جواب: کیونکہ خود خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں بہت سی جگہوں پر فرمایا ہے کہ کائنات کی تسخیر کرو، اسمیں فہم والوں کیلئے بہت سی نشانیاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے تمام عقائد کو ایک زمانے کیلئے محدود نہیں کیا بلکہ قیامت تک کے آنے والے انسانوں کیلئے رہنمائی فرمائی ہے۔ یہ تو ہماری جہالت ہے کہ دنیا 21 ویں صدی میںقدم رکھ چکی ہے، جبکہ ہم مسلسل 700 عیسوی میں ہی رہنا چاہتے ہیں۔ اگر خدا تعالیٰ کی ذات کا ثبوت صرف وحی الہیٰ پر ایمان سے دینا کافی ہوتا، تو کوئی کافر ہرگز اسکو نہ مانتا جب تک کہ کوئی عمدہ دلیل نہ دی۔ خد ا کی ذات کی دلیل آنحضور ؐ نے وحی کیساتھ ساتھ قدرت الہیٰ کے مشاہدہ سے بھی فرمائی ہے۔
حجور آپ نے پھر ہمارے
سوالوں کا جواب نہیں دیا
ہاں البتہ اس مرتبہ حجرت نے لفظ
جواب کا اضافہ فرما کر اپنے تئیں یہ سمجھ لیا کہ جواب ہوگیا اجی حجور اتنی
بھی کیا جلدی ہے ابھی تو بات چلی ہے آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا ؟ اجی ہم نے کب کہا
کہ قرآن پاک میں عقل والوں کہ لیے نشانیاں نہیں ہیں ہم تو فقط جناب سے
اتنا پوچھنے کی غلطی کر بیٹھے کہ جناب کہ ہاں نقلی دلائل(جو کہ وحی الٰہی پر مشتمل ہیں ) سے بڑھ کر عقلی دلائل کو اولیت کیوں حاصل ہے اور اس فوقیت کی کیا دلیل ہے جناب کہ پاس ؟یعنی
دوسرے لفظوں میں ہم یہ پوچھنا چاہ رہے کہ جناب کسی مسلمان گھر میں پیدا ہوئے اور جب عقل و شعور کو پہنچے تو کیا جناب نے پہلے اپنے پیدائشی مسلمان ہونے کا انکار فرمایا تھا ؟اور اپنے اجداد سے یہ فرمایا تھا کہ جب تک میں خود کائنات کا مشاہدہ نہ کرلوں تب تک اپنے باپ دادا کہ فرسودہ عقائد کو قبول نہیں کروں گا ؟ اب امید ہے کہ جناب میرا مدعا سمجھ گئے ہوں کہ ایک تو یہ فرمایئے کہ
جناب کہ ہاں مشاہدہ اور معائنہ کو وحی الٰہی (جو کہ نقلی تواتر سے ہم تک پہنچی ہے) پر ترجیح کیوں ہے ؟ یعنی وجہ ترجیح بیان کی جائے اور دوسرا جو جناب ہر جگہ عمل عمل کا راگ الاپ رہے تو اپنے عمل سے بھی واضح کریں کہ جناب نے اس باب میں کیا پہلے اپنے باپ دادا کا رد کیا یا نہیں ؟
اور یہ بھ
ی خوب کہی کہ اسلام نے عقائد کو ایک زمانے تک محدود نہیں کیا ؟ بھلا اس بیان کی
کیا ضرورت پیش آگئی تھی حالانکہ یہ بات تو بچہ بچہ بھی جانتا ہے کہ
عقائد تدریجی نہیں ہوتے ہمیشہ سے ایک ہی ہوتے ہیں اور قیامت تک وہی رہتے ہیں ان میں کوئی
تبدیلی واقع نہیں ہوسکتی اسی لیے اسلام میں
عقائد حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر قیامت تک کہ لیے وہی ہیں جو کہ ہماری شریعت میں ہیں ۔ہاں البتہ
شرائع میں تبدیلی واقع ہوتی رہی جو کہ
فی زمانہ کہ حالات کہ مطابق تھی اور
یہ تبدیلی بھی آنحضرت خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر آکر ختم ہوگئی کہ آپ کی
شریعت یونیورسل ہے ہر مسئلے کا ہر زمانے کہ حساب سے حل دیتی ہے ۔ ۔ ۔اب جناب نے جو
عقائد کہ باب یہ ایک بھونڈی سی دلیل دے ماری ہے کہ جسکی
اس بحث میں کوئی ضرورت نہ تھی اور نہ ہی کوئی تُک
مگر جناب کی اس کارستانی سے عقدہ کھلا کہ جانب سے عقیدہ کی تعریف بھی پوچھ ہی
لینی چاہیے تو کیا خیال ہے پھر؟ باقی رہ گئی اللہ پاکی ذات پر عقلی
دلائل کی بات تو ہم نے کب انکار کیا عقلی دلائل سے ہم تو مانتے ہیں کہ قرآن پاک
جابجا عقلی دلائل کی طرف بھی انسانیت کو متوجہ کرتا ہے اور ہم نے یہ عرض بھی کی تھی کہ ہمارے عقلی
دلائل کی بھی اہمیت ہے مگر ضمن اولیت وحی الٰہی کو ہے جو کہ نقلی تواتر سے ثابت ہے اور نقلی تواتر کو
جناب فرسودہ روایات سمجھتے ہیں ۔ ۔۔ لہزا ہمیں بتایا جائے کہ
جناب کہ ہاں عقلی دلائل کی ترجیح کی کیا وجوہ ہیں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
ایمان اور اعمال کا تواتر کیساتھ آیات میںاکٹھے آنے سے یہ کیسے ثابت ہوگا کہ ایمان کو اعمال پر ترجیح ہے اگر آپکا نظریہ یہ ہے کہ کیونکہ ایمان کا لفظ پہلے اور اعمال کا بعد میں ، یوں ایمان کو اعمال پر فوقیت حاصل ہے۔ تو اسکو رد کرنے کیلئے صرف ایک یہ دلیل کافی جو ہم مادی دنیا میں روزانہ دیکھتے ہیں:
فرض کریں ایک انجینیر، ڈاکٹر،ٹیکنیشن۱۵، ۲۰ سالوں کی انتھک پڑھائی کے بعد اس مقام تک پہنچ جاتا ہے جب ہم کہہ سکیں کہ یہ اپنی فیلڈ میںمکمل ماہر ہو چکا ہے۔ لیکن اپنا کورس مکمل کرنے کے بعد نہ تو اسکو اس فیلڈ میں کام ملے اور نہ ہی کوئی موقع دیا جائے تا وہ اپنے حاصل کردہ علم کو عملی جامہ پہنا سکے تو ُ آپ ہی بتائیں کیا ایسے علم کا اس شخص کو یا کسی اور کو کوئی فائدہ ہوگا؟
:
ماشاءاللہ سبحان اللہ یہ بھی
خوب کہی یعنی ہم قرآن پاک
سے ایمان کی اعمال پر فوقیت کی دلیل دیں اور آپ
جناب عقلی ڈھکوسلوں سے اس کا رد کریں ۔ ۔ چلیں ہم مان لیتے ہیں کہ
سارے قرآن میں جہاں بھی ایمان اور اعمال کا اکٹھے ذکر آیا ہے وہاں جو اللہ پاک نے ایمان
کو تقدم بخشا ہے وہ آپ جناب کہ نزدیک ایمان کی اولیت کی دلیل نہیں ہے تو پھر
ہمیں وہ دلیل بھی تو بتادیں ناں کہ جس کی وجہ سے جناب اعمال کو ایمان پر فوقیت دیتے ہیں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
بالکل یہی حال اعتقادی ایمان اور اعمال کا ہے۔ ایمان کی ترغیب پہلے اسلئے کہ یہ (اسلام) وہ علم ہے جو انسانیت کی نجات کا واحد راستہ دکھلاتا ہے۔ اور انسان کو مکمل نجات تب حاصل ہوگی جب وہ اپنے حاصل کر دہ علم ’’اعتقادی ایمان‘‘ کو روز مرہ کی زندگی میں معمول کا حصہ بنائے۔ جب کہ آپ حضرت فرما رہے ہیں کہ صرف ایمان کا ہونا بہت کافی ہے اور اعمال کا نمبر دوسرا ہے! بھائی جب ایمان عملی زندگی میں کام ہی نہیں آرہا تو وہ کس قسم کا ایمان ہے
لیجیئے دروغ گو حافظہ نا باشد والی مثال ثابت ہوئی کہ یہاں آپ جناب نے
خود ہی تسلیم کرلیا کہ ایمان کو اعمال پر اولیت حاصل ہے اگرچہ جناب نے اس
اولیت کو ترغیبی باب میں تسلیم کیا اور ساتھ میں دلیل بھی ذکر کی جو کہ بجا طور پر
بجا ہے کہ اللہ پاک نے ایمان کو اعمال پر ترجیح اس لیے دی کہ آگے جناب کہ الفاظ ۔
۔(اسلام) وہ علم ہے جو انسانیت کی نجات کا واحد راستہ دکھلاتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ بریکٹ میں
لفظ اسلام کی جگہ
ایمان لکھنا چاہیے تھا ۔۔ ۔ ۔ اب ہم جناب سے پوچھتے ہیں کہ جب جناب کو بھی یہ تسلیم ہے کہ
ایمان ہی اصل میں وہ علم ہے جو کہ انسانیت
کو نجات کی راہ دکھلاتا ہے تو پھر جناب یہ کیوں نہیں مان لیتے کہ
انسان جو بھی کام کرئے پہلے اسے اسکا علم ہونا ضروری ہے لہزا پہلے
ایمان ۔۔۔۔۔۔۔ کہ علم اس کا ایک
ادنٰی درجہ ہے
پھر عمل ۔ ۔ ۔ ۔کیوں کیا خیال ہے جناب کا؟؟ آگے جناب کی جو تقریر ہے وہ ہمارے
موضوع سے متعلق نہیں کہ ہم میں سے کوئی بھی
اعمال کی اہمیت کا انکاری نہیں سب مسلمان جانتے ہیں
کامل نجات اول محض اللہ کہ فضل اور پھر ایمان اور اعمال کہ مجموعے سے ہی ہوگی ۔ ۔۔ لیکن یہاں مسئلہ
کامل نجات کا نہیں بلکہ
ایمان کی اعمال پر فوقیت کا زیر بحث تھا ۔ ۔ ۔