غدیر زھرا
لائبریرین
وجہ تسمیہ
عشقہ ایک جڑی بوٹی ہے، وہ جس درخت پہ چڑھتی ہے اسے خشک کر دیتی ہے۔
اسی مماثلت کے پیش نظر اس کیفیت کو بھی عشق کا نام دیا گیا۔ کیونکہ یہ مرض بھی جس کو ہوتا ہے اسے خشک کر دیتا ہے۔
طب کی رو سے عشق مالیخولیا کی ایک قسم ہے۔ جس میں انسان ہمیشہ کسی محبوب اور پسندیدہ شئے کا تصور ہر وقت باندھے رہتا ہے۔ اسی کا خیال، اسی کا ذکر ، اسی کی شکل و صورت ہر وقت پیشِ نظر رہتی ہے۔ اس کا سبب کسی ایک شئے کے تفکرات اور خیالات کی کثرت ہے۔ اس سے احتراقِ روح ہوتا رہتا ہے اور رطوبت خشک ہوتی رہتی ہے۔ اور خون بھی جل جل کر سودائے محرقہ بنتا رہتا ہے۔ یبوست بڑھتی رہتی ہے۔ اور یبوست کا خاصہ ہے کہ جو شکل قبول کر لیتی ہے وہ پھر مشکل سے چھوڑتی ہے۔ لہذا عشق میں جو خیالات قائم ہو جاتے ہیں ، وہ نکلنے نہیں پاتے۔
مرزا غالب کا شعر محلِ نظر رہے
بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل
کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا
(تعریف)
عشق کی سب سے پہلی باقاعدہ اور جامع تعریف افلاطون نے کی:۔
کائنات کی جملہ موجودات حسنِ ازل کی جانب کشش محسوس کرتی ہیں۔ یہی کشش عشق کہلاتی ہے۔
افلاطون کی متعین کردہ عشق کی اس تعریف کی مزید تفصیل سکندریہ کے مشہور فلسفی فلاطینوس نے پیش کی :۔
"انسانی روح عالمِ ہست و بود میں آ کر مادے کی اسیر ہو گئی ہے اور اپنے مبداء کے فراق میں تڑپتی رہتی ہے۔ تجرد اور ریاضت کی زندگی گزارنے سے روح مادے کی قید سے آزاد ہو جاتی ہے اور دوبارہ ذاتِ حقیقی میں جذب ہو جاتی ہے۔
کچھ ایسا ہی غالب کا فرمان ہے...
نہ تھا کچھ تو خدا تھا , کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے , نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
المختصر....
عشق کا یہ تصور فلاسفہ اسلام میں بے حد مقبول ہوا۔ اور ان سے صوفیاء کرام تک پہنچا۔
عین یہی نظریہ ہمیں ہندومت میں بھی ملتا ہے۔ وہ بھی برہمن آتما ایکتا کے قائل ہیں۔ ان کے خیال میں آتما مایا کے جال سے آزاد ہو جائے تو وہ دوبارہ برہما میں جذب ہو جاتی ہے۔
عشق کی دوسری اور سب سے بہترین تعریف علامہ فارابی نے بیان کی۔ فارابی فرماتے ہیں:۔
خدا خود عشق ہے۔ تخلیق و تکوین کا اصل سبب بھی عشق ہے۔
اس پورے فلسفے کو غالب نے ایک شعر میں سمو کر اپنی فنکارانہ جادوگری کا کمال دکھایا ہے.
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب
ہم نے دشتِ امکاں کو نقشِ پا پایا
عشق پر مزید کچھ کہنے سننے سے پہلے ایک غلط فہمی دور کرتا چلوں....
بہت سے لوگ پیار / محبت اور عشق کو ایک ہی چیز کے مختلف نام سمجھتے ہیں. جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ اس جذبے یا کیفیت کے مختلف درجے ہیں... اور اپنی ماہیت و کیفیت و خاصیت میں بالکل مختلف ہیں.
پہلا درجہ میلان ہے. کسی پر کسی کی طرف مائل ہونا....
دوسرا درجہ رجحان ہے. کہ کسی کو دوسروں پر ترجیح دینے لگیں.
تیسرا درجہ پیار یا محبت ہے.
چوتھا درجہ عشق ہے. جب یہ پیار یا محبت اپنی انتہا کو چھوئے تو عشق کی حدود شروع ہو جاتی ہیں.
پانچواں درجہ جنون ہے. جب عشق اپنی انتہا پر پہنچے تو متاثرین کی لگامیں عشق سے جنون کے ہاتھ میں چلی جاتی ہیں.
بدقسمتی سے ہمارے یہاں صرف نیم ملا اور نیم حکیم ہی نہیں نیم دانشور اور نیم عاشق و نیم صوفی بھی بکثرت پائے جاتے ہیں. جو ان درجات, ان کی ماہیت , ان کے اثرات اور کیفیات سے قطع نظر بس عشق عشق کا ورد کیے جاتے ہیں.
کسی پر مائل ہونے کو بھی عشق کہتے ہیں. رجحان ہو یا پیار ہو... اسے عشق ہی کہا جاتا ہے.
یہ جہالت کیا کم تھی , کہ سستے قسم کے ناولوں اور پھر جدید زمانے میں ڈراموں اور فلموں کے لکھاریوں کے طفیل بچہ بچہ اپنے تئیں عشقیات پر اتھارٹی سمجھتا ہے. غالب کے شعر...
فریاد کی کوئی لے نہیں ہے
نالہ پابند ِ نے نہیں ہے
کی طرح جس کے منہ میں جو آیا اس نے اگل دیا. اور پھر اسے اعلیٰ قسم کے اسرارو رموزِ عشق منوانے پر اصرار کیا.
اس غلط فہمی کا پردہ چاک کرنے کے بعد دوبارہ عشق پر آتے ہیں. اور عشق کی ماہیت , کیفیت اور اثرات کا نفسیاتی و سائنسی پہلوؤں سے جائزہ لیتے ہیں.
عشق کی اقسام:-
تحلیل نفسی کی رو سے عشق لازماً جنسی ہوتا ہے. اس لیے عشق کو دو بنیادی اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے.
1:- عشق حقیقی
2:- عشقِ مجازی
عشقِ مجازی کی مزید دو اقسام ہیں.
1:- رومانی عشق
2:- ہم جنسی عشق
عشقِ حقیقی و مجازی
اہلِ مشرق کا عشقِ حقیقی اور اہلِ مغرب کا عشق روحانی ایک ہی جذب اور کیفیت کے دو نام ہیں. صوفیاءکرام عشقِ حقیقی کے مدعی ہیں. اور محبوب ازلی اظہارِ محبت کرتے ہیں.
پہلی قسط میں بیان شدہ عشق کی تعریف سے یہ بات سمجھنا کوئی مشکل نہیں کہ عشقِ حقیقی کا تصور بنیادی طور پر نواِشراقی ہے. اس عالمگیر عشق کے زمزمے صرف مسلمان صوفیاء کرام سنائی , عطار , رومی ,جامی , خواجہ غلام فرید , شاہ حسین , بلھے شاہ , غالب رحمۃاللہ علیہم اجمعین کی شاعری میں ہی نہیں ملتے , بلکہ گووندا , میراں , سورداس , کبیر ,گرونانک وغیرہ کے بھجنوں اور کافیوں میں بھی عشقِ حقیقی کا والہانہ اظہار موجود ہے.
تحلیل نفسی کی رُو سے عشق لازماً جنسی ہوتا ہے. کوئی چاہے اس بات سے کتنا ہی اختلاف کیوں نہ رکھے مگر حقیقت یہ ہے کہ عشق دراصل انسان کے جنسی جذبے کی ایک شائستہ شرارت ہے. اور جسے لوگ پاک عشق کہتے ہیں. وہ بھی اسی جذبہ کا ایک ایسا شدید تموج ہوتا ہے کہ آدمی سُن ہو کر رہ جاتا ہے, اور کچھ کر نہیں سکتا.
عشقِ حقیقی بھی اسی کی ایک صورت ہے. انسانی نفسیات اور فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے محبوب کی آواز سنے , اسے دیکھے , اور چھوئے... غالب فرماتے ہیں
تکلف برطرف , لب تشنہ بوس و کنار رستم
زِ راہم باز چیں , دامِ نوازش ہائے پنہاں را
چونکہ ایک ذاتِ مجرد و بسیط و بیچون و بیچگون سے , جو شعور و ادراک کی گرفت سے آزاد ہو , عشق کرنا محال ہے.اس لیے انسان حقیقت کو لباسِ مجاز میں دیکھنے کا متمنی ہوتا ہے. اور یہی وجہ ہے کہ محبوبِ حقیقی کا تصور بھی مجاز کے پیرائے میں کرتا ہے تاکہ اس سے عشق کرسکے. غالب نے اس ساری حقیقت کو شعر میں یوں سمویا.
ہرچند ہو مشاہدہ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
صوفیاءکرام عشقِ حقیقی کا اظہار ہمیشہ مجاز کے پیرائے میں کرتے آئے ہیں. حافظ شیرازی کی غزلیات ہوں ,میراں کے بھجن ہوں چاہے مثنوی مولانا روم اور خواجہ فرید و شاہ بھٹائی رح کی مثال لیں. ان میں اظہارِ عشق کیلئے جو زبان استعمال کی گئی ہے وہ خالصتاً مجاز کی زبان ہے.
اج بن موں برج راج بنسری بجائی
بنسری بجائی اگم گیت گائی
کونج موں بھلی کرشن رے کھیلوں ہوری
پریم نیم کی گلال کو اڑائی
من مینہ سمادھ سدھ دا لکھ لاگ رہو
مہاں گھٹ وھٹ پٹ جوت ہیں جگائی
کاشی متھراپراگ برہم وشنو مہیش
سب ہی اپنے بھیس کیوں بدیس جائی
★★★ترجمہ
آج بندرا بن میں مہاراج کرشن نے بنسری بجائی اور مقدس گیت گائے.
محبوب کی گلی میں کرشن کے ساتھ ہولی کھیلی , محبت کے عہد کی توثیق ہوئی.
معرفت کی گلال اڑا کر سرخرو ہوئے, سچے محبوب کے تصور نے آخر ذاتِ محبوب کا پتہ دیا.
خودی کی شکست سے روح واصلِ نور ِ حقیقی ہوئی اور چراغِ دل روشن ہوا.
کاشی , متھرا , پراگ ,برہم ,وشنو ,مہیش سب ہمارے دل میں ہیں, پردیس جانے کی کیا ضرورت ہے.
ایک صوفی کا قول ہے "المجاز قنطرۃ الحقیقہ" (مجاز حقیقت کا پُل ہے)
اور یہ بات حقیقت بھی ہے. مجاز کے بغیر عشقِ حقیقی کا تصور خیال است و محال است و جنوں. اس بات کو سمجھنے کیلئے ایک مثال سے مدد لیتے ہیں.
ایک دریا کے دو کنارے ہیں. اس دریا کے آر پارجانے کیلئے ایک پل یا ایک کشتی کی ضرورت پڑے گی. سپرمین اور سپائیڈر مین تو بغیر کسی پل یہ دریا پار کر لیں گے. لیکن اس دنیا میں کتنے سپر مین اور سپائیڈر مین ہیں؟
لازماً ایک کنارے پہ کھڑے دوسرے کنارے کو جانے کے خواہشمند کو درمیان میں بچھا پُل پار کرنا ہی پڑے گا. اب یہ اس کی ہمت کہ وہ پل پر ہی بیٹھ جائے یا پھر پل پار کرکے دوسرے کنارے پر پہنچ جائے.
بالفرض اگر پُل نہیں بھی ہے. تب دریا پار کرنے کیلئے مجاز کی کشتی کی ضرورت پڑے گی. یہ الگ بات کہ کوئی مجاز کی کشتی میں بیٹھا دریا کی سیر ہی کرتا رہے , یا پھر مجاز کی کشتی کھیتا حقیقت کے کنارے جا لگے.
غرض کہ دونوں صورتوں میں مجاز وسیلہ اور حقیقت تک پہنچنے کا سبب ہے.
اس کی دوسری مثال حضرت شاہ حسین رحمۃ اللہ علیہ کی ہے. جن کا عشق مجازیِ "مادھو" سے شروع ہوا، مادھو لال حسین ہو گئے. اور پھر "حسین فقیر سائیں دا" ہو کر عشقِ حقیقی کے کنارے جا لگے.
اسی طرح کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں لیکن عقلمندوں کیلئے اشارہ ہی بہت ہوتا ہے, جبکہ جنہوں نے نہیں سمجھنا انہوں نے کسی صورت نہیں سمجھنا.
عشقِ حقیقی ہو چاہے عشقِ مجازی دونوں میں مقصود وصال ہے.
رومانی عشق:-
عشق مجازی کی مزید دو معروف اقسام ہیں. جن میں سے پہلی رومانی عشق ہے.
رومانی عشق کا تصور تحریکِ جوانمردی (فروسیت) کے ساتھ وابستہ ہے. جس کا آغاز عرب سے ہوا تھا. اور پھر وہ فلسطین , صقلیہ , ہسپانیہ سے مغربی ممالک میں پھیلی تھی. اس تحریک کے آداب تھے شجاعت , حماست , مروت اور خواتین کی حفاظت...
مؤرخین اس کا آغاز عنترہ بن الشداد سے کرتے ہیں جو زمانہ جاہلیت کا مشہور جوانمرد اور شاعر تھا. جس نے عورتوں کی حفاظت کرتے ہوئے جان دی تھی. اشاعتِ اسلام کے بعد حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہ الکریم فتوت کی مثال ہو گئے. ان کے علاوہ عالم ِ اسلام میں الناصر عباسی , صلاح الدین ایوبی اور سلطان رکن الدین بیبرس جوانمردی کی درخشاں روایات کے پاسبان ہوئے ہیں.
مرورِ زمانہ سے تحریکِ جوانمردی سے مسلکِ نسائیت نے جنم لیا. یعنی عشق میں عورت کی پرستش مشمول ہوئی. عُشاق اپنی محبوبہ کی ادنیٰ سی خواہش کی تکمیل کو بھی فرضِ عین سمجھتے تھے.اور اس کے دیے ہوئے رومال کا پھریرااپنے نیزے کے سرے پر لہرا کر اکھاڑوں میں اترتے تھے. اس مسلک میں عورت کو ایک ما فوق الطبع مخلوق تسلیم کیا جاتا تھا اور نہایت پرجوش انداز میں اس سے اظہارِ عشق کرتے تھے. محبوبہ جتنی عالی نژاد ہوتی تھی. اتنی ہی شیفتگی سے اس کے حسن و جمال کے گیت گاتے تھے.
پاکباز عشق کی روایت ایک بدو قبیلے بنو عذرا سے یادگار ہے. حتیٰ کہ مؤرخین نے بے لوث عشق کو " الہوی العذری" کا نام دیا. عذری عورتیں اپنے عشاق سے توقع کرتی تھیں کہ وہ ان کی تعریف میں شعر کہیں تاکہ ان کے حسن و جمال کا شہرہ دور دور تک ہو جائے. عشقِ عذری کا یہ تصور بغداد سے ہسپانیہ تک پھیل گیا. ہسپانیہ کی شاعری بلکہ تمام عالم کی رومانی شاعری میں عذری نصب العین دکھائی دیتا ہے. ابن داؤد اصفہانی اور ابن فرج جائنی عذری اس تصورِ عشق کے مشہور نمائندہ شاعر تھے. ابنِ فرج عذری کی شاعری (ترجمہ) سے نمونہ بطور تبرک پیش ہے.
★اگرچہ وہ سپردگی پر آمادہ تھی. لیکن میں نے ضبط سے کام لیا.
رات کو وہ کھلے منہ آئی. رات کے سایوں میں اس کا چہرہ چمک اٹھا.
اس کی ایک ایک نگاہ دل کو بے قرار و بے خود کرنے کیلئے کافی تھی. لیکن میں نے ہوس کے منہ زور گھوڑے کو بےقابونہیں ہونے دیا.
میں نے رات اس کے ساتھ ایسے گزاری جیسے اونٹنی کا بچہ , جس کا منہ رسیوں سے باندھ دیا جائے اور وہ اپنی ماں کا دودھ نہ پی سکے.
میرے جیسے لوگ پھولوں بھرے باغ میں صرف ان کا نظارہ کرتے ہیں اور خوشبو سونگھنے پر اکتفا کرتے ہیں.
میں آوارہ وحوش سے نہیں ہوں جو اس باغ کو اپنی چراگاہ بنا لیتے ہیں.★
اس کے تقریباً دو سو برس بعد ہونے والے شاعر صفوان بن ادریس کا نمونہ کلام....
★وہ کس قدر حسین ہے. حسن تو اس کی محض ایک صفت ہے.
اس کی حرکات نہایت جادوبھری ہیں.
وہ چاند کی طرح خوبصورت ہے.
چاند سے پوچھا جائے تم کیا چاہتے ہو تو وہ جواب دے گا میں اس کا ہالہ بننا چاہتا ہوں.
چاند اس کے چہرے کے سامنے آ جائے تو گویا وہ اس کے چہرے کا عکس ہے جو آئینے میں پڑ رہا ہے.
رات کے وقت میں اس سے ملا , میرے جبے کے نیچے آگ سلگ رہی تھی. جیسی کہ تمتمائے گالوں میں سلگتی ہے.
میں نے اسے گلے لگا کر بھینچا جیسے بخیل اپنے خزانے کو بھینچتا ہے.
میں نے اسے بازؤں میں جکڑ لیا, کیونکہ وہ غزال ہے , میں ڈرتا ہوں وہ بھاگ نہ جائے.
لیکن میری پاکبازی نے مجھے اجازت نہ دی کہ میں اس کا منہ چوموں.
اور میرا دل بھڑکتے ہوئے شعلوں میں جلتا رہا. اس شخص کا دھیان کرو جس کا اندرون , پیاس کی شدت سے جل رہا ہو , لیکن وہ پانی سے اپنا حلق تر نہ کرے.★
تاریک زمانوں کے دوران یورپ میں ایک بھی عشقیہ نظم نہیں کہی گئی. کیونکہ ایک تو عشقیہ شاعری مذہباً ممنوع تھی. دوسرا , یورپ کی اجڈ اور وحشی اقوام جذبہ عشق کی لطافت اور حسنِ نسوانی کی قدروقیمت سے نا آشنا تھیں. چنانچہ 11ویں صدی سے پہلے یورپ میں رومانی عشق کا تصور ناپید تھا.
تحریکِ جوانمردی کی اشاعت کے ساتھ رومانی عشق کی روایت فرانس کے ایک صوبے پروونس میں پہنچی, جو ہسپانیہ کی سرحد پر واقع تھا. مغربی اقوام کی تمام تر عشقیہ شاعری پروونس کی شاعری ہی سے مُتفرع ہوئی ہے.
ولیم نہم جو یورپ کی اس دور کی شاعری کا باوا آدم تھا ابنِ قزمان کا معاصر تھا اور عربی اصنافِ شعر سے متاثر ہوا تھا. بعد میں آنے والے شاعروں نے اس کی تقلید میں رومانی نظمیں لکھیں. پروونس کی اس دور کی رومانی شاعری کا خاتمہ ری کوئر پر ہوا. یعنی دو سو سال تک فرانس کی عشقیہ شاعری پر عربی شاعری کے اثرات ثبت ہوتے رہے. پروونس کے شاعروں نے موضوعات کے ساتھ عربی شاعری کے اسالیب بھی اپنا لیے.
عربوں نے جنس اور تقدس کےامتزاج سے رومانی شاعری کی بنیاد رکھی تھی. اندلس کےشاعروں نے اس روایت کی آبیاری کی اور عشقِ ناکام کی حسرتناکی پر پُرجوش نظمیں لکھیں. لیکن مغرب کی اُجڈ اقوام میں جنس اور تقدس کا تعلق برقرار نہ رہ سکا. مغربی سورما عربوں کی طرح عالی ظرف اور پاک بیں نہیں تھے. اس لیے ان کے یہاں مسلکِ نسائیت کی پاکبازی مجروح ہو گئی. یہ سورما اپنی محبوب خواتین سے تمتع کرنے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتے تھے.
اس پس منظر میں ثابت ہوا کہ رومانی عشق ایسے معاشرے میں پنپ سکتا ہے جس میں مردوں اور عورتوں کو آزادانہ میل ملاپ کے مواقع نہ ملیں. اس تفریق سے دونوں ایک دوسرے کی ذات میں نا معلوم کشش محسوس کرتے ہیں. مرد عورت کو کوئی آسمانی مخلوق (پری / حور) سمجھنے لگتا ہے اور عورت مرد میں بطلِ جلیل کو تلاش کرتی ہے. چنانچہ تاریخ اور موجودہ جدید زمانہ میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ جس معاشرے میں مردو خواتین بلا تکلف اور بے محابا ایک دوسرے سے ملتے ہیں اس میں رومانی عشق کا کوئی کھوج نہیں ملتا. افریقہ آسٹریلیا اور غرب الہند کے وحشی قبائل جن کے ہاں آزادانہ جنسی ملاپ کا رواج ہے وہاں رومانی عشق کا تصور ناپید ہے.
مثلاً
مشنریوں نے "الگا کون" قبیلے کے وحشیوں کی زبان میں بائبل کا ترجمہ کرنا چاہا تو انہیں اس زبان میں لفظ "عشق" کا کوئی مترادف نہ مل سکا
"سموان" قبیلے کے وحشیوں کو رومیو جولیٹ کی کہانی سنائی گئی تو وہ مارے ہنسی کے لوٹ پوٹ ہوگئے. اور کہنے لگے "ان نادانوں کو خود کشی کرنے کی کیا ضرورت تھی. وہ باہم مل کر ہنسی خوشی زندگی گزار سکتے تھے"
عربی ادب میں عُفرا , عروہ اور جمیل بن معمر العذری , شبینہ اور قیس و لیلی کی المناک عشقیہ داستانیں ہوں , ایرانی فرہاد کا قصہ ہو , پنجابی کے ہیر رانجھا , سوہنی مہینوال ہوں , یا سرائیکی کے سسی پنوں اور راول جگنی ہوں. ان سب کا عشق اس لیے مشہور اور ضرب المثل بن گیا کہ انہوں نے ایسے معاشروں میں پرورش پاٰئی تھی. جہاں روایات و معاشرتی اقدار اور شرم و حیا کا سکہ چلتا تھا.
تاریخ و ادب کے اس عمیق مطالعے کے بعد خاکسار جوگی پر واضح ہوا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان میں کس قدر گہرائی اور جامعیت ہے کہ جس میں بچوں کی شادیاں اوائل بلوغت سے ہی کردینے پر زور دیا گیا ہے. جنسی جذبے کو پوری طرح بیدار ہونے کے بعد جب جائز حق نہیں ملتا تو جنسی بھوک ٹھرک پہ اکساتی ہے. اور ٹھرک نظر بازی کرنا سکھاتی ہے. اور اس نظربازی کا جو نتیجہ نکلتا ہے وہ ہم سب دیکھ بھی رہے ہیں اور بھگت بھی رہے ہیں.
حجۃ الاسلام حضرت امام غزالی رح کی کتاب احیاءالعلوم سے ایک اقتباس بطور تبرک پیش ہے:- " بعض گمراہوں کو عشق سوجھتا ہے. اور اس سے کمال درجے جہالت کی غرض ِاصلی جماع سے پائی جاتی ہے. اور قوتِ بہیمی میں چوپایوں سے بھی بڑھ جاتا ہے. اس لیے کہ چوپایہ اپنی شہوت کو کسی نہ کسی طرح دور کر دیتا ہے. اور عاشق ایک خاص کے سوا اور کسی طرح اپنی شہوت رفع نہیں کرسکتا. یہاں تک کہ اس کیلئے ذلت پہ ذلت اور غلامی اٹھاتا ہے."
عشق کے سائنسی پہلو:-
طبیعاتی پہلو سے تو ماشاءاللہ ہمارے یہاں بالغ تو کیا بچے بھی واقف ہیں.
کیمیائی پہلو:-
اس کا کیمیائی پہلو یہ ہے کہ مادے کے چھوٹے سے ذرے ایٹم کے اندر الیکٹرانوں کی مخصوص تعداد ہوتی ہے. جو کہ قدرت نے طاق ہی رکھی ہے. لہذا ہر جاندار و بے جان مادی شئے کا جسم جن ایٹموں سے تعمیر شدہ ہے. ان ایٹموں کے اندر بقول غالب "مضمر ہے اک صورت خرابی کی" یہ تمام تر ایٹم اپنی ویلنسی (الیکٹرانز کی تعداد) کو جفت کر کے حالتِ سکون میں آنا چاہتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ بلوغت کی عمر کو جب جنسی جذبہ اور شعور بیدار ہوتے ہیں تو پہلا خیال اپنے ادھورے پن کا آتا ہے. چاہے اس عمر میں کسی کو اس کے پس پردہ کارفرما عوامل کا ادراک نہیں ہوتا , نہ ہی اس کیفیت کی حقیقت معلوم ہوتی ہے. لیکن یہ بات ہر بالغ مرد و خاتون سمجھ سکتی ہے کہ اوائل بلوغت میں ادھورے پن کی وحشت کے تجربے سے سب گزرے ہیں. یہ ادھورا پن فطری طور پر تلاش پر اُکساتا ہے کہ کوئی ایسا ہو جو ہم سے الیکٹران لے کر یا دے کر اپنی اور ہماری ویلنسی کو جفت کردے. جب اس جذبے پر عقل حاکم ہو جائے تو انسان اسے عشق کہتا ہے. اور جو اس جذبے کے ہاتھوں غلام ہو جائے اسے جنسی درندگی اور فلاں فلاں کے نام دئیے جاتے ہیں
حیاتیاتی پہلو:-
فطرت نے انسان کو تنہا رہنے کیلئے پیدا نہیں کیا. کیونکہ بنی نوع انسان فریقِ ثانی کے بغیر حیاتیاتی تقاضے پورے نہیں کرسکتے. نہ ہی باشعور و مہذب انسان عشق کے بغیر جنسی جبلت کی بھرپور تشفی کرسکتے ہیں. جب تک انسان پوری خود سپردگی سے فریقِ ثانی سے تعلق پیدا نہ کرے اس جبلت کی کامل تسکین نہیں ہوتی. جن لوگوں کو پرمسرت محبت کی دلی رفاقت اور بے تکلفانہ خود سپردگی کا تجربہ نہیں ہوا یقیناً وہ زندگی کی بہترین نعمت سے محروم رہے ہیں. شعوری طور پر نہ سہی لاشعوری طور پر انہیں اس محرومی کا احساس ہوتا ہے. اس کے نتیجے میں انہیں جو مایوسی ہوتی ہے وہ انہیں رشک و حسد ,جور و ستم اور جبروتشدد کی طرف مائل کردیتی ہے. اور اس کے نتائج ڈھکے چھپے نہیں ہیں. ہم سب کے سامنے ہیں.
حیاتیاتی پہلو سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جنسی خواہش کھانے کی جبلت سے پیدا ہوئی ہے. بوسے میں دونوں کا امتزاج موجود ہے. بوسہ لینے کی تمنا اور محبوب کے ہونٹ و رخسار و گلو وغیرہ وغیرہ وغیرہ وغیرہ چومنے کی خواہش اس بات کا ثبوت ہے کہ منہ میں خوراک اور جنس کی جبلتیں جمع ہو گئی ہیں. شاید اسی وجہ سے فرائڈ نے کہا تھا کہ "عشق اور بھوک پستانوں میں جمع ہو جاتے ہیں"
اب اس بات کوئی کتنا ہی شرما کر , یا حاجی صاحب بن کر انکار کرتا رہے حقیقت تو حقیقت ہی رہے گی.
نفسیاتی پہلو:-
فرائڈ کے مذکورہ بالا قول سے عشق کا نفسیاتی پہلو بھی کافی حد تک واضح ہو جاتا ہے.
ماہرینِ نفسیات کے مطابق عشق کا مطلب خودسپردگی ہے. کسی شخص کا اپنے آپ کو بے اختیار اپنے محبوب کے سپرد کردینا ہی عشق ہے. جو شخص جتنا زیادہ خود سپردگی کا اہل ہوگا اتنا ہی زیادہ عشق کے فیوض و برکات سے بہرہ مند ہوگا. جو عورت یا مرد کامل سپردگی کے قابل نہ ہو وہ کسی سے حقیقی محبت نہیں کرسکتا. اس نوع کی عورت سردمہر ہوتی ہے اور اس قسم کا مرد کسی کا مخلص دوست نہیں بن سکتا.
(خاکسار کی یہ بات صرف وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جنہیں عشق کا تجربہ ہوا ہو. چاہے عشق مجازی یا عشق حقیقی کا)
برٹرنڈرسل نے لکھا ہے کہ عشق اس احساسِ تنہائی کا سب سے بڑ مداوا ہے جو اکثر مردوں اور عورتوں کے لیے زندگی بھر کاعذاب بن جاتا ہے. اکثر لوگ اربابِ دنیا کی سردمہری سے دہشت محسوس کرتے ہیں. اور ابنائے زمانہ کے ظلم و ستم سے ڈرتے ہیں. انہیں محبت کی آرزو ہوتی ہے جسے اکثر اوقات مرد درشتی اور سخت مزاجی میں چھپاتے ہیں , اور عورتیں اس پر بدمزاجی اور عیب جوئی کے پردے ڈال لیتی ہیں. پُرجوش باہمی محبت اس احساسِ تنہائی کا خاتمہ کردیتی ہے, انا کی سنگین دیواروں کو توڑ پھوڑ دیتی ہے اور ایک نئے آدمی کو جنم دیتی ہے جو یک جان دو قالب ہوتا ہے.
مارسل پروست کہتا ہے کہ ہم کسی حقیقی شخص سے پیار نہیں کرتے بلکہ اس آدمی سے محبت کرتے ہیں جسے خود ہمارے تخیل نے تخلیق کیا ہو. ایک سچا عاشق اپنے محبوب کی خامیوں اور کوتاہیوں سے قطع نظر کرلیتا ہے. اور اسے مثالیاتی مقام عطا کرتا ہے.
جبکہ
ادون کہتا ہے کہ محبوب کی صورت میں ہم اپنی ہی ذات سے عشق کرتے ہیں, ہماری پہلی اور آخری محبت اپنی ہی ذات کی محبت ہوتی ہے. جب کسی عاشق کی محبوبہ اسے ٹھکرا دے تو اس سے جو صدمہ اسے ہوتا ہے وہ اس لیے نہیں ہوتا ہے کہ اس کی محبوبہ یا محبوب نے اسے قبول نہیں کیا. بلکہ اس لیے ہوتا ہے کہ اس کی انا کو ٹھیس لگتی ہے. اور اس کا اعتماد اپنی کشش پر سے اٹھ جاتا ہے. خود اعتمادی ختم ہو جاتی ہے اور عاشق تنہائی پسند ہوجاتا ہے.
حسد اور رقابت جو عشق کا لازمہ ہے , اسی لیے ہے کہ عاشق کے دل میں یہ شبہ گھر کر لیتا ہے کہ اس کا رقیب اس سے زیادہ پرکشش ہے. اس احساس سے انا کی جراحت ہوتی ہے جو عذاب ناک تلخی کا سبب بن جاتی ہے.
حضرت محی الدین ابن عربی کے قول کا ترجمہ ہے "جس نے عشق کیا اور مرتے دم تک پاک منش رہا, وہ شہید کی موت مرا"
برٹرنڈرسل کا قول ہے :- بہترین زندگی وہ ہے جو علم سے راہنمائی حاصل کرے اور عشق سے فیضان پائے
ذاتی طور پر ہر کسی کا تجربہِ عشق اور اس کی کیفیات میں درجہ کے لحاظ سے فرق ہوسکتا ہے. لیکن بحثیتِ مجموعی تمام بنی نوع انسان کی تاریخ و حال کا جائزہ لینے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ علمی سطح پر عشق جنسی کشش کی شائستہ اورارفع صورت ہے.
لیکن
اسی جذبہ عشق کے مقابل و متوازی ایک اور جذبہ حُب بھی ہے. بعض ایک جیسی کیفیات کی وجہ سے اکثر لوگ حب یعنی محبت و مؤدت کو عشق سمجھتے ہیں. شاید ہی کوئی ایسا ہو جو معشوق اور محبوب کو ایک ہی چیز کے دو نام نہ سمجھتا ہو. یہ سراسر ایک غلط فہمی ہے جو اس قسط میں دور کرتا چلوں.
عشق اور محبت میں بہت باریک سا فرق ہے. عشق جسم کا آنی تشنج ہے. اور حب روح کا اضطراب ہے. عشق کا تعلق صرف ایک ذات یعنی معشوق سے ہوتا ہے. جبکہ حب کا تعلق بیک وقت کئی محبوبوں سے ہوتا ہے. عاشق اپنے جذبہ عشق کی تسکین چاہتا ہے. اور محب ان تمام اشیا(ان میں انسان , جانور , پودے حتی کہ بے جان چیزیں بھی ہو سکتی ہیں) کی تسکین و خیر خواہی کرتا ہے. عشق کی منزل وصال ہے. (فنا ہوجانا بھی وصال کے زمرے میں ہے) لیکن حُب کی کوئی منزل نہیں , یہ ایک مسلسل سفر ہے, تاآنکہ زندگی اختتام کو پہنچے.
پچھلی اقساط میں عشق کے درجات بیان ہوئے تھے. عین اسی طرح عشق کے متوازی جذبہ ِ حُب کے بھی درجات ہیں.
1:- مروت
آپ کسی ظاہری تعلق نہ ہونے کے باوجود بھی کسی انجان شخص کیلئے دل میں رحم , ہمدردی کا جذبہ رکھیں...
2:- رغبت
آپ کسی کی طرف اپنا دل راغب پائیں. وہ کھانے کی چیز بھی ہو سکتی ہے. وہ آپ کا پسندیدہ رنگ بھی ہو سکتا ہے , وہ لباس بھی ہو سکتا ہے , وہ آپ کے اساتذہ میں سے کوئی ایک ٹیچر بھی ہو سکتا ہے. وہ کوئی بےجان چیز بھی ہو سکتی ہے.
3:- محبت / الفت
اس کی وضاحت کی ضروت نہیں, سب جانتے ہیں.
4:- موودت
محبت کی انتہا کو مودت کہتے ہیں. اسقدر محبت کہ اس کے بغیر زندگی محال ہو جائے. اس کی مثال مچھلی اور پانی کا آپسی تعلق ہے. مچھلی کو پانی سے مودت ہے.
مثلاً ایک بچہ کسی سے عشق نہیں کرتا. لیکن وہی بچہ بیک وقت اپنے والدین اور بہن بھائیوں اور دادا دادی نانانانی سے محبت کرتا ہے. ایک ماں بیک وقت اپنے سارے بچوں (بیٹے بیٹیوں) سے محبت کرتی ہے. ایک باپ اپنے بچوں سے اور پھر ان کے بچوں سے محبت کرتا ہے. ایک دوست اپنے تمام دوستوں سے محبت رکھتا ہے. ہمیں اپنی پسندیدہ ترین چیزوں سے محبت ہوتی ہے.
عشق ہو یا محبت ان کے انسان اور دنیا پر مثبت اثرات واقع ہوتے ہیں.جن کا ذکر مولانا روم کے کلام میں ہے.
از محبت تلخ ہا شیریں شود
وز محبت مِسہا زریں شود
محبت سے تلخ شیریں ہوتا ہے.
اور محبت سے کچی دھات سونا ہوجاتی ہے.
از محبت درد ہا صافی شود
وز محبت درد ہا شافی شود
محبت سے تلچھٹ (میل) صاف شفاف ہوجاتی ہے.اور محبت سے درد شفا دینے والا ہو جاتا ہے.
از محبت دار تختے می شود
وز محبت یار بختے می شود
محبت سے پھانسی کا تختہ بھی تخت ہوجاتا ہے. اور محبت سے بخت دوست بن جاتا ہے.
از محبت سجن گلشن می شود
وز محبت دیو حورے می شود
محبت سے قیدخانہ باغ بن جاتا ہے. اور محبت سے چڑیل حور بن جاتی ہے.
از محبت سنگ روغن می شود
وز محبت موم آہن می شود
محبت سے پتھر روغن ہو جاتا ہے. اور محبت سے موم لوہا بن جاتا ہے.
از محبت خار سوسن می شود
وز محبت تار روشن می شود
محبت سے کانٹا پھول بن جاتا ہے. اور محبت سے اندھیرا روشن ہوجاتا ہے.
ختم شد
یکے از معلقاتِ جوگی
عشقہ ایک جڑی بوٹی ہے، وہ جس درخت پہ چڑھتی ہے اسے خشک کر دیتی ہے۔
اسی مماثلت کے پیش نظر اس کیفیت کو بھی عشق کا نام دیا گیا۔ کیونکہ یہ مرض بھی جس کو ہوتا ہے اسے خشک کر دیتا ہے۔
طب کی رو سے عشق مالیخولیا کی ایک قسم ہے۔ جس میں انسان ہمیشہ کسی محبوب اور پسندیدہ شئے کا تصور ہر وقت باندھے رہتا ہے۔ اسی کا خیال، اسی کا ذکر ، اسی کی شکل و صورت ہر وقت پیشِ نظر رہتی ہے۔ اس کا سبب کسی ایک شئے کے تفکرات اور خیالات کی کثرت ہے۔ اس سے احتراقِ روح ہوتا رہتا ہے اور رطوبت خشک ہوتی رہتی ہے۔ اور خون بھی جل جل کر سودائے محرقہ بنتا رہتا ہے۔ یبوست بڑھتی رہتی ہے۔ اور یبوست کا خاصہ ہے کہ جو شکل قبول کر لیتی ہے وہ پھر مشکل سے چھوڑتی ہے۔ لہذا عشق میں جو خیالات قائم ہو جاتے ہیں ، وہ نکلنے نہیں پاتے۔
مرزا غالب کا شعر محلِ نظر رہے
بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل
کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا
(تعریف)
عشق کی سب سے پہلی باقاعدہ اور جامع تعریف افلاطون نے کی:۔
کائنات کی جملہ موجودات حسنِ ازل کی جانب کشش محسوس کرتی ہیں۔ یہی کشش عشق کہلاتی ہے۔
افلاطون کی متعین کردہ عشق کی اس تعریف کی مزید تفصیل سکندریہ کے مشہور فلسفی فلاطینوس نے پیش کی :۔
"انسانی روح عالمِ ہست و بود میں آ کر مادے کی اسیر ہو گئی ہے اور اپنے مبداء کے فراق میں تڑپتی رہتی ہے۔ تجرد اور ریاضت کی زندگی گزارنے سے روح مادے کی قید سے آزاد ہو جاتی ہے اور دوبارہ ذاتِ حقیقی میں جذب ہو جاتی ہے۔
کچھ ایسا ہی غالب کا فرمان ہے...
نہ تھا کچھ تو خدا تھا , کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے , نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
المختصر....
عشق کا یہ تصور فلاسفہ اسلام میں بے حد مقبول ہوا۔ اور ان سے صوفیاء کرام تک پہنچا۔
عین یہی نظریہ ہمیں ہندومت میں بھی ملتا ہے۔ وہ بھی برہمن آتما ایکتا کے قائل ہیں۔ ان کے خیال میں آتما مایا کے جال سے آزاد ہو جائے تو وہ دوبارہ برہما میں جذب ہو جاتی ہے۔
عشق کی دوسری اور سب سے بہترین تعریف علامہ فارابی نے بیان کی۔ فارابی فرماتے ہیں:۔
خدا خود عشق ہے۔ تخلیق و تکوین کا اصل سبب بھی عشق ہے۔
اس پورے فلسفے کو غالب نے ایک شعر میں سمو کر اپنی فنکارانہ جادوگری کا کمال دکھایا ہے.
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب
ہم نے دشتِ امکاں کو نقشِ پا پایا
عشق پر مزید کچھ کہنے سننے سے پہلے ایک غلط فہمی دور کرتا چلوں....
بہت سے لوگ پیار / محبت اور عشق کو ایک ہی چیز کے مختلف نام سمجھتے ہیں. جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ اس جذبے یا کیفیت کے مختلف درجے ہیں... اور اپنی ماہیت و کیفیت و خاصیت میں بالکل مختلف ہیں.
پہلا درجہ میلان ہے. کسی پر کسی کی طرف مائل ہونا....
دوسرا درجہ رجحان ہے. کہ کسی کو دوسروں پر ترجیح دینے لگیں.
تیسرا درجہ پیار یا محبت ہے.
چوتھا درجہ عشق ہے. جب یہ پیار یا محبت اپنی انتہا کو چھوئے تو عشق کی حدود شروع ہو جاتی ہیں.
پانچواں درجہ جنون ہے. جب عشق اپنی انتہا پر پہنچے تو متاثرین کی لگامیں عشق سے جنون کے ہاتھ میں چلی جاتی ہیں.
بدقسمتی سے ہمارے یہاں صرف نیم ملا اور نیم حکیم ہی نہیں نیم دانشور اور نیم عاشق و نیم صوفی بھی بکثرت پائے جاتے ہیں. جو ان درجات, ان کی ماہیت , ان کے اثرات اور کیفیات سے قطع نظر بس عشق عشق کا ورد کیے جاتے ہیں.
کسی پر مائل ہونے کو بھی عشق کہتے ہیں. رجحان ہو یا پیار ہو... اسے عشق ہی کہا جاتا ہے.
یہ جہالت کیا کم تھی , کہ سستے قسم کے ناولوں اور پھر جدید زمانے میں ڈراموں اور فلموں کے لکھاریوں کے طفیل بچہ بچہ اپنے تئیں عشقیات پر اتھارٹی سمجھتا ہے. غالب کے شعر...
فریاد کی کوئی لے نہیں ہے
نالہ پابند ِ نے نہیں ہے
کی طرح جس کے منہ میں جو آیا اس نے اگل دیا. اور پھر اسے اعلیٰ قسم کے اسرارو رموزِ عشق منوانے پر اصرار کیا.
اس غلط فہمی کا پردہ چاک کرنے کے بعد دوبارہ عشق پر آتے ہیں. اور عشق کی ماہیت , کیفیت اور اثرات کا نفسیاتی و سائنسی پہلوؤں سے جائزہ لیتے ہیں.
عشق کی اقسام:-
تحلیل نفسی کی رو سے عشق لازماً جنسی ہوتا ہے. اس لیے عشق کو دو بنیادی اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے.
1:- عشق حقیقی
2:- عشقِ مجازی
عشقِ مجازی کی مزید دو اقسام ہیں.
1:- رومانی عشق
2:- ہم جنسی عشق
عشقِ حقیقی و مجازی
اہلِ مشرق کا عشقِ حقیقی اور اہلِ مغرب کا عشق روحانی ایک ہی جذب اور کیفیت کے دو نام ہیں. صوفیاءکرام عشقِ حقیقی کے مدعی ہیں. اور محبوب ازلی اظہارِ محبت کرتے ہیں.
پہلی قسط میں بیان شدہ عشق کی تعریف سے یہ بات سمجھنا کوئی مشکل نہیں کہ عشقِ حقیقی کا تصور بنیادی طور پر نواِشراقی ہے. اس عالمگیر عشق کے زمزمے صرف مسلمان صوفیاء کرام سنائی , عطار , رومی ,جامی , خواجہ غلام فرید , شاہ حسین , بلھے شاہ , غالب رحمۃاللہ علیہم اجمعین کی شاعری میں ہی نہیں ملتے , بلکہ گووندا , میراں , سورداس , کبیر ,گرونانک وغیرہ کے بھجنوں اور کافیوں میں بھی عشقِ حقیقی کا والہانہ اظہار موجود ہے.
تحلیل نفسی کی رُو سے عشق لازماً جنسی ہوتا ہے. کوئی چاہے اس بات سے کتنا ہی اختلاف کیوں نہ رکھے مگر حقیقت یہ ہے کہ عشق دراصل انسان کے جنسی جذبے کی ایک شائستہ شرارت ہے. اور جسے لوگ پاک عشق کہتے ہیں. وہ بھی اسی جذبہ کا ایک ایسا شدید تموج ہوتا ہے کہ آدمی سُن ہو کر رہ جاتا ہے, اور کچھ کر نہیں سکتا.
عشقِ حقیقی بھی اسی کی ایک صورت ہے. انسانی نفسیات اور فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے محبوب کی آواز سنے , اسے دیکھے , اور چھوئے... غالب فرماتے ہیں
تکلف برطرف , لب تشنہ بوس و کنار رستم
زِ راہم باز چیں , دامِ نوازش ہائے پنہاں را
چونکہ ایک ذاتِ مجرد و بسیط و بیچون و بیچگون سے , جو شعور و ادراک کی گرفت سے آزاد ہو , عشق کرنا محال ہے.اس لیے انسان حقیقت کو لباسِ مجاز میں دیکھنے کا متمنی ہوتا ہے. اور یہی وجہ ہے کہ محبوبِ حقیقی کا تصور بھی مجاز کے پیرائے میں کرتا ہے تاکہ اس سے عشق کرسکے. غالب نے اس ساری حقیقت کو شعر میں یوں سمویا.
ہرچند ہو مشاہدہ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
صوفیاءکرام عشقِ حقیقی کا اظہار ہمیشہ مجاز کے پیرائے میں کرتے آئے ہیں. حافظ شیرازی کی غزلیات ہوں ,میراں کے بھجن ہوں چاہے مثنوی مولانا روم اور خواجہ فرید و شاہ بھٹائی رح کی مثال لیں. ان میں اظہارِ عشق کیلئے جو زبان استعمال کی گئی ہے وہ خالصتاً مجاز کی زبان ہے.
اج بن موں برج راج بنسری بجائی
بنسری بجائی اگم گیت گائی
کونج موں بھلی کرشن رے کھیلوں ہوری
پریم نیم کی گلال کو اڑائی
من مینہ سمادھ سدھ دا لکھ لاگ رہو
مہاں گھٹ وھٹ پٹ جوت ہیں جگائی
کاشی متھراپراگ برہم وشنو مہیش
سب ہی اپنے بھیس کیوں بدیس جائی
★★★ترجمہ
آج بندرا بن میں مہاراج کرشن نے بنسری بجائی اور مقدس گیت گائے.
محبوب کی گلی میں کرشن کے ساتھ ہولی کھیلی , محبت کے عہد کی توثیق ہوئی.
معرفت کی گلال اڑا کر سرخرو ہوئے, سچے محبوب کے تصور نے آخر ذاتِ محبوب کا پتہ دیا.
خودی کی شکست سے روح واصلِ نور ِ حقیقی ہوئی اور چراغِ دل روشن ہوا.
کاشی , متھرا , پراگ ,برہم ,وشنو ,مہیش سب ہمارے دل میں ہیں, پردیس جانے کی کیا ضرورت ہے.
ایک صوفی کا قول ہے "المجاز قنطرۃ الحقیقہ" (مجاز حقیقت کا پُل ہے)
اور یہ بات حقیقت بھی ہے. مجاز کے بغیر عشقِ حقیقی کا تصور خیال است و محال است و جنوں. اس بات کو سمجھنے کیلئے ایک مثال سے مدد لیتے ہیں.
ایک دریا کے دو کنارے ہیں. اس دریا کے آر پارجانے کیلئے ایک پل یا ایک کشتی کی ضرورت پڑے گی. سپرمین اور سپائیڈر مین تو بغیر کسی پل یہ دریا پار کر لیں گے. لیکن اس دنیا میں کتنے سپر مین اور سپائیڈر مین ہیں؟
لازماً ایک کنارے پہ کھڑے دوسرے کنارے کو جانے کے خواہشمند کو درمیان میں بچھا پُل پار کرنا ہی پڑے گا. اب یہ اس کی ہمت کہ وہ پل پر ہی بیٹھ جائے یا پھر پل پار کرکے دوسرے کنارے پر پہنچ جائے.
بالفرض اگر پُل نہیں بھی ہے. تب دریا پار کرنے کیلئے مجاز کی کشتی کی ضرورت پڑے گی. یہ الگ بات کہ کوئی مجاز کی کشتی میں بیٹھا دریا کی سیر ہی کرتا رہے , یا پھر مجاز کی کشتی کھیتا حقیقت کے کنارے جا لگے.
غرض کہ دونوں صورتوں میں مجاز وسیلہ اور حقیقت تک پہنچنے کا سبب ہے.
اس کی دوسری مثال حضرت شاہ حسین رحمۃ اللہ علیہ کی ہے. جن کا عشق مجازیِ "مادھو" سے شروع ہوا، مادھو لال حسین ہو گئے. اور پھر "حسین فقیر سائیں دا" ہو کر عشقِ حقیقی کے کنارے جا لگے.
اسی طرح کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں لیکن عقلمندوں کیلئے اشارہ ہی بہت ہوتا ہے, جبکہ جنہوں نے نہیں سمجھنا انہوں نے کسی صورت نہیں سمجھنا.
عشقِ حقیقی ہو چاہے عشقِ مجازی دونوں میں مقصود وصال ہے.
رومانی عشق:-
عشق مجازی کی مزید دو معروف اقسام ہیں. جن میں سے پہلی رومانی عشق ہے.
رومانی عشق کا تصور تحریکِ جوانمردی (فروسیت) کے ساتھ وابستہ ہے. جس کا آغاز عرب سے ہوا تھا. اور پھر وہ فلسطین , صقلیہ , ہسپانیہ سے مغربی ممالک میں پھیلی تھی. اس تحریک کے آداب تھے شجاعت , حماست , مروت اور خواتین کی حفاظت...
مؤرخین اس کا آغاز عنترہ بن الشداد سے کرتے ہیں جو زمانہ جاہلیت کا مشہور جوانمرد اور شاعر تھا. جس نے عورتوں کی حفاظت کرتے ہوئے جان دی تھی. اشاعتِ اسلام کے بعد حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہ الکریم فتوت کی مثال ہو گئے. ان کے علاوہ عالم ِ اسلام میں الناصر عباسی , صلاح الدین ایوبی اور سلطان رکن الدین بیبرس جوانمردی کی درخشاں روایات کے پاسبان ہوئے ہیں.
مرورِ زمانہ سے تحریکِ جوانمردی سے مسلکِ نسائیت نے جنم لیا. یعنی عشق میں عورت کی پرستش مشمول ہوئی. عُشاق اپنی محبوبہ کی ادنیٰ سی خواہش کی تکمیل کو بھی فرضِ عین سمجھتے تھے.اور اس کے دیے ہوئے رومال کا پھریرااپنے نیزے کے سرے پر لہرا کر اکھاڑوں میں اترتے تھے. اس مسلک میں عورت کو ایک ما فوق الطبع مخلوق تسلیم کیا جاتا تھا اور نہایت پرجوش انداز میں اس سے اظہارِ عشق کرتے تھے. محبوبہ جتنی عالی نژاد ہوتی تھی. اتنی ہی شیفتگی سے اس کے حسن و جمال کے گیت گاتے تھے.
پاکباز عشق کی روایت ایک بدو قبیلے بنو عذرا سے یادگار ہے. حتیٰ کہ مؤرخین نے بے لوث عشق کو " الہوی العذری" کا نام دیا. عذری عورتیں اپنے عشاق سے توقع کرتی تھیں کہ وہ ان کی تعریف میں شعر کہیں تاکہ ان کے حسن و جمال کا شہرہ دور دور تک ہو جائے. عشقِ عذری کا یہ تصور بغداد سے ہسپانیہ تک پھیل گیا. ہسپانیہ کی شاعری بلکہ تمام عالم کی رومانی شاعری میں عذری نصب العین دکھائی دیتا ہے. ابن داؤد اصفہانی اور ابن فرج جائنی عذری اس تصورِ عشق کے مشہور نمائندہ شاعر تھے. ابنِ فرج عذری کی شاعری (ترجمہ) سے نمونہ بطور تبرک پیش ہے.
★اگرچہ وہ سپردگی پر آمادہ تھی. لیکن میں نے ضبط سے کام لیا.
رات کو وہ کھلے منہ آئی. رات کے سایوں میں اس کا چہرہ چمک اٹھا.
اس کی ایک ایک نگاہ دل کو بے قرار و بے خود کرنے کیلئے کافی تھی. لیکن میں نے ہوس کے منہ زور گھوڑے کو بےقابونہیں ہونے دیا.
میں نے رات اس کے ساتھ ایسے گزاری جیسے اونٹنی کا بچہ , جس کا منہ رسیوں سے باندھ دیا جائے اور وہ اپنی ماں کا دودھ نہ پی سکے.
میرے جیسے لوگ پھولوں بھرے باغ میں صرف ان کا نظارہ کرتے ہیں اور خوشبو سونگھنے پر اکتفا کرتے ہیں.
میں آوارہ وحوش سے نہیں ہوں جو اس باغ کو اپنی چراگاہ بنا لیتے ہیں.★
اس کے تقریباً دو سو برس بعد ہونے والے شاعر صفوان بن ادریس کا نمونہ کلام....
★وہ کس قدر حسین ہے. حسن تو اس کی محض ایک صفت ہے.
اس کی حرکات نہایت جادوبھری ہیں.
وہ چاند کی طرح خوبصورت ہے.
چاند سے پوچھا جائے تم کیا چاہتے ہو تو وہ جواب دے گا میں اس کا ہالہ بننا چاہتا ہوں.
چاند اس کے چہرے کے سامنے آ جائے تو گویا وہ اس کے چہرے کا عکس ہے جو آئینے میں پڑ رہا ہے.
رات کے وقت میں اس سے ملا , میرے جبے کے نیچے آگ سلگ رہی تھی. جیسی کہ تمتمائے گالوں میں سلگتی ہے.
میں نے اسے گلے لگا کر بھینچا جیسے بخیل اپنے خزانے کو بھینچتا ہے.
میں نے اسے بازؤں میں جکڑ لیا, کیونکہ وہ غزال ہے , میں ڈرتا ہوں وہ بھاگ نہ جائے.
لیکن میری پاکبازی نے مجھے اجازت نہ دی کہ میں اس کا منہ چوموں.
اور میرا دل بھڑکتے ہوئے شعلوں میں جلتا رہا. اس شخص کا دھیان کرو جس کا اندرون , پیاس کی شدت سے جل رہا ہو , لیکن وہ پانی سے اپنا حلق تر نہ کرے.★
تاریک زمانوں کے دوران یورپ میں ایک بھی عشقیہ نظم نہیں کہی گئی. کیونکہ ایک تو عشقیہ شاعری مذہباً ممنوع تھی. دوسرا , یورپ کی اجڈ اور وحشی اقوام جذبہ عشق کی لطافت اور حسنِ نسوانی کی قدروقیمت سے نا آشنا تھیں. چنانچہ 11ویں صدی سے پہلے یورپ میں رومانی عشق کا تصور ناپید تھا.
تحریکِ جوانمردی کی اشاعت کے ساتھ رومانی عشق کی روایت فرانس کے ایک صوبے پروونس میں پہنچی, جو ہسپانیہ کی سرحد پر واقع تھا. مغربی اقوام کی تمام تر عشقیہ شاعری پروونس کی شاعری ہی سے مُتفرع ہوئی ہے.
ولیم نہم جو یورپ کی اس دور کی شاعری کا باوا آدم تھا ابنِ قزمان کا معاصر تھا اور عربی اصنافِ شعر سے متاثر ہوا تھا. بعد میں آنے والے شاعروں نے اس کی تقلید میں رومانی نظمیں لکھیں. پروونس کی اس دور کی رومانی شاعری کا خاتمہ ری کوئر پر ہوا. یعنی دو سو سال تک فرانس کی عشقیہ شاعری پر عربی شاعری کے اثرات ثبت ہوتے رہے. پروونس کے شاعروں نے موضوعات کے ساتھ عربی شاعری کے اسالیب بھی اپنا لیے.
عربوں نے جنس اور تقدس کےامتزاج سے رومانی شاعری کی بنیاد رکھی تھی. اندلس کےشاعروں نے اس روایت کی آبیاری کی اور عشقِ ناکام کی حسرتناکی پر پُرجوش نظمیں لکھیں. لیکن مغرب کی اُجڈ اقوام میں جنس اور تقدس کا تعلق برقرار نہ رہ سکا. مغربی سورما عربوں کی طرح عالی ظرف اور پاک بیں نہیں تھے. اس لیے ان کے یہاں مسلکِ نسائیت کی پاکبازی مجروح ہو گئی. یہ سورما اپنی محبوب خواتین سے تمتع کرنے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتے تھے.
اس پس منظر میں ثابت ہوا کہ رومانی عشق ایسے معاشرے میں پنپ سکتا ہے جس میں مردوں اور عورتوں کو آزادانہ میل ملاپ کے مواقع نہ ملیں. اس تفریق سے دونوں ایک دوسرے کی ذات میں نا معلوم کشش محسوس کرتے ہیں. مرد عورت کو کوئی آسمانی مخلوق (پری / حور) سمجھنے لگتا ہے اور عورت مرد میں بطلِ جلیل کو تلاش کرتی ہے. چنانچہ تاریخ اور موجودہ جدید زمانہ میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ جس معاشرے میں مردو خواتین بلا تکلف اور بے محابا ایک دوسرے سے ملتے ہیں اس میں رومانی عشق کا کوئی کھوج نہیں ملتا. افریقہ آسٹریلیا اور غرب الہند کے وحشی قبائل جن کے ہاں آزادانہ جنسی ملاپ کا رواج ہے وہاں رومانی عشق کا تصور ناپید ہے.
مثلاً
مشنریوں نے "الگا کون" قبیلے کے وحشیوں کی زبان میں بائبل کا ترجمہ کرنا چاہا تو انہیں اس زبان میں لفظ "عشق" کا کوئی مترادف نہ مل سکا
"سموان" قبیلے کے وحشیوں کو رومیو جولیٹ کی کہانی سنائی گئی تو وہ مارے ہنسی کے لوٹ پوٹ ہوگئے. اور کہنے لگے "ان نادانوں کو خود کشی کرنے کی کیا ضرورت تھی. وہ باہم مل کر ہنسی خوشی زندگی گزار سکتے تھے"
عربی ادب میں عُفرا , عروہ اور جمیل بن معمر العذری , شبینہ اور قیس و لیلی کی المناک عشقیہ داستانیں ہوں , ایرانی فرہاد کا قصہ ہو , پنجابی کے ہیر رانجھا , سوہنی مہینوال ہوں , یا سرائیکی کے سسی پنوں اور راول جگنی ہوں. ان سب کا عشق اس لیے مشہور اور ضرب المثل بن گیا کہ انہوں نے ایسے معاشروں میں پرورش پاٰئی تھی. جہاں روایات و معاشرتی اقدار اور شرم و حیا کا سکہ چلتا تھا.
تاریخ و ادب کے اس عمیق مطالعے کے بعد خاکسار جوگی پر واضح ہوا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان میں کس قدر گہرائی اور جامعیت ہے کہ جس میں بچوں کی شادیاں اوائل بلوغت سے ہی کردینے پر زور دیا گیا ہے. جنسی جذبے کو پوری طرح بیدار ہونے کے بعد جب جائز حق نہیں ملتا تو جنسی بھوک ٹھرک پہ اکساتی ہے. اور ٹھرک نظر بازی کرنا سکھاتی ہے. اور اس نظربازی کا جو نتیجہ نکلتا ہے وہ ہم سب دیکھ بھی رہے ہیں اور بھگت بھی رہے ہیں.
حجۃ الاسلام حضرت امام غزالی رح کی کتاب احیاءالعلوم سے ایک اقتباس بطور تبرک پیش ہے:- " بعض گمراہوں کو عشق سوجھتا ہے. اور اس سے کمال درجے جہالت کی غرض ِاصلی جماع سے پائی جاتی ہے. اور قوتِ بہیمی میں چوپایوں سے بھی بڑھ جاتا ہے. اس لیے کہ چوپایہ اپنی شہوت کو کسی نہ کسی طرح دور کر دیتا ہے. اور عاشق ایک خاص کے سوا اور کسی طرح اپنی شہوت رفع نہیں کرسکتا. یہاں تک کہ اس کیلئے ذلت پہ ذلت اور غلامی اٹھاتا ہے."
عشق کے سائنسی پہلو:-
طبیعاتی پہلو سے تو ماشاءاللہ ہمارے یہاں بالغ تو کیا بچے بھی واقف ہیں.
کیمیائی پہلو:-
اس کا کیمیائی پہلو یہ ہے کہ مادے کے چھوٹے سے ذرے ایٹم کے اندر الیکٹرانوں کی مخصوص تعداد ہوتی ہے. جو کہ قدرت نے طاق ہی رکھی ہے. لہذا ہر جاندار و بے جان مادی شئے کا جسم جن ایٹموں سے تعمیر شدہ ہے. ان ایٹموں کے اندر بقول غالب "مضمر ہے اک صورت خرابی کی" یہ تمام تر ایٹم اپنی ویلنسی (الیکٹرانز کی تعداد) کو جفت کر کے حالتِ سکون میں آنا چاہتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ بلوغت کی عمر کو جب جنسی جذبہ اور شعور بیدار ہوتے ہیں تو پہلا خیال اپنے ادھورے پن کا آتا ہے. چاہے اس عمر میں کسی کو اس کے پس پردہ کارفرما عوامل کا ادراک نہیں ہوتا , نہ ہی اس کیفیت کی حقیقت معلوم ہوتی ہے. لیکن یہ بات ہر بالغ مرد و خاتون سمجھ سکتی ہے کہ اوائل بلوغت میں ادھورے پن کی وحشت کے تجربے سے سب گزرے ہیں. یہ ادھورا پن فطری طور پر تلاش پر اُکساتا ہے کہ کوئی ایسا ہو جو ہم سے الیکٹران لے کر یا دے کر اپنی اور ہماری ویلنسی کو جفت کردے. جب اس جذبے پر عقل حاکم ہو جائے تو انسان اسے عشق کہتا ہے. اور جو اس جذبے کے ہاتھوں غلام ہو جائے اسے جنسی درندگی اور فلاں فلاں کے نام دئیے جاتے ہیں
حیاتیاتی پہلو:-
فطرت نے انسان کو تنہا رہنے کیلئے پیدا نہیں کیا. کیونکہ بنی نوع انسان فریقِ ثانی کے بغیر حیاتیاتی تقاضے پورے نہیں کرسکتے. نہ ہی باشعور و مہذب انسان عشق کے بغیر جنسی جبلت کی بھرپور تشفی کرسکتے ہیں. جب تک انسان پوری خود سپردگی سے فریقِ ثانی سے تعلق پیدا نہ کرے اس جبلت کی کامل تسکین نہیں ہوتی. جن لوگوں کو پرمسرت محبت کی دلی رفاقت اور بے تکلفانہ خود سپردگی کا تجربہ نہیں ہوا یقیناً وہ زندگی کی بہترین نعمت سے محروم رہے ہیں. شعوری طور پر نہ سہی لاشعوری طور پر انہیں اس محرومی کا احساس ہوتا ہے. اس کے نتیجے میں انہیں جو مایوسی ہوتی ہے وہ انہیں رشک و حسد ,جور و ستم اور جبروتشدد کی طرف مائل کردیتی ہے. اور اس کے نتائج ڈھکے چھپے نہیں ہیں. ہم سب کے سامنے ہیں.
حیاتیاتی پہلو سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جنسی خواہش کھانے کی جبلت سے پیدا ہوئی ہے. بوسے میں دونوں کا امتزاج موجود ہے. بوسہ لینے کی تمنا اور محبوب کے ہونٹ و رخسار و گلو وغیرہ وغیرہ وغیرہ وغیرہ چومنے کی خواہش اس بات کا ثبوت ہے کہ منہ میں خوراک اور جنس کی جبلتیں جمع ہو گئی ہیں. شاید اسی وجہ سے فرائڈ نے کہا تھا کہ "عشق اور بھوک پستانوں میں جمع ہو جاتے ہیں"
اب اس بات کوئی کتنا ہی شرما کر , یا حاجی صاحب بن کر انکار کرتا رہے حقیقت تو حقیقت ہی رہے گی.
نفسیاتی پہلو:-
فرائڈ کے مذکورہ بالا قول سے عشق کا نفسیاتی پہلو بھی کافی حد تک واضح ہو جاتا ہے.
ماہرینِ نفسیات کے مطابق عشق کا مطلب خودسپردگی ہے. کسی شخص کا اپنے آپ کو بے اختیار اپنے محبوب کے سپرد کردینا ہی عشق ہے. جو شخص جتنا زیادہ خود سپردگی کا اہل ہوگا اتنا ہی زیادہ عشق کے فیوض و برکات سے بہرہ مند ہوگا. جو عورت یا مرد کامل سپردگی کے قابل نہ ہو وہ کسی سے حقیقی محبت نہیں کرسکتا. اس نوع کی عورت سردمہر ہوتی ہے اور اس قسم کا مرد کسی کا مخلص دوست نہیں بن سکتا.
(خاکسار کی یہ بات صرف وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جنہیں عشق کا تجربہ ہوا ہو. چاہے عشق مجازی یا عشق حقیقی کا)
برٹرنڈرسل نے لکھا ہے کہ عشق اس احساسِ تنہائی کا سب سے بڑ مداوا ہے جو اکثر مردوں اور عورتوں کے لیے زندگی بھر کاعذاب بن جاتا ہے. اکثر لوگ اربابِ دنیا کی سردمہری سے دہشت محسوس کرتے ہیں. اور ابنائے زمانہ کے ظلم و ستم سے ڈرتے ہیں. انہیں محبت کی آرزو ہوتی ہے جسے اکثر اوقات مرد درشتی اور سخت مزاجی میں چھپاتے ہیں , اور عورتیں اس پر بدمزاجی اور عیب جوئی کے پردے ڈال لیتی ہیں. پُرجوش باہمی محبت اس احساسِ تنہائی کا خاتمہ کردیتی ہے, انا کی سنگین دیواروں کو توڑ پھوڑ دیتی ہے اور ایک نئے آدمی کو جنم دیتی ہے جو یک جان دو قالب ہوتا ہے.
مارسل پروست کہتا ہے کہ ہم کسی حقیقی شخص سے پیار نہیں کرتے بلکہ اس آدمی سے محبت کرتے ہیں جسے خود ہمارے تخیل نے تخلیق کیا ہو. ایک سچا عاشق اپنے محبوب کی خامیوں اور کوتاہیوں سے قطع نظر کرلیتا ہے. اور اسے مثالیاتی مقام عطا کرتا ہے.
جبکہ
ادون کہتا ہے کہ محبوب کی صورت میں ہم اپنی ہی ذات سے عشق کرتے ہیں, ہماری پہلی اور آخری محبت اپنی ہی ذات کی محبت ہوتی ہے. جب کسی عاشق کی محبوبہ اسے ٹھکرا دے تو اس سے جو صدمہ اسے ہوتا ہے وہ اس لیے نہیں ہوتا ہے کہ اس کی محبوبہ یا محبوب نے اسے قبول نہیں کیا. بلکہ اس لیے ہوتا ہے کہ اس کی انا کو ٹھیس لگتی ہے. اور اس کا اعتماد اپنی کشش پر سے اٹھ جاتا ہے. خود اعتمادی ختم ہو جاتی ہے اور عاشق تنہائی پسند ہوجاتا ہے.
حسد اور رقابت جو عشق کا لازمہ ہے , اسی لیے ہے کہ عاشق کے دل میں یہ شبہ گھر کر لیتا ہے کہ اس کا رقیب اس سے زیادہ پرکشش ہے. اس احساس سے انا کی جراحت ہوتی ہے جو عذاب ناک تلخی کا سبب بن جاتی ہے.
حضرت محی الدین ابن عربی کے قول کا ترجمہ ہے "جس نے عشق کیا اور مرتے دم تک پاک منش رہا, وہ شہید کی موت مرا"
برٹرنڈرسل کا قول ہے :- بہترین زندگی وہ ہے جو علم سے راہنمائی حاصل کرے اور عشق سے فیضان پائے
ذاتی طور پر ہر کسی کا تجربہِ عشق اور اس کی کیفیات میں درجہ کے لحاظ سے فرق ہوسکتا ہے. لیکن بحثیتِ مجموعی تمام بنی نوع انسان کی تاریخ و حال کا جائزہ لینے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ علمی سطح پر عشق جنسی کشش کی شائستہ اورارفع صورت ہے.
لیکن
اسی جذبہ عشق کے مقابل و متوازی ایک اور جذبہ حُب بھی ہے. بعض ایک جیسی کیفیات کی وجہ سے اکثر لوگ حب یعنی محبت و مؤدت کو عشق سمجھتے ہیں. شاید ہی کوئی ایسا ہو جو معشوق اور محبوب کو ایک ہی چیز کے دو نام نہ سمجھتا ہو. یہ سراسر ایک غلط فہمی ہے جو اس قسط میں دور کرتا چلوں.
عشق اور محبت میں بہت باریک سا فرق ہے. عشق جسم کا آنی تشنج ہے. اور حب روح کا اضطراب ہے. عشق کا تعلق صرف ایک ذات یعنی معشوق سے ہوتا ہے. جبکہ حب کا تعلق بیک وقت کئی محبوبوں سے ہوتا ہے. عاشق اپنے جذبہ عشق کی تسکین چاہتا ہے. اور محب ان تمام اشیا(ان میں انسان , جانور , پودے حتی کہ بے جان چیزیں بھی ہو سکتی ہیں) کی تسکین و خیر خواہی کرتا ہے. عشق کی منزل وصال ہے. (فنا ہوجانا بھی وصال کے زمرے میں ہے) لیکن حُب کی کوئی منزل نہیں , یہ ایک مسلسل سفر ہے, تاآنکہ زندگی اختتام کو پہنچے.
پچھلی اقساط میں عشق کے درجات بیان ہوئے تھے. عین اسی طرح عشق کے متوازی جذبہ ِ حُب کے بھی درجات ہیں.
1:- مروت
آپ کسی ظاہری تعلق نہ ہونے کے باوجود بھی کسی انجان شخص کیلئے دل میں رحم , ہمدردی کا جذبہ رکھیں...
2:- رغبت
آپ کسی کی طرف اپنا دل راغب پائیں. وہ کھانے کی چیز بھی ہو سکتی ہے. وہ آپ کا پسندیدہ رنگ بھی ہو سکتا ہے , وہ لباس بھی ہو سکتا ہے , وہ آپ کے اساتذہ میں سے کوئی ایک ٹیچر بھی ہو سکتا ہے. وہ کوئی بےجان چیز بھی ہو سکتی ہے.
3:- محبت / الفت
اس کی وضاحت کی ضروت نہیں, سب جانتے ہیں.
4:- موودت
محبت کی انتہا کو مودت کہتے ہیں. اسقدر محبت کہ اس کے بغیر زندگی محال ہو جائے. اس کی مثال مچھلی اور پانی کا آپسی تعلق ہے. مچھلی کو پانی سے مودت ہے.
مثلاً ایک بچہ کسی سے عشق نہیں کرتا. لیکن وہی بچہ بیک وقت اپنے والدین اور بہن بھائیوں اور دادا دادی نانانانی سے محبت کرتا ہے. ایک ماں بیک وقت اپنے سارے بچوں (بیٹے بیٹیوں) سے محبت کرتی ہے. ایک باپ اپنے بچوں سے اور پھر ان کے بچوں سے محبت کرتا ہے. ایک دوست اپنے تمام دوستوں سے محبت رکھتا ہے. ہمیں اپنی پسندیدہ ترین چیزوں سے محبت ہوتی ہے.
عشق ہو یا محبت ان کے انسان اور دنیا پر مثبت اثرات واقع ہوتے ہیں.جن کا ذکر مولانا روم کے کلام میں ہے.
از محبت تلخ ہا شیریں شود
وز محبت مِسہا زریں شود
محبت سے تلخ شیریں ہوتا ہے.
اور محبت سے کچی دھات سونا ہوجاتی ہے.
از محبت درد ہا صافی شود
وز محبت درد ہا شافی شود
محبت سے تلچھٹ (میل) صاف شفاف ہوجاتی ہے.اور محبت سے درد شفا دینے والا ہو جاتا ہے.
از محبت دار تختے می شود
وز محبت یار بختے می شود
محبت سے پھانسی کا تختہ بھی تخت ہوجاتا ہے. اور محبت سے بخت دوست بن جاتا ہے.
از محبت سجن گلشن می شود
وز محبت دیو حورے می شود
محبت سے قیدخانہ باغ بن جاتا ہے. اور محبت سے چڑیل حور بن جاتی ہے.
از محبت سنگ روغن می شود
وز محبت موم آہن می شود
محبت سے پتھر روغن ہو جاتا ہے. اور محبت سے موم لوہا بن جاتا ہے.
از محبت خار سوسن می شود
وز محبت تار روشن می شود
محبت سے کانٹا پھول بن جاتا ہے. اور محبت سے اندھیرا روشن ہوجاتا ہے.
ختم شد
یکے از معلقاتِ جوگی