نور وجدان
لائبریرین
کارل یُنگ
جی بجا فرمایا ہے. میں آپ سے اس سے زیادہ اضافے کی امید رکھتی ہوں. آپ بھی اپنے علم سے روشن کر دیتے. ہم بھی آپ کے خیال سے نئ راہ پکڑ لیتے .. شکریہ بھائی درست کرنے کا.
کارل یُنگ
علم میں اضافہ ہوا۔۔۔
کارل ینگ کے نظریے کی مطابقت ہمارے معاشرے سے زیادہ ہے۔۔۔۔۔
اور جو آپ نے پہلے ایک پلے کا ذکر کِیا ۔۔۔ کیا یہ وہی ہے جو نصاب میں شامل ہے؟ مجھے سُنا سُنا لگ رہا ہے۔۔۔۔
اوہ ہاں۔۔۔۔۔مریم.بہنا..یہ وہی ڈارمہ ہے اور اس کو ہندی ورژن میں حیدر مووی میں دیکھ لو
بجا فرمایا۔۔۔آپ کیسے سمجھتی ہو اسلامیات نفسیات کی کنٹرول کے لیے ہے۔ اسلام کی جانب شوق رکھنا اور بات ہے اور خود کو مطیع رکھنا اور بات ہے ۔۔مطیع ہونے کا شوق اور بات ہے جبکہ مجبور ہو کے مطیع ہونا اور بات ہے
آپی جان آنکھوں سے آنسو جاری ہیں۔ ہاتھ لرز رہے ہیں۔ پھوٹ پھوٹ کر ماتم کرنے کا دل کر رہا ہے۔مگر آج جب کوئلہ بنی شاہدہ کو کفن میں دیکھا تو میں اپنی دلخراش چیخ ضبط نہ کر پائی...جی ہاں! میں وہی سعدیہ ہوں , شاہدہ کی سہیلی....
کل رات اک طوفان باد باراں میں گِرنے والی بجلی کی زَد میں آتے شاہدہ کا گھر محفوظ نہیں رہ پایا. اس کی والدہ نانا کے گھر اور شہزاد اور ابّا کسی میچ کے سلسلے میں گھر سے باہر تھے ۔ جب وہ حساس رُوح اپنے جسدِ خاکی سے نجات پاگئی اور اسکا کوئلہ بنا جسم سب کی توجّہ کا "مرکز" بن گیا. جی ہاں! "مرکز".
جو تمام عمر مرکز نہیں بن پاتے , انہیں موت یہ موقع فراہم کرتی ہے.... لیکن ہمارے اردگرد موجُود مگر قلبی طور پر کوسوں دُور موجُود اِن پیاروں کو کیا معلُوم..
توجہ سب کا حق بھی ہے اور ضرورت بھی۔دراصل ہمارے ہاں والدین پتا نہیں کیوں بیٹے کو بیٹی پر فوقیت دیتے ہیں... اسلیے معاشرے میں برداشت کا توازن بگڑ رہا ہے.. لیکن پھر بھی گھر والوں کی توجہ کا نعم البدل کوئی باہر والا نہیں ہوسکتا..
خاص طور سے ایسی صورت حال لڑکیوں کے لیے بہت خطرناک ہوتی ہے... اللہ سب کو محفوظ رکھے
جس معاشرے میں بیٹی کو قران سے بیاہ سے بیاہ دینا ۔ اپنے خاندانی مفاد کی بھینٹ چڑھا دینا عام ہو۔
بیٹی کو اپنی زندگی کے تمام دکھ " رضائے الہی " مانتے سر جھکا زندگی گزارنا کی نصیحتیں بچپن سے دینا تاکہ یہ " حق " کی آواز بلند ہی نہ کرسکے ۔ اس معاشرے میں بیٹی اکثر ہی اس کرب و بلا سے گزرتی ہے
آنسو" شاہدہ کیا چاہتی تھی " صرف یہی کہ اسے بھی اسی پیار کی نگاہ سے دیکھا جائے اسے بھی وہی توجہ ملے جو اس کے " بھائی " کو ملتی ہے ۔اس کی یہی سوچ اسے زندگی کے دکھوں کی تلخی میں ڈبوتی گئی ۔
شکریہ بھیا آپ نے تحریر کا پیغام بہترین طریقے سے سمجھا بھی اور سمجھایا بھی۔موضوع پر نور بہن، راحیل بھائی، نایاب بھائی و دیگر نے بڑی تفصیل سے بات رکھ دی ہے. میری طرف سے صرف اتنا ہی کہ جب بھی کوئی معاشرتی یا کسی بھی قسم کا مسئلہ سامنے آتا ہے تو اپنے آپ سے پہلا سوال کرتا ہوں. کیا یہ مسئلہ میرے اندر تو موجود نہیں؟
اگر کسی بھی درجے میں ہے تو اس برائی کو اپنے اندر سے نکالوں.
اس کے بعد اپنے آس پاس جن لوگوں تک اس پیغام کو پہنچا سکتا ہوں، ان تک پہنچاؤں.
کسی بھی معاشرتی برائی کے ختم ہونے میں اور اچھائی کے پھیلنے میں "میرا" کردار بہت اہم ہے.
جو لکھ کر یہ پیغام پھیلانے کی صلاحیت رکھتا ہے وہ اس موضوع پر لکھے. جو بول کر بہتر ابلاغ کر سکتا ہے وہ اس موضوع پر بولے. اپنی اپنی استطاعت اور صلاحیت کے مطابق اپنا کردار ادا کریں گے تو ان شاء اللہ ایک دن ضرور اجالا ہو گا.
اللہ تعالٰی ہمیں اپنے آپ کو اور معاشرے کو بہتر کرنے کی کوشش کی توفیق عطا فرمائے. آمین
گھر والے توجہ اس لیے نہیں دیتے کہ انہیں لگتا ہے کہ بچوں کے اپنے کوئی احساسات نہیں ہوتے بس جو ان کو کہہ دیا وہ انہیں مان لینا چاہیئے اور بس۔۔۔گھر والے توجہ کیوں نہیں دیتے ۔ یہ ایک اہم مسئلہ ہے اور گھر کی تخریب معاشرے کی تخریب میں شمار ہوجاتی ہے
مجھے صرف تعلیم کی کمی نظر آتی ہے اس سب کی وجہ۔ کیونکہ جب تک ہماری سوچ تعلیم یافتہ نہیں ہو گی اس وقت تک ہم انسان کے احساسات اور جذبات کو نظر انداز کر کے سطحی چیزیں ہی دیکھتے رہیں گے۔آپ نے سبب سانحہ کی توضیح کرتے اس کے سد باب کا کہا ہے ۔ اس کے زیر اثر بہت خوب جواب کہا ہے ۔ والدین ایسا کیوں کرتے ہیںِ؟ کیا ایک ماں جان کے یہ رویہ برتتی ہے ؟ یا وہ ایک سربراہ کے آگے مجبور ہوتی ہے ؟ یا ایک عورت دوسری عورت کو نظر انداز کرتی ہے یعنی بیٹی اور ماں ۔۔۔۔۔۔دونوں ۔۔۔۔۔۔۔ کیا اس کے پیچھے نفیسات کی کوئی گرہ ہے ؟ ماں کس اثر کے لحاظ سے بیٹے کو تر جیح دیتی ہے ؟ اور باپ کس نفیسات کے اثر بیٹے کو ترجیح دیتا اور بیٹی کو اگنور کرتا ہے ؟ یہاں پر فرائیڈن تھیوری ہے یا کارل جنگ کی روحانیت کی جانب پھرتی کوئی فلاسفی ؟
تعلیم کی نہیں بلکہ علم کی کمی ۔۔۔۔۔مجھے صرف تعلیم کی کمی نظر آتی ہے اس سب کی وجہ۔ کیونکہ جب تک ہماری سوچ تعلیم یافتہ نہیں ہو گی اس وقت تک ہم انسان کے احساسات اور جذبات کو نظر انداز کر کے سطحی چیزیں ہی دیکھتے رہیں گے۔
صرف والدین کو اس کا ذمہ دار ٹھہرانا نادانی ہے ۔ میں بحیثیت " فرد " جس معاشرے کو قائم کیئے ہوئے ہوں ۔ وہ معاشرہ " صنفی تفریق " بارے میری ہی سوچ اور عمل کو اپناتے مجموعی طور پر اس کا ذمہ دار ہے۔ ہم بیٹوں کو ترجیح دیتے ہیں ۔ بیٹیوں کو زندہ تو نہیں گاڑتے بلکہ دنیا میں آنے سے پہلے ہی بنا گلا گھونٹے مار دیتے ہیں ۔
صنفی تفریق پر مبنی تعصب اور تشدد کچھ یوں ہمارے اندر راسخ ہو چکا ہے کہ ہم اس کو محسوس بھی نہیں کرتے ۔ اور بیک جنبش قلم و زبان اسے اللہ کی رضا کی جانب پھیر رکھتے ہیں ۔۔۔ بیٹا اک مرد اور مرد کی برتری کو کلام الہی سے ثابت کر دیتے ہیں ۔ بیٹی پر بیٹے کو، بہن پر بھائی کو، بیوی پر خاوند کو فوقیت دیتے ہیں اور " مرد " کی برتری کا یہ سبق ہم روز اپنے بچوں کو پڑھاتے، سکھاتے اور دکھاتے ہیں۔ بیٹیوں، بہنوں، بیویوں اور ماؤں کی ضروریات اور تمنائیں والد، بھائی، خاوند اور بیٹوں پر قربان کی جاتی ہیں۔اور انہیں ایثار و قربانی کا نام دیا جاتا ہے ۔
بیٹا جسے آزمائیش قرار دیا گیا ہے اسے بیٹی پر جسے رحمت فرمایا گیا ہے یہ کہتے فوقیت دی جاتی ہے ۔ کہ بیٹی تو بوجھ ہے اس نے بڑی ہو کر اگلے گھر جانا ہے ۔ اسے خدمت کرنا سیکھ لینا چاہیئے ۔ اس نے کونسا یہاں رہنا ہے ۔ اور یہ بیٹیاں بھی عجب صابر کہ بچا کچھا کھا پی کر نہ صرف گھر کو جھاڑو دیتے کھانا تیار کرتے برتن دھوتے کپڑے دھوتے اور گھر کی صفائی ستھرائی وغیرہ بلکہ گھر سے باہر کے بھی کام خاص طور پر دیہات میں مال مویشیوں کی دیکھ بال کھیتوں میں کام کرتی ہے ۔ غرض عورت ہر وقت خدمت میں مصروف رہتے ہوئے بھی آفرین بھرے حوصلہ افزائی بھرے صلہ سے محروم ہی رہتی ہے ۔ ، نہ لاڈ نہ پیار بس اک بے حس خدمتگار وجود ۔۔۔۔۔۔۔۔ جبکہ بیٹا بھائی شوہر باپ شہزادے ۔ جو بس حکم چلانے کے عادی ۔۔۔۔۔!!!
یہی بیٹی شادی کے بعد بیوی بن اپنی زندگی اپنے سرتاج کے حوالے کرتے اس کے ساتھ ہر دکھ سکھ غمی خوشی ہر مشکل برداشت کرتی ہے ۔ اور بہت کم پاؤں کی جوتی سے زیادہ وقعت پاتی ہے ۔
یہی بیٹی جب اپنے بیٹے کی ماں بنتی ہے تو اپنی آخری سانس تک بیٹے کی آرام دہ زندگی کے لیے کوشاں رہتی ہے ۔
ستم ظریفی اور کڑوی حقیقت یہ بھی ہے کہ
یہ ماں جو کبھی خود بیٹی تھی وہ غیر شعوری طور پر معاشرے کی اقتدا کرتے اپنے بیٹے کو بیٹی کی نسبت زیادہ اہمیت دیتی ہے ۔ بیٹی کو سدا سر جھکانے اور زیادتی برداشت کرنے کی نصیحت میں مصروف رہتی ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ دنیا کی آبادی کا اکیاون فیصد ہوتے بھی اقلیت قرار پاتی ہے ۔
کیسا عجب معاشرتی رویہ ہے کہ بیٹا یونیورسٹی جاتا ہو تو بن ٹھن بنا کسی نصیحت کے ۔۔اور بیٹی جائے تو ماں پاوَں میں دوپٹے رکھتی ہے کہ ہماری عزت تمہارے ہاتھ میں ہے۔ باپ الگ سے بلا کر سمجھا رہا ہوتاہے کہ بیٹا اپنی پگڑی تمہارے حوالے کر رہاہوں اب اسکی حفاظت کرنا تمہار ا کام ہے۔ بھائی جو چند لمحے پہلے باہر بازار میں کسی کی ماں بہن کو چھیڑ کر آرہا ہوتا ہے، گلوگیر لہجے میں کہتاہے بہن ہمارا سر نہ جھکا دینا۔
یہ انتہائی شرمناک رویہ ہے کہ مرد اپنی بہن ، بیوی اور بیٹی کو ہر وقت شک کی نگاہ سے دیکھتاہے اور اس کو پردے میں رکھنے کےلیے ہر ممکن جتن کرتاہے۔۔ کیونکہ اس کو لگتا ہے کہ یہ گھر سے باہر دوسرے مرد کی بانہوں میں سمانے کےلیے جاتی ہے۔۔
اس لیئے اس پر بے حد و حساب پابندیاں لگائی جاتی ہیں ۔ اور اسی جبر کے باعث کچھ بچیاں اپنی تلخ کیفیات میں الجھ سرکش ہوتے اپنے لیئے آسانیاں تلاش کر لیتی ہیں ۔ جہاں ان کو بنا کسی جبر کے بنا روک ٹوک پیار محبت خلوص مل سکے ۔۔۔۔
ذرا توجہ سے معاشرے میں بیٹی بارے غور کیا جائے تو مجموعی تاثر یہی سامنے آئے گا کہ عورت ناقص العقل اور ناقص العقیدہ یا فتنہ ہے۔ باقی ضروریاتِ زندگی کی طرح عورت استعمال کی معمولی چیز ہے۔ یا “شوگر کوٹڈ” بیان مقصود ہو تو عورت ایک قیمتی زیور جسے سنبھال کر رکھنا ضروری ہے۔ یا مٹھائی کا ٹکڑا جسےلپیٹ کر رکھنا مکھیوں سے محفوظ رکھنے کا آخری حربہ ہے۔
اور اس تاثر کو تقویت دینے میں والدین سمیت ہم سب شامل ہوتے ہیں
محترم بٹیا رانی میں ان تھیوریز بارے لا علم ہوں ۔ کوشش کروں گا کہ کہیں سے اردو میں ان کی تلخیص مل جائے اور میں سمجھ سکوں ۔۔۔۔
یہ ضرور پڑھا ہے کہ " بیٹا ماں کو پیارا اور بیٹی باپ کو بہت پیاری ہوتی ہے ۔ اور بلوغت کے بعد ان کے درمیان اک غیر محسوس جھجھک اور فاصلہ جنم لے لیتا ہے ۔ اور نفسیاتی طور پر بیٹا بیٹی متاثر ہو جاتے ہیں ۔ اور اپنی اپنی کیفیات کو بلا جھجھک بیان کرنے واسطے کوئی ساتھی تلاش لیتے ہیں ۔ اور یہ ساتھی ان کا وقتی سہارا بنتے کبھی کبھی ایسا بھی عمل کر جاتا ہے کہ زندگیاں ہی برباد ہو جاتی ہیں ۔ ۔کچھ اس عمل سے شدید دکھ پاتے روحانیت میں پناہ تلاشتے ہیں ، اور خوابوں میں سکون پاتے ہیں ۔
بہت دعائیں
حیرت ہے کہ آپ ایڈووکیٹ بھی ہیں اور آگیومینٹس سے بھی ڈرتے ہیں۔۔۔ حالانکہ آپ کو اس لڑی میں زیادہ سے زیادہ بات کرنی اور سننی چاہیئے۔That's why I am an advocate of gender equality. (commenting in urdu may lead to some unnecessary arguments)
پانی اور پیار میں فرق کیجیےتوجہ سب کا حق بھی ہے اور ضرورت بھی۔
مجھے بتائیے کہ اگر آپ کو پینے کے لیے پانی کی ضرورت ہو اور گھر پر پانی نہ ملے تو کیا آپ گھر سے باہر تلاش نہیں کریں گے؟؟؟؟
بہنا علم کو عمل میں نہ ڈھالا تو سوچ کیسے تعلیم یافتہ ہو سکتی ہے؟؟؟؟تعلیم کی نہیں بلکہ علم کی کمی ۔۔۔۔۔
علمِ نافع و عملِ صالح
بھائی میرے جیسے پانی نہ ملنے پر جسم کی موت ہوتے ہے ویسے ہی توجہ اور پیار نہ ملنے پر احساسات وجذبات کی بھی موت ہوتی ہے۔ اور لوگ ایسے شخص کو بے حس کہنے لگتے ہیں۔ یا پھر ڈھیٹ (شزہ)پانی اور پیار میں فرق کیجیے
آپ کی بات سے متفق ہوں مگر جس فرق کی بات کی ہے اس پہ بھی غور کریں
آپ پیار کا ایک ہی مطلب لے رہے ہیں شایدپانی اور پیار میں فرق کیجیے
آپ کی بات سے متفق ہوں مگر جس فرق کی بات کی ہے اس پہ بھی غور کریں
کیا فائدہ؟نور سعدیہ شیخ آپی شکریہ شاہدہ کی آواز اٹھانے کا۔