سید انور محمود
محفلین
تاریخ : 27 اپریل 2013
از طرف: سید انور محمود
لگ تو یہ ہی رہا ہےکہ اس ملک کا اگلاوزیراعظم طالبان کا ہی ہوگا۔ اور یہ بات سمجھنے کے لیے تھوڑئے عرصئے پہلے طالبان کی امن مذاکرات کی پیشکش پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔میں نے اپنے ایک مضمون "طالبان دہشتگردوں کے پیٹی بند بھائی " میں لکھا تھا کہ
"ایک ایسے وقت جب پاکستان میں الیکشن ہونے جارہے ہیں اچانک طالبان دہشتگردوں کی طرف سے حکومت سے مذاکرات کی مشروط پیش کش کی گئی تھی جس میں انہوں نے پاکستانی فوج پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے میاں نواز شریف، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور امیر جماعت اسلامی منور حسن کی مذاکرات سے متعلق ضمانت مانگی تھی۔ دہشتگردوں کے ترجمان احسان اللہ احسان نے کہا کہ متحدہ قومی موومنٹ کیخلاف کارروائیاں مزید تیز کردی جائیں گی یعنی ابھی دہشت گرد کراچی کے عام لوگوں پر اور ظلم کرینگے۔ حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں مسلم لیگ (ن)، جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام (ف) کو ضامن بنانے کے اعلان کے بعد تینوں جماعتوں کے رہنماوں کے نمائندہ وفد کو قبائلی علاقوں کے دورہ کی دعوت بھی دی ہے۔"
پاکستان کی تقریبا تمام سیاسی جماعتیں یہ کہہ رہی تھیں کہ مذکرات ہونے چاہیں مگر پیپلز پارٹی کی حکومت کا وقت ختم ہوچکاہے۔ میاں نواز شریف نے تو چپ سادھ لی مگر مولانہ فضل الرحمان اورجماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن بہت پرجوش تھے۔ اے این پی نے پہلے آل پارٹی کانفرنس بلائی جس میں جماعت اسلامی نے شرکت نہیں کی مگر تھوڑئے دن بعد ہی مولانہ فضل الرحمان کی آل پارٹی کانفرنس میں جماعت اسلامی موجود تھی۔ مگر دونوں کانفرنس بے نتیجہ ثابت ہویں۔ بعد میں منور حسن نے حکومت کو کہا کہ وہ فورا مذاکرات کرے اور طالبان کو ایک ٹی وی انٹرویو میں سلام بھی پیش کیا۔
طالبان کے مذاکرات پیش کرنے کے پیچھے اصل بات یہ تھی کہ وہ پاکستان میں کس کی حکومت چاہتے ہیں۔ مگر بات اسطرح بھی پوری ہوتی نظر نہیں آتی تھی لہذا پاکستان کی تین بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی ، اے این پی اور ایم کیو ایم کو دھمکی دی گی کہ اگر وہ انتخابی سرگرمیوں میں حصہ لینگے تو اُن کے جلسے اور جلسوں پر حملے کیے جاینگے۔ اور اب عملا ایسا ہوبھی رہا ہے۔خیبر پختوخواہ میں اے این پی پر تقربنا سولہ حملے ہوچکے ہیں اور اسکے کافی کارکن مرچکے ہیں، کراچی میں بھی اے این پی ایک ہی دن میں دو مرتبہ دہشت گردی کا شکار ہوئی، اسکے الیکشن آفس پر ایک بڑا دہشت گردی کا واقعہ ہوا ہے جس میں 9 افراد کی ہلاکت اور 55 سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔ ایم کیوایم کے خلاف دہشت گردوں نےپہلے حیدرآباد میں اسکے صوبائی امیدوار کو مارا اور اسکے بعد تین دن میں ایم کیو ایم کے دو الیکشن آفس پر دہشت گردی کی گی جس میں 11 افراد ہلاک ہوئے،سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ تھی کہ ناحق مرنے والوں میں 3 سگے بھائی بھی شامل ہیں۔ پیپلز پارٹی تو اپنی پانچ سالہ بدترین کارکردگی پر پہلے ہی برئے حالات کا شکار تھی، اس دھمکی کے بعد وہ سرئے سے غائب ہوگی ہے اور اسکی کوئی سیاسی سرگرمی بظاہر نظر نہیں آتی۔ اے این پی اور ایم کیو ایم اپنی انتخابی مہم معطل کرچکی ہیں۔ جہاں تک مسلم لیگ ن کےصوبائی صدر پر بلوچستان میں ہونے والے حملے کا تعلق ہے تو اسکا طالبانی دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے اسکا تعلق سرداروں کی آپس کے اختلافات ہیں۔
اگر آپ روزانہ خبریں دیکھتے ہیں تو الیکشن کے سلسلے کی خبروں کا تعلق صرف اور صرف پنجاب سے ہے۔ باقی تین صوبوں میں حالات یہ ہیں کہ جیسے ان صوبوں میں الیکشن ہی نہیں ہورہے ہیں۔ صوبہ خیبر پختوخواہ میں آپکو جماعت اسلامی اور جے یو آئی ف کا ذکر مل جائے گا۔صوبہ پنجاب میں بھی آپکو صرف دو جماعتیں ہی عملانظر آینگی، ایک مسلم لیگ ن اور دوسری عمران خان کی پی ٹی آئی۔ ان دونوں جماعتوں کے سربراہ نواز شریف اور عمران خان پنجاب میں اپنی انتخابی مہم ایسے چلارہے ہیں جیسے صرف اگر وہ پنجاب سے جیت گے تو باقی صوبے خودبخود انکی محاتحتی میں آجاینگے۔ دہشت گردی کے مسلسل ہونے والے واقعات پر یہ دونوں رہنما ایسے بے حس بنے ہوئے ہیں جیسے دہشت گردی انکے ملک میں نہیں کسی اور ملک میں ہورہی ہے، نہ ہی نواز شریف اور نہ ہی عمران خان دہشت گردی کی مذمت کررہے ہی بلکہ اس کا ذکر ان کی تقریروں میں سرئے سے ہے ہی نہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کی تمام جماعتیں سر جوڑ کر بیٹھیں اور اس مشترکہ دشمن کے سلسلے میں کم از کم ایک رائے قائم کریں ورنہ اس ملک کا کیا انجام ہوگا وہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ نگراں حکومت سے کوئی امید رکھنا بیکار ہوگا وہ اپنے حلوئے مانڈئے میں مصروف ہے۔
اگر حالات اس طرح ہی رہے اور ملک کے تین صوبے الیکشن سے دور رہے، تین بڑی سیاسی جماعتوں کو دہشت گردی کے زریعے الیکشن سے دور رکھا گیا تو پھر نواز شریف جیتیں یاعمران خان اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان حالات میں یہ ہی کہا جاسکتا ہے کہ آنے والی حکومت اور وزیراعظم الیکشن سے نہیں طالبان دہشت گردوں کے سلیکشن سے آیں گے، چاہے اگلے وزیراعظم نواز شریف ہوں یا عمران خان، مولانہ فضل الرحمان ہوں یا سید منور حسن۔ تو پھر یہ سوال کرنا درست لگتا ہے کہ "کیا اگلا وزیراعظم طالبان کا ہوگا؟
از طرف: سید انور محمود
کیااگلا وزیراعظم طالبان کا ہوگا؟
لگ تو یہ ہی رہا ہےکہ اس ملک کا اگلاوزیراعظم طالبان کا ہی ہوگا۔ اور یہ بات سمجھنے کے لیے تھوڑئے عرصئے پہلے طالبان کی امن مذاکرات کی پیشکش پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔میں نے اپنے ایک مضمون "طالبان دہشتگردوں کے پیٹی بند بھائی " میں لکھا تھا کہ
"ایک ایسے وقت جب پاکستان میں الیکشن ہونے جارہے ہیں اچانک طالبان دہشتگردوں کی طرف سے حکومت سے مذاکرات کی مشروط پیش کش کی گئی تھی جس میں انہوں نے پاکستانی فوج پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے میاں نواز شریف، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور امیر جماعت اسلامی منور حسن کی مذاکرات سے متعلق ضمانت مانگی تھی۔ دہشتگردوں کے ترجمان احسان اللہ احسان نے کہا کہ متحدہ قومی موومنٹ کیخلاف کارروائیاں مزید تیز کردی جائیں گی یعنی ابھی دہشت گرد کراچی کے عام لوگوں پر اور ظلم کرینگے۔ حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں مسلم لیگ (ن)، جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام (ف) کو ضامن بنانے کے اعلان کے بعد تینوں جماعتوں کے رہنماوں کے نمائندہ وفد کو قبائلی علاقوں کے دورہ کی دعوت بھی دی ہے۔"
پاکستان کی تقریبا تمام سیاسی جماعتیں یہ کہہ رہی تھیں کہ مذکرات ہونے چاہیں مگر پیپلز پارٹی کی حکومت کا وقت ختم ہوچکاہے۔ میاں نواز شریف نے تو چپ سادھ لی مگر مولانہ فضل الرحمان اورجماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن بہت پرجوش تھے۔ اے این پی نے پہلے آل پارٹی کانفرنس بلائی جس میں جماعت اسلامی نے شرکت نہیں کی مگر تھوڑئے دن بعد ہی مولانہ فضل الرحمان کی آل پارٹی کانفرنس میں جماعت اسلامی موجود تھی۔ مگر دونوں کانفرنس بے نتیجہ ثابت ہویں۔ بعد میں منور حسن نے حکومت کو کہا کہ وہ فورا مذاکرات کرے اور طالبان کو ایک ٹی وی انٹرویو میں سلام بھی پیش کیا۔
طالبان کے مذاکرات پیش کرنے کے پیچھے اصل بات یہ تھی کہ وہ پاکستان میں کس کی حکومت چاہتے ہیں۔ مگر بات اسطرح بھی پوری ہوتی نظر نہیں آتی تھی لہذا پاکستان کی تین بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی ، اے این پی اور ایم کیو ایم کو دھمکی دی گی کہ اگر وہ انتخابی سرگرمیوں میں حصہ لینگے تو اُن کے جلسے اور جلسوں پر حملے کیے جاینگے۔ اور اب عملا ایسا ہوبھی رہا ہے۔خیبر پختوخواہ میں اے این پی پر تقربنا سولہ حملے ہوچکے ہیں اور اسکے کافی کارکن مرچکے ہیں، کراچی میں بھی اے این پی ایک ہی دن میں دو مرتبہ دہشت گردی کا شکار ہوئی، اسکے الیکشن آفس پر ایک بڑا دہشت گردی کا واقعہ ہوا ہے جس میں 9 افراد کی ہلاکت اور 55 سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔ ایم کیوایم کے خلاف دہشت گردوں نےپہلے حیدرآباد میں اسکے صوبائی امیدوار کو مارا اور اسکے بعد تین دن میں ایم کیو ایم کے دو الیکشن آفس پر دہشت گردی کی گی جس میں 11 افراد ہلاک ہوئے،سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ تھی کہ ناحق مرنے والوں میں 3 سگے بھائی بھی شامل ہیں۔ پیپلز پارٹی تو اپنی پانچ سالہ بدترین کارکردگی پر پہلے ہی برئے حالات کا شکار تھی، اس دھمکی کے بعد وہ سرئے سے غائب ہوگی ہے اور اسکی کوئی سیاسی سرگرمی بظاہر نظر نہیں آتی۔ اے این پی اور ایم کیو ایم اپنی انتخابی مہم معطل کرچکی ہیں۔ جہاں تک مسلم لیگ ن کےصوبائی صدر پر بلوچستان میں ہونے والے حملے کا تعلق ہے تو اسکا طالبانی دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے اسکا تعلق سرداروں کی آپس کے اختلافات ہیں۔
اگر آپ روزانہ خبریں دیکھتے ہیں تو الیکشن کے سلسلے کی خبروں کا تعلق صرف اور صرف پنجاب سے ہے۔ باقی تین صوبوں میں حالات یہ ہیں کہ جیسے ان صوبوں میں الیکشن ہی نہیں ہورہے ہیں۔ صوبہ خیبر پختوخواہ میں آپکو جماعت اسلامی اور جے یو آئی ف کا ذکر مل جائے گا۔صوبہ پنجاب میں بھی آپکو صرف دو جماعتیں ہی عملانظر آینگی، ایک مسلم لیگ ن اور دوسری عمران خان کی پی ٹی آئی۔ ان دونوں جماعتوں کے سربراہ نواز شریف اور عمران خان پنجاب میں اپنی انتخابی مہم ایسے چلارہے ہیں جیسے صرف اگر وہ پنجاب سے جیت گے تو باقی صوبے خودبخود انکی محاتحتی میں آجاینگے۔ دہشت گردی کے مسلسل ہونے والے واقعات پر یہ دونوں رہنما ایسے بے حس بنے ہوئے ہیں جیسے دہشت گردی انکے ملک میں نہیں کسی اور ملک میں ہورہی ہے، نہ ہی نواز شریف اور نہ ہی عمران خان دہشت گردی کی مذمت کررہے ہی بلکہ اس کا ذکر ان کی تقریروں میں سرئے سے ہے ہی نہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کی تمام جماعتیں سر جوڑ کر بیٹھیں اور اس مشترکہ دشمن کے سلسلے میں کم از کم ایک رائے قائم کریں ورنہ اس ملک کا کیا انجام ہوگا وہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ نگراں حکومت سے کوئی امید رکھنا بیکار ہوگا وہ اپنے حلوئے مانڈئے میں مصروف ہے۔
اگر حالات اس طرح ہی رہے اور ملک کے تین صوبے الیکشن سے دور رہے، تین بڑی سیاسی جماعتوں کو دہشت گردی کے زریعے الیکشن سے دور رکھا گیا تو پھر نواز شریف جیتیں یاعمران خان اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان حالات میں یہ ہی کہا جاسکتا ہے کہ آنے والی حکومت اور وزیراعظم الیکشن سے نہیں طالبان دہشت گردوں کے سلیکشن سے آیں گے، چاہے اگلے وزیراعظم نواز شریف ہوں یا عمران خان، مولانہ فضل الرحمان ہوں یا سید منور حسن۔ تو پھر یہ سوال کرنا درست لگتا ہے کہ "کیا اگلا وزیراعظم طالبان کا ہوگا؟