ناصر رانا
محفلین
آپ کا اپنی تحریر پر اعتماد بلاشبہ قابل رشک ہے۔ لیکن پتا نہیں کیوں ایک ضرب المثل یاد آرہی ہے۔. یہ پوری دنیا کا تاریخ سے اب تک تجزیہ کیا گیا ہے۔ اور یہ تحریر ماہرینِ نفسیات و فلسفہ ہی پڑھ کر بہتر رائے دے سکتے ہیں۔ ۔
(رانی کو باندی کہا ہنس پڑی، باندی کو باندی کہا رو پڑی) یہاں ثانی الذکر کیفیت محسوس ہورہی ہے۔
جس تبصرے کا آپ نے اقتباس لیا ہے وہ اس لڑی پر میرا پہلا تبصرہ ہے اور اسے کسی کے کہنے پر یا جوش خطابت میں نہیں لکھا بلکہ یہ صد فی صد وہ پہلا خیال تھا جو تحریر کو بمشکل پڑھنے کے بعد فوری طور پر میرے ذہن میں آیا۔آپ نے کسی کے کہنے پر تبصرہ تو کردیا۔ لیکن آپ جوشِ تنقید میں یہ بھول گئے کہ آپ صرف جوگی سے نہیں بلکہ افلاطون , فلاطینوس امام غزالی علامہ فارابی اور برٹرنڈرسل وغیرہ سے بھی اختلاف فرما گئے۔۔۔ اور اس سے ہم نے نہ صرف "مدعا پایا" بلکہ غالب کے شعر اور علامہ فارابی پہ آپ کی سمججھ کو جو پٹخنیاں آئی ان سے مجھے شیر کی کھال میں گدھے والی کہانی یاد آ گئی۔ جس پر آپ نے غالب کا بے ربط شعر لکھنے اور نامعقولات کا سٹکر چپکایا ہے اسے چھوٹا غالب بھی کہا جاتا ہے۔ لہذا چھوٹے غالب پہ اعتراض سے پہلے تکوین کا فلسفہ اور تمنا کے دوسرے قدم میں سے عشق ڈھونڈیے۔۔۔ سلامتی ہو
لیکن اس کے باوجود کہ میں اپنے خیال پر ہنوز قائم ہوں اگر آپ حکم کریں تو میں اس تبصرے کو حذف کردیتا ہوں۔
ہاں البتہ بعد کے تبصروں کا محرک کچھ اور تھا اور میں معذرت خواہ ہوں کہ بوجوہ دل آزاری کا مرتکب ہوا، کہیئے تو انہیں بھی حذف کردیتا ہوں۔
آپ پر بھی سلامتی ہو۔