کیا آپ پکے مسلمان ہیں؟

میری ناقص معلومات کے مطابق ہم میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا تھا کہ اسے دنیا میں بھیجا جائے اور اگر بھجوانا ہی مقصود ہے تو کم سے کم ہم سے رائے تو لی جائے کہ یہ فلاں شخص تمہارے باپ کی حیثیت سے ٹھیک رہے گا یہ فلاں عورت تمہاری ماں کی حیثیت سے ٹھیک رہے گئی یہ بہت نیک ہے خوبصورت ہے... معاذاللہ میں کوئی شکوہ نہیں کر رہی یہ تو ایک سوچ ہے اگر ہم سب کو اختیار دیا جاتا کہ تم کس کے گھر پیدا ہونا چاہتی ہو یاں چاہتے ہو تو جناب میرا نہیں خیال کہ کوئی غریب صاحبِ اولاد ہوتا لیکن غریب ہوتا ہی کون وہ تو پہلے ہی کسی بادشاہ کے یاں کسی امیر کے گھر پیدا ہو کے زندگی کے سکھ لے رہا ہوتا
یہ تو خداوند تعالٰی کا قائم کردہ نظام ہے اللہ کے ہر فیصلے میں کوئی نا کوئی مصلحت ہوتی ہے جو ہمیں سمجھ نہیں آتی..
پاک و ہند میں بچے کی پیدائش ہوئی تو باپ کو فکر لگ جاتی ہے کہ بچے کے کان میں اذان دینی ہے اگر تو باپ تھوڑی بہت دینی تعلیم رکھتا ہو گا تو خود سے کوشش کرتا ہے نہیں تو کسی مولانا بفضلِ اولانہ کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں تاکہ بچے کو باور کرایا جائے کہ وہ مسلمان کے گھرانے میں پیدا ہوا ہے میرا نہیں خیال کہ اتنے چھوٹے بچے پر اذان کی آواز کا کوئی اثر ہوتا ہو گا اب تو بڑے لوگوں پر بھی اذان کا اثر ہوتا وہ تو بچہ ہے.
مجھے کو چھ سال ہوگئے ہیں خلیج میں سکونت اختیار کئے ہوئے جس بلڈنگ میں ہم رہتے ہیں ہمارے ساتھ والے اپارٹمنٹ میں ایک مصری نزد خاتون ہیں لگ بگ میری ہی عمر کی تعلیم یافتہ ہے اور انگلش بھی کافی اچھی بول لیتی ہے وہ اکثر ہمارے گھر آجاتی ہے میں نے اس سے پوچھا کہ مصر میں جب کوئی بچہ پیدا ہوتا تو کیا اس کے کان میں اذان دی جاتی ہے تو اس بڑے عجیب سے انداز میں میری طرف دیکھا نہیں میں سر ہلاتے ہوئے پوچھا کیا پاکستان میں ایسا ہوتا ہے میں نے ہاں میں سر ہلا دیا اس نے مجھے بتایا کے نبی کریم ص کے زمانے میں یاں صحابہ کرام رضی اللہ کے زمانے میں کسی کے عمل سے یہ ثابت نہیں... واللہ اعلم
بچہ تھوڑا بڑا ہوا تو فکر پڑ جاتی ہے کہ اب اس کو قرآن پاک کی تعلیم کے لیے مدرسے میں یاں مسجد میں داخل کروا دیا جاتا ہے جہاں جلالی سے چہرے والے قاری صاحب ا ب سے ابتداء کرواتے ہیں مانو نرم لہجہ یاں شائستگی تو قریب سے بھی نہیں گزری بچہ جو سبق رات کو اچھے سے ماں سے یاد کر کے سویا تھا صبح قاری صاحب کا جلالی چہرہ دیکھ کر بھول جاتا ہے تھوڑے دن اور گزرے جب قاری صاحب کو احساس ہو گیا اب یہ بچہ پکا ہو گیا ہے اور ماں باپ کو بچہ کا قرآن پاک ختم کرونا ہے تو سزا دینے کا طریقے بھی بدل گے کبھی بچے کی انگلیوں کےدرمیان میں پنسلیں رکھ کر آگے سے انگلیوں کو دبانے اور کبھی بچے کو کرسیی کی شکل میں کھڑے رہنے کو کہنا آئے دن بچے کی کمر پر بید کی چھڑی کے نشانات اور کبھی پانی والے پائپ کے نشان بچے کی کمر نہ ہوئی قاری صاحب کی تجربہ گا ہو گئی دیکھیں نشان پڑتا ہے کے نہیں اللہ اللہ کرتا بچہ قرآن پاک ختم کر لیتا ہے تو کہیں جا کر بچے کو سکون ملتا ہے..
میرا بات کرنے کا مقصد یہ نہیں کہ آپ بچے کو دینی تعلیم سے آراستہ نہ کریں لیکن اتنا ضرور کہوں گئی خدارا آپ بچے کی نگرانی بھی کریں اب وہ دور نہیں ہے ہم پرانے تکیہ نویسی طریقہ کار سے ہی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں آج کل تو موبائل آپس میں بھی قرآن پاک دستیاب ہیں ایک ایک آیت کو ترجمہ اور تجوید کے ساتھ جتنی مرتبہ مرضی سن سکتے ہیں...
اگر آپ کسی ایسی گلی میں رہائش پذیر ہیں جس میں الگ الگ مکتبہ فکر کی دو مسجدیں ہیں تو آپ پھر ایک کام کریں یاں تو وہ مکان بیچ کر بھاگ جائیں نہیں تو میرے جیسے پکے مسلمان بن جائیں جی جی پکے مسلمان جب ہفتے میں دوبار آپ کو وعظ سننے کو ملے وعظ کم اور ایک دوسرے پر الزام تراشیاں زیادہ تو آپ ہوگئے نا پکے مسلمان مجھ پر جمعرات کی رات اور سوموار کی رات بہت بھاری گزارتی تھی اگر کبھی سخت نید آ رہی ہوتی روئی کانوں میں ڈالنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا جب تک مسجد کے اسپیکر سے آواز آنا بند نہیں ہو جاتی اگر کوئی مہمان آ جائے خدانخواستہ انہی دنوں میں تو وہ بیچارہ بھی ساری رات جگراتے میں گزار دیتا ہے مجھے سب سے زیادہ مشکل امتحانات کے دنوں میں ہوتی تھی میں اپنا کپڑے وغیرہ اٹھا کر چاچا کے ہاں چلی جاتی تھی یقین مانیں آج بھی ان دنوں مکتبہ فکر کے علماء کرام کے اختلافات کے بارے میں سوچتی ہوں تو بہت چھوٹے چھوٹے اختلافات ہیں کوئی بولتا کہ بغیر ڈارھی کے نماز نہیں ہوتی دوسرا کہتا کہ ننگے سر نماز نہیں ہوتی خیر کس کی نماز قبول ہوتی ہے کس کی نہیں یہ تو اللہ کی ذات بہتر جانتا ہے ہم کون ہوتے ہیں کسی کو غلط کہنے والے.
عدنان مجھے اکثر بتاتے ہیں کہ آج انھوں نے مغرب کی جماعت کی امامت کروئی آج ظہر کی نماز کی نماز کی امامت کروئی میں بہت حیران ہوئی کہ آپ کی تو ڈاڑھی بھی نہیں ہے تو آپ کیسے جماعت کروا سکتے ہیں آپ نے تو اکثر پینٹ شرٹ پہنی ہوتی ہے تب مجھے بتایا کے یہاں پاکستان والا حساب نہیں ہے میں نے فٹ سے پوچھا کیا یہاں پاکستان والا اسلام نہیں ہے تو مجھے کہتے ہیں ہاں یہاں پاکستان والا سلام نہیں ہے ہاں البتہ پاکستان میں یہاں والا اسلام ہے لیکن فرقہ واریت میں بٹا ہوا یہاں کوئی دیوبندی مسلک نہیں ہے کوئی بریلوی مسلک نہیں ہے کوئی اھلِحدیث مسلک نہیں ہے سب مسلمان ہیں ایک ہی امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں چاہے کوئی بھی ہو کوئی آمین اونچی آواز میں کہتا ہے اور کوئی دیہمی آواز میں کوئی رفعدین کرتا ہے کوئی نہیں کرتا اس لیے یہاں سب مسلمان ہیں...
 

نور وجدان

لائبریرین
عدنان مجھے اکثر بتاتے ہیں کہ آج انھوں نے مغرب کی جماعت کی امامت کروئی آج ظہر کی نماز کی نماز کی امامت کروئی میں بہت حیران ہوئی کہ آپ کی تو ڈاڑھی بھی نہیں ہے تو آپ کیسے جماعت کروا سکتے ہیں آپ نے تو اکثر پینٹ شرٹ پہنی ہوتی ہے تب مجھے بتایا کے یہاں پاکستان والا حساب نہیں ہے میں نے فٹ سے پوچھا کیا یہاں پاکستان والا اسلام نہیں ہے تو مجھے کہتے ہیں ہاں یہاں پاکستان والا سلام نہیں ہے ہاں البتہ پاکستان میں یہاں والا اسلام ہے لیکن فرقہ واریت میں بٹا ہوا یہاں کوئی دیوبندی مسلک نہیں ہے کوئی بریلوی مسلک نہیں ہے کوئی اھلِحدیث مسلک نہیں ہے سب! مسلمان ہیں ایک ہی امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں چاہے کوئی بھی ہو کوئی آمین اونچی آواز میں کہتا ہے اور کوئی دیہمی آواز میں کوئی رفعدین کرتا ہے کوئی نہیں کرتا اس لیے یہاں سب مسلمان ہیں...
خوبصورت !
 
جہاں آذان دی جاوے وہاں شیطان بھاگ جاوے ہے ۔ بچے کے کان میں اذان لازم ہے
دوسرے اپنے میاں سے کہیں کہ داڑھی رکھ لیں۔ سنت ہے۔ ویسے شریعی طور پر تمام مبتدیوں کو نماز لوٹانا لازم ہے جن نے بھی ان کے پیچھے پڑھی ہے۔ ہمارے یہاں تو داڑھی والا شخص بھی موزے پر مسح کرکے نماز پڑھاتا ہے تو نمازی بھاگ جاویں ہیں
تیسرے رفع یدین کا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے ۔ بریلوی اور دیوبندی ایک ہی امام کو فالو کرتے ہیں ۔ البتہ اہلحدیث کوئی مسلک ہی نہیں ہے۔ یہاں خلیج میں فرقہ واریت اس لیے نہیں ہے کہ ایک فرقے والوں نے باقیوں کو مار مار کر بھگادیا ہے
پاکستان میں تمام ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ البتہ کچھ فرقے صرف شور کرتے ہیں کہ تعداد میں کم ہیں۔ کیا کریں
 
جہاں آذان دی جاوے وہاں شیطان بھاگ جاوے ہے ۔ بچے کے کان میں اذان لازم ہے
محترم خان صاحب میں کل جب یہ تحریر لکھ رہی تھی تو مجھے سو فیصد یقین تھا کہ کیسی نا کسی کے منہ سے بات ضرور سننے کو ملے گئی کہ اذان کی آواز سے ، اذان کے الفاظ سن کر شیطان دُور بھاگتا ہے ، لہذا بچہ شیطان کے شر اور وساوس سے بچ جاتا ہے. اور بھی بہت سےفلسفے استعمال کئیے جاتے ہیں جیسے بچے کی عمر لمبی ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ کسی بھی صاحبِ علم سے اس کی شرعی حیثیت پوچھ لیں تو آپ کو خود پتا چل جائے گا باقی آپ خود صاحبِ علم ہیں تھوڑی تحقیق کر لیں
دوسرے اپنے میاں سے کہیں کہ داڑھی رکھ لیں۔ سنت ہے۔ ویسے شریعی طور پر تمام مبتدیوں کو نماز لوٹانا لازم ہے جن نے بھی ان کے پیچھے پڑھی ہے۔ ہمارے یہاں تو داڑھی والا شخص بھی موزے پر مسح کرکے نماز پڑھاتا ہے تو نمازی بھاگ جاویں ہیں
محترم خان صاحب داڑھی رکھنا یاں نا رکھنا یہ تو میرے میاں کا فعِل ہے باقی یہاں پر تو تقریباً 85 فیصد لوگ بغیر داڑھی کے ہیں.
 
شرعی طور پر فرض نہیں ہے۔ البتہ بہتر ہے کہ آذان دیں
داڑھی بھی فرض نہیں ہے بلکہ سنت ہے۔ سنت پر عمل تو ہر سنی کرتا ہے ۔ ورنہ لوگ کہیں کہ سن سن کر سنی ہوا ہے بلکہ سن ہوگیاہے۔ اپ اپنے شوہر سے کہیں سنت پر عمل کرے۔ اللہ ہم سب کو سنت پر عمل کی توفیق دیوے
 
سپیکر کا بے تحاشہ استعمال اب پاکستان میں بهی تقریباً بند ہو چکا۔ اذان اور خطبہ جمتہ المبارک کے علاوہ سپیکر کا استعمال ممنوع قرار دیا گیا ہے اور اس پر عمل درآمد بهی ہورہا۔ حال ہی میں کچھ جگہوں پر سپیکر کا غیر ضروری استعمال کرنے پر پولیس نے ازخود مقدمہ درج کیا اور 2 کیسوں میں عدالت سے سزا بهی سنائی جا چکی۔
 

آوازِ دوست

محفلین
سپیکر کا بے تحاشہ استعمال اب پاکستان میں بهی تقریباً بند ہو چکا۔ اذان اور خطبہ جمتہ المبارک کے علاوہ سپیکر کا استعمال ممنوع قرار دیا گیا ہے اور اس پر عمل درآمد بهی ہورہا۔ حال ہی میں کچھ جگہوں پر سپیکر کا غیر ضروری استعمال کرنے پر پولیس نے ازخود مقدمہ درج کیا اور 2 کیسوں میں عدالت سے سزا بهی سنائی جا چکی۔
چوہدری صاحب ہماری طرف ابھی بھی اِسلام کا بول بالا لاؤڈ سپیکر کے ذریعے ہی کیا جا رہا ہے۔ ہمارے علاقے میں اِتنے نمازی نہیں ہیں کہ ماشاء اللہ جتنی مسجدیں ہیں۔ آپ یقین کریں کہ آذان جیسے خوبصورت عمل کو ایسے طریقے سے سرانجام دیا جاتا ہے کہ ہر روز پانچ مرتبہ علاقہ میدانِ جنگ کا نقشہ پیش کرتا ہے ۔ساتھ ساتھ موجود گلیوں میں تقریبا" ہر گلی اپنی مسجد رکھتی ہے اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایک مسجد کی لاؤڈ سپیکر سے آذان مقامی آبادی کی اطلاع کے لیے کافی و شافی ہو گی کوئی مسجد بھی لاؤڈ سپیکر استعمال کرنے کے ثواب سے محروم نہیں رہتی۔ ختمِ قُرآن کی رات مرے پر سو دُرے کے مصادق ایک اور امتحان ہے جِس میں لاؤڈ سپیکر پر فاسٹ فارورڈ موڈ میں تلاوت کی جاتی ہے اور ایک ہی رات میں قُرآنِ پاک ختم کرنے کی اور اہلِ علاقہ کو سُننے کی فضیلت سے شادکام کیا جاتا ہے۔ ہفتے کے سات دِن چندے کی وصولی کا باہمی مقابلہ بھی چلتا ہے اور چندہ دینے والے خوش نصیبوں کے نام مع اوّل و آخر طویل دُعائیہ سلسلے کے پُکارے جاتے ہیں اور عطیہ کی گئی رقم بھی ساتھ ہی اعلان کر دی جاتی ہے تاکہ دیگر سامعین بھی اپنے سوئے بخت جگا سکیں۔ ایک دو امام مسجد تہجد کی آذان کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔ گیارہویں شریف کا چندہ اور لنگر ایک علیحدہ مضمون کا متقاضی ہے۔ ہم آپ جیسے احباب اور میڈیا سے بڑی حسرت سے ایسی خبریں سُنتے ہیں کہ لاؤڈ سپیکر کا جن بوتل میں بند ہو گیا ہے لیکن دیگر علاقوں میں اگر ایسا ہوا ہے تو بڑی بات ہے ہمارے تو سب مولوی صاحبان ایسی غیر شرعی قانون سازی کے خلاف گویا الٰہ دین کا چراغ رکھتے ہیں :)
 
آخری تدوین:
میری ناقص معلومات کے مطابق ہم میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا تھا کہ اسے دنیا میں بھیجا جائے اور اگر بھجوانا ہی مقصود ہے تو کم سے کم ہم سے رائے تو لی جائے کہ یہ فلاں شخص تمہارے باپ کی حیثیت سے ٹھیک رہے گا یہ فلاں عورت تمہاری ماں کی حیثیت سے ٹھیک رہے گئی یہ بہت نیک ہے خوبصورت ہے... معاذاللہ میں کوئی شکوہ نہیں کر رہی یہ تو ایک سوچ ہے اگر ہم سب کو اختیار دیا جاتا کہ تم کس کے گھر پیدا ہونا چاہتی ہو یاں چاہتے ہو تو جناب میرا نہیں خیال کہ کوئی غریب صاحبِ اولاد ہوتا لیکن غریب ہوتا ہی کون وہ تو پہلے ہی کسی بادشاہ کے یاں کسی امیر کے گھر پیدا ہو کے زندگی کے سکھ لے رہا ہوتا
یہ تو خداوند تعالٰی کا قائم کردہ نظام ہے اللہ کے ہر فیصلے میں کوئی نا کوئی مصلحت ہوتی ہے جو ہمیں سمجھ نہیں آتی..
پاک و ہند میں بچے کی پیدائش ہوئی تو باپ کو فکر لگ جاتی ہے کہ بچے کے کان میں اذان دینی ہے اگر تو باپ تھوڑی بہت دینی تعلیم رکھتا ہو گا تو خود سے کوشش کرتا ہے نہیں تو کسی مولانا بفضلِ اولانہ کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں تاکہ بچے کو باور کرایا جائے کہ وہ مسلمان کے گھرانے میں پیدا ہوا ہے میرا نہیں خیال کہ اتنے چھوٹے بچے پر اذان کی آواز کا کوئی اثر ہوتا ہو گا اب تو بڑے لوگوں پر بھی اذان کا اثر ہوتا وہ تو بچہ ہے.
مجھے کو چھ سال ہوگئے ہیں خلیج میں سکونت اختیار کئے ہوئے جس بلڈنگ میں ہم رہتے ہیں ہمارے ساتھ والے اپارٹمنٹ میں ایک مصری نزد خاتون ہیں لگ بگ میری ہی عمر کی تعلیم یافتہ ہے اور انگلش بھی کافی اچھی بول لیتی ہے وہ اکثر ہمارے گھر آجاتی ہے میں نے اس سے پوچھا کہ مصر میں جب کوئی بچہ پیدا ہوتا تو کیا اس کے کان میں اذان دی جاتی ہے تو اس بڑے عجیب سے انداز میں میری طرف دیکھا نہیں میں سر ہلاتے ہوئے پوچھا کیا پاکستان میں ایسا ہوتا ہے میں نے ہاں میں سر ہلا دیا اس نے مجھے بتایا کے نبی کریم ص کے زمانے میں یاں صحابہ کرام رضی اللہ کے زمانے میں کسی کے عمل سے یہ ثابت نہیں... واللہ اعلم
...
نومولود کے کان میں اذان دینا احادیث کی روشنی میں
شرَع کی رُو سے نومُولود کے کانوں میں اذان دینا جائز اور مسنون عمل ہے۔ حدیثِ مبارکہ میں ہے :
ابو رافع رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ
میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب حضرت حسن پیدا ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے کان میں اذان دی ۔

ترمذی ، كتاب الاضاحى عن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم ، باب : الاذان في اذن المولود ، حدیث : 1596
مسند احمد ، المجلد السادس ، حديث ابي رافع رضي الله عنه ، حدیث : 22749
ابو داؤد ، كتاب الادب ، باب : في الصبي يولد فيؤذن في اذنه ، حدیث : 5107
تخریج :
- امام ترمذی نے "حسن صحیح" کہا
- شیخ شعیب الارنؤوط نے حاشیہ "شرح السنة" میں "قوی" کہا۔

امام حسین رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’جس کے ہاں بچے کی ولادت ہو تو وہ اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اِقامت کہے، اس کی برکت سے بچے کی ماں کو کوئی چیز نقصان نہ پہنچا سکے گی۔‘‘
ابو یعلی، المسند، 12 : 150، رقم : 6780

نومولود کے کان میں اذان دینے کا فلسفہ کیا ہے اِس پر ابنِ قیم کا قول نقل کر رہا ہوں۔
امام ابن قیم نے اپنی کتاب "تحفة المودود باحکام المولود" میں ، نومولود کے کان میں اذان دینے کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
أول ما يقرع سمع الإنسان كلماته المتضمنة لكبرياء الرب وعظمته والشهادة التي أول ما يدخل بها في الإسلام فكان ذلك كالتلقين له شعار الإسلام عند دخوله إلى الدنيا كما يلقن كلمة التوحيد عند خروجه منها۔
سب سے پہلے ابن آدم کے کان میں وہ کلمات پہنچیں جن میں اللہ کی کبریائی اور عظمت ہو ، وہ شہادت جو انسان کو اسلام میں داخل ہونے کے لیے ضروری ہے۔ گویا یہ اس کے لیے دنیا میں پہلا سانس لیتے وقت اسلام کی تلقین ہے جیسے آخری سانس کے وقت اسے کلمۂ توحید کی تلقین ہوتی ہے۔
حوالہ :
الباب الرابع : في استحباب التأذين في أذنه اليمنى والإقامة في أذنه اليسرى
تحفة المودود بأحكام المولود
ابن قيم الجوزية
گُزارش
گُزارش ہے کہ جب بھی کسی اسلامی عقیدے یا عمل کے بارے میں لکھنا ہو تو فقظ اپنی رائے کا اظہار کرنے یا سُنی سُنائی بات کو تحریر کی زینت بنانے کی بجائے پہلے خود اُس مسئلہ پر پوری تحقیق کر لیا کریں، تا کہ غلطی کا امکان کم سے کم ہو۔کیونکہ تحریر اشاعت کے بعد آپ کی دسترس سے نکل کر قارئین کے ذہن تک پہنچ چُکی ہوتی ہے۔ آپ نے جس مصری عورت سے شرعی مسئلہ دریافت کیا تھا وہ خود لا علم تھی اور اُس نے آپ کو غلط معلومات فراہم کیں، اور آپ نے اُس کے عربی النسل ہونے کی وجہ سے اُس کی بات پر یقین کر لیا۔ ضروری نہیں کہ عربوں میں سارے پڑھے لکھے ہوں، وہاں بھی اَن پڑھ موجود ہیں، کسی کی انگریزی سے واقفیت اُس کے علمِ دین میں مستند ہونے کی دلیل نہیں ہے۔ خود سے کی ہوئی تحقیق انسان کو نا صرف علمی طور پر فائدہ دیتی ہے بلکہ پڑھنے والے کا بھی بھلا ہوتا ہے۔
 

نظام الدین

محفلین
نومولود کے کان میں اذان واقامت کے عمل کا ہم اگر تحقیقی نقطۂ نظر سے جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن وسنت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم وعمل کی صحیح روایتوں کے ذخیرے میں اِس عمل کی کوئی بنیاد موجود نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اِس کے استناد پر اُمت کا اجماع تو در کنار،اِس عمل کی مشروعیت پر علمی طور پر کسی ایک فقہی مذہب کے علما کے اتفاق کو ثابت کرنا بھی ناممکن ہے۔ مزید یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی اِس باب کی تمام روایات کو جمع کر کے اگر علم حدیث کے معیار پر پرکھا جائے تو ثابت ہوتا ہے کہ اِس باب کی کوئی ایک روایت بھی تحقیق سند کے معیار پر پورا نہیں اترتی۔ علمِ اسلامی کے دور اوّل کے تمام مراجع بھی اِس کے بیان اور روایت سے بالکل خاموش ہیں۔ چوتھی صدی تک کے ائمۂ فقہا نے بھی اِس اذان واقامت پر کبھی کوئی مثبت کلام نہیں کیا۔ جن فقہاے متاخرین نے اِس عمل کو قبول کیا ہے تو محض بعض کمزور اور ناقابل اعتبار روایتوں کی بنیاد پر کیا ہے۔ کوئی دلیلِ صحیح اس باب میں کوئی صاحب علم کبھی پیش نہیں کرسکا۔ پھر مزید یہ کہ اِس عمل کی مشروعیت کو ماننے والے اہل علم بھی بعض پہلؤوں سے باہم مختلف ہیں۔ نومولود کے کان میں اذان کہنے کا عمل جب امام مالک کے علم میں آیا تو انہوں نے نہ صرف یہ کہ اِسے ایک غیر مشروع عمل قرار دیا،بلکہ اِسے ناپسند کیا۔ عصر حاضر کے بعض علماے محققین نے بھی اسی رائے کا اظہار کیا ہے۔ ہمارے نزدیک بھی اس مسئلے پر صحیح رائے عدم مشروعیت ہی کی ہے۔

۔ عرب علماے عصر میں سے مندرجہ اصحاب علم ہیں جن کی رائے امام مالک ہی کی طرح نومولود کے کانوں میں اذان واقامت کی عدم مشروعیت کی ہے:



1شیخ ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ .

2شیخ عبد المحسن بن حمد العباد حفظہ اللہ .

3شیخ عبد العزیز الطریفی حفظہ اللہ .

4شیخ ڈاکٹر عمر بن عبد اللہ المقبل حفظہ اللہ .

5شیخ عبد اللہ الحمادی حفظہ اللہ .

6شیخ حامد بن عبد اللہ العلی حفظہ اللہ .

7شیخ ڈاکٹر سلیمان العیسی حفظہ اللہ .

8شیخ ڈاکٹر خالد بن علی المشیقح حفظہ اللہ



ائمۂ اربعہ میں سے باقی ائمۂ ثلاثہ کی کتابیں نومولود کی اذان واقامت کے مسئلے سے بالکل خالی ہیں۔ اِس باب میں اُن سے کوئی براہ راست نص کہیں نقل نہیں ہوئی ہے۔



ائمۂ اربعہ کے شاگردوں سے بھی اِس حوالے سے کوئی نصوص مروی نہیں ہیں۔ اُن کی تمام کتب بھی اِس مسئلے سے کلیۃً خاموش ہیں۔







روایات کی تحقیق

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1) عن حسین بن علی قال:قال رسول اللہ ﷺ من ولد لہ مولود فاذن فی اذنہ الیمنی و اقام فی اذنہ الیسری لم تضرہ ام الصبیان‘‘۔
ترجمہ:جس کے یہاں کسی بچہ کی ولادت ہو ئی اور اس نے اس بچہ کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی تو اس بچہ کو ام الصبیان ،جنیہ،بھتنی،الوہوا کو ئی بھی بیماری نقصان نہیں پہونچا سکتی ہے۔ اس کی تخریج امام بیہقی و غیرہ نے یحیےٰ بن العلاء الرازی عن مروان بن سالم عن طلحہ بن عبد اللہ العقیلی عن الحسن کے طریق سے کی ہے۔
اس میں مندرجہ ذیل علتیں ہیں:
(۱) یحیےٰ بن العلاء البجلی ابو سلمہ یقال ابو عمر و الرازی رحمہ اللہ کذاب ووضاع ہیں۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے کہا ہے:’’کذاب،یضع الحدیث‘‘(تھذیب التھذیب ۱۱؍۲۲۹۔۲۳،میزان الاعتدال ۴؍۲۹۸)۔
(۲) مروان بن سالم ابو عبد اللہ الشافعی الجزری الغفاری متروک ہیں۔
امام بخاری و مسلم رحمھما اللہ نے منکر الحدیث فرمایا ہے۔(تھذیب التھذیب ۱۰؍۸۴۔۸۵،میزان الاعتدال ۴؍۹۰) امام بیہقی رحمہ اللہ (شعب الایمان ۲؍۳۸۹) نے اس کی سند کو ضعیف اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے موضوع گردانا ہے۔(الاروا ۴؍۴۰۰ سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ ۱؍۴۹۳ ضعیف الجامع ۵۸۹۳) نیز اصول اسی کے بھی متقاضی ہیں۔
(2)ابو رافع مولیٰ رسول اللہﷺ کی حدیث جس کو ابو داؤد،ترمذی،بیہقی اور عبد الرزاق نے ’’عن سفیان الثوری حدثنی عاصم بن عبید اللہ عن عبید اللہ بن رافع عن ابیہ قال:’’رأیت رسول اللہ اذن فی اذن الحسن بن علی ولدتہ فاطمۃ بالصلوٰۃ‘‘روایت کیا ہے۔
ترجمہ: ابو رافع نے کہا میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ جب حسن بن علی کی والدہ نے ان کو جنم دیا ،تو حسن بن علی کے کان میں نبی ﷺ نے اذان دی۔
اس میں ایک راوی ہیں’’عاصم بن عبید اللہ بن عمر بن الخطاب العدوی المدنی جو متفق علیہ ضعیف ہیں۔(تھذیب التھذیب ۵؍۴۲۔۴۳،میزان الاعتدال ۲؍۳۵۳)۔
امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس کو حسن صحیح کہا ہے جو غیر مناسب ہے۔ امام ابن تیمیہ اور امام ابن القیم رحمھما اللہ نے اس پر سکوت اختیار کیا ہے،صاحب تحفہ رحمہ اللہ نے اس کو ضعیف گردانا ہے،شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ بھی اسے ضعیف ہی کہتے ہیں۔(الکلم الطیب ۱۶۲،تحفہ المودود ۱۶ اروا ء ۴؍۴۰۰)۔

(3)حدیث ابن عباس ۔اس کو امام بیہقی رحمہ اللہ نے ’’عن محمد بن یونس نا الحسن بن عمرو بن یوسف السدوسی ثنا القاسم بن مطیب عن منصور بن صفیہ عن ابی معبد عن ابن عباس ان النبی ﷺ اذن فی اذن الحسن بن علی یوم ولد فاذن فی اذنہ الیمنی و اقام فی اذنہ الیسری‘‘روایت کیا ہے۔
ترجمہ:ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے جب حسن بن علی کی پیدائش ہو ئی، تو ان کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی۔
۱۔ محمد بن یونس بن موسیٰ بن سلیمان ابو العباس الکدیمی ’’کذاب‘‘ہیں۔ (تھذیب التھذیب ۹؍۴۷۵۔۴۷۷،میزان الاعتدال ۷۴۳۴۔۷۵)۔
۲۔ حسن بن عمرو سیف البصری السدوسی یہ بھی کذاب ہیں ،جیسا کہ امام بخاری وغیرہ نے فرمایا ہے۔(تھذیب التھذیب ۲؍۲۶۸،میزان الاعتدال ۱؍۵۱۶)
۳۔ القاسم بن مطیب العجلی البصری ،امام ابن حبان رحمہ اللہ نے کہا ہے:’’کان یخطی کثیرا فا ستحق الترک‘‘ کثرت خطا کی وجہ سے یہ متروک ٹھہرے۔(یہذیب التہذیب ۸؍۳۰۲،میزان الاعتدال ۳؍۳۸۰) یہ روایت بھی موضوع ہے، کیو نکہ شاہد بننے سے عاری ہے ،خود امام بیہقی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف کہا ہے۔
(4)حدیث عمربن عبد العزیز: اس کو عبد الرزاق نے ’’عن ابن ابی یحییٰ عن عبد اللہ بن ابی بکر ان عمر بن عبد العزیزکان اذا ولد لہ ولد اخذہ کما ہو فی خرقتہ فاذن فی اذنہ الیمنی و اقام فی اذنہ الیسری و سماہ مکانہ‘‘۔
عبد اللہ بن ابی بکر نے عمر بن عبد العزیز سے روایت کیا ہے کہ جب ان کے یہاں کوئی بچہ پیدا ہو تا، تو اس کے دائیں کان میں اذان دیتے اور بائیں کان میں اقامت کہتے اور اسی وقت اس کا نام رکھتے۔
اسکے نقائص یہ ہیں :

(۱) ابن ابی یحییٰ: اسمہ ابراہیم بن محمد بن ابی یحییٰ الاسلمی المدنی رحمہ اللہ ، یہ کذاب اور متروک ہیں۔(تہذیب التہذیب ۱؛۱۳۷؛میزان الاعتدال ۱؛۵۷ ۵۷ )
ٍ (۲) عبد اللہ بن ابی بکر بن زید بن مہاجر رحمہ اللہ :۔
علی بن المدینی رحمہ اللہ نے مجہول کہا ہے ،امام بن حبان رحمہ اللہ نے ان کو ثقات میں ذکر کیا ہے۔ ( تہذیب التہذیب ۵؛۴۳،میزان الاعتدال ۲؛۳۹۸) عمر بن عبد العزیز کا یہ عمل موضوع ہے اور اس کو گڑھ کر ان کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔
 

آوازِ دوست

محفلین
خوب کہا


اسی لیے شاید صدرِ مملکت نے علما سے گزارش کی ہے کہ سود کو جائز قرار دینے کا کوئی رستہ نکالیں۔
علمائے کرام نے بھی اُنہیں اپنے الفاظ میں یہی نغمہ سُنایا ہے :
حیران ہوں میں آپ کی زُلفوں کو دیکھ کر
اِن کو گھٹا کہوں تو گھٹاؤں کو کیا کہوں
:)
 
امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس کو حسن صحیح کہا ہے جو غیر مناسب ہے۔ امام ابن تیمیہ اور امام ابن القیم رحمھما اللہ نے اس پر سکوت اختیار کیا ہے،
اگر مناسب ہو تو یہ فرما دیں کہ آپ کس دلیل سے امام ترمذی رحمہ اللہ کے قول کو غیر مناسب کہہ رہے ہیں ؟
ابن القیم کا قول اوپر نقل کیا ہے، اور آپ فرما رہے ہیں کہ اُنہوں نے سکوت اختیار کیا ہے؟
امام مالک کا اختلاف خود اس بات کی دلیل ہے کہ یہ عمل اُس وقت رائج تھا،
امام ترمذی کے قول ’’والعمل علیہ‘‘(سنن ترمذی:1514ونسخہ مخطوطہ ص10) سے معلوم ہوتاہے کہ اس مسئلہ پرتمام مسلمانوں کا عمل یعنی اجماع ہے۔
[ماہنامہ الحدیث: 10/ 22]۔
1۔امام ترمذی نے اس روایت کو 'حسن صحیح' کہا ہے اور مولانا عبد الرحمن مبارکپوری نے'تحفة الأحوذی' میں اسے ایک 'شاہد'یعنی ایک دوسری روایت کی وجہ سے ' قابل احتجاج'قرار دیاہے ۔
2۔شیخ بن باز، شیخ صالح العثیمین اور ڈاکٹر وہبہ الزحیلی نے بھی اس روایت کو سنداً ضعیف ماننے کے باوجود اس کے' شاہد' کی وجہ سے بچے کے دائیں کان میں اذان کے عمل کو جائز قرار دیا ہے۔
 
آخری تدوین:

اکمل زیدی

محفلین
سمجھ نہیں آیا اس بات میں اتنی بحث مباحثے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے ... یہ دلیل کافی نہیں ہے کیا ...؟
اور بہتر نہیں ہے کھ ..

"سب سے پہلے ابن آدم کے کان میں وہ کلمات پہنچیں جن میں اللہ کی کبریائی اور عظمت ہو ،۔ ۔ جیسے آخری سانس کے وقت اسے کلمۂ توحید کی تلقین ہوتی ہے۔"
 
آخری تدوین:
نومولود کے کان میں اذان واقامت کے عمل کا ہم اگر تحقیقی نقطۂ نظر سے جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن وسنت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم وعمل کی صحیح روایتوں کے ذخیرے میں اِس عمل کی کوئی بنیاد موجود نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اِس کے استناد پر اُمت کا اجماع تو در کنار،اِس عمل کی مشروعیت پر علمی طور پر کسی ایک فقہی مذہب کے علما کے اتفاق کو ثابت کرنا بھی ناممکن ہے۔ مزید یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی اِس باب کی تمام روایات کو جمع کر کے اگر علم حدیث کے معیار پر پرکھا جائے تو ثابت ہوتا ہے کہ اِس باب کی کوئی ایک روایت بھی تحقیق سند کے معیار پر پورا نہیں اترتی۔ علمِ اسلامی کے دور اوّل کے تمام مراجع بھی اِس کے بیان اور روایت سے بالکل خاموش ہیں۔ چوتھی صدی تک کے ائمۂ فقہا نے بھی اِس اذان واقامت پر کبھی کوئی مثبت کلام نہیں کیا۔ جن فقہاے متاخرین نے اِس عمل کو قبول کیا ہے تو محض بعض کمزور اور ناقابل اعتبار روایتوں کی بنیاد پر کیا ہے۔ کوئی دلیلِ صحیح اس باب میں کوئی صاحب علم کبھی پیش نہیں کرسکا۔ پھر مزید یہ کہ اِس عمل کی مشروعیت کو ماننے والے اہل علم بھی بعض پہلؤوں سے باہم مختلف ہیں۔ نومولود کے کان میں اذان کہنے کا عمل جب امام مالک کے علم میں آیا تو انہوں نے نہ صرف یہ کہ اِسے ایک غیر مشروع عمل قرار دیا،بلکہ اِسے ناپسند کیا۔ عصر حاضر کے بعض علماے محققین نے بھی اسی رائے کا اظہار کیا ہے۔ ہمارے نزدیک بھی اس مسئلے پر صحیح رائے عدم مشروعیت ہی کی ہے۔

۔ عرب علماے عصر میں سے مندرجہ اصحاب علم ہیں جن کی رائے امام مالک ہی کی طرح نومولود کے کانوں میں اذان واقامت کی عدم مشروعیت کی ہے:



1شیخ ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ .

2شیخ عبد المحسن بن حمد العباد حفظہ اللہ .

3شیخ عبد العزیز الطریفی حفظہ اللہ .

4شیخ ڈاکٹر عمر بن عبد اللہ المقبل حفظہ اللہ .

5شیخ عبد اللہ الحمادی حفظہ اللہ .

6شیخ حامد بن عبد اللہ العلی حفظہ اللہ .

7شیخ ڈاکٹر سلیمان العیسی حفظہ اللہ .

8شیخ ڈاکٹر خالد بن علی المشیقح حفظہ اللہ



ائمۂ اربعہ میں سے باقی ائمۂ ثلاثہ کی کتابیں نومولود کی اذان واقامت کے مسئلے سے بالکل خالی ہیں۔ اِس باب میں اُن سے کوئی براہ راست نص کہیں نقل نہیں ہوئی ہے۔



ائمۂ اربعہ کے شاگردوں سے بھی اِس حوالے سے کوئی نصوص مروی نہیں ہیں۔ اُن کی تمام کتب بھی اِس مسئلے سے کلیۃً خاموش ہیں۔







روایات کی تحقیق

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1) عن حسین بن علی قال:قال رسول اللہ ﷺ من ولد لہ مولود فاذن فی اذنہ الیمنی و اقام فی اذنہ الیسری لم تضرہ ام الصبیان‘‘۔
ترجمہ:جس کے یہاں کسی بچہ کی ولادت ہو ئی اور اس نے اس بچہ کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی تو اس بچہ کو ام الصبیان ،جنیہ،بھتنی،الوہوا کو ئی بھی بیماری نقصان نہیں پہونچا سکتی ہے۔ اس کی تخریج امام بیہقی و غیرہ نے یحیےٰ بن العلاء الرازی عن مروان بن سالم عن طلحہ بن عبد اللہ العقیلی عن الحسن کے طریق سے کی ہے۔
اس میں مندرجہ ذیل علتیں ہیں:
(۱) یحیےٰ بن العلاء البجلی ابو سلمہ یقال ابو عمر و الرازی رحمہ اللہ کذاب ووضاع ہیں۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے کہا ہے:’’کذاب،یضع الحدیث‘‘(تھذیب التھذیب ۱۱؍۲۲۹۔۲۳،میزان الاعتدال ۴؍۲۹۸)۔
(۲) مروان بن سالم ابو عبد اللہ الشافعی الجزری الغفاری متروک ہیں۔
امام بخاری و مسلم رحمھما اللہ نے منکر الحدیث فرمایا ہے۔(تھذیب التھذیب ۱۰؍۸۴۔۸۵،میزان الاعتدال ۴؍۹۰) امام بیہقی رحمہ اللہ (شعب الایمان ۲؍۳۸۹) نے اس کی سند کو ضعیف اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے موضوع گردانا ہے۔(الاروا ۴؍۴۰۰ سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ ۱؍۴۹۳ ضعیف الجامع ۵۸۹۳) نیز اصول اسی کے بھی متقاضی ہیں۔
(2)ابو رافع مولیٰ رسول اللہﷺ کی حدیث جس کو ابو داؤد،ترمذی،بیہقی اور عبد الرزاق نے ’’عن سفیان الثوری حدثنی عاصم بن عبید اللہ عن عبید اللہ بن رافع عن ابیہ قال:’’رأیت رسول اللہ اذن فی اذن الحسن بن علی ولدتہ فاطمۃ بالصلوٰۃ‘‘روایت کیا ہے۔
ترجمہ: ابو رافع نے کہا میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ جب حسن بن علی کی والدہ نے ان کو جنم دیا ،تو حسن بن علی کے کان میں نبی ﷺ نے اذان دی۔
اس میں ایک راوی ہیں’’عاصم بن عبید اللہ بن عمر بن الخطاب العدوی المدنی جو متفق علیہ ضعیف ہیں۔(تھذیب التھذیب ۵؍۴۲۔۴۳،میزان الاعتدال ۲؍۳۵۳)۔
امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس کو حسن صحیح کہا ہے جو غیر مناسب ہے۔ امام ابن تیمیہ اور امام ابن القیم رحمھما اللہ نے اس پر سکوت اختیار کیا ہے،صاحب تحفہ رحمہ اللہ نے اس کو ضعیف گردانا ہے،شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ بھی اسے ضعیف ہی کہتے ہیں۔(الکلم الطیب ۱۶۲،تحفہ المودود ۱۶ اروا ء ۴؍۴۰۰)۔

(3)حدیث ابن عباس ۔اس کو امام بیہقی رحمہ اللہ نے ’’عن محمد بن یونس نا الحسن بن عمرو بن یوسف السدوسی ثنا القاسم بن مطیب عن منصور بن صفیہ عن ابی معبد عن ابن عباس ان النبی ﷺ اذن فی اذن الحسن بن علی یوم ولد فاذن فی اذنہ الیمنی و اقام فی اذنہ الیسری‘‘روایت کیا ہے۔
ترجمہ:ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے جب حسن بن علی کی پیدائش ہو ئی، تو ان کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی۔
۱۔ محمد بن یونس بن موسیٰ بن سلیمان ابو العباس الکدیمی ’’کذاب‘‘ہیں۔ (تھذیب التھذیب ۹؍۴۷۵۔۴۷۷،میزان الاعتدال ۷۴۳۴۔۷۵)۔
۲۔ حسن بن عمرو سیف البصری السدوسی یہ بھی کذاب ہیں ،جیسا کہ امام بخاری وغیرہ نے فرمایا ہے۔(تھذیب التھذیب ۲؍۲۶۸،میزان الاعتدال ۱؍۵۱۶)
۳۔ القاسم بن مطیب العجلی البصری ،امام ابن حبان رحمہ اللہ نے کہا ہے:’’کان یخطی کثیرا فا ستحق الترک‘‘ کثرت خطا کی وجہ سے یہ متروک ٹھہرے۔(یہذیب التہذیب ۸؍۳۰۲،میزان الاعتدال ۳؍۳۸۰) یہ روایت بھی موضوع ہے، کیو نکہ شاہد بننے سے عاری ہے ،خود امام بیہقی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف کہا ہے۔
(4)حدیث عمربن عبد العزیز: اس کو عبد الرزاق نے ’’عن ابن ابی یحییٰ عن عبد اللہ بن ابی بکر ان عمر بن عبد العزیزکان اذا ولد لہ ولد اخذہ کما ہو فی خرقتہ فاذن فی اذنہ الیمنی و اقام فی اذنہ الیسری و سماہ مکانہ‘‘۔
عبد اللہ بن ابی بکر نے عمر بن عبد العزیز سے روایت کیا ہے کہ جب ان کے یہاں کوئی بچہ پیدا ہو تا، تو اس کے دائیں کان میں اذان دیتے اور بائیں کان میں اقامت کہتے اور اسی وقت اس کا نام رکھتے۔
اسکے نقائص یہ ہیں :

(۱) ابن ابی یحییٰ: اسمہ ابراہیم بن محمد بن ابی یحییٰ الاسلمی المدنی رحمہ اللہ ، یہ کذاب اور متروک ہیں۔(تہذیب التہذیب ۱؛۱۳۷؛میزان الاعتدال ۱؛۵۷ ۵۷ )
ٍ (۲) عبد اللہ بن ابی بکر بن زید بن مہاجر رحمہ اللہ :۔
علی بن المدینی رحمہ اللہ نے مجہول کہا ہے ،امام بن حبان رحمہ اللہ نے ان کو ثقات میں ذکر کیا ہے۔ ( تہذیب التہذیب ۵؛۴۳،میزان الاعتدال ۲؛۳۹۸) عمر بن عبد العزیز کا یہ عمل موضوع ہے اور اس کو گڑھ کر ان کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔
آپ نے مقبول احمد سلفی کے بلاگ کو نقل کیا ہےلیکن مقبول احمد نے اِس میں بہت سی باتیں اپنی طرف سے لکھ کر ائمہ اربعہ سے انکار پیش کیا گیا ہے، جو کہ بنا کسی دلیل کے ہے۔ ایسا کرنا لائقِ تحسین نہیں ہے۔ خاص کر امام ترمذی رحمہ اللہ کے قول کو غیر مناسب کہنا۔
 
سمجھ نہیں آیا اس بات میں اتنی بحث مباحثے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے ... یہ دلیل کافی نہیں ہے کیا ...؟
اور بہتر نہیں ہے کھ ..

"سب سے پہلے ابن آدم کے کان میں وہ کلمات پہنچیں جن میں اللہ کی کبریائی اور عظمت ہو ،۔ ۔ جیسے آخری سانس کے وقت اسے کلمۂ توحید کی تلقین ہوتی ہے۔"
بیشک
 

نور وجدان

لائبریرین
یہاں آذان کے شور پر میرے ذہن میں اک خیال آیا ہے ۔۔ میرا خیال ہے کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اپنی ماں کا پاس پاتا ہے ، کچھ دن گزر جانے کے بعد لمس سے آشنا اور خوشبو کو پہچان لیتا ہے ، پیدائش کے پہلے ماہ ہی پہچان کا سفر شروع کرتا ہے ، تحقیق کے مطابق زندگی کے پہلے سات سال بچے کا لاشعور اس کے شعور پر حاوی ہوتا ہے ، زندگی میں آنے والے ہر لمحے کی ریکارڈنگ بنا سوچے سمجھے ذہن میں فیڈ کر رہا ہوتا ہے ۔ سات سال کے بعد بچے کا شعور جاگتا ہے اور پندرہ سال کی عمر میں بچہ شعور کی انتہا کی پُہنچ جاتا ہے ، میڈیکل سائنس نے یہ بات ثابت کی ہے کہ پندرہ سال تک بچے کا ذہن مکمل جاگ جاتا ہے اس کے بعد اس کی نمو رک جاتی ہے ۔ اس عمر کے بعد لاشعور اور شعور کو ملاتا اپنے اعمال کا احتساب کرتا ہے ۔۔لاشعور کا اگر خالق سے گہرا ربط ، اظہار وپہچان سے کرا دیا جائے تو باقی سوالات وہ خود پہچان لیتا ہے ۔ یہی لاجگ ہے آذان دینے کی ۔۔۔

یہ تو میری منطق تھی ۔۔ اس سے اختلاف کا حق سب کو ہے ۔یہاں پر اسلام و مذہب و فرقہ نہیں ہے بس یہاں پر عشق کی بات ہے ، ان دیکھے کا عشق دیکھ کے ہوتا ہے ، ماں بروپ ء مالک و خالق سچے خالق سے آنے والی نسلوں کو پہچان کراتی عرفان تک لے جاتی ہے ۔
 
Top