فارقلیط رحمانی
لائبریرین
کھچڑی پر بات چل نکلی ہے، تو ایک اور بات عرض کر دیں۔مدینۃ الاولیاء احمدآباد، (گجرات، انڈیا) تاریخ کے صفحات پر
گرداباد کے نام سے بھی معروف ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ یہاں ہر موسم میں گردوغبار کی کثرت کا یہ عالم ہے کہ دن
میں دو تین بار غسل کرنے والے بھی غسل کے ایک دو گھنٹے کے بعد اگر اپنے جسم پر زور سے ہاتھ رگڑ دیں تو میل
کی سیاہ سی بتی ہاتھ میں آجاتی ہے۔
تاریخ کی کتابوں میں آتا ہے کہ اس شہر کے وجود میں آنےسے قبل ہندوستان کے صوبہ گجرات کا دارالخلافہ انہل واڑ
پاٹن تھا، جو تاریخ کی عربی فارسی کتابوں میں نہروالا کے نام سےمشہور ہے۔مشہور محدث،مؤلف مجمع البحار الانوار
محمد بن طاہر پٹنی (فتنی) رحمۃاللہ علیہ بھی اسی شہر کے باشندے تھے۔
بادشاہ احمدشاہ ایک بار شکار کھیلتے ہوئے (موجودہ شہراحمدآباد جہاں واقع ہے)سابرمتی ندی کے کنارے پہنچ گیا،
ایک جگہ اس نے بڑی عجیب و غریب بات کا مشاہدہ کیا،
وہ یہ کہ اس کے ایک شکاری کتے پر ایک خرگوش نے حملہ کر دیا۔ بادشاہ کو نہ صرف یہ کہ بڑی حیرت ہوئی بلکہ اس واقعہ
نے بادشاہ کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ جس سرزمین کی آب وہوا میں یہ تاثیر ہو کہ خرگوش ساایک بزدِل ترین حیوان
بھی کتے پر حملہ کرنے کاحوصلہ رکھتا ہے، اگر یہاں شہر آباد کیا جائے تو یہاں آباد ہونے والی مخلوق کا کیا عالم ہوگا؟بس اس
خیال کے آتے ہی، بادشاہ نے اس دورکےمشہور بزرگانِ دین سے مشورہ کیا اور احمد نامی چار مشہور اولیاء کرام کےدستِ مبارک
سے اس شہر احمدآباد کی بنیاد ڈالی۔اسی لیے گجراتی زبان میں مثل مشہور ہے، جب سسے (سس +سے) پر کتا آیا، احمد شاہ
نے شہر بسایا۔
شہر احمدآبادکے ان چار بانیوں میں مغربی سلسلہ کے مشہور بزرگ حضرت شیخ احمد گنج بخش کھٹو (مغربی)رحمۃ اللہ علیہ سر فہرست ہیں۔
حضرت شیخ احمد گنج بخش کھٹو (مغربی)رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ شہر احمدآبادسے دس کلو میٹر کے فاصلے پر تھی۔(موجود تو آج بھی ہے
لیکن اب شہر کی حدود میں ضم ہو چکی ہے۔) آج بھی وہاں حضرت کے
روضہ اقدس کے علاوہ مشہور بادشاہ محمود بیگڑہ کا مزار اور وسیع و عریض شاہی مسجد اور اس سے ملحقہ ایک تالاب اور باغ ہے۔
آج سے تقریبا ساڑھے چار سو سال قبل جب حضرت شیخ احمد گنج بخش کھٹو (مغربی)رحمۃ اللہ علیہ حیات تھے، بادشاہ احمد شاہ اپنے
محل سے پیدل چل کر ہر جمعرات کو حضرت شیخ احمد گنج بخش کھٹو (مغربی)رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ میں حاضر ی دیا کرتا تھا۔اورصبح
سےشام تک آپ کے حجرے کے باہر با ادب کھڑا رہتا جب تک خود حضرت شیخ احمد کھٹو رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے طلبی نہ ہوتی
بادشاہ آپ کی خدمت میں حاضر نہ ہوتا۔ یہسلسلہ سالہا سال تک جاری رہا، روایت ہے کہ ایک روز حضرت شیخ احمد گنج بخش کھٹو
(مغربی)رحمۃ اللہ علیہ احمد شاہ بادشاہ کی سالہا سال کی باریابی سے خوش ہو کر فرمایا،’’ احمد شاہ جو کچھ چاہتے ہو طلب کرو۔ بادشاہ
عرض کیا، ’’ حضور دُعا فرمائیے کہ شہر احمدآباد کے باسیوں کو تا قِیامت کڑھی کھچڑی ملتی رہے۔حضرت نے دُعا کے لیے ہاتھ اُٹھا
دِیے۔ اس بات کی تو تاریخ شاہد ہے کہ آپ مستجاب الدعوات تھے۔ بارگاہِ الہی میں دُعا قبول ہوئی ۔ اور کڑھی کھچڑی احمدآبادیوں
کی مرغوب غذا بن گئی۔ اور ہر خوشی اور غمی کے موقع پر احمدآبادیوں کے یہاں کڑھی کھچڑی لازمی ہوگئی۔ جو احمدآباد کے قدیمی
باشندوں کے گھروں میں بلا تفریق امیر غریب آج بھی روزانہ کڑھی کھچڑی بنتی ہے۔فرق محض اس قدر ہے کہ غریب کی کڑھی
کھچڑی بغیر لوازمات کی ہوتی ہے اور امیر کی کڑھی کھچڑی مع لوازماتِ کثیرہ کے ہوتی ہے۔مثل مشہور ہے:’’روپے کی کھچڑی اور
بارہ روپے کا سنگار‘‘کھچڑی کے لوازمات متعدد ہیں، مثلا: پاپڑ، اچار، مربہ، چٹنی، سلاد، وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گرداباد کے نام سے بھی معروف ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ یہاں ہر موسم میں گردوغبار کی کثرت کا یہ عالم ہے کہ دن
میں دو تین بار غسل کرنے والے بھی غسل کے ایک دو گھنٹے کے بعد اگر اپنے جسم پر زور سے ہاتھ رگڑ دیں تو میل
کی سیاہ سی بتی ہاتھ میں آجاتی ہے۔
تاریخ کی کتابوں میں آتا ہے کہ اس شہر کے وجود میں آنےسے قبل ہندوستان کے صوبہ گجرات کا دارالخلافہ انہل واڑ
پاٹن تھا، جو تاریخ کی عربی فارسی کتابوں میں نہروالا کے نام سےمشہور ہے۔مشہور محدث،مؤلف مجمع البحار الانوار
محمد بن طاہر پٹنی (فتنی) رحمۃاللہ علیہ بھی اسی شہر کے باشندے تھے۔
بادشاہ احمدشاہ ایک بار شکار کھیلتے ہوئے (موجودہ شہراحمدآباد جہاں واقع ہے)سابرمتی ندی کے کنارے پہنچ گیا،
ایک جگہ اس نے بڑی عجیب و غریب بات کا مشاہدہ کیا،
وہ یہ کہ اس کے ایک شکاری کتے پر ایک خرگوش نے حملہ کر دیا۔ بادشاہ کو نہ صرف یہ کہ بڑی حیرت ہوئی بلکہ اس واقعہ
نے بادشاہ کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ جس سرزمین کی آب وہوا میں یہ تاثیر ہو کہ خرگوش ساایک بزدِل ترین حیوان
بھی کتے پر حملہ کرنے کاحوصلہ رکھتا ہے، اگر یہاں شہر آباد کیا جائے تو یہاں آباد ہونے والی مخلوق کا کیا عالم ہوگا؟بس اس
خیال کے آتے ہی، بادشاہ نے اس دورکےمشہور بزرگانِ دین سے مشورہ کیا اور احمد نامی چار مشہور اولیاء کرام کےدستِ مبارک
سے اس شہر احمدآباد کی بنیاد ڈالی۔اسی لیے گجراتی زبان میں مثل مشہور ہے، جب سسے (سس +سے) پر کتا آیا، احمد شاہ
نے شہر بسایا۔
شہر احمدآبادکے ان چار بانیوں میں مغربی سلسلہ کے مشہور بزرگ حضرت شیخ احمد گنج بخش کھٹو (مغربی)رحمۃ اللہ علیہ سر فہرست ہیں۔
حضرت شیخ احمد گنج بخش کھٹو (مغربی)رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ شہر احمدآبادسے دس کلو میٹر کے فاصلے پر تھی۔(موجود تو آج بھی ہے
لیکن اب شہر کی حدود میں ضم ہو چکی ہے۔) آج بھی وہاں حضرت کے
روضہ اقدس کے علاوہ مشہور بادشاہ محمود بیگڑہ کا مزار اور وسیع و عریض شاہی مسجد اور اس سے ملحقہ ایک تالاب اور باغ ہے۔
آج سے تقریبا ساڑھے چار سو سال قبل جب حضرت شیخ احمد گنج بخش کھٹو (مغربی)رحمۃ اللہ علیہ حیات تھے، بادشاہ احمد شاہ اپنے
محل سے پیدل چل کر ہر جمعرات کو حضرت شیخ احمد گنج بخش کھٹو (مغربی)رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ میں حاضر ی دیا کرتا تھا۔اورصبح
سےشام تک آپ کے حجرے کے باہر با ادب کھڑا رہتا جب تک خود حضرت شیخ احمد کھٹو رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے طلبی نہ ہوتی
بادشاہ آپ کی خدمت میں حاضر نہ ہوتا۔ یہسلسلہ سالہا سال تک جاری رہا، روایت ہے کہ ایک روز حضرت شیخ احمد گنج بخش کھٹو
(مغربی)رحمۃ اللہ علیہ احمد شاہ بادشاہ کی سالہا سال کی باریابی سے خوش ہو کر فرمایا،’’ احمد شاہ جو کچھ چاہتے ہو طلب کرو۔ بادشاہ
عرض کیا، ’’ حضور دُعا فرمائیے کہ شہر احمدآباد کے باسیوں کو تا قِیامت کڑھی کھچڑی ملتی رہے۔حضرت نے دُعا کے لیے ہاتھ اُٹھا
دِیے۔ اس بات کی تو تاریخ شاہد ہے کہ آپ مستجاب الدعوات تھے۔ بارگاہِ الہی میں دُعا قبول ہوئی ۔ اور کڑھی کھچڑی احمدآبادیوں
کی مرغوب غذا بن گئی۔ اور ہر خوشی اور غمی کے موقع پر احمدآبادیوں کے یہاں کڑھی کھچڑی لازمی ہوگئی۔ جو احمدآباد کے قدیمی
باشندوں کے گھروں میں بلا تفریق امیر غریب آج بھی روزانہ کڑھی کھچڑی بنتی ہے۔فرق محض اس قدر ہے کہ غریب کی کڑھی
کھچڑی بغیر لوازمات کی ہوتی ہے اور امیر کی کڑھی کھچڑی مع لوازماتِ کثیرہ کے ہوتی ہے۔مثل مشہور ہے:’’روپے کی کھچڑی اور
بارہ روپے کا سنگار‘‘کھچڑی کے لوازمات متعدد ہیں، مثلا: پاپڑ، اچار، مربہ، چٹنی، سلاد، وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخری تدوین: