لکھنؤ (اُتر پردیس، انڈیا) کے نوابوں کے باورچی کھچڑی کے معاملے میں بڑے مشہور ہیں۔
ایک بار نواب صاحب نے اپنے باورچی سے کسی نئےپکوان(ڈِ ش) کی فرمائش کی۔ باورچی نے کہا،
حضور ! نیا پکوان ( ڈِش) تو ہم آپ کے لیے تیار کر دیں گے۔ لیکن اس کے لیے ہماری کچھ شرطیں
ہوں گی۔ ایک تو نئے پکوان کے لیے آپ کو ہمیں ایک ہفتہ پیشگی اطلاع دینی ہوگی۔ دوسرے یہ
کہ جب ہم پکوان تیار کر رہے ہوں تو ہمارے علاوہ دوسرا کوئی باورچی خانے میں داخل نہ ہو۔
تیسرے یہ کہ جب پکوان تیار ہونے کی اطلاع ہم آپ کو پہنچائیں تو حضورِ والا بذاتِ خود بہ نفسِ
نفیس اس پکوان کو لینے کے لیے باورچی خانے تشریف لائیں۔ نواب صاحب نے کہا ، ’’اماں!
آپ کی شرطیں ہیں تو ٹیڑھی کھیر ، لیکن پھر بھی ہمیں منظور ہیں۔
بہر حال ایک دن نواب صاحب نے اپنے شاہی باورچی سے نئے پکوان کی فرمائش کر ہی دی۔
باورچی نے پکوان کی تیاری کے لیے ضروری اشیاء کی فہرست بنا کر پیش کر دی۔ نواب صاحب
نے باورچی کو ساری چیزیں فراہم کروادی اور حکم فرما دیا کہ ایک ہفتے تک باورچی کے کام میں
کوئی مخل نہ ہو ۔ باورچی نے ایک ہفتے تک بڑی محنت و مشقت کی اور ہفتہ پورا ہونے پر جب
وقت مقررہ پر پکوان تیار ہو گیا تو نواب صاحب کو اطلاع بھجوائی۔ نواب صاحب شطرنج میں اس
قدر منہمک تھے کہ اس اطلاع پر توجہ نہیں دی اور کہلا بھیجا کہ ما بدولت تشریف لارہے ہیں۔ کچھ دیر کے بعد
باورچی نے دوبارہ اطلاع بھیجی کہ حضور ! پکوان تیار ہے۔ تشریف لے آئیے۔نواب صاحب نے پھر وہی
ٹکا سا جواب بھیج دِیا،’’ما بدولت تشریف لارہے ہیں۔‘‘۔ کچھ دیر توقف کرنے کے بعد باورچی تیسری
بار بھی وہی اطلاع بھجوائی۔ نوابصاحب نے اس بار بھی بے اعتنائی کا مظاہرہ کیا۔ اور ما بدولت تشریف
لارہے ہیں، کا وہی جواب بھجوادیا۔
باورچی نے کچھ دیر انتظار کیا۔ ہفتہ بھر محنت و مشقت سے تیار کیے گئے اپنے پکوان کی ہانڈی اُٹھائی
اور ایک خشک درخت کی جڑوں کے پاس ہانڈی اُلٹ کر محل سے روانہ ہوگیا۔ کئی گھنٹوں کے بعد
شطرنج کا کھیل پورا ہونے کے بعد جب نواب صاحب کو پکوان اور باورچی سے کیا ہوا وعدہ یا د آیا
تو لپک کر باورچی خانے پہنچے۔ اور اس باورچی کے بارے میں دریافت کیا۔ نقیبوں نے جواب دیا،
حضور ! اس نے آپ کا کافی انتظار کیا۔ لیکن جب آپ تشریف نہیں لائے تو اس نے نئے پکوان کی ہانڈی
اُٹھائی، خشک درخت کی جڑوں میں انڈیل کر محل سے روانہ ہو گیا۔ نواب صاحب کو بڑا افسوس ہوا۔
لیکن نواب تھے، اپنی غلطی پر شرمندہ ہونا تو انہوں نے سیکھا ہی نہیں تھا۔
چند دنوں کے بعد لوگوں نے دیکھا کہ جو درخت برسوں سے خشک تھا، جس کے دوبارہ سرسبز و شاداب
ہونے کی کوئی امید ہی نہیں تھی وہ درخت سرسبز و شاداب ہو کر لہلہا رہا تھا۔یہ خبر نواب صاحب کو بھی
ہوئی۔ اب نواب صاحب کو بڑی تشویش ہوئی اور اس پکوان کے بارے میں تجسس بھی پیدا ہوا۔ تحقیقات
کرنے پر معلوم ہوا کہ اُس باورچی نے ایک ہفتے کی محنت و مشقت سے بادام کو تراش کر چاول تیار کیے تھے
اور پستہ تراش کر دال بنائی تھی۔ اور پھر بادام کے چاول اور پستے کی دال سے ایسی کھچڑی تیار کی تھی کہ اگر
کوئی سو سالہ بوڑھا بھی اسے نوش فرما لیتا تو وہ جوان ہو جاتا۔اب تو نواب صاحب کو اور بھی زیادہ تشویش ہوئی۔
انہوں نے باورچی کی تلاش میں چاروں طرف اپنے آدمی دوڑائے ، لیکن باورچی نہ ملنا تھا تو نہ ملا۔