تخلیق کا اصل ماخذخیال ہے، جو کہ انسانی دماغ یا ذہن سے نکلا ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ انسان مر جاتا ہے پر اسکا خیال نہیں مرتا۔ یہی حال تمام مذاہب، نظریات اور فلاسفیز کا ہوا ہے۔ جس نے اصلی خیال پیش کیا وہ تو کب کے مر کھپ گئے۔ جب کہ اُن خیالات کے ماننے والے مختلف اشکال میں آج بھی موجود ہیں۔
اصلی خیال پیش کرنے والے مرکھپ گئے ، سو فیصد درست بات ہے ۔ میرے خیال میں ، وہ انسان زندہ رہتے ہیں جو انوکھے خیالات کے حامل ہوتے ہیں خیال پیش کرنے والے لیڈر ہوتے ہیں ۔ انوکھی سوچ کے حامل افراد کے خیالات کا ماخد و منبع کیا ہے ؟
حقیقت وہی ہے جسے آپ حواس خمسہ سے محسوس کر سکیں۔ باقی سب تخیلات ہیں۔
حواس ء خمسہ کا سے فیصلہ کرنا ہی عین العقل ہے ۔ میں نے خدا کی لا محدودیت کو محدود کرنا چاہا ، مجھ سے نہیں ہو سکا اور میرے حواس اسے تب محسوس کرکے بھی نہیں کرسکے ، آسمان کے اوپر خدا ہے مگر آسمان کیا ہے ؟سدرۃ المنتہیٰ کہاں ہے ؟ جنت و دوذخ کہاں ہے ۔۔۔ یہ سب میں نے اپنے خیال سے محسوس کیا ہے ، خیال انہی حواس کی پیداوار ہے ۔ خدا بھی خیال ہے، یہ خیال انسانی پیداوار نہیں ہے ۔ اس خیال کا ماخذ کیا ہے ؟؟؟
ہم کسی ایک مذہب کو تمام تر سچائیوں اور حقیقتوں کا کاپی رائٹ کیسے فراہم کر دیں جبکہ دنیا میں ہزاروں دوسرے مذاہب اور ادیان بھی اسی کا پرچار کرتے ہوں؟
جہاں تک اسلام کا سوال ہے تو اسنے کب ہندوؤں، بدھمتوں کے پیغام رساؤں پر ایمان لانے کو کہا ہے؟
اسلام نے کچھ بھی جبر سے قبول کرنے کو کہا نہیں ہے ، ہر انسان دین ء فطرت کی پیداوار ہے یعنی وہ اللہ کا خیال لے کے پیدا ہوا ہے ۔ ایسی صورت میں کسی بھی مذہب کا ٹیگ لگاتے ہم اسے ملحد قرار دے نہیں سکتے جب تک کہ وہ اس خیال میں اللہ کے بنائے گئے مظاہر کو شریک کرے ۔ میں کسی مذہب کو قبول کر نہیں رہی ، میں تو فطری خیال پر غور کر رہی ہوں
اسکا جواب میں اوپر آپ کو دے چکا ہوں کہ تمام مذاہب سچائیت اور حقیقت پر مبنی ہونے کا پرچار کرتے ہیں۔ ایسے میں اپنے من پسند مذہب کو چن لینا خود جہالت پر مبنی انتخاب ہے۔ اگر آپ کو تمام مذاہب پسند ہیں تو میری طرح انکی اخلاقی تعلیم پر غور کریں۔ پھر آپ کو انکے مابین فرق ختم نظر آئے گا۔
اس لیے اکبر ء اعظم نے دینء الہی بنا دیا ، اور اس کا خیال یا دین جس نے تمام ادیان کو ملا کے اخلاقی ضابطہ بنادیا وہ چل نہیں سکا ۔ اس کا مطلب خیال اک ریلیٹو طاقت ہے ، اور ریلیٹٹوی کے لیے کسی چیز کانسٹنسٹ ہونا ضروری ہے ۔ خیال۔۔۔۔ دلیل و عقل سے چلتے ہیں ، عقل بھی ری لیٹو ہوتی ہے ، اس لیے عقل کا استعمال جہالت نہیں بلکہ فراست ہے ۔ کچھ عاقل مذہبی رہنما ہوگئے اور کچھ لادینیت کی طرف چلے گئے ۔ خیال کا مثالی ہونا ہی اس کے لوگوں کو اک خیال کا صدیوں تک پیرو کار بنائے ہوئے ہے ، تمام جنگیں خیالات پر ہوتی ہیں چاہے یہ مذاہب کی ہو ، چاہے معاشی یا معاشرتی ۔۔۔۔ انسان کسی جنگ میں کامیاب نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیچھے عظیم خیال کے حامی لوگ ہوتے ہیں ۔
اللہ پر ایمان رکھتے ، اس کے خیال کی فروغ میں لوگوں پر ایمان رکھتے انسان ہوں
اگر آپ یہودی کے گھر پیدا ہوتی تو آپ یہودی ہوتیں، اگر کسی ہندو کے گھر تو ہندو۔ اسمیں سوال کیا ہے؟
اگر ایسا ہوتا تو لوگ مذہب نہیں بدلتے ۔۔ہمارا ڈیموگرافکس اسٹیٹس مذہب کو کانسٹنٹ شو کرتا ۔
جی یہ قیام تو یومِ ولادت سے ہی اپنا مقدر ہے کوشش البتہ یہی ہے کہ وفات سے قبل خُدا کی بنائی ہوئی باقی دُنیا بھی جی بھر کے دیکھ لیں لیکن یہ مٹی کُچھ ایسی ہے کہ میں تو کمبل کو چھوڑتا ہوں پر کمبل مجھے نہیں چھوڑتا دو پاسپورٹ پڑے پڑے ایکسپائر ہو گئے اب تیسرا بنوایا تھا کوئی سال بھر پہلے دیکھئے اُس کا ہمارا حال بدلتا ہے یا نہیں
آپ نے پاس پورٹ جلد بنوالیے ہیں ، جب آپ نے بنائے اس وقت شاید دوسرے کام آڑے آگئے ۔۔۔ اب جو بنواتے تو تب بناتے جب ارادے کے اسباب مکمل ہوتے ۔ دل تو پوری دنیا گھومنے کا کرتا ہے