نوٹ: یہ دھاگہ ختم نبوت کے فتووں پر ڈسکشن کیلئے نہیں ہے۔ نیز میں اس نہ ختم ہونی بحث میںکودنا نہیں چاہتا۔ صرف اپنی رائے کے تحت پوسٹس کا جواب دوں گا۔
اس بات کا کیا مطلب ہے کہ نبوت کا سلسلہ بند ہوا نہیں ہے ، علماء نے کیا ہے ؟
کیا ایسی بات کہنے والا ختم نبوت کا منکر نہیں ہے ؟
آنحضورؐ کی بعثت مبارک کے بعد شریعت و احکام خداوندی اپنی کمال بلندی کو پہنچ گئے۔ یوں قیامت تک کسی نئی شریعت و رسالت کی ضرورت نہیں۔ مگر اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپؐ کی ہی شریعت و امت میں سے کوئی اور نبی (خوشخبری دینے والا) قیامت تک نہیں آسکتا ۔ یوں ہم اپنے ہی عقیدہ: نزول عیسیٰ کو جھٹلانے والے بنیں گے۔ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا تعالیٰ کے سچے نبی تھے اور وہ اسوقت آسمان پر زندہ موجود ہیں اور قریب قیامت ، دجال کو قتل کرنے واپس دنیا میں تشریف لائیں گے تو اسوقت تمام نیک دل مسلمانوں، عیساؤں، یہودیوں کو انکی اتباع امتی نبی کی حیثیت سی کرنی ہوگی۔ تب انکو اپنے اس عقیدہ کی بنیاد پر یہ انتخاب کرنا ہوگا کہ آیا وہ حضرت عیسیٰ علیہلسلم کی نبوت کو جھٹلائیں کیونکہ وہ آپؐ کے بعد دوبارہ نازل ہوئے یا پھر آپؐ کی ہی امت و اتباع سے نبی کے نزول والے عقیدہ کو تسلیم کریں۔
اگر پہلی چائس کا انتخاب کریں گے تو قتل دجال و عیسائیت و یہودیت میں شریک نہ ہو پائیں گے، کیونکہ پھر بقول اسلامی عقیدہ آپؑ نبی نہ ہوں گے۔ اور آپکی اتباع مسلمان پر لازم نہ ہوگی۔ اور اگر دوسری چائس کا انتخاب کریں گے تو ختم نبوت والے عقیدہ کے منکر ثابت ہوں گے او ر یوں دائرہ اسلام سے خارج ہو کر کافر ین کی صف میں جا ملیں گے۔ دونوں صورتیں اس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ وہ وقت مسلمانوں کیلئے نہ تین میں نہ تیرہ میں ثابت ہوگا۔
کیا مطلب آپ کا ۔۔۔۔۔۔! ذرا کھل کر دوبارہ کہیں؟؟؟
اگر اس کا وہی مطلب ہے جو کہ ایک پڑھنے والےکو سمجھ آرہا ہے تو پھر آپ کے اوتار کی حیثیت واضح ہو جاتی ہے ۔
میرے اوتار میں موجود کالا دجال مغربی خفیہ تنظیم الیومیناتی کی طرف اشارع کرتا ہے، جو کہ اسوقت پوری دنیا پر اپنے خفیہ ہتھکنڈوں سے حکمرانی کر رہے ہیں۔ اگر آپ اسکو علماء والا کانا دجال سمجھ رہے ہیں، تو غلطی پر ہیں۔
بلا شبہ ہے، ارشاد ربانی ہے کہ:
مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمۡ وَلٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّنَ وَ کَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا ﴿٪۴۰﴾ سورۃ: 33 آیۃ: 40 ركوع: 5
ترجمہ: محمد باپ نہیں کسی کا تمہارے مردوں میں سے لیکن رسول ہے اللہ کا اور مہر سب نبیوں پر اور ہے اللہ سب چیزوں کو جاننے والا۔
اس کی تفسیر میں علما کچھ یوں لکھتے ہیں کہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں:
یعنی آپ کی تشریف آوری سے نبیوں کے سلسلہ پر مہر لگ گئ۔ اب کسی کو نبوت نہیں دی جائے گی بس جن کو ملنی تھی مل چکی۔ اسی لئے آپ کی نبوت کا دورہ سب نبیوں کے بعد رکھا جو قیامت تک چلتا رہے گا۔ حضرت مسیحؑ بھی اخیر زمانہ میں بحیثیت آپ کے ایک امتی کے آئیں گے۔ خود ان کی نبوت و رسالت کا عمل اس وقت جاری نہ ہوگا جیسے آج تمام انبیاء اپنے اپنے مقام پر موجود ہیں مگر شش جہت میں عمل صرف نبوت محمدیہ کا جاری و ساری ہے۔ حدیث میں ہے کہ اگر آج موسٰی(زمین پر) زندہ ہوتے تو ان کو بھی بجز میرے اتباع کے چارہ نہ تھا۔ بلکہ بعض محققین کے نزدیک تو انبیائے سابقین اپنے اپنے عہد میں خاتم الانبیاء کی روحانیت عظمٰی ہی سے مستفید ہوتے تھے۔ جیسے رات کو چاند اور ستارے سورج کے نور سے مستفید ہوتے ہیں حالانکہ سورج اس وقت دکھائی نہیں دیتا۔ اور جس طرح روشنی کے تمام مراتب عالم اسباب میں آفتاب پر ختم ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح نبوت و رسالت کے تمام مراتب و کمالات کا سلسلہ بھی روح محمدی پر ختم ہوتا ہے۔ بدیں لحاظ کہہ سکتے ہیں کہ آپ رتبی اور زمانی ہر حیثیت سے خاتم النبیین ہیں اور جن کو نبوت ملی ہے آپ ہی کی مہر لگ کر ملی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ (تنبیہ) ختم نبوت کے متعلق قرآن، حدیث، اجماع وغیرہ سے سینکڑوں دلائل جمع کر کے بعض علمائے عصر نے مستقل کتابیں لکھی ہیں۔ مطالعہ کے بعد ذرا تردد نہیں رہتا کہ اس عقیدہ کا منکر قطعًا کافر اور ملت اسلام سے خارج ہے۔
آپکے اس فتوے کا بہت بہت شکریہ۔ ایسا ہی ایک فتوہ کوئی بھی اسلامی فرقہ آپکے خلاف بھی جاری کر سکتا ہے۔
عارف حسن ظن کی ایک حد ہوتی ہے اور صریح کلام کے بعد مزید گنجائش نہیں رہتی ۔ اگر آپ کا یہی مطلب ہے جو نظر آ رہا ہے تو آج تک دوسرے جو الزامات آپ کو دیتے آ رہے تھے میں انہیں تسلیم کرنے پر مجبور ہوں اور جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ انبیاء اللہ علیہم السلام کی آمد کا سلسلہ نبی کریم رؤف و رحیم حضرت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ے پر موقوف نہیں ہوا ہے وہ انتہائی درجے کا جاہل اور میرا اس سے حسن ظن کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے ۔
میرا خیال ہے اسکی وضاحت میں اوپر کر چکا ہے۔ باقی اگر آپ میرے ایمان یا عقائد کی بنیاد پر حسن ظرفی یا نفرت کا مظاہرہ کرتے ہیں تو اس سے آپکی تنگ دلی ہم سب پر واضح ہو جاتی ہے۔ اسلام سے بھی بڑا ایک مذہب انسانیت ہے جو کہ کسی کے مذہب یا عقائد کی بنیاد پر تفریق نہ کرنے کی تعلیم دیتا ہے اور مجھے افسوس ہے کہ اسلام پر عمل کرنے والے اس خوبی سے محروم ہیں۔