نوید ناظم
محفلین
رات صحرا نصیب خوابوں میں
گھر بناتے رہے ہیں پانی پر
رات پھر یاد آ گئی اُس کی
رات یوں تو گزر گئی تھی، پر!
دل وفا کا ارادہ رکھتا تھا
اُس نے جانچا نہیں کسوٹی پر
پھر ہوا لے گئی اُڑا کر ساتھ
کچھ تو لکھا تھا ہم نے مٹی پر
ہجر آخر نصیب ٹھہرا ہے
چڑھ گیا نا یہ دل بھی سولی پر
کس جگہ لائی زندگی دل کو
اور کر لے بھروسہ اندھی پر
اب تو وہ بھی نوید ہنستے ہیں
میرے اس دل کی خستہ حالی پر
گھر بناتے رہے ہیں پانی پر
رات پھر یاد آ گئی اُس کی
رات یوں تو گزر گئی تھی، پر!
دل وفا کا ارادہ رکھتا تھا
اُس نے جانچا نہیں کسوٹی پر
پھر ہوا لے گئی اُڑا کر ساتھ
کچھ تو لکھا تھا ہم نے مٹی پر
ہجر آخر نصیب ٹھہرا ہے
چڑھ گیا نا یہ دل بھی سولی پر
کس جگہ لائی زندگی دل کو
اور کر لے بھروسہ اندھی پر
اب تو وہ بھی نوید ہنستے ہیں
میرے اس دل کی خستہ حالی پر