یہ بات میرے ساتھ تو بہت کم ہوئی ہے البتہ میں نے یہ کام بہت کیا ہے
اگر آدھی رات کو فون آئے تو پریشانی لگ جاتی ہے کہ اللہ خیر کرے پاکستان میں سب ٹھیک ٹھاک ہو ورنہ بے وقت ویسے کوئی فون نہیں کرتا۔ اگر کرے بھی تو نیند سے بھری آواز سن کر اسے احساس ہو جاتا ہے کہ میں سو رہی تھی اس کے معزرت کرنے پر اگر میرا موڈ ہو اور کوئی اپنا تو میں بات کر لیتی ہوں ورنہ اچھا ٹھیک ہے اٹھنے کے بعد فون کرونگی کہ کر فون بند کر دیتی ہوں۔
پہلے بڑا ارام تھا کہ فون پر نمبر ڈسپلے نہیں ہوتا تھا ورنہ میں نیند سے بھری آواز سن کر فون بند کر دیتی تھی پر اب نمبر ڈسپلے ہوتا ہے اس لیے مجبوراً بات کرنی پڑتی ہے۔ ایک دفعہ میں نے فون کیا تھا بابا اور بھائی کو انکی نیند والی آواز سن کر فون بند کر دیا پر ان معصوموں نے پھر رنگ بیک کر کے پوچھا کہ خیریت فون کیوں کیا تھا لگتا ہے کہ کٹ گیا تھا
میرا بھائی کینڈا میں رہتا ہے اور مجھے اکثر اسکا اور اپنا ٹائم ڈیفرینس بھول جاتا ہے اکثر اسے میں نیند سے جگا دیتی ہوں بے چارا کافی ٹائم سے برداشت کرتا رہا آخر ایک دن میرے پوچھنے پر کہ کیا تم سو رہے ہو تو اسکا تپا ہوا جواب ملا کہ رات کے دو بجے ہر شریف آدمی سو رہا ہوتا ہے غالباً
میں نے بھی اگے سے ڈھٹائی کے سارے ریکارڈ توڑتے ہوئے کہا کہ ہاں میں نے اس وقت فون یہی چیک کرنے کے لیے کیا تھا کہ تمھارا شمار کس طرح کے لوگوں میں ہوتا ہے
تھوڑی دیر تھ وہاں سناٹا رہا جس پر مجھے سو فیصد پتہ ہے کہ اس نے مجھے دل میں زبردست قسم کی صلواتیں سنائی ہونگی
پھر ایک دفعہ اسی بھائی کا مجھے فون آیا رات کے وقت میرے ہیلو کہنے پر پوچھنے لگا کہ تم ابھی تک سوئی نہیں جس پر میرا جواب تھا کہ اگر تمھیں پتہ تھا کہ یہ سونے کا وقت ہے تو پھر فون کیوں کیا جس پر بھائی نے کہا کہ بس کچھ پرانے حساب اور بدلے چکانے تھے اس لیے