کیا اسرائیل ، ایرانی جوہری معاہدہ روک سکے گا؟

arifkarim

معطل
اسرائیل کا 1979 میں اپنے ہمسایہ ملک مصر اور 1994 میں دوسرے ہمسائے ملک اردن سے امن معاہدہ ہو چکا ہے:
https://en.wikipedia.org/wiki/Egypt–Israel_Peace_Treaty
https://en.wikipedia.org/wiki/Israel–Jordan_peace_treaty
امن معاہدہ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ دوستی ہوگئی اور دشمنی ختم ہوگئی۔ آپ کسی مصری سے پوچھ کر دیکھیں کہ کیا وہ اسرائیل کا دوست ہے یا دشمن؟ آپ کو سب پتہ چل جائے گا۔
 

arifkarim

معطل
امن معاہدہ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ دوستی ہوگئی اور دشمنی ختم ہوگئی۔ آپ کسی مصری سے پوچھ کر دیکھیں کہ کیا وہ اسرائیل کا دوست ہے یا دشمن؟ آپ کو سب پتہ چل جائے گا۔
بین الاقوامی امن معاہدے ہمیشہ سےہی مختلف قوموں کی حکومتوں کے درمیان ہوئے ہیں۔ یہ کہنا بلکہ سمجھنا ہی غلط ہے کہ حکومت وقت جو کہ اس قوم کی نمائندہ ہےکسی دوسری قوم کی حکومت سے امن معاہدہ کر لے اور عوام کی اکثریت اسے ردی کے ڈبے میں پھینک دے۔ ۔۔
مصر اور اردن کے ساتھ امن معاہدوں کے بعد ان ممالک کے مابین تجارت، سیاحت، معیشت اور دیگر سفارتی روابط کو فروغ ملا ہے۔ یہاں تک کہ جب اسرائیل اور یہود مخالف اخوان المسلمین کی حکومت مصر میں عرب بہار انقلاب کے بعد قائم ہوئی، تو انکے صدر محمد مُرسی نے سابقہ حکومت کے اسرائیلی امن معاہدے کو قائم رکھنا ہی پسند کیا:
http://www.telegraph.co.uk/news/wor...ows-to-respect-Egypt-Israel-peace-treaty.html
 

arifkarim

معطل
یہ امن معاہدے P5+1 یعنی 6 بڑی عالمی قوتوں اور ایران کے مابین طے پایا ہے جسکی اسرائیل، سعودی عرب اور امریکی رپبلیکن پارٹی نے سختی سے مذمت کی ہے۔ اور اس تاریخی معاہدے کو سبوتاژ کرنے کیلئے ہر ممکن حربہ استعمال کرنے کا عندیہ بھی دے دیا ہے :)
 
بین الاقوامی امن معاہدے ہمیشہ سےہی مختلف قوموں کی حکومتوں کے درمیان ہوئے ہیں۔ یہ کہنا بلکہ سمجھنا ہی غلط ہے کہ حکومت وقت جو کہ اس قوم کی نمائندہ ہےکسی دوسری قوم کی حکومت سے امن معاہدہ کر لے اور عوام کی اکثریت اسے ردی کے ڈبے میں پھینک دے۔ ۔۔
مصر اور اردن کے ساتھ امن معاہدوں کے بعد ان ممالک کے مابین تجارت، سیاحت، معیشت اور دیگر سفارتی روابط کو فروغ ملا ہے۔ یہاں تک کہ جب اسرائیل اور یہود مخالف اخوان المسلمین کی حکومت مصر میں عرب بہار انقلاب کے بعد قائم ہوئی، تو انکے صدر محمد مُرسی نے سابقہ حکومت کے اسرائیلی امن معاہدے کو قائم رکھنا ہی پسند کیا:
http://www.telegraph.co.uk/news/wor...ows-to-respect-Egypt-Israel-peace-treaty.html
ظاہر ہے حکومتیں ہی معاہدے کرتی ہیں لیکن جن معاہدوں کو عوامی تائید حاصل نہیں ہوتی وہ معاہدے عارضی ہوتے ہیں اور امن کی ضمانت نہیں دے سکتے۔
آپس میں نہ لڑنے کا معاہدہ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا اب ہم دوست بن گئے ہیں۔
 

arifkarim

معطل
آپس میں نہ لڑنے کا معاہدہ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا اب ہم دوست بن گئے ہیں۔
آپس میں نہ لڑنے کا معاہدہ تو محض پہلا قدم ہے قیام امن کیلئے۔ اسکے بعد چل سو چل رفتہ رفتہ تعلقات میں بہتری آتی چلی جاتی ہے۔ حال ہی میں اسرائیل نے اپنے وافر مقدار میں موجود گیس کے ذخائر اردن اور مصر کو بیچنے کا معاہدہ بھی طے کر لیا ہے:
http://nationalinterest.org/feature/israels-big-moment-sealing-gas-deals-jordan-egypt-12992

اب ظاہر ہے اس قسم کے ملکی سطح پر تجارتی اور معاشی معاہدے جنگ بندی کے معاہدوں کے بغیر ظہور میں نہیں آسکتے۔
 
آپس میں نہ لڑنے کا معاہدہ تو محض پہلا قدم ہے قیام امن کیلئے۔ اسکے بعد چل سو چل رفتہ رفتہ تعلقات میں بہتری آتی چلی جاتی ہے۔ حال ہی میں اسرائیل نے اپنے وافر مقدار میں موجود گیس کے ذخائر اردن اور مصر کو بیچنے کا معاہدہ بھی طے کر لیا ہے:
http://nationalinterest.org/feature/israels-big-moment-sealing-gas-deals-jordan-egypt-12992

اب ظاہر ہے اس قسم کے ملکی سطح پر تجارتی اور معاشی معاہدے جنگ بندی کے معاہدوں کے بغیر ظہور میں نہیں آسکتے۔
سچی دوستی اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک دشمنی کی اصل وجوہات کو ختم نہ کر دیا جائے۔ باہمی ضرورتوں کے پیش نظر معاہدے کرنے سے دشمنیاں ختم نہیں ہوتیں۔ اور نہ دوستیاں ہو جاتی ہیں۔
 

arifkarim

معطل
آج تو arifkarim خود بھی یوٹرن پہ یوٹرن لے رہے ہیں۔ پہلے متفق اور پھر بعد میں غیر متفق
آپکے اوپر تبصروں سے قبل میں بھی یہی سمجھتا تھا کہ اسرائیل کے اپنے تمام ہمسایہ ممالک کیساتھ جنگ چل رہی ہے۔ حالانکہ ابھی اسبارہ میں مختلف مضامین کے مطالعہ کے بعد یہ بات واضح ہوئی ہے کہ اسنے دو بڑے مسلمان عرب ممالک مصر اور اردن کیساتھ نہ صرف امن معاہدے کئے بلکہ انکو آج تک قائم بھی رکھا۔ اور اب انکو مزید تقویت دینے کی غرض سے تجارتی امور میں بڑھا رہا ہے۔
 

arifkarim

معطل
سچی دوستی اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک دشمنی کی اصل وجوہات کو ختم نہ کر دیا جائے۔ باہمی ضرورتوں کے پیش نظر معاہدے کرنے سے دشمنیاں ختم نہیں ہوتیں۔ اور نہ دوستیاں ہو جاتی ہیں۔
آجکل کے جدید دور میں مختلف ممالک کے مابین نہ سچی دوستیاں ہوتی ہیں اور نہ ہی دائمی دشمنیاں۔ تمام ممالک کے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں اور قریباً ایک جیسے مفاد رکھنے والے ممالک آپس میں اتحاد کر لیتے ہیں۔ جسے ہم عام زبان میں دوستی کہتے ہیں۔ کل کلاں کو مفادات کی تبدیلی کے بعد یہی بظاہر اٹوٹ اتحاد انتشار کر شکار بھی ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ آجکل اسرائیل اور امریکہ کا اس ایران معاہدے کے بعد ہو رہا ہے۔
 
پائدار دوستی کے لئے عوامی سطح پر پسندیدگی ضروری ہے۔ عوامی سطح پر سخت نفرت کی صورت میں حکومتی امن معاہدے، دوستی اور امن کی ضمانت نہیں دے سکتے۔
 

arifkarim

معطل
پائدار دوستی کے لئے عوامی سطح پر پسندیدگی ضروری ہے۔ عوامی سطح پر سخت نفرت کی صورت میں حکومتی امن معاہدے، دوستی اور امن کی ضمانت نہیں دے سکتے۔
اگر آپکو کبھی جنگ عظیم دوم کے بعد کی یورپی تاریخ پڑھنے کا موقع ملے تو آپکو معلوم ہوگا کہ کس طرح یہ مغربی اقوام نہ چاہتے ہوئے بھی جنگ بندی اور پرانی قومی دشمنیوں کو بھلانے کی خاطر ایک دوسرے سے امن معاہدوں پر مجبور ہوئیں۔ اور پھر رفتہ رفتہ یہ یورپی یونین جیسے جدید اور طاقت ور اتحاد میں پرو گئیں۔ جی یہ وہی اقوام ہیں جو پہلے چھوٹ چھوٹے ایشوز پر اپنی فوجیں لیکر ایک دوسرے کے ممالک میں جا گھستی تھیں، لیکن پھر یہی قومیں سوویت یونین کے خلاف بین الاقوامی دفاعی معاہدے نیٹو کی بدولت اپنی سالمیت کا دفاع کر پائیں۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران 6 ملین سے زائد یہودیوں کی نسل کشی کرنے والا ملک جرمنی 1953 میں اسرائیل کا معاشی پارٹنر بنا۔ یوں ان دو اقوام کے مابین حد درجہ کی پائے جانے والی نفرتوں کا رفتہ رفتہ خاتمہ ہو گیا۔ آج اسی جرمنی کا سفیر جو 1945 تک یہودیوں کے قتل عام میں پیش پیش تھا، ایران کو اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے کی نصیحتیں کر رہا ہے:
http://www.israelnationalnews.com/News/News.aspx/198351
 

arifkarim

معطل
ایک کام کریں یہ ڈھونڈ کر لائیں کہ اسرائیل اور اس کے عرب ہمسائیوں کے درمیان عوامی دشمنی کی اصل وجہ کیا ہے۔
بہت سی وجوہات ہیں جن میں سب سے بڑی عرب ممالک کا اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہ کرنا اور اسرائیل کا فلسطین کو تسلیم نہ کرنا ہے۔
 
بلال بھائی صرف مذہب نہیں، عربوں کے خیال میں اسرائیلی ریاست عربوں کی زمین پر ناجائز قبضہ کرکے دھوکہ دے کر بنائی گئی۔ اور مسلمانوں کے قبلہ اول یعنی مسجد اقصی پر اسرائیل کا قبضہ کرایا گیا۔ یہ مسلمانوں اور عربوں کو بالکل قابل قبول نہیں ہے۔ اور پھر فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کا قبضہ اور فلسطینیوں پر ظلم و ستم۔
خاص طور پر مسجد اقصی مسلمانوں کے لئے مقدس مقام ہے اور یہود و نصاری کے لئے بھی وہ بھی اس کا قبضہ چھوڑنا نہیں چاہتے۔
صرف کاغذی کاروائیوں سے یہ دشمنی ختم نہیں ہوگی
 

arifkarim

معطل
بلال بھائی صرف مذہب نہیں، عربوں کے خیال میں اسرائیلی ریاست عربوں کی زمین پر ناجائز قبضہ کرکے دھوکہ دے کر بنائی گئی۔
تاریخ کی مستند کُتب سے ذرا چیک کر کے بتائیں کہ یہ زمین عربوں کے "قبضہ" سے قبل کس کی حکمرانی میں تھی ؟ نیز یہ بھی کہ اسکے قدیم ترین شہر یروشلم کااصل نام عربی میں ہے یا عبرانی زبان میں؟ :)

اور مسلمانوں کے قبلہ اول یعنی مسجد اقصی پر اسرائیل کا قبضہ کرایا گیا۔
مسلمانوں کا قبلہ اول اور یہودیوں کا کونسواں قبلہ ہے؟ غالباً انکا بھی یہ قبلہ اول و آخر ہی ہے :)

یہ مسلمانوں اور عربوں کو بالکل قابل قبول نہیں ہے۔ اور پھر فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کا قبضہ اور فلسطینیوں پر ظلم و ستم۔
جب 1947 میں اس مقدس سر زمین کا بٹوارا ایک آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست اور ایک یہودی ریاست میں اقوام متحدہ کی متفقہ رائے سے ہوا تھا ، تو اسوقت ہی اسے پُر امن طور پر قبول کر لیتے۔ تاکہ 67 سال تک اسرائیلیوں کے ظلم و ستم برداشت کرنے کی نوبت نہ آتی۔۔۔

خاص طور پر مسجد اقصی مسلمانوں کے لئے مقدس مقام ہے اور یہود و نصاری کے لئے بھی وہ بھی اس کا قبضہ چھوڑنا نہیں چاہتے۔
اس تنازع کو حل کرنے کا بہترین حل یہی ہے کہ چونکہ یہ مقدس مقام تمام ادیان ابراہیمی کیلئے یکساں برابر ہے یوں اسکو منصفانہ انداز میں تینوں ادیان یعنی یہودیت،عیسائیت، اسلام کے ماننوں والوں کیلئے کھول دیا جائے۔

صرف کاغذی کاروائیوں سے یہ دشمنی ختم نہیں ہوگی
قیام امن کی شروعات کاغذی کاروائی ہی سے ہوتی ہے۔ فلسطینی چاہتے ہیں کہ اسرائیل انکے تمام تر مطالبات مان لے جس کے بعد اسرائیل کا کوئی وجود اس سرزمین پر باقی نہ رہے۔ ایسا تو ممکن نہیں ہے۔
2004میں اسرائیلی حکومت نے کمال حماقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے غزہ کی پٹی سے اپنی افواج 30 سال بعد واپس بلالی تھیں۔ وہاں موجود یہودی نوآبادیوں کا زبردستی انخلاء کر وایا اور یہ علاقہ فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کر دیا ۔
ان جاہلوں کا خیال تھا کہ اگر قیام امن کیلئے ہم پہل ہم کریں گے تو دوسری جانب سے بھی یہی رد عمل آئے گا۔ مگر ہوا اسکے برعکس۔ 2 سال کے اندر اندر یہاں دہشت گرد جہادی تنظیم حماس قابض ہوگئی اور جمہوری پارٹی الفتح کو نکال باہر کیا۔ وہ دن اور آج کا دن وہاں سے مسلسل راکٹوں اور دیگر وحشیانہ کاروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اسکے باوجود اسرائیل اس پٹی میں بجلی، پانی اور دیگر ضروریات زندگی کی فراہمی یقینی بنائے ہوئے ہے۔
ان تمام حقائق کو جاننے کے باوجود تمام تر الزام اسرائیل پر لگا دینا درست نہیں کہ اسنے قیام امن کیلئے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔ جو امن چاہتے ہی نہیں انکے حلق میں امن ٹھونس کر بھی انہیں ہضم نہیں ہونے والا :)
زیک
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
بہرحال یہ ایک تاریخ ساز معاہدہ ہے۔ کم از کم پاکستان تو اسی بہانے ایران پاکستان گیس پائپ لائن کو مکمل کرکے وہاں سے گیس درآمد کرنا شروع کردے گا. میری دعا ہے کہ جلد از جلد یہ منصوبہ ساتھ خیریت کے مکمل ہو تاکہ پاکستان میں جاری توانائی کے بحران میں کچھ تو کمی ہو.
آپ کا خیال مجھے درست معلوم نہیں ہورہا ہے ۔ 2009 سے یہ بحث چلی آرہی ہے کہ پاکستان اس معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد کام کرے یا نہیں ۔ انڈیا بھی ساتھ تھا مگر راؤلٹیز کے چکر میں پیچھے ہٹ گیا۔ امریکی دباؤ کے پیش نظر پاکستان نے تو پائپ لائن نہیں بنائی مگر ایران کی طرف سے یہ شروع تھی ۔ امریکہ نے اس کے بدلے پاکستان کو TAPI کی آفر کی تھئ ۔

اس تناظر میں ایران کی نیوکلئر پرولفریشن کا رکنا ناممکن سا ہے جب اتنی سینکشنز لگنے کے بعد ایران نے یہ کام جاری رکھا تو کیا اب جو بات ٹیبل پر نیگو شئیبل ہے اب ایران سرنڈر کر دے گا ؟ امریکہ کو خطرہ ایران کی سٹریٹ آف ہارمز سے تھا ۔۔۔ امریکہ کے لیے ایران کا ٹیبل پر آنا یا لایا جانا ایک بہت بڑا ''یو ٹرن '' ہے جس کا مطلب ایران میں گرین ریولوشن کسی حد تک کامیاب ہو چکا ہے
 
آخری تدوین:
Top