نور وجدان
لائبریرین
وہ شیخ حُرمت اور ثُریا بیگم کی پہلوٹھی کی اولاد تھی. اتنی من موہنی صُورت تھی کہ جو دیکھے , دیکھتا ہی رہ جائے. ثریا بیگم کے میکے کی جانب سے اس ننھی پری کا نام شاہدہ رکھا گیا. گو کہ شیخ صاحب کا گھرانہ مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھتا تھا مگر ننھی شاہدہ کے ناز نخرے یُوں اُٹھائے جاتے , گویا مُنہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہُوئی ہو.
جب شاہدہ نے عمر کے چوتھے سال میں قدم رکھا تو شیخ صاحب کے ہاں "شہزاد" نے جنم لِیا. اگرچہ وہ پہلوٹھی کی اولاد نہ تھا , مگر تھا تو شیخ صاحب کا جانشین....شیخِ ثانی... گو کہ شاہدہ کیلئے اُنکے پیار میں کمی نہ آئی لیکن اگر شاہدہ کی آنکھوں سے دیکھا جائے تو پیار بَٹ رہا تھا , ترجیحات از سرِ نو مقرر ہو رہی تھیں اور 'بٹیا رانی' پس منظر میں جا رہی تھی. وہ جو گھر لوٹتے ہی شیخ صاحب کے لبوں سے 'شاہدہ شاہدہ' کی تکرار ہوا کرتی تھی , اُس نے ایک اور رُوپ دھار لِیا تھا.
شاہدہ کے حساس ذہن کے پردے پر شہزاد کے 'گھناؤنے پن' اور 'حق تلفی ' کا احساس روز بروز بڑھتا جا رہا تھا اور یہ احساس ایک نیا رُوپ اختیار کرتا چلا گیا. جب تک شہزاد چھوٹا تھا , شاہدہ اُسے چارپائی سے گِرانے, کھلونے توڑنے اور اُسے کسی طور رُلانے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھتی تھی. مگر جب شہزاد نے قدرے ہوش سنبھالا تو شاہدہ خُود اذیتی کی قید میں گرفتار ہوتی چلی گئی. وہ باپ کی توجّہ اور اماں کی محبت حاصل کرنے کے لیے نئے نئے کام سیکھنے لگی مگر وہ مہر جو اس کو 'چاہئیے' تھی وہ شہزاد کے ماتھے پر ثبت ہوتی رہی اور ننھی شاہدہ کی ننھی کوششوں کے باوجود وہ سب کی توجہ کا 'مرکز' نہ بن سکی.ہاں....اُسے "مرکز" بننا تھا. جب بھی ابّا شہزاد کو گُھمانے لے جاتے تو شاہدہ ہمہ تن گوش ہو جاتی کہ اب اُسے پکارا جائے گا اور ساتھ چلنے کو کہا جائے گا. مگر وہ وقت نہ آنا تھا, نہ آیا....کیونکہ وہ 'بیٹی' تھی.
چند سال یُونہی سِرکے تو شاہدہ نے اپنی توجّہ سکول کی جانب مبذول کر لی اور اسے ہی اپنی دلچسپیوں کا مرکز ٹھہرایا. وہ قدرے ذہین طالبہ تھی, مگر یہاں بھی اسکا مقصد اساتذہ کیلیے'مرکزِ نگاہ' بننا تھا. لہٰذاگھنگھریالے بالوں اور گندمی رنگت والی شاہدہ ہر نئے مقابلے میں شرکت اور ہر امتحان میں بہتر نمبر لینے کی جدوجہد کرنے لگی. وہ ہر جگہ بہتر تو کر پائی , مگر ہر سرگرمی میں سرگرمِ عمل ہونے کی وجہ سے وہ کبھی اوّل نہ آ سکی اور اوّل نہ آنے کے باعث وہ توجہ کا "مرکز" نہ بن پائی اور ناتمام آرزوؤں نے کچھ اور سر اُٹھانا شروع کر دِیا.
ایک دِن گراؤنڈ میں بیٹھی اپنی ذات کو موردِ الزام ٹھہراتی شاہدہ کی ملاقات علی سے ہوئی. وہ اُسے یوں بیٹھی دیکھ کر ٹھٹھک کر رُکا تھا کہ اُسے تسلّی دے. مگر جب وہ اُٹھا تو بذاتِ خود شاہدہ کی زلف کا اسیر ہو چُکا تھا. معمولی سی مزاحمت کے بعد شاہدہ بھی شریکِ محبت ہوتی چلی گئی. بلآخر وہ کسی کی توجہ کا "مرکز" بن ہی گئی تھی. روزوشب یوں ہی گُزرنے لگے, مگر ایک دِن علی کے ابّا کی وفات نے گویا پیروں تلے سے زمین کھینچ لی. علی کو پڑھائی چھوڑ کر اپنے ابا کی موٹر ورکشاپ سنبھالنی پڑی. سب عہد و پیمان ہوا ہُوئے اور دونوں کے درمیان دیواریں آتی چلی گئیں.
اتنی توجہ کے بعد اکیلے رہ جانا شاہدہ کیلئے پاتال میں گِرتے چلے جانے کے مترادف تھا. انہی دِنوں سعدیہ اسکی دوست بنی, جو اسکے زخموں پر مرہم تو نہ رکھ سکتی تھی مگر اسکے رونے کیلئے کندھا فراہم کر سکتی تھی . وہ دونوں گھنٹوں باتیں کرتیں مگر چند ماہ کے بعد ان دونوں کے راستے اچانک یُوں جُدا ہوئے کہ ایک عرصہ ملاقات نہ ہو پائی, کیونکہ وہ دونوں سکول سے فارغ التحصیل ہو کر الگ الگ کالجز میں داخلہ لے چُکی تھیں.
کالج میں بھی شاہدہ نے جدوجہد جاری رکھی اور ہم نصابی سرگرمیوں میں پیش پیش رہی. ایسے ہی ایک مقابلے کی ریہرسلز کے دوران حَسن اس کی قابلیتوں کا ایسا معترف ہُوا کہ روز بروز زندگی کے سینے پر اک نئی داستان رقم ہونے لگی.شاہدہ ایک بار پھر ہواؤں میں اُڑنے لگی اور محبت بھری پینگیں جُھولنے لگی. مگر ابھی چند ہی ماہ گُزرے تھے کہ وہ جو اُسکی قابلیتوں کا معترف ہُوا کرتا تھا اُسے کوئی بہتر لڑکی مل گئی , جو شاہدہ سے زیادہ قابل تھی اور حَسن کی آنکھ کا تارہ بنتی چلی گئی, جب کہ پچھلا تارہ "شاہدہ" گویا شہابِ ثاقب بن کر عرش سے فرش کی جانب گرتا چلا گیا اور کہیں راہ میں ہی معدوم ہو گیا شاید.
شاہدہ کو ایک دِن سرِ راہ ہی سعدیہ مل گئی تو وہ زمان و مکاں سے لا پرواہ ہو کر اسکے گلے لگ کر پھوٹ پُھوٹ کر رو دِی اور داستانِ مختصر سُنا ڈالی.
یہ آج سے قریباََ دو مہینے پہلے کی بات ہے۔ کہ میں کچھ سوال لیئے جواب تلاش رہی تھی کہ .
شاہدہ کیوں اس کشمکش کا شکار رہی ۔؟
, اس پر جوحالات بیتے ان کے پیچھے اصل ہاتھ کِس کا تھا ؟
کیا والدین بنا صنف کی تفریق کیئے اپنے بچوں کی نفسیاتی تسکین بھی فرض ہے یا واجب, ؟
شاید اس سوال پر اک لمبی بحث جنم لے ۔
مگر آج جب کوئلہ بنی شاہدہ کو کفن میں دیکھا تو میں اپنی دلخراش چیخ ضبط نہ کر پائی...جی ہاں! میں وہی سعدیہ ہوں , شاہدہ کی سہیلی....
کل رات اک طوفان باد باراں میں گِرنے والی بجلی کی زَد میں آتے شاہدہ کا گھر محفوظ نہیں رہ پایا. اس کی والدہ نانا کے گھر اور شہزاد اور ابّا کسی میچ کے سلسلے میں گھر سے باہر تھے ۔ جب وہ حساس رُوح اپنے جسدِ خاکی سے نجات پاگئی اور اسکا کوئلہ بنا جسم سب کی توجّہ کا "مرکز" بن گیا. جی ہاں! "مرکز".
جو تمام عمر مرکز نہیں بن پاتے , انہیں موت یہ موقع فراہم کرتی ہے.... لیکن ہمارے اردگرد موجُود مگر قلبی طور پر کوسوں دُور موجُود اِن پیاروں کو کیا معلُوم...
جب شاہدہ نے عمر کے چوتھے سال میں قدم رکھا تو شیخ صاحب کے ہاں "شہزاد" نے جنم لِیا. اگرچہ وہ پہلوٹھی کی اولاد نہ تھا , مگر تھا تو شیخ صاحب کا جانشین....شیخِ ثانی... گو کہ شاہدہ کیلئے اُنکے پیار میں کمی نہ آئی لیکن اگر شاہدہ کی آنکھوں سے دیکھا جائے تو پیار بَٹ رہا تھا , ترجیحات از سرِ نو مقرر ہو رہی تھیں اور 'بٹیا رانی' پس منظر میں جا رہی تھی. وہ جو گھر لوٹتے ہی شیخ صاحب کے لبوں سے 'شاہدہ شاہدہ' کی تکرار ہوا کرتی تھی , اُس نے ایک اور رُوپ دھار لِیا تھا.
شاہدہ کے حساس ذہن کے پردے پر شہزاد کے 'گھناؤنے پن' اور 'حق تلفی ' کا احساس روز بروز بڑھتا جا رہا تھا اور یہ احساس ایک نیا رُوپ اختیار کرتا چلا گیا. جب تک شہزاد چھوٹا تھا , شاہدہ اُسے چارپائی سے گِرانے, کھلونے توڑنے اور اُسے کسی طور رُلانے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھتی تھی. مگر جب شہزاد نے قدرے ہوش سنبھالا تو شاہدہ خُود اذیتی کی قید میں گرفتار ہوتی چلی گئی. وہ باپ کی توجّہ اور اماں کی محبت حاصل کرنے کے لیے نئے نئے کام سیکھنے لگی مگر وہ مہر جو اس کو 'چاہئیے' تھی وہ شہزاد کے ماتھے پر ثبت ہوتی رہی اور ننھی شاہدہ کی ننھی کوششوں کے باوجود وہ سب کی توجہ کا 'مرکز' نہ بن سکی.ہاں....اُسے "مرکز" بننا تھا. جب بھی ابّا شہزاد کو گُھمانے لے جاتے تو شاہدہ ہمہ تن گوش ہو جاتی کہ اب اُسے پکارا جائے گا اور ساتھ چلنے کو کہا جائے گا. مگر وہ وقت نہ آنا تھا, نہ آیا....کیونکہ وہ 'بیٹی' تھی.
چند سال یُونہی سِرکے تو شاہدہ نے اپنی توجّہ سکول کی جانب مبذول کر لی اور اسے ہی اپنی دلچسپیوں کا مرکز ٹھہرایا. وہ قدرے ذہین طالبہ تھی, مگر یہاں بھی اسکا مقصد اساتذہ کیلیے'مرکزِ نگاہ' بننا تھا. لہٰذاگھنگھریالے بالوں اور گندمی رنگت والی شاہدہ ہر نئے مقابلے میں شرکت اور ہر امتحان میں بہتر نمبر لینے کی جدوجہد کرنے لگی. وہ ہر جگہ بہتر تو کر پائی , مگر ہر سرگرمی میں سرگرمِ عمل ہونے کی وجہ سے وہ کبھی اوّل نہ آ سکی اور اوّل نہ آنے کے باعث وہ توجہ کا "مرکز" نہ بن پائی اور ناتمام آرزوؤں نے کچھ اور سر اُٹھانا شروع کر دِیا.
ایک دِن گراؤنڈ میں بیٹھی اپنی ذات کو موردِ الزام ٹھہراتی شاہدہ کی ملاقات علی سے ہوئی. وہ اُسے یوں بیٹھی دیکھ کر ٹھٹھک کر رُکا تھا کہ اُسے تسلّی دے. مگر جب وہ اُٹھا تو بذاتِ خود شاہدہ کی زلف کا اسیر ہو چُکا تھا. معمولی سی مزاحمت کے بعد شاہدہ بھی شریکِ محبت ہوتی چلی گئی. بلآخر وہ کسی کی توجہ کا "مرکز" بن ہی گئی تھی. روزوشب یوں ہی گُزرنے لگے, مگر ایک دِن علی کے ابّا کی وفات نے گویا پیروں تلے سے زمین کھینچ لی. علی کو پڑھائی چھوڑ کر اپنے ابا کی موٹر ورکشاپ سنبھالنی پڑی. سب عہد و پیمان ہوا ہُوئے اور دونوں کے درمیان دیواریں آتی چلی گئیں.
اتنی توجہ کے بعد اکیلے رہ جانا شاہدہ کیلئے پاتال میں گِرتے چلے جانے کے مترادف تھا. انہی دِنوں سعدیہ اسکی دوست بنی, جو اسکے زخموں پر مرہم تو نہ رکھ سکتی تھی مگر اسکے رونے کیلئے کندھا فراہم کر سکتی تھی . وہ دونوں گھنٹوں باتیں کرتیں مگر چند ماہ کے بعد ان دونوں کے راستے اچانک یُوں جُدا ہوئے کہ ایک عرصہ ملاقات نہ ہو پائی, کیونکہ وہ دونوں سکول سے فارغ التحصیل ہو کر الگ الگ کالجز میں داخلہ لے چُکی تھیں.
کالج میں بھی شاہدہ نے جدوجہد جاری رکھی اور ہم نصابی سرگرمیوں میں پیش پیش رہی. ایسے ہی ایک مقابلے کی ریہرسلز کے دوران حَسن اس کی قابلیتوں کا ایسا معترف ہُوا کہ روز بروز زندگی کے سینے پر اک نئی داستان رقم ہونے لگی.شاہدہ ایک بار پھر ہواؤں میں اُڑنے لگی اور محبت بھری پینگیں جُھولنے لگی. مگر ابھی چند ہی ماہ گُزرے تھے کہ وہ جو اُسکی قابلیتوں کا معترف ہُوا کرتا تھا اُسے کوئی بہتر لڑکی مل گئی , جو شاہدہ سے زیادہ قابل تھی اور حَسن کی آنکھ کا تارہ بنتی چلی گئی, جب کہ پچھلا تارہ "شاہدہ" گویا شہابِ ثاقب بن کر عرش سے فرش کی جانب گرتا چلا گیا اور کہیں راہ میں ہی معدوم ہو گیا شاید.
شاہدہ کو ایک دِن سرِ راہ ہی سعدیہ مل گئی تو وہ زمان و مکاں سے لا پرواہ ہو کر اسکے گلے لگ کر پھوٹ پُھوٹ کر رو دِی اور داستانِ مختصر سُنا ڈالی.
یہ آج سے قریباََ دو مہینے پہلے کی بات ہے۔ کہ میں کچھ سوال لیئے جواب تلاش رہی تھی کہ .
شاہدہ کیوں اس کشمکش کا شکار رہی ۔؟
, اس پر جوحالات بیتے ان کے پیچھے اصل ہاتھ کِس کا تھا ؟
کیا والدین بنا صنف کی تفریق کیئے اپنے بچوں کی نفسیاتی تسکین بھی فرض ہے یا واجب, ؟
شاید اس سوال پر اک لمبی بحث جنم لے ۔
مگر آج جب کوئلہ بنی شاہدہ کو کفن میں دیکھا تو میں اپنی دلخراش چیخ ضبط نہ کر پائی...جی ہاں! میں وہی سعدیہ ہوں , شاہدہ کی سہیلی....
کل رات اک طوفان باد باراں میں گِرنے والی بجلی کی زَد میں آتے شاہدہ کا گھر محفوظ نہیں رہ پایا. اس کی والدہ نانا کے گھر اور شہزاد اور ابّا کسی میچ کے سلسلے میں گھر سے باہر تھے ۔ جب وہ حساس رُوح اپنے جسدِ خاکی سے نجات پاگئی اور اسکا کوئلہ بنا جسم سب کی توجّہ کا "مرکز" بن گیا. جی ہاں! "مرکز".
جو تمام عمر مرکز نہیں بن پاتے , انہیں موت یہ موقع فراہم کرتی ہے.... لیکن ہمارے اردگرد موجُود مگر قلبی طور پر کوسوں دُور موجُود اِن پیاروں کو کیا معلُوم...