ایک دل دکھا دینے والی تحریر۔
دیکھا جائے تو قصوروار کوئی بھی نہیں ہے، اور تقریباً سب ہی بشمول سعدیہ اور خود شاہدہ کے سب ہی قصوروار بھی ہیں۔
حیرت ہے کہ آپ کو اس تبصرے اور تحریر کا ربط سمجھ نہیں آیا۔ جب کہ عین تحریر کا جواب ہے یہ تبصرہ۔
اور مجھے اس پر بھی حیرت ہے کہ یہ سوال کہاں سے پیدا ہو گیا؟
تحریر تو کچھ یوں کہتی ہے۔
ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ شاہدہ کے والدین کی کوتاہی تھی کہ وہ شاہدہ کی دلی کیفیت نہ جان سکے۔ اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ مال اور اولاد امتحان ہیں۔ لیکن یہ کوئی جرم نہیں اگر والدین اولاد کی کیفیت نہیں جان پائیں، ہر طرح کے والدین ہوتے ہیں، کچھ تو اپنے بچوں کی ایک ایک نفسیات کو سمجھتے ہیں اور کچھ بس بے پناہ پیار ہی پیار رکھتے ہیں اولاد کیلئے۔ کچھ پیار کے ساتھ ساتھ ڈانٹ ڈپٹ بھی کرتے ہیں۔ شاہدہ کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا کہ والدین کی جانب سے تو پیار میں کمی نہیں آئی مگر توجہ میں کچھ کمی ضرور آئی اور اس کی وجہ بیٹے کا ہونا نہیں۔ اگر بیٹی بھی ہوتی تو بھی توجہ میں ضرور کمی آتی کہ نومولود کو زیادہ وقت اور توجہ درکار ہوتی ہے۔ خود شاہدہ نے کونسا سمجھداری کا مظاہرہ کیا؟ یا اس کی دوست نے کب اس کی نفسیاتی گرہوں کو کھولنے کی کوشش کی۔ ایسے تو سب ہی قصوروار ہیں۔
یہاں میں اپنی مثال دیتا ہوں۔
بچپن میں میرے ایک پھوپھی زاد کزن کو (جو مجھ سے قریب چار سال چھوٹا ہے) CHEILOGNATHOSCHISIS یعنی پیدائشی طور پر کٹے ہونٹ کا مسئلہ تھا۔ وہ لوگ پنجاب کے شہر بہاولنگر میں رہتے تھے اور میری پھوپھی اس کے علاج معالجے کیلئے کراچی آتی تھیں۔ جب ہم اسکول و مدرسہ کی ابتدائی جماعتوں میں تھے تو ان دنوں وہ یہاں آیا ہوا تھا کیونکہ اس کے ہونٹ کا آپریشن تھا۔ ایک تو اس کا ننھیال اوپر سے وہ بیمار تو لازمی بات ہے کہ اس کی خاطر مدارت ہونی تھی، جبکہ ہم ٹھہرے دنیا بھر کے شرارتی، تو جب بھی ہم اس کو کسی بات پر رگڑا لگانے لگتے تو میری دادی مرحومہ میرے وہ لتے لیتیں کہ ہوش ٹھکانے آجاتے۔
اس کھلی طرفداری کے نتیجے میں میرے دل میں اس کیلئے نفرتیں بھر گئیں، اس پر مہر اس دن لگی جب ایک دن دوپہر کو سب کھانا کھانے بیٹھے تو اس نواب کے بچے کیلئے الگ سے دہی منگایا گیا اور چینی ڈال کر اس کو کھلائی گئی اور کھلانے والی کوئی اور نہیں میری اپنی سگی امی
میرے دل پر کیا گزری یہ میں ہی جانتا تھا لیکن دل میں تہیہ کر لیا کہ اس خبیث کو نہیں چھوڑوں گا۔ مجھے اس وقت کیا پتا تھا کہ اس امتیازی سلوک کی کیا وجہ تھی، مجھے بس اتنا پتا تھا کہ میرے معاملے میں اسے فوقیت دی جاتی تھی۔
یہ تو بہت بعد میں جب شعور آنے لگا تو احساس ہوا کہ کیا معاملہ تھا، لکن کچھ کچھ کسک آج بھی ہے۔
تو بی بی یہ سب شاید ایسے ہی ہونا تھا۔ ایک دفعہ پھر کہوں گا کہ ویسے تو قصوروار کوئی نہیں یا پھر ہم سب ہی کسی نہ کسی طور زمہ دار ہیں۔