اپسس ایکچلی بھیا میری اردو اتنی اچھی نہیں ہے کہ میں کسی ٹاپک پر ایسے لکھ سکوںان کے سر پہ سے گزر گئی!!!
اردو میں بھی یہی نتیجہ نکلنا تھااپسس ایکچلی بھیا میری اردو اتنی اچھی نہیں ہے کہ میں کسی ٹاپک پر ایسے لکھ سکوں
اردو میں مجھ سے ایکسپلین نہیں ہوتا بھائیاردو میں بھی یہی نتیجہ نکلنا تھا
ماشاء اللہ۔۔ جی بالکل آپی۔۔میں بھی ایسا ہی کروں گی۔۔ اور ویسے بھی ۔۔۔ غصہ تو مجھے آتا ہی نہیں۔۔مسکراہٹ بہترین ٹانک ہے۔
نہیں معلوم کہ یہ چیز مزاج میں کیسے شامل ہوگئی۔ لیکن اللہ نے کرم کیا کہ جب بھی کمرۂ جماعت میں داخل ہونا ہوتا ہے۔۔۔۔۔اگر پہلے سے کوئی پریشانی ہے، مزاج برہم ہے۔۔۔۔تو ساری پریشانی اور برہمی باہر چھوڑ کے جانی ہے۔ بلکہ اپنے شاگردوں کو دیکھتے ہی مزاج کے سب موسم خود بخود خوشگوار ہوجاتے ہیں۔
بعض بچے اس مسکراہٹ کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش بھی کر سکتے ہیں تو مسکراتے ہوئے ہی اس کی حوصلہ شکنی کی جا سکتی ہے۔
فرحت آپی یو آر گریٹ۔۔۔ آپ اور جاسمن آپی تو ماشاء اللہ کافی تجربہ کار ہیں۔۔پہلے دن تمام سکول کے بچوں کو اسمبلی میں اور جس جس جماعت میں آپ جاتی ہیں، میں بچوں کو منفرد طریقے سے خوش آمدید کہیں۔ اسمبلی میں پہلے دن کی اسمبلی اساتذہ کو کروانی چاہیے۔ بچے اپنے اساتذہ کو وہ تمام کام کرتے ہوئے، جو بچے اسمبلی میں کرتے ہیں، دیکھ کر خوش ہوتے ہیں، ان میں اساتذہ اور سکول سے وابستگی مزید بڑھ جاتی ہے اور تحرک(motivation) کا درجہ بھی بلند ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر آپ کلاس ٹیچر ہیں تو بورڈ پر بچوں کے آنے سے پہلے خوش آمدیدانہ جملے یا تصویر وغیرہ بنا دیں۔ جماعت کے درجے کے حوالے سے مواد کا انتخاب کریں۔ چھوٹے بچے کارٹون اور رنگوں کو پسند کرتے ہیں اور بڑے اچھے اقوال/اشعار وغیرہ۔ سو اسی لحاظ سے خوش آمدید کریں۔ جہاں آپ سبجیکٹ ٹیچر ہیں وہاں بھی اسی جوش سے بچوں کا چھٹیوں کے بعد استقبال کریں۔
پہلا دن بچوں سے چھٹیاں کیسے گزری پر بات چیت کرتے گزاریں اور پھر غیر محسوس طریقے سے انھیں کام کی طرف لائیں۔ اگر کسی بچے نے چھٹیوں کا کام مکمل نہیں کیا تو اس کو سخت سزا دینے کے بجائے کوئی ایسا کام دیں جو اس کو کچھ نیا سیکھنے میں مدد کرے۔ اگر سکول میں لائبریری ہے تو بچے کی عمر اور جماعت کے درجے کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے کوئی کتاب پڑھنے کو دیں اور پھر اسے کہیں کہ زبانی یا لکھ کر باقی جماعت/اسمبلی میں بچوں کے ساتھ شیئر کرے۔ بہت چھوٹا بچہ ہے تو رنگ بھرنے یا کچھ ڈرائنگ وغیرہ کی ایکٹیویٹی دے دیں لیکن ہو ایسا کام جس سے کوئی فائدہ ہو جیسے پنسل کی گرپ ٹھیک ہونا، لائنیں کھینچ سکنا وغیرہ
جی بالکل۔۔ آپ نے بالکل صحیح بات کی۔۔ ہر انسان کے تجربات اور مشاہدات کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہوتی ہے کیونکہ وہ ویل اویئر ہوتا ہے ۔۔اس وقت کی صورتحال سے بھی اور حالات سے بھی۔۔۔اور جب دوبارہ ایسی کسی سچوایشن کا سامنا کرنا پڑے تو وہ بہتر انداز میں فیصلہ کرسکتا کہ ایسے وقت میں اس کے اپنے اساتذہ کا کیا رویہ تھا۔۔ میں ایک بات ضرور کہوں گی۔۔ امتیازی سلوک کبھی بھی بچوں کے ساتھ روا نا رکھا جائے۔۔ اس چیز کو میں نے پرسنلی دیکھا بھی ہے اور اب بھی یہی کوشش ہوتی ہے چاہے بچہ پڑھنے میں اچھا ہے یا برا۔۔ لیکن اسے کبھی بھی لیبل نا کریں۔۔ واقعی یہ ہے ہی نکما۔۔کبھی کچھ کر ہی نہیں سکتا وغیرہ وغیرہ۔۔نا ہی ذہین بچوں کو فوقیت دیں۔۔ دراصل ہمارا اپنا رویہ ہی بچوں کو مزید ضدی بھی بناسکتا ہے۔۔اور انہیں موٹیویٹ بھی کرسکتا ہے۔۔اختیار ہمارا ہے۔۔دوسرے لوگوں کے تجربات و مشاہدات سے سیکھنے کی اہمیت اپنی جگہ۔
انسان کے اپنے تجربات و مشاہدات کا نعم البدل کوئی نہیں۔ اپنے سکول کے زمانہ میں جائیے۔
آپ کے اساتذہ نے کیا طریقۂ کار استعمال کیے؟
ان میں سے کون سا قابلِ تقلید ہے اور کون سا نقصان دہ ہے؟
آپ بطورِ طالب علم اس وقت کن باتوں سے متاثر ہوتے تھے؟
استاد کے کس رویہ کو پسند اور کس رویہ کو ناپسند کرتے تھے؟
ان سوالوں کے جواب میں آپ کو بہت سی قابلِ عمل باتیں ملیں گی۔
ایسی سب چیزیں سکول میں موجود ہیں۔۔ صابن، تولیہ، کنگھا اور نیل کٹر بھی۔۔ جس ٹیچر کی اسمبلی ڈیوٹی ہوتی ہے۔ اس نے چیکنگ کرنی۔۔اور جس بچی کے ناخن بڑے ہوئے ہیں۔۔اس کے خود کٹنگ کرنے۔۔۔ منہ دھلوانا کلاس انچارج کا کام ہے۔اور کنگھی کروانا۔۔۔ یعنی اگر میری کلاس کی بچیاں اس حلیے میں آئی ہیں تو فرسٹ پریئرپریڈ میں ٹیچر اپنی ذمہ داری سے یہ کام کرواتی ہے۔۔پھر بعد میں پندرہ منٹ ناظرہ کے ہوتے ہیں۔۔ آپ کی بات سے سوفیصد متفق ہوں کہ تربیت مسلسل تکرار کا نام ہے۔۔بار بار یاد دہانی کروائی جائے۔۔ بچوں کو اچھی باتوں کے بارے میں بتایا جائے۔۔ پھر ہی ان کا ذہن اس طرف مائل ہوگا اور ایک وقت آئے گا ۔۔ کہ وہ اپنی رضامندی سے بنا کہے بھی کرنے لگیں گے۔۔ ان شاء اللہ۔۔کنگھا، تولیہ، بےبی شیمپو اور صابن کا خرچہ برداشت کریں اور روزانہ ایک بچے اور ایک بچی کا سر اور منہ دھلوائیں...
انہیں تصاویر کے ذریعے جراثیم اور گندگی کے بارے میں بتائیں اور کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے کی ترغیب دیں...
یاد رکھیں تربیت ایک دفعہ کہنے کا نام نہیں، تکرار مسلسل کا عمل ہے...
اسے عربی میں کہتے ہیں اذا تکرر تقرر...
یعنی جس بات کی تکرار کی جاتی رہے وہ دل میں قرار پکڑ لیتی ہے!!!
زبردست۔۔ بہت اچھے پوائنٹ کی طرف توجہ دلائی ہے مقدس بہنا آپ نے۔۔ ایسا واقعی ہوتا ہے کہ یہاں کے پیرنٹس عموما بچوں سے ڈسکس نہیں کرتے ان کے پرابلمز۔۔نا ہی بچوں میں آگاہی ہوتی ہے ۔۔اور ان سب کے پیچھے مین ریزن ہےوالدین اور اساتذہ کا اپنا رویہ۔۔چائلڈ ابیوزنگ کی وجہ سے بچے بہت سے مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ بچے گھروں سے بھاگتے ہیں۔۔ جب گھروں سے باہر بھاگتے ہیں تو اغوا جیسے کیسز عام ہوجاتے ہیں۔۔ اور صرف اغوا تک ہی نہیں بلکہ بچے غلط راستوں پہ بھی چل پڑتے ہیں ۔۔ اور چائلڈ ابیوزنگ صرف گھر والوں تک محدود نہیں ہے۔۔ سکولز میں بھی اساتذہ کا ایسا رویہ بچے کو باغی کردیتا ہے۔ وہ سکول سے بھی فرار ہونے کی کوشش کرتا ہے۔۔۔۔ بلکہ یہاں ایک اپنے ہی گاؤں کا واقعہ بتاتی ہوں۔۔Asalamulaikum
Hadiya Ive been working with children for quite some time now. There is one thing I always feel that children are unaware about certain difficulties they can face. Its worryig that most of the Asian (pak, ind, bang) parents will not talk about such topics to their children. Despite everything, not all children here are safe. Like children everywhere, they are vulnerable to the atrocities of child abuse.
Most of us would agree child abuse is a devastating issue, yet many of us still believe it’s not something that could happen to anyone we know or love. Child abuse happens everywhere—in all types of homes, families, neighborhoods, schools and communities. It is likely present somewhere in your very own network.
People who abuse children are not just creepy strangers who lurk behind bushes or abduct children in vans. Mostly it includes people we meet every day, people we know, love, and trust. People who abuse can be grandparents, uncles, aunts, cousins, moms, dads, teachers, coaches, mentors, neighbors, and family friends.
But now we must develop an awareness of this problem which will increase the ability to prevent or at least identify when child abuse happens.
Teach children about staying safe, maintain a relationship where children feel confident to approach any member of staff if they have a worry or problem. Teach them to speak up if touched inappropriately and then take action when they disclose. Trust your gut and teach kids to trust theirs.
I can be on and on about it because I witness this almost everyday. I would like all of you and especially if you are a teacher or working with children to educate yourself and the kids you care for on what grooming behaviors are and look like.
And sorry for an English post in your topic, my urdu sucks when it comes to all this.
زبردست۔۔ بہت اچھے پوائنٹ کی طرف توجہ دلائی ہے مقدس بہنا آپ نے۔۔ ایسا واقعی ہوتا ہے کہ یہاں کے پیرنٹس عموما بچوں سے ڈسکس نہیں کرتے ان کے پرابلمز۔۔نا ہی بچوں میں آگاہی ہوتی ہے ۔۔اور ان سب کے پیچھے مین ریزن ہےوالدین اور اساتذہ کا اپنا رویہ۔۔چائلڈ ابیوزنگ کی وجہ سے بچے بہت سے مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ بچے گھروں سے بھاگتے ہیں۔۔ جب گھروں سے باہر بھاگتے ہیں تو اغوا جیسے کیسز عام ہوجاتے ہیں۔۔ اور صرف اغوا تک ہی نہیں بلکہ بچے غلط راستوں پہ بھی چل پڑتے ہیں ۔۔ اور چائلڈ ابیوزنگ صرف گھر والوں تک محدود نہیں ہے۔۔ سکولز میں بھی اساتذہ کا ایسا رویہ بچے کو باغی کردیتا ہے۔ وہ سکول سے بھی فرار ہونے کی کوشش کرتا ہے۔۔۔۔ بلکہ یہاں ایک اپنے ہی گاؤں کا واقعہ بتاتی ہوں۔۔
بچہ سکول سے تھوڑا لیٹ گھر پہنچا تو باپ کافی سخت مزاج قسم کا تھا اس نے برا بھلا کہا بچے کو۔۔ بچے کی عمر تقریبا 14 ،15 سال ہوگی ۔۔بچے نے بھی غصے میں گندم میں رکھنے والی گولیاں کھا لی۔۔بچے کی ڈیتھ موقع پہ ہی ہوگئی۔۔ کیا ملا۔۔سوائے دکھ اور افسوس کے۔۔۔ اور یہی نہیں۔۔ بلکہ ہمارے معاشرے میں ایسی لاتعداد مثالیں موجود ہیں۔۔ اغوا کے کیسز تو بہت عام ہیں چائلڈ ابیوزنگ میں۔۔
ہمارا اپنا رویہ بچوں کو بہت سے غلط راستوں پہ لگا دیتا ہے۔۔ یا پھر یوں کہہ لیں کہ بچہ نا تو پڑھائی میں دلچسپی لیتا ہے نا ہی مثبت سوچ اختیار کرتا ہے۔۔ سب سے دور ہوجانا، اپنوں سے زیادہ باہر غیروں پہ اعتبار کرنے لگتا ہے۔۔اور یہیں سے اس کی زندگی کا سفر تباہی کی طرف شروع ہوجاتا ہے۔۔
ٹریننگ کے دوران ایک ٹاپک بہت ڈیٹیل میں ڈسکس کیا گیا۔۔ چائلڈ فرینڈلی سکول۔۔اس کے مطابق ہمیں بچوں کے ساتھ اپنا رویہ دوستانہ رکھنا چاہیے۔۔ جب بچہ نیا نیا سکول آتا ہے تو اسے اجنبیت کا احساس مت دلوائیں۔۔ برے القاب سے مت بلائیں۔۔ پیار سے ٹریٹ کریں۔۔ اسے بالکل ایسے ٹریٹ کریں جیسے ایک ماں بچے کو کرتی ہے۔۔ کہ بچہ بلاجھجھک ماں سے اپنی بات کہہ دیتا ہے۔۔اپنا مسئلہ بتا دیتا ہے۔۔ اگر کوئی بچہ اچھا پڑھ کر نہیں آتا۔ انہیں بچوں کے سامنے ایسے سزا مت دیں جو انہیں مزید پڑھائی سے دور کردے۔۔ بچوں کی بھی سیلف ریسپیکٹ ہوتی ہے۔۔ آپ انہیں اگر کچھ سمجھانا چاہتے ہیں تو سب کے سامنے کہنے کے بجائے الگ سے بلائیں ۔۔ پیار سے پوچھیں۔۔ ان کی پرابلم کو حل کرنے کی کوشش کریں۔۔ اس سے بچوں میں خود اعتمادی ضرور بڑھتی ہے۔۔ لیکن یہاں ایک بات کا بھی لازمی خیال رکھیں۔۔ کہ بچوں کو آپ نے فرینڈلی ٹریٹ ضرور کرنا ہے "فری" نہیں کرنا۔۔ استاد اور بچے کے درمیان جو احترام کا تعلق ہے وہ لازمی برقرار رہنا چاہیئے۔۔
تھینکس مقدس۔۔