اب یہ اتفاق ہے یا حسن اتفاق کہ سات آٹھ سال قبل جب ہم نے بہ رضا و رغبت اور دائمی ہوش و حواس کے ساتھ اچانک سگریٹ نوشی ترک کردی (شروع بھی اسی طرح کی تھی
)تو ہماری کمپنی کو ہماری یہ ”ادا“ اس قدر بھائی کہ انہوں نے جلد ہی ایک ”سگریٹ آرڈیننس“ جاری کردیا کہ لوگ دفتر میں سگریٹ نہیں پی سکتے (خواہ ہماری طرح کے ”افسران“ کا کمرہ الگ تھلگ ہی کیوں نہ ہو
)، کمپنی کی گاڑی میں نہیں پی سکتے، خواہ گاڑی میں ایک ہی فرد یعنی ہم ہی کیوں نہ بیٹھے ہوں
، کافی روم میں نہیں پی سکتے، خواہ وہاں کوئی تنہا کافی پی رہا ہو، کمپنی کے رہائشی کمروں میں نہیں پی سکتے، خواہ کمرہ میں کوئی تنہا ہی کیوں نہ رہ رہا ہو، ٹوائلیٹ میں نہیں پی سکتے، خواہ وہ کسی کے صرف پرسنل استعمال میں ہی کیوں نہ ہو ۔ وغیرہ وغیرہ (جی ہاں اس کے علاوہ بھی کئی ”مقاماتِ ممنوعہ“ کا ذکر تھا اس آرڈیننس میں)۔ اس آرڈیننس کے اجراء کے بعد سگریٹ پینے کی واحد جگہ دفاتر کے اوپن کوریڈور ایریاز یا فیلڈ پلانٹ میں پلانٹ کی باؤنڈری سے باہر کا علاقہ ”قرار “ پائی، خواہ مئی جون کی گرمی کا مہینہ ہو اور چوٹی سے ایڑی تک پسینہ بہہ رہا ہو۔ جبکہ ہمارے تمام دفاتر سینٹرلی ایئر کنڈیشنڈ ہیں۔
اب اس آرڈیننس کو پڑھ کر میں نے تو سکون کا سانس لیا اور دوسروں نے شک و شبہ کی نظروں سے مجھے دیکھنا شروع کردیا کہ کہیں اس آرڈیننس کے پیچھے ہمارا خفیہ ہاتھ تو نہیں
لیکن پھر وہ ہماری ”اوقات“ کو دیکھ کر اس شک و شبہ کو جھٹک دیتے کہ اس بندے کی اتنی ”اپروچ “ کہاں کہ دنیا بھر میں واقع کمپنی کے دفاتر میں بیک وقت اس قسم کا آرڈیننس جاری کروا سکے۔
اللہ کا شکر ہے کہ جب تک ہم نے سگریٹ پی ”عزت“کے ساتھ پی اور جب سگریٹ پینے میں ”عزت سادات“ کے گنوانے کا خدشہ پیدا ہوا، اللہ نے اس سے قبل ہی ہم سے سگریٹ چھُڑ وا دی۔
اور ہم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلائیں گے۔