کیا اللہ تعالٰی کے مبعوث کیئے ہوئے انبیاء کرام سے باالقصد خطاؤں کا صدور ممکن تھا؟؟؟

طالوت

محفلین
خلیفہ کا مطلب غالبا نائب یا پیچھے پیچھے آنے والا ہوتا ہے اور نیابت اسی کی کی جاتی ہے جو خود موجود نہ ہو ۔ مثلا سیدنا ابوبکرؓ خلیفتہ الرسول تھے کیونکہ رسول اللہ موجود نہ تھے ۔ اس قاعدے سے اللہ کا خلیفہ ہونا ممکن نہیں ۔ البتہ قران کی رو سے انسان سے پہلے زمین پر اللہ نے ایک آتشیں مخلوق پیدا فرمائی تھی ۔ یقینا انسان کو خلیفہ اس کی نسبت سے کہا گیا ہے ۔

رسول اگر نئی شریعت لے کر آتے ہیں تو سیدنا صالح علیہ الصلوۃ وسلام کی شرعیت کہاں ہے ؟

انبیاء‌ کرام ہمیشہ انسانوں کے لئے نمونہ ہوتے تھے ۔ اور ایسی شخصیت نمونہ کیونکر ہو سکتی ہے جو کسی دوسرے انسان کے مقابلے غیر معمولی قوت یا غیر ماورائی صلاحیت رکھتی ہو ؟
وسلام
 
خلیفہ کا مطلب غالبا نائب یا پیچھے پیچھے آنے والا ہوتا ہے اور نیابت اسی کی کی جاتی ہے جو خود موجود نہ ہو ۔ مثلا سیدنا ابوبکرؓ خلیفتہ الرسول تھے کیونکہ رسول اللہ موجود نہ تھے ۔ اس قاعدے سے اللہ کا خلیفہ ہونا ممکن نہیں ۔ البتہ قران کی رو سے انسان سے پہلے زمین پر اللہ نے ایک آتشیں مخلوق پیدا فرمائی تھی ۔ یقینا انسان کو خلیفہ اس کی نسبت سے کہا گیا ہے ۔وسلام
آپ نے اپنے قیاس کیلئے جو بنیاد قائم کی ہے، وہ بنیاد ہی غلط ہے۔ یعنی یہ کہنا کہ نیابت اسی کی کی جاتی ہے جو موجود نہ ہے، یہ کوئی لازمی بات نہیں ہے۔
اللہ نے آپ کے سامنے آکر متشکل ہوکر تو احکامات نہیں نافذ کرنے، ۔ ۔ کسی انسان ہی کو چنا جائے گا اس کام کیلئے اور یہی بات اسے خلیفہ بناتی ہے۔ ہر انسان خلیفہ ہے۔ ہر انسان کو کچھ نہ کچھ اختیارات دئے گئے ہیں اور ہر انسان کو ایک سلطنت ملی ہے۔ حدیث شریف بھی یہی اشارہ کرتی ہے کہ ' کلّکم راع و کلّکم مسؤول ' یعنی تم میں سے ہر ایک نگہبان چرواہا ہے اور ہر ایک سے اسکی رعیت کا سوال کیا جائے گا۔
رہی بات یہ کہ انسان جنّات کے بعد آیا اس لئے وہ خلیفہ کہلایا تو اس میں بھی وزن نہیں رہتا کیونکہ آدم کو پھر تمام ملائک سے سجدہ کیوں کروایا گیا؟ یہ تعظیم اسی کی ہی کیوں کی گئ کیونکہ اگر وہ جّنات کے بعد آنے کی وجہ سے خلیفہ بنا ہے تو پھر لازم ہے کہ جنّات کو بھی زمین پر بھیجتے وقت سجدہ کروانا چاہئے تھا۔ جنّات کو کس وجہ سے سجدہ نہیں کروایا گیا۔ انسان کو ہی کیوں چنا گیا؟
بات یہی ہے کہ آدم اللہ ہی کا خلیفہ ہے۔ خلیفتہ اللہ فی الارض
 
السلام علیکم بھائی

یہ کچھ معلومات ہیں آپکی نذر کر رہا ہوں حوالہ کے لئے معذرت، پسند آئے تو جزاک اللہ خیر۔
دوسرے احباب سے گزارش ھے کہ بحث مباحثہ سے بچنے کے لئے اگر کسی کو کوئی اعتراض ہو تو عقلمندی یہی ھے کہ وہ اپنی طرف سے اس سے اچھی معلومات فراہم کر سکتا ھے۔
شکریہ۔




نبی اسے کہتے ہیں جس پر اللہ تعالٰی نے مخلوق کی ہدایت کے لئے وحی بھیجی ہو ۔

رسول اسے کہتے ہیں جو نئی شریعت لے کر آئے۔

ہر نبی رسول نہیں ہوتا۔

ہر رسول نبی ہوتا ہے ۔

سب سے پہلے رسول حضرت نوح علیہ السلام تھے۔

سب سے پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے۔

سب سے آخری نبی اور رسول ہمارے حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہیں۔

وحی اللہ تعالٰی کا کلام ہے جو پیغمبروں پر مخلوق کی ہدایت کے لئے نازل ہوا۔

پیغمبروں پر وحی چار طریقے سے نازل ہوئی۔

انبیاء علیہم السلام اور عام انسانوں میں زمین اور آسمان سے بھی زیادہ فرق ہے
مثلا

1۔ انبیاء علیہ السلام اللہ تعالٰی کے برگزیدہ اور محبوب بندے ہوتے تھے۔

2۔ انبیاء علیہم السلام پر وحی نازل ہوتی تھی ۔

3۔ ان کی نگہبانی اور ترتیب خود اللہ تعالٰی نے فرمائی

4۔ انبیاء علیہم السلام اعلٰی نسب، سیرت، عبادت گزار، پرہیزگار، اور حسن اخلاق کے پیکر ہوئے ہیں۔

5۔ انبیاء علیہم السلام کو عقل کامل دی گئی ہے۔

6۔ اللہ تعالٰی نے انہیں ہر ایسی بات سے دور رکھا ہے جو باعث نفرت ہو۔

7۔ انبیاء علیہم السلام معصوم ہوئے ہیں یعنی ان سے چھوٹا بڑا کوئی بھی گناہ ممکن نہیں۔



انبیاء علیہم السلام کے علاوہ فرشتے معصوم ہوتے ہیں یعنی فرشتوں سے بھی گناہ ممکن نہیں۔

انبیاء علیہم السلام اور فرشتوں کی طرح دوسرے کو معصوم ماننا گمراہی ہے ۔



والسلام


غور کریں تو کچھ اصلاح کرنے کی کوشش کی ہے انبیاء اللہ علیہم السلام کا سلسلہ اب بند ہو چکا ۔ لہذا انکی صفات کے لیئے ماضی کا صیغہ استعمال کریں تو کیا زیادہ بہتر نہ ہوگا کیونکہ آنے والے وقت میں حال کے صیغے کی وجہ سے کہیں کوئی فتنہ نہ اٹھا دیا جائے
 

نبیل

تکنیکی معاون
بھائی اگر تمہیں اپنی عزت عزیز نہیں ہے تو میں بھی تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا ہوں۔
 

کعنان

محفلین
غور کریں تو کچھ اصلاح کرنے کی کوشش کی ہے انبیاء اللہ علیہم السلام کا سلسلہ اب بند ہو چکا ۔

السلام علیکم فیصل بھائی

ہو چکا / یہ ماضی کا صیغہ ہی ھے ،آپ اس سنٹنس کو ماضی کے صیغہ میں‌‌ کیسے لکھیں گے اس کا سیمپل پیش کریں۔ اگر مناسب ہوا‌ تو میں‌‌‌ اس پر آپ کو گرامر سے بھی سمجھا کی کوشش کروں گا۔ تاکہ دونوں کی اصلاح ہو سکے۔
شکریہ

والسلام
 

طالوت

محفلین
آپ نے اپنے قیاس کیلئے جو بنیاد قائم کی ہے، وہ بنیاد ہی غلط ہے۔ یعنی یہ کہنا کہ نیابت اسی کی کی جاتی ہے جو موجود نہ ہے، یہ کوئی لازمی بات نہیں ہے۔
اللہ نے آپ کے سامنے آکر متشکل ہوکر تو احکامات نہیں نافذ کرنے، ۔ ۔ کسی انسان ہی کو چنا جائے گا اس کام کیلئے اور یہی بات اسے خلیفہ بناتی ہے۔ ہر انسان خلیفہ ہے۔ ہر انسان کو کچھ نہ کچھ اختیارات دئے گئے ہیں اور ہر انسان کو ایک سلطنت ملی ہے۔ حدیث شریف بھی یہی اشارہ کرتی ہے کہ ' کلّکم راع و کلّکم مسؤول ' یعنی تم میں سے ہر ایک نگہبان چرواہا ہے اور ہر ایک سے اسکی رعیت کا سوال کیا جائے گا۔
رہی بات یہ کہ انسان جنّات کے بعد آیا اس لئے وہ خلیفہ کہلایا تو اس میں بھی وزن نہیں رہتا کیونکہ آدم کو پھر تمام ملائک سے سجدہ کیوں کروایا گیا؟ یہ تعظیم اسی کی ہی کیوں کی گئ کیونکہ اگر وہ جّنات کے بعد آنے کی وجہ سے خلیفہ بنا ہے تو پھر لازم ہے کہ جنّات کو بھی زمین پر بھیجتے وقت سجدہ کروانا چاہئے تھا۔ جنّات کو کس وجہ سے سجدہ نہیں کروایا گیا۔ انسان کو ہی کیوں چنا گیا؟
بات یہی ہے کہ آدم اللہ ہی کا خلیفہ ہے۔ خلیفتہ اللہ فی الارض

اگر ایسا ہی درست ہے کہ نیابت کے لئے کسی کی موجودگی یا غیر موجودگی سے کوئی فرق نہیں پڑتا تو کسی متعلقہ مثال سے وضاحت کریں ۔ آدم کی تعظیم اس کے علم جو اس کو سکھلایا گیا تھا کی وجہ سے کی گئی ۔ دیکھئے سورہ بقرۃ قصہ آدم و ملائکہ ۔
وسلام
 

S. H. Naqvi

محفلین
اقتباس:
اصل پيغام ارسال کردہ از: Arifkarim
ہوا نہیں ہے۔ علماء نے کیا ہے۔
کیا مطلب آپ کا ۔۔۔۔۔۔! ذرا کھل کر دوبارہ کہیں؟؟؟
اگر اس کا وہی مطلب ہے جو کہ ایک پڑھنے والےکو سمجھ آرہا ہے تو پھر آپ کے اوتار کی حیثیت واضح ہو جاتی ہے ۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
اس بات کا کیا مطلب ہے کہ نبوت کا سلسلہ بند ہوا نہیں ہے ، علماء نے کیا ہے ؟

کیا ایسی بات کہنے والا ختم نبوت کا منکر نہیں ہے ؟
بلا شبہ ہے، ارشاد ربانی ہے کہ:
مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمۡ وَلٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّنَ وَ کَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا ﴿٪۴۰﴾ سورۃ: 33 آیۃ: 40 ركوع: 5
ترجمہ: محمد باپ نہیں کسی کا تمہارے مردوں میں سے لیکن رسول ہے اللہ کا اور مہر سب نبیوں پر اور ہے اللہ سب چیزوں کو جاننے والا۔
اس کی تفسیر میں علما کچھ یوں لکھتے ہیں کہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں:
یعنی آپ کی تشریف آوری سے نبیوں کے سلسلہ پر مہر لگ گئ۔ اب کسی کو نبوت نہیں دی جائے گی بس جن کو ملنی تھی مل چکی۔ اسی لئے آپ کی نبوت کا دورہ سب نبیوں کے بعد رکھا جو قیامت تک چلتا رہے گا۔ حضرت مسیحؑ بھی اخیر زمانہ میں بحیثیت آپ کے ایک امتی کے آئیں گے۔ خود ان کی نبوت و رسالت کا عمل اس وقت جاری نہ ہوگا جیسے آج تمام انبیاء اپنے اپنے مقام پر موجود ہیں مگر شش جہت میں عمل صرف نبوت محمدیہ کا جاری و ساری ہے۔ حدیث میں ہے کہ اگر آج موسٰی(زمین پر) زندہ ہوتے تو ان کو بھی بجز میرے اتباع کے چارہ نہ تھا۔ بلکہ بعض محققین کے نزدیک تو انبیائے سابقین اپنے اپنے عہد میں خاتم الانبیاء کی روحانیت عظمٰی ہی سے مستفید ہوتے تھے۔ جیسے رات کو چاند اور ستارے سورج کے نور سے مستفید ہوتے ہیں حالانکہ سورج اس وقت دکھائی نہیں دیتا۔ اور جس طرح روشنی کے تمام مراتب عالم اسباب میں آفتاب پر ختم ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح نبوت و رسالت کے تمام مراتب و کمالات کا سلسلہ بھی روح محمدی پر ختم ہوتا ہے۔ بدیں لحاظ کہہ سکتے ہیں کہ آپ رتبی اور زمانی ہر حیثیت سے خاتم النبیین ہیں اور جن کو نبوت ملی ہے آپ ہی کی مہر لگ کر ملی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ (تنبیہ) ختم نبوت کے متعلق قرآن، حدیث، اجماع وغیرہ سے سینکڑوں دلائل جمع کر کے بعض علمائے عصر نے مستقل کتابیں لکھی ہیں۔ مطالعہ کے بعد ذرا تردد نہیں رہتا کہ اس عقیدہ کا منکر قطعًا کافر اور ملت اسلام سے خارج ہے۔
 
ہوا نہیں ہے۔ علماء نے کیا ہے۔

عارف حسن ظن کی ایک حد ہوتی ہے اور صریح کلام کے بعد مزید گنجائش نہیں رہتی ۔ اگر آپ کا یہی مطلب ہے جو نظر آ رہا ہے تو آج تک دوسرے جو الزامات آپ کو دیتے آ رہے تھے میں انہیں تسلیم کرنے پر مجبور ہوں اور جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ انبیاء اللہ علیہم السلام کی آمد کا سلسلہ نبی کریم رؤف و رحیم حضرت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ے پر موقوف نہیں ہوا ہے وہ انتہائی درجے کا جاہل اور میرا اس سے حسن ظن کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے ۔
 

arifkarim

معطل
نوٹ: یہ دھاگہ ختم نبوت کے فتووں پر ڈسکشن کیلئے نہیں ہے۔ نیز میں اس نہ ختم ہونی بحث میں‌کودنا نہیں چاہتا۔ صرف اپنی رائے کے تحت پوسٹس کا جواب دوں گا۔
اس بات کا کیا مطلب ہے کہ نبوت کا سلسلہ بند ہوا نہیں ہے ، علماء نے کیا ہے ؟

کیا ایسی بات کہنے والا ختم نبوت کا منکر نہیں ہے ؟
آنحضورؐ کی بعثت مبارک کے بعد شریعت و احکام خداوندی اپنی کمال بلندی کو پہنچ گئے۔ یوں قیامت تک کسی نئی شریعت و رسالت کی ضرورت نہیں۔ مگر اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپؐ کی ہی شریعت و امت میں سے کوئی اور نبی (خوشخبری دینے والا) قیامت تک نہیں آسکتا ۔ یوں ہم اپنے ہی عقیدہ: نزول عیسیٰ کو جھٹلانے والے بنیں گے۔ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا تعالیٰ کے سچے نبی تھے اور وہ اسوقت آسمان پر زندہ موجود ہیں اور قریب قیامت ، دجال کو قتل کرنے واپس دنیا میں تشریف لائیں گے تو اسوقت تمام نیک دل مسلمانوں، عیساؤں، یہودیوں کو انکی اتباع امتی نبی کی حیثیت سی کرنی ہوگی۔ تب انکو اپنے اس عقیدہ کی بنیاد پر یہ انتخاب کرنا ہوگا کہ آیا وہ حضرت عیسیٰ علیہلسلم کی نبوت کو جھٹلائیں کیونکہ وہ آپؐ کے بعد دوبارہ نازل ہوئے یا پھر آپؐ کی ہی امت و اتباع سے نبی کے نزول والے عقیدہ کو تسلیم کریں۔
اگر پہلی چائس کا انتخاب کریں گے تو قتل دجال و عیسائیت و یہودیت میں شریک نہ ہو پائیں گے، کیونکہ پھر بقول اسلامی عقیدہ آپؑ نبی نہ ہوں گے۔ اور آپکی اتباع مسلمان پر لازم نہ ہوگی۔ اور اگر دوسری چائس کا انتخاب کریں گے تو ختم نبوت والے عقیدہ کے منکر ثابت ہوں گے او ر یوں دائرہ اسلام سے خارج ہو کر کافر ین کی صف میں جا ملیں گے۔ دونوں صورتیں اس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ وہ وقت مسلمانوں کیلئے نہ تین میں نہ تیرہ میں ثابت ہوگا۔
کیا مطلب آپ کا ۔۔۔۔۔۔! ذرا کھل کر دوبارہ کہیں؟؟؟
اگر اس کا وہی مطلب ہے جو کہ ایک پڑھنے والےکو سمجھ آرہا ہے تو پھر آپ کے اوتار کی حیثیت واضح ہو جاتی ہے ۔
میرے اوتار میں موجود کالا دجال مغربی خفیہ تنظیم الیومیناتی کی طرف اشارع کرتا ہے، جو کہ اسوقت پوری دنیا پر اپنے خفیہ ہتھکنڈوں سے حکمرانی کر رہے ہیں۔ اگر آپ اسکو علماء والا کانا دجال سمجھ رہے ہیں، تو غلطی پر ہیں۔
بلا شبہ ہے، ارشاد ربانی ہے کہ:
مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمۡ وَلٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّنَ وَ کَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا ﴿٪۴۰﴾ سورۃ: 33 آیۃ: 40 ركوع: 5
ترجمہ: محمد باپ نہیں کسی کا تمہارے مردوں میں سے لیکن رسول ہے اللہ کا اور مہر سب نبیوں پر اور ہے اللہ سب چیزوں کو جاننے والا۔
اس کی تفسیر میں علما کچھ یوں لکھتے ہیں کہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں:
یعنی آپ کی تشریف آوری سے نبیوں کے سلسلہ پر مہر لگ گئ۔ اب کسی کو نبوت نہیں دی جائے گی بس جن کو ملنی تھی مل چکی۔ اسی لئے آپ کی نبوت کا دورہ سب نبیوں کے بعد رکھا جو قیامت تک چلتا رہے گا۔ حضرت مسیحؑ بھی اخیر زمانہ میں بحیثیت آپ کے ایک امتی کے آئیں گے۔ خود ان کی نبوت و رسالت کا عمل اس وقت جاری نہ ہوگا جیسے آج تمام انبیاء اپنے اپنے مقام پر موجود ہیں مگر شش جہت میں عمل صرف نبوت محمدیہ کا جاری و ساری ہے۔ حدیث میں ہے کہ اگر آج موسٰی(زمین پر) زندہ ہوتے تو ان کو بھی بجز میرے اتباع کے چارہ نہ تھا۔ بلکہ بعض محققین کے نزدیک تو انبیائے سابقین اپنے اپنے عہد میں خاتم الانبیاء کی روحانیت عظمٰی ہی سے مستفید ہوتے تھے۔ جیسے رات کو چاند اور ستارے سورج کے نور سے مستفید ہوتے ہیں حالانکہ سورج اس وقت دکھائی نہیں دیتا۔ اور جس طرح روشنی کے تمام مراتب عالم اسباب میں آفتاب پر ختم ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح نبوت و رسالت کے تمام مراتب و کمالات کا سلسلہ بھی روح محمدی پر ختم ہوتا ہے۔ بدیں لحاظ کہہ سکتے ہیں کہ آپ رتبی اور زمانی ہر حیثیت سے خاتم النبیین ہیں اور جن کو نبوت ملی ہے آپ ہی کی مہر لگ کر ملی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ (تنبیہ) ختم نبوت کے متعلق قرآن، حدیث، اجماع وغیرہ سے سینکڑوں دلائل جمع کر کے بعض علمائے عصر نے مستقل کتابیں لکھی ہیں۔ مطالعہ کے بعد ذرا تردد نہیں رہتا کہ اس عقیدہ کا منکر قطعًا کافر اور ملت اسلام سے خارج ہے۔
آپکے اس فتوے کا بہت بہت شکریہ۔ ایسا ہی ایک فتوہ کوئی بھی اسلامی فرقہ آپکے خلاف بھی جاری کر سکتا ہے۔
عارف حسن ظن کی ایک حد ہوتی ہے اور صریح کلام کے بعد مزید گنجائش نہیں رہتی ۔ اگر آپ کا یہی مطلب ہے جو نظر آ رہا ہے تو آج تک دوسرے جو الزامات آپ کو دیتے آ رہے تھے میں انہیں تسلیم کرنے پر مجبور ہوں اور جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ انبیاء اللہ علیہم السلام کی آمد کا سلسلہ نبی کریم رؤف و رحیم حضرت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ے پر موقوف نہیں ہوا ہے وہ انتہائی درجے کا جاہل اور میرا اس سے حسن ظن کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے ۔
میرا خیال ہے اسکی وضاحت میں اوپر کر چکا ہے۔ باقی اگر آپ میرے ایمان یا عقائد کی بنیاد پر حسن ظرفی یا نفرت کا مظاہرہ کرتے ہیں تو اس سے آپکی تنگ دلی ہم سب پر واضح ہو جاتی ہے۔ اسلام سے بھی بڑا ایک مذہب انسانیت ہے جو کہ کسی کے مذہب یا عقائد کی بنیاد پر تفریق نہ کرنے کی تعلیم دیتا ہے اور مجھے افسوس ہے کہ اسلام پر عمل کرنے والے اس خوبی سے محروم ہیں۔
 

کعنان

محفلین
یوں ہم اپنے ہی عقیدہ: نزول عیسیٰ کو جھٹلانے والے بنیں گے۔ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا تعالیٰ کے سچے نبی تھے اور وہ اسوقت آسمان پر زندہ موجود ہیں اور قریب قیامت ، دجال کو قتل کرنے واپس دنیا میں تشریف لائیں گے تو اسوقت تمام نیک دل مسلمانوں، عیساؤں، یہودیوں کو انکی اتباع امتی نبی کی حیثیت سی کرنی ہوگی۔ تب انکو اپنے اس عقیدہ کی بنیاد پر یہ انتخاب کرنا ہوگا کہ آیا وہ حضرت عیسیٰ علیہ لسلم کی نبوت کو جھٹلائیں کیونکہ وہ آپؐ کے بعد دوبارہ نازل ہوئے یا پھر آپؐ کی ہی امت و اتباع سے نبی کے نزول والے عقیدہ کو تسلیم کریں۔


السلام علیکم

بھائی میرے عیسی علیہ السلام دوبارہ پیدا ہو کر آئیں گے،قیامت کے قریب اللہ کی نشانیوں‌ میں‌‌‌‌ سے یہ بھی ایک نشانی ھے مگر نہ تو وہ نبی بن کر آئیں گے اور نہ کسی شریعت کے ساتھ آئیں گے، بلکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی بن کر آئیں گے۔
اب ان کی آڑ‌‌ میں‌ اس بات کا سہارا لینا کہ نبوت چل رہی ھے اور علماء‌‌‌‌‌ نے بند کی ھے تو پھر یہ آپ کی اپنی رائے ھے جو کہ غلط ھے۔ اس کے لئے ہہی مشورہ دے سکتا ہوں کہ قرآن مجید کو ایک مرتبہ ترجمہ کے ساتھ پڑھیں‌‌‌‌‌ تاکہ آپ کو اس بات کا علم ہو کہ نبوت اللہ سبحان تعالی نے بند کی ھے اور جسے دنیا کا کوئی بھی باطل جاری نہیں کر سکتا۔

پھر جب وصال ہو گا تو مسجد نبوی کے اندر روضہ رسول( صلی اللہ علیہ وسلم) کے اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر انور مبارک کے ساتھ ابوبکر رضی اللہ تعالی کی قبر انور کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ تعالی کی قبر انور کے ساتھ ایک قبر انور خالی ھے وہاں دفن کئے جائیں گے۔

والسلام
 

شمشاد

لائبریرین
دوبارہ پیدا تو نہیں ہوں گے البتہ یہ پڑھا ہے کہ فجر کی اذان ہو رہی ہو گی اور وہ ملک شام کے شہر دمشق میں ایک مسجد کے مینار پر اتارے جائیں گے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
 

کعنان

محفلین
السلام علیکم بھائی

دوبارہ پیدا ہونگے یا جیسا آپ فرما رہے ہیں اس پر مختلف معلومات‌ اور رائے قائم ہیں‌.‌ کوئی ایک نہیں‌‌‌‌‌‌‌ ھے۔ اگر دیکھنا ہوں‌ تو ٹیوب میں‌ پاکستان کے مختلف فقہ کے علماء کی ایک تویل بحث ھے جس میں‌ کچھ نے تو یہ بھی کہا ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

جو وہ زمانہ پائیں‌ گے تو جان جائیں‌‌ گے، ہم تو اپنا وقت پورا کر کے چلے جائیں‌ گے جیسا ہم سے پہلے تھے۔

والسلام
 

شمشاد

لائبریرین
جہاں تک بات ہے پیدا ہونے کی تو حضرت عیسٰی علیہ السلام ایک دفعہ پیدا ہو چکے ہیں۔ اب دوبارہ پیدا نہیں ہوں گے۔

جہاں تک سوال ہے کہ وہ دنیا میں کیسے تشریف لائیں گے تو اللہ تعالٰی کی ذات بہت بڑی ہے بڑی بے نیاز ہے، وہی بہتر جانتا ہے کہ وہ انہیں دنیا میں کیسے بھیجے گا۔
 

arifkarim

معطل
لیجئے۔ یہاں نزول عیسیٰ ؑپر ہی "مسلمانوں" کا اتفاق نہیں رہا ۔ اب جب کہ قیامت کے قریب حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں واپس تشریف لائیں گے( دوبارہ پیدا ہو کر یا آسمان سے اتر کر ) تو تب وہ نہ نبی ہوں گے ، نہ نئی شریعت لے کر آئیں گے۔ اور تمام مسلمان انکی کس ’’حیثیت‘‘ سے اتباع کریں گے۔ اگر وہ آپؐ کے امتی بن کر آئیں گے تو جو کھرب ہا عیسائی نزول عیسیٰؑ کا انتظار کر رہے ہیں‌انکا کیا ہوگا؟ وہ سب تو مسلمان ہونے سے رہے۔ ۔۔۔
میں نے اسی لئے کہا تھا کہ ختم نبوت و نزول عیسیٰ ایک لامتناہی مسئلہ ہے اور وقت آنے پر الٰہی رنگ میں ظاہر ہو جائے گا، یوں فارم پر اس موضوع پہ بحث بے کار ہے۔
 
Top