جاسمن
لائبریرین
ہم بھی گئے زمانوں کی بات کرتے ہیں۔ اب تو انگریزی کے تڑکے بھی لگ رہے ہیں۔ اس دور میں تو انگریزی کا ایک لفظ نہیں آتا تھا۔ سنتے ہیں کہ ڈیوٹی روم میں ایک ایک لفظ پہ بحث ہوتی تھی۔ لغت دیکھی جاتی تھی۔ بڑے بڑے نامور براڈ کاسٹرز (بخاری صاحب وغیرہ) کے پروگرام اس لیے سنے جاتے تھے کہ تلفظ درست کر سکیں۔ ہر پروگرام کے وقت پروڈیوسرز ضرور موجود ہوتے تھے۔ لفظ لفظ، جملے جملے کا حساب رکھا جاتا تھا۔ کہاں ٹھہرنا ہے، کہاں روانی ہو گی، کہاں آہستہ پڑھنا ہو گا۔ کہاں جوش ہو گا، کہاں لہجے کو پست رکھنا ہو گا۔ محرم کے دنوں میں ٹون کیسی ہو گی۔ عید پہ شوخی کیسی ہو گی۔ کون سے لطائف و انداز قابلِ گرفت ہیں۔ کون سے الفاظ ریڈیو کی ثقافت میں بین ہیں۔ ایسے کون سے موضوعات ہیں، جن پہ بات نہیں کی جا سکتی۔ کس حکومت کے دور میں بہت احتیاط کرنی ہے، کس میں تھوڑا بہت آزادی بھی مل سکتی ہے۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔آپ ریڈیو والوں کا تلفظ اب دیکھیے۔۔۔ جن لوگوں کا آج اردو کا تلفظ غلط ہے۔ وہ بھی اعتماد سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ ریڈیو کا اعجاز ہے۔
براڈ کاسٹرز محنت کرتے تھے کہ پروڈیوسرز خود بہت محنتی تھے۔ انجینیئرز تک کو اتنی معلومات ہوتی تھیں کہ ایمرجنسی میں معاملات سنبھال سکے۔ ایک ایک گانا ، بول، فلم، گلوکار کے نام، دھن۔۔۔ منہ زبانی یاد ہوتی تھی۔ اب تو یہ نہیں معلوم ہوتا کہ یہ ہندوستانی گانا ہے یا پاکستانی۔ یو ٹیوب کے بغیر آگے نہیں بڑھتے۔ موبائل نے بیکار کر دیا ہے۔ وہ لوگ آہستہ آہستہ رخصت ہوتے جا رہے ہیں، جو ریڈیو و ٹی وی کا اثاثہ تھے۔ اب تو شوربے کے شوربے کے شوربے کے شوربے کے شوربے ۔۔۔۔۔ کا شوربہ ہے۔ بس۔