گابس یہی کہنا تھا آپ نے۔۔
فرحت آپی یو آر گریٹ۔۔۔ آپ اور جاسمن آپی تو ماشاء اللہ کافی تجربہ کار ہیں۔۔
جی ان شاء اللہ ایسا ہی ہوگا۔۔
زبردست۔۔ بہت اچھے پوائنٹ کی طرف توجہ دلائی ہے مقدس بہنا آپ نے۔۔ ایسا واقعی ہوتا ہے کہ یہاں کے پیرنٹس عموما بچوں سے ڈسکس نہیں کرتے ان کے پرابلمز۔۔نا ہی بچوں میں آگاہی ہوتی ہے ۔۔اور ان سب کے پیچھے مین ریزن ہےوالدین اور اساتذہ کا اپنا رویہ۔۔چائلڈ ابیوزنگ کی وجہ سے بچے بہت سے مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ بچے گھروں سے بھاگتے ہیں۔۔ جب گھروں سے باہر بھاگتے ہیں تو اغوا جیسے کیسز عام ہوجاتے ہیں۔۔ اور صرف اغوا تک ہی نہیں بلکہ بچے غلط راستوں پہ بھی چل پڑتے ہیں ۔۔ اور چائلڈ ابیوزنگ صرف گھر والوں تک محدود نہیں ہے۔۔ سکولز میں بھی اساتذہ کا ایسا رویہ بچے کو باغی کردیتا ہے۔ وہ سکول سے بھی فرار ہونے کی کوشش کرتا ہے۔۔۔۔ بلکہ یہاں ایک اپنے ہی گاؤں کا واقعہ بتاتی ہوں۔۔
بچہ سکول سے تھوڑا لیٹ گھر پہنچا تو باپ کافی سخت مزاج قسم کا تھا اس نے برا بھلا کہا بچے کو۔۔ بچے کی عمر تقریبا 14 ،15 سال ہوگی ۔۔بچے نے بھی غصے میں گندم میں رکھنے والی گولیاں کھا لی۔۔بچے کی ڈیتھ موقع پہ ہی ہوگئی۔۔ کیا ملا۔۔سوائے دکھ اور افسوس کے۔۔۔ اور یہی نہیں۔۔ بلکہ ہمارے معاشرے میں ایسی لاتعداد مثالیں موجود ہیں۔۔ اغوا کے کیسز تو بہت عام ہیں چائلڈ ابیوزنگ میں۔۔
ہمارا اپنا رویہ بچوں کو بہت سے غلط راستوں پہ لگا دیتا ہے۔۔ یا پھر یوں کہہ لیں کہ بچہ نا تو پڑھائی میں دلچسپی لیتا ہے نا ہی مثبت سوچ اختیار کرتا ہے۔۔ سب سے دور ہوجانا، اپنوں سے زیادہ باہر غیروں پہ اعتبار کرنے لگتا ہے۔۔اور یہیں سے اس کی زندگی کا سفر تباہی کی طرف شروع ہوجاتا ہے۔۔
ٹریننگ کے دوران ایک ٹاپک بہت ڈیٹیل میں ڈسکس کیا گیا۔۔ چائلڈ فرینڈلی سکول۔۔اس کے مطابق ہمیں بچوں کے ساتھ اپنا رویہ دوستانہ رکھنا چاہیے۔۔ جب بچہ نیا نیا سکول آتا ہے تو اسے اجنبیت کا احساس مت دلوائیں۔۔ برے القاب سے مت بلائیں۔۔ پیار سے ٹریٹ کریں۔۔ اسے بالکل ایسے ٹریٹ کریں جیسے ایک ماں بچے کو کرتی ہے۔۔ کہ بچہ بلاجھجھک ماں سے اپنی بات کہہ دیتا ہے۔۔اپنا مسئلہ بتا دیتا ہے۔۔ اگر کوئی بچہ اچھا پڑھ کر نہیں آتا۔ انہیں بچوں کے سامنے ایسے سزا مت دیں جو انہیں مزید پڑھائی سے دور کردے۔۔ بچوں کی بھی سیلف ریسپیکٹ ہوتی ہے۔۔ آپ انہیں اگر کچھ سمجھانا چاہتے ہیں تو سب کے سامنے کہنے کے بجائے الگ سے بلائیں ۔۔ پیار سے پوچھیں۔۔ ان کی پرابلم کو حل کرنے کی کوشش کریں۔۔ اس سے بچوں میں خود اعتمادی ضرور بڑھتی ہے۔۔ لیکن یہاں ایک بات کا بھی لازمی خیال رکھیں۔۔ کہ بچوں کو آپ نے فرینڈلی ٹریٹ ضرور کرنا ہے "فری" نہیں کرنا۔۔ استاد اور بچے کے درمیان جو احترام کا تعلق ہے وہ لازمی برقرار رہنا چاہیئے۔۔
تھینکس مقدس۔۔
ہمارے معاشرے میں بچوں سے نہ تو اس موضوع پر بات کی جاتی ہے اور نہ ہی انھیں پہلے سے ایسی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے بارے میں تیار کیا جاتا ہے بلکہ ہمارے یہاں ہی کیا بڑے بڑے ترقی یافتہ معاشروں میں بھی بچے جس طرح ابیوز کا شکار ہوتے ہیں، اس کے بارے میں سوچنا بھی بہت مشکل ہے۔ مقدس نے بہت اہم نکتے کی جانب اشارہ کیا ہے ہادیہ۔ ایک استاد کا اپنے بچوں کے ساتھ ایسا رشتہ ہونا چاہیے کہ وہ ان کے چہرے پڑھ کر یا ان کی باڈی لینگویج سے اندازہ لگا سکے کہ بچہ خوش اور نارمل ہے یا کسی تناو اور پریشانی کا شکار ہے۔ اللہ نہ کرے کہ کوئی بچہ ایسی صورتحال کا شکار ہو لیکن ایسا ہوتا ہے اور گھر، محلہ حتی کہ سکول میں بھی ایسا ہونا ممکن ہے۔ بچوں کو ان کی عمر کے مطابق گائیڈ کرنا ایک استاد کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ انھیں کھلے الفاظ میں بتائیں کہ کسی کو بھی انھیں غلط طور پر چھونے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ انھیں یہ بھی سمجھا ئیں کہ اگر کبھی ایسی صورتحال پیش آئے تو کس طرح اپنا بچاو کرنا ہے۔ اجنبی یا رشتے دار، ان سے محفوظ فاصلے پر کیسے رہنا ہے۔ اور اگر خدانخواستہ وہ کسی ایسی صورتحال کا شکار ہو جاتے ہیں تو انھیں فورا اپنے والدین یا استاد کے ساتھ شیئر کرنا چاہیے۔Yes, I do agree with your points but your are mainly talking about physical or emotional abuse but what I am talking about is sexual abuse in childhood which is very common now a days because children are not educated in this.
Its something that every school should work on and they should hold workshops about grooming and educate their staff and parents to avoid this happening.
Asalamulaikum
Hadiya Ive been working with children for quite some time now. There is one thing I always feel that children are unaware about certain difficulties they can face. Its worryig that most of the Asian (pak, ind, bang) parents will not talk about such topics to their children. Despite everything, not all children here are safe. Like children everywhere, they are vulnerable to the atrocities of child abuse.
Most of us would agree child abuse is a devastating issue, yet many of us still believe it’s not something that could happen to anyone we know or love. Child abuse happens everywhere—in all types of homes, families, neighborhoods, schools and communities. It is likely present somewhere in your very own network.
People who abuse children are not just creepy strangers who lurk behind bushes or abduct children in vans. Mostly it includes people we meet every day, people we know, love, and trust. People who abuse can be grandparents, uncles, aunts, cousins, moms, dads, teachers, coaches, mentors, neighbors, and family friends.
But now we must develop an awareness of this problem which will increase the ability to prevent or at least identify when child abuse happens.
Teach children about staying safe, maintain a relationship where children feel confident to approach any member of staff if they have a worry or problem. Teach them to speak up if touched inappropriately and then take action when they disclose. Trust your gut and teach kids to trust theirs.
I can be on and on about it because I witness this almost everyday. I would like all of you and especially if you are a teacher or working with children to educate yourself and the kids you care for on what grooming behaviors are and look like.
And sorry for an English post in your topic, my urdu sucks when it comes to all this.
ولنذیقنھم من العذاب الادنی دون العذاب الاکبر لعلھم یرجعون۔خیر سزا ہم تو اسے نہیں دلوا سکے لیکن خدا نے اس شخص کا انجام بہت برا کیا۔ اس کا ایکسیڈنٹ ہوا اور سر پر گہری چوٹ آئی جس کی وجہ سے اس کا ذہنی توازن جاتا رہا۔ آخر میں اس کی موت پاگل خانے میں ہوئی۔
ولنذیقنھم من العذاب الادنی دون العذاب الاکبر لعلھم یرجعون۔
ماشاءاللہ۔دوسرا ہم محلے والوں نے بہت زیادہ احتیاط کر لی تھی۔ میرے پاس جتنے بچے پڑھنے کے لئے آتے تھے اگر ان کے والدین ان کو لینے نہیں آسکتے ہوتے تھے تو میں بچوں کو خود ان کے گھر تک چھوڑ کر آتی تھی۔ بچے شام کو کھیلتے تھے تو والدین میں سے کوئی نا کوئی کھڑے ہو کر نگرانی کرتا تھا۔
ماشاءاللہ۔
یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ آج کل وہ دور ہی نہیں ہے کہ بچوں کو اکیلا کہیں بھیجا جائے۔
اللہ تعالی کُل جہان کے بچوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔آمین!
متفق!شکریہ احتیاط تو لازمی ہے ہی پر یہ سب کچھ ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ناکافی تھا۔ ان بچوں کو ہم انصاف دلوانے میں ناکام رہے۔ بقول میرے والد We failed them۔ ہم جس بھیانک معاشرے میں سانس لے رہے ہیں اور خاموش بیٹھے تماشا دیکھتے رہتے ہیں، یہ انتہائی افسوسناک ہے۔ معاشرے وہی خوشحال ہوتے ہیں جہاں انصاف ہوتا ہے، جہاں پر اثر افراد سے بھی پوچھ گچھ کی جاتی ہے اور انھیں بھی سزا ہوتی ہے، جہاں پورا معاشرہ مل کر برائیوں کے خلاف آواز اٹھاتا ہے۔ پر ہمارے یہاں یہ سب کچھ نہیں ہوتا ہے
ان بچوں کی ذہنی حالت بہت دنوں تک عجیب سی رہی۔ بات بات پر رونے لگتے تھے۔ مجھ سے کبھی کبھی پوچھتے تھے کہ مس اس شخص کو کوئی کیوں نہیں مارتا ہے؟
کیا دیا ہم نے ان بچوں کو؟ مجھے لگتا ہے ایسے بچوں کا کبھی معاشرے پر اعتماد بحال نہیں ہوتا ہوگا کیونکہ معاشرے نے ان کے مجرموں کو پناہ دی۔ وہ دندناتے پھرتے رہے۔
جب تک ان درندوں کو سزائیں نہیں ہوں گی یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔
شکریہ احتیاط تو لازمی ہے ہی پر یہ سب کچھ ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ناکافی تھا۔ ان بچوں کو ہم انصاف دلوانے میں ناکام رہے۔ بقول میرے والد We failed them۔ ہم جس بھیانک معاشرے میں سانس لے رہے ہیں اور خاموش بیٹھے تماشا دیکھتے رہتے ہیں، یہ انتہائی افسوسناک ہے۔ معاشرے وہی خوشحال ہوتے ہیں جہاں انصاف ہوتا ہے، جہاں با اثر افراد سے بھی پوچھ گچھ کی جاتی ہے اور انھیں بھی سزا ہوتی ہے، جہاں پورا معاشرہ مل کر برائیوں کے خلاف آواز اٹھاتا ہے۔ پر ہمارے یہاں یہ سب کچھ نہیں ہوتا ہے
ان بچوں کی ذہنی حالت بہت دنوں تک عجیب سی رہی۔ بات بات پر رونے لگتے تھے۔ مجھ سے کبھی کبھی پوچھتے تھے کہ مس اس شخص کو کوئی کیوں نہیں مارتا ہے؟
کیا دیا ہم نے ان بچوں کو؟ مجھے لگتا ہے ایسے بچوں کا کبھی معاشرے پر اعتماد بحال نہیں ہوتا ہوگا کیونکہ معاشرے نے ان کے مجرموں کو پناہ دی۔ وہ دندناتے پھرتے رہے۔
جب تک ان درندوں کو سزائیں نہیں ہوں گی یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔