بلال بھائی صرف مذہب نہیں، عربوں کے خیال میں اسرائیلی ریاست عربوں کی زمین پر ناجائز قبضہ کرکے دھوکہ دے کر بنائی گئی۔
تاریخ کی مستند کُتب سے ذرا چیک کر کے بتائیں کہ یہ زمین عربوں کے "قبضہ" سے قبل کس کی حکمرانی میں تھی ؟ نیز یہ بھی کہ اسکے قدیم ترین شہر یروشلم کااصل نام عربی میں ہے یا عبرانی زبان میں؟
اور مسلمانوں کے قبلہ اول یعنی مسجد اقصی پر اسرائیل کا قبضہ کرایا گیا۔
مسلمانوں کا قبلہ اول اور یہودیوں کا کونسواں قبلہ ہے؟ غالباً انکا بھی یہ قبلہ اول و آخر ہی ہے
یہ مسلمانوں اور عربوں کو بالکل قابل قبول نہیں ہے۔ اور پھر فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کا قبضہ اور فلسطینیوں پر ظلم و ستم۔
جب 1947 میں اس مقدس سر زمین کا بٹوارا ایک آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست اور ایک یہودی ریاست میں اقوام متحدہ کی متفقہ رائے سے ہوا تھا ، تو اسوقت ہی اسے پُر امن طور پر قبول کر لیتے۔ تاکہ 67 سال تک اسرائیلیوں کے ظلم و ستم برداشت کرنے کی نوبت نہ آتی۔۔۔
خاص طور پر مسجد اقصی مسلمانوں کے لئے مقدس مقام ہے اور یہود و نصاری کے لئے بھی وہ بھی اس کا قبضہ چھوڑنا نہیں چاہتے۔
اس تنازع کو حل کرنے کا بہترین حل یہی ہے کہ چونکہ یہ مقدس مقام تمام ادیان ابراہیمی کیلئے یکساں برابر ہے یوں اسکو منصفانہ انداز میں تینوں ادیان یعنی یہودیت،عیسائیت، اسلام کے ماننوں والوں کیلئے کھول دیا جائے۔
صرف کاغذی کاروائیوں سے یہ دشمنی ختم نہیں ہوگی
قیام امن کی شروعات کاغذی کاروائی ہی سے ہوتی ہے۔ فلسطینی چاہتے ہیں کہ اسرائیل انکے تمام تر مطالبات مان لے جس کے بعد اسرائیل کا کوئی وجود اس سرزمین پر باقی نہ رہے۔ ایسا تو ممکن نہیں ہے۔
2004میں اسرائیلی حکومت نے کمال حماقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے غزہ کی پٹی سے اپنی افواج 30 سال بعد واپس بلالی تھیں۔ وہاں موجود یہودی نوآبادیوں کا زبردستی انخلاء کر وایا اور یہ علاقہ فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کر دیا ۔
ان جاہلوں کا خیال تھا کہ اگر قیام امن کیلئے ہم پہل ہم کریں گے تو دوسری جانب سے بھی یہی رد عمل آئے گا۔ مگر ہوا اسکے برعکس۔ 2 سال کے اندر اندر یہاں دہشت گرد جہادی تنظیم حماس قابض ہوگئی اور جمہوری پارٹی الفتح کو نکال باہر کیا۔ وہ دن اور آج کا دن وہاں سے مسلسل راکٹوں اور دیگر وحشیانہ کاروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اسکے باوجود اسرائیل اس پٹی میں بجلی، پانی اور دیگر ضروریات زندگی کی فراہمی یقینی بنائے ہوئے ہے۔
ان تمام حقائق کو جاننے کے باوجود تمام تر الزام اسرائیل پر لگا دینا درست نہیں کہ اسنے قیام امن کیلئے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔ جو امن چاہتے ہی نہیں انکے حلق میں امن ٹھونس کر بھی انہیں ہضم نہیں ہونے والا
زیک