کیا امت کا اختلاف رحمت ہے ؟!

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔
گرامیِ قدر خرم صاحب۔۔۔ افسوس کہ ساتھ کہنا پڑھ رہا ہے کہ آپ اپنی جہالت میں جس کمی کے خواہش مند ہیں۔۔۔ ہوسکتا ہے کہ وہ ایک جوش فہمی سے زیادہ اور کچھ نہ ہو؟؟؟۔۔۔ محترم بلبلے کی بقا کا راز ہے پانی کی گود۔۔۔ کیونکہ گود سے باہر نکلتے ہی وہ اپنی موت آپ مرجاتا ہے۔۔۔ بین اسی طرح علماء کے اختلاف کو اگر آپ اُمت کے لئے رحمت سے تعبیر کرنا چاہتے ہیں تو جناب آپ خود صریح گمراہی میں متبلا ہے اور جس جہالت کے ختم ہونے کا ولیمہ جو آپ منا رہے ہیں۔۔۔ وہ ختم نہیں ہوئی بلکہ چالیسویں کے سوگ میں تبدیل ہوگئی۔۔۔ محترم قرآن کی ایک آیت کا انکار بھی بڑے بڑوں کو دائرہ اسلام سے خارج ہے اور آپ نے خیر سے۔۔۔۔۔۔۔ المہہم!۔ آئیئے جس علماء کے اختلاف کو آپ نے رحمت بنانے کی سازش کی ہے۔۔۔ اُن ہی علماء کی رہنمائی کرتے ہوئے اللہ وحدہ لاشریک نے کتنی پیاری بات بیان فرمائی ہے۔۔۔ کہ!۔

فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ
اگر کسی مسئلہ میں تم باہم اختلاف کرو تو اسے (حتمی فیصلہ کے لئے) اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف لوٹا دو۔۔۔

اسی لئے اللہ رب العزت نے قرآن میں واضع طور پر ارشاد فرمادیا ہے کہ!۔۔

فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ۔
تم اہلِ ذکر سے پوچھ لیا کرو اگر تمہیں خود (کچھ) معلوم نہ ہو۔۔۔

دیکھا عقل کے گھوڑے دوڑانے والوں کو اللہ وحدہ لاشریک نے کتنی پیاری نصیحت کی ہے۔۔۔ اور جو لوگ ہدایت کے متمنی ہوتے ہیں وہی وہ لوگ ہیں کہ جن کو اللہ رب العزت نے ہدایت بخشی اور جو لوگ صرف اپنی پوسٹیں بڑھانے کے لئے اٹل پچو گیریاں کرتے ہیں ان کے لئے بھی وعید بیان کی جاچکی ہے۔۔۔ ملاحظہ ہو۔۔۔

هُوَ الَّذِي أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلاَّ اللّهُ
وہی ہے جس نے آپ پر کتاب نازل فرمائی جس میں سے کچھ آیتیں محکم (یعنی ظاہراً بھی صاف اور واضح معنی رکھنے والی) ہیں وہی (احکام) کتاب کی بنیاد ہیں اور دوسری آیتیں متشابہ (یعنی معنی میں کئی احتمال اور اشتباہ رکھنے والی) ہیں، سو وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی ہے اس میں سے صرف متشابہات کی پیروی کرتے ہیں (فقط) فتنہ پروری کی خواہش کے زیرِ اثر اور اصل مراد کی بجائے من پسند معنی مراد لینے کی غرض سے، اور اس کی اصل مراد کو اﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔۔۔

وسلام۔۔۔
 

عُکاشہ

محفلین
بسم اللہ الرحن الر حیم​
السلام علیکم !
اللہ تعالی عزوجل کا فرمان ہے :
"ھم نے ایسے بہت سے جن اور انسان دوزخ کے لیے پیدا کیے ھیں ،جن کے دل ایسے ھیں کہ نہیں سمجہتے اور جن کی آنکھیں ایسی ھیں جن سے نہیں دیکھتے اور جن کے کان ایسے ھیں جن سے نہیں سنتے ،یہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں،بلکہ یہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ھیں،یہی لوگ غافل ھیں "
الاعراف 179
یعنی اللہ تعالی کی ہدایت سے اعراض کرنے والے شخص کے اندر تویہ تمیز کرنے کی صلاحیت ہی ختم ہو جاتی ھے کہ لیے اس کے لیے مفید چیز کونسی ھے اور مضر کون سی
ی

باقی کوئی ایسی بات نہیں جس کے لئے بحث کو بڑھایا جائے۔ ائمہ کا اختلاف ایک حقیقت ہے اور آپ نے اسے تسلیم کیا۔ اب میں جو بات مجھ تک پہنچی اس کی وجہ سے یہ مانتا ہوں کہ یہ اختلاف امت کے لئے رحمت ہے۔ آپ اس کے خلاف مانتے ہیں۔ کوئی بات نہیں۔ اللہ مجھے ہدایت دے۔ آمین۔
سبحان اللہ قرآن و حدیث سے روشن دلائل مل چکے ں پھر بھی کہنا ہے کہ جو بات مجھ تک پہنچی وہی صحیح ہے یعنی کھلا انکار کررہے ھیں ،
اللہ تعالی عزوجل کا فرمان ہے :
"اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوط تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو "
آل عمرآن
103
قرآن وحدیث کے فہم اوراس کی توضیح وتعبیر میں کچھ باہم اختلاف ،یہ فرقہ بندی کا سبب نہیں ،یہ اختلاف تو تو صحابہ وتابعین کے عہد میں بھی تھا لیکن مسلمان فرقوں اور گرہوں میں تقسیم نہیں ہوئے ،کیونکہ اس اختلاف کے باوجود سب کا مرکز اطاعت اور محور عقیدت ایک ہی تھا قرآن و حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم-
لیکن جب شخصیات کے نام پر دبستانِفکر معرض وجود میں آئے تو اطاعت وعقیدت کے یہ مرکز اور محور تبدیل ہو گئے -اپنی اپنی شخصیات اور ان کے اقوال و افکار اوّلین حثیت کے اور اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے فرمودات ثانوی حیثیت کے حامل قرار پائے -اور یہیں سے امت مسلمہ کے افتراق کے المیے کا آغاز ھوا اور دن بدن بڑھتا ہی چلا گیا اور اب حال یہ ھے کہ روشن دلائل آنے باوجود آنکھیں میت لی جاتی ھیں -
اس سے معلوم ہوا کہ یہود و نصا ری کے باہمی ااختلاف و تفرقہ کی وجہ یہ نہ تھی کہ انھیں حق کا پتا نہ تھا یا وہ اس کے دلائل سے بےخبر تھے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے سب کچھ جانتے ہوئے محض اپنے دنیاوی مفاد اور نفساتی اعراض کے لیے اختلاف اور تفرقہ کی راہ پکڑی تھی اور اس بر جمے تھے ۔قرآن مید نے مختلف اسلبوب اور پیرائے سے باربار اس حقیقت کی نشاندہی کی ھے اور سے دور رہنے کی تاکید فرمائی ھے لکین افسوس صد افسوس کے اسے امت کے تفرقہ بازوں نے بھی ٹھیک وہی روش اختیار کی کہ حق اور اسکی روشن دلیلیں انھیں خوب اچھی طرح معلوم ھیں ،مگر وہ اپنی فرقہ بندیوں پر جمے ہوئے ھیں اور اپنی عقل و ذہانت کا سارا جوہر سابقہ امتوں کی طرح تاویل و تحریف کے مکرہء شغل میں ضائع کر رہے ھیں-

وسلام-
 

خرم

محفلین
محترمین کارتوس خان و عکاشہ،

آپ دونوں‌نے کمال فراخدلی سے مجھ پر منکر قرآن و تفرقہ باز ہونے کے الزامات لگائے ہیں اور مجھے دائرہ اسلام سے ہی خارج قرار دے دیا۔ اللہ آپ کا بھلا کرے۔ ایک لنک تھا آپکی کسی پوسٹ پر کارتوس صاحب جس پر بڑی اچھی باتیں لکھی تھیں ائمہ کرام کے بارے میں اور یہ کہ ان کے متعلق کیسا خیال کیا جائے اور یہ کہ ان کے اختلاف کی کیا حقیقت ہے۔ ان پوسٹوں کی تائید کی تھی عکاشہ صاحب نے اس فورم پر۔ غلط فہمی سے میں یہ سمجھ بیٹھا تھا کہ جو کچھ آپ نے لکھا ہے اس پر یقین بھی رکھتے ہیں۔ معذرت۔
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم​

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔
گرامی قدر خرم صاحب۔۔۔ میں بس آپ کو ایک نصیحت کرنا چاہوں گا۔۔۔ کہ کسی انسان کی عظمت اس کے اچھے کردار اور سیرت پر منحصر ہے۔۔۔ لیکن سیرت وعظمت کارناموں کی اہمیت پر منحصر ہے اور سیرت اور کردار میں جب تک رفعت عمل نہ ہو تو اچھی صورت باوجود اچھی ہونے کے کسی تعارت کی بلندی سے موصوف نہیں ہوسکتی۔۔۔نصیحت اصل میں دوسروں کے لئے دل میں خیر خواہی کا جذبہ ہونے کا اظہار ہے۔۔۔ دیکھیں محترم ہمیں آپ سے کوئی بیر نہیں ہے۔۔۔اور نہ ہی کسی قسم کی دشمنی۔۔۔ بس ایک اختلاف ہے۔۔۔ جس موضوع بنا ہوا ہے۔۔۔ اس کو موضوع کی ہی حد تک محدود رکھیں تو بہتر ہے۔۔۔میں یہاں پر ایک حدیث پیش کرنا چاہوں گا۔۔۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ!۔
لاتزال طائفۃ من اُمتی قائمۃ بامر اللہ لایضرھم من خذلھم ولا من خالفھم حتی باتی امر اللہ وھم ظاھرون علی الناس۔
میری اُمت کا ایک گروہ ہمیشہ اللہ کے حکم کو لے کر کھڑا رہے گا جو ان کو ذلیل کرنا چاہئے گا یا مخالفت کرے وہ اُنھیں کوئی نقصان نہیں دے پائے گا اور یہ گروہ ہمیشہ لوگوں پر غالب رہے گا۔۔۔(صحیح بخاری کتاب المناقب باب نمبر ٢٤ ح ٣٤٤٢ وصحیح مسلم کتاب الامارۃ باب نمبر ٥٣ ح ١٠٣٧)۔۔۔

اور اللہ کا حکم آپ بھی جانتے ہیں اور ہم بھی جو بلکل واضع ہے کہ۔۔۔
وَلاَ تَكُونُواْ كَالَّذِينَ تَفَرَّقُواْ وَاخْتَلَفُواْ مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ
اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے تھے اور جب ان کے پاس واضح نشانیاں آچکیں اس کے بعد بھی اختلاف کرنے لگے۔۔۔

(حذف)

جیسا کہ محترمہ نے اپنی تحقیق کو پیش کیا کہ اختلافات تو صحابہ کرام کے دور میں بھی رہے۔۔۔ چلیں مان لیا۔۔۔ کہ یہ درست فرما گئیں۔۔۔ لیکن یہیں سے دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اُس اختلاف کو وجہ بنا کر صحابہ کرام نے کسی فرقے کی بنیاد رکھی؟؟؟۔۔۔ کہ فلاں ابوبکر کے ماننے والے ہیں تو فلاں عمر کے ماننے والے ہیں تو فلاں عثمان کے ماننے والے ہیں۔۔۔ نہیں؟؟؟۔۔۔ لیکن جہاں پر دین میں غلو ہوا۔۔۔ جس کی ممانعت اللہ رب العزت نے اپنے کلام میں بیان فرمادی تھی کہ!۔

لاَ تَغْلُواْ فِي دِينِكُمْ
تم اپنے دین میں حد سے زائد نہ بڑھو

کیا ہوا دین میں حد سے بڑھنے کا انجام ؟؟؟۔۔۔ کہ اہلسنت والجماعت سے ایک فرقہ نکلا جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں غلو کیا۔۔۔ اور ایک نئی شریعت کی داغ بیل ڈالی۔۔۔ اور آج ہر مسلمان اُن کے عقائد سے بخوبی واقف ہے میں یہاں بیان کر اپنی تحریر کو طوالت کی نظر نہیں کرنا چاہتا۔۔۔ کیونکہ اللہ وحدہ لاشریک نے دو ٹوک الفاظ میں اپنی بات ہم تک پہنچادی کہ۔۔۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ ادْخُلُواْ فِي السِّلْمِ
اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ۔۔۔

تو جس تفرقہ بازی کی ممانعت اللہ نے اپنے کلام میں بیان فرمادی اور ہم کہہ رہے ہیں کہ اختلاف اُمت رحمت ہے۔۔۔ اب اس اختلاف ہو ہم اپنے درمیان رکھ کر کس طرح دین میں پورے پورے داخل ہوسکتے ہیں؟؟؟۔۔۔ سوال یہ ہے۔۔۔ اللہ تعالٰی نے اسلام کے حق میں دلائل واضع کردینے کے بعد یہ صاف الفاظ میں اعلان فرمادیا کہ!۔۔۔

كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُواْ فِيهِ وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلاَّ الَّذِينَ أُوتُوهُ مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ فَهَدَى اللّهُ الَّذِينَ آمَنُواْ لِمَا اخْتَلَفُواْ فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ وَاللّهُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
(ابتداء میں) سب لوگ ایک ہی دین پر جمع تھے، (پھر جب ان میں اختلافات رونما ہو گئے) تو اﷲ نے بشارت دینے والے اور ڈر سنانے والے پیغمبروں کو بھیجا، اور ان کے ساتھ حق پر مبنی کتاب اتاری تاکہ وہ لوگوں میں ان امور کا فیصلہ کر دے جن میں وہ اختلاف کرنے لگے تھے اور اس میں اختلاف بھی فقط انہی لوگوں نے کیا جنہیں وہ کتاب دی گئی تھی، باوجود اس کے کہ ان کے پاس واضح نشانیاں آچکی تھیں، (اور انہوں نے یہ اختلاف بھی) محض باہمی بغض و حسد کے باعث (کیا) پھر اﷲ نے ایمان والوں کو اپنے حکم سے وہ حق کی بات سمجھا دی جس میں وہ اختلاف کرتے تھے، اور اﷲ جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی طرف ہدایت فرما دیتا ہے۔۔۔

یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم جن کو اللہ نے رحمت للعالمین بنا کر دنیا میں بھیجا۔۔۔ اس لئے نہیں کہ اُمت میں اختلافات پروان چڑہے۔۔۔ بلکہ اس لئے کہ اُن کے ساتھ حق پر مبنی ایک کتاب نازل کی جس کی روشنی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کے درمیان فیصلہ کریں‌ جو اختلافات کو باعث رحمت سمجھتے ہیں۔۔۔

محترم خرم سیدھی سی بات ہے۔۔۔ کہ اگر تم اپنی آنکھوں پر سبز رنگ کا چشمہ لگاو گے تو منظر سبز نظر آئے اور اگر لال رنگ کا لگاؤ گے تو منظر بھی لال ہی نظر آئے گا۔۔۔ بس آپ کو ضرورت ہے حقیقی نظر کی جو چشموں یعنی تقلید کی گند سے پاک ہو۔۔۔ تو ان شاء اللہ جو باتیں یہاں بیان کی گئی ہیں وہ خود آپ کی سمجھ میں آجائیں گی۔۔۔ اور اگر پھر بھی آپ حق کو سمجھنے سے قاصر ہیں تو ہم صرف دُعا ہی کرسکتے ہیں۔۔۔

وسلام۔۔۔
 

خرم

محفلین
گرامی قدر خرم صاحب۔۔۔ میں بس آپ کو ایک نصیحت کرنا چاہوں گا۔۔۔ کہ کسی انسان کی عظمت اس کے اچھے کردار اور سیرت پر منحصر ہے۔۔۔ لیکن سیرت وعظمت کارناموں کی اہمیت پر منحصر ہے اور سیرت اور کردار میں جب تک رفعت عمل نہ ہو تو اچھی صورت باوجود اچھی ہونے کے کسی تعارت کی بلندی سے موصوف نہیں ہوسکتی۔۔۔نصیحت اصل میں دوسروں کے لئے دل میں خیر خواہی کا جذبہ ہونے کا اظہار ہے۔۔۔ دیکھیں محترم ہمیں آپ سے کوئی بیر نہیں ہے۔۔۔اور نہ ہی کسی قسم کی دشمنی۔۔۔ بس ایک اختلاف ہے۔۔۔ جس موضوع بنا ہوا ہے۔۔۔ اس کو موضوع کی ہی حد تک محدود رکھیں تو بہتر ہے۔۔۔

اور اللہ کا حکم آپ بھی جانتے ہیں اور ہم بھی جو بلکل واضع ہے کہ۔۔۔
وَلاَ تَكُونُواْ كَالَّذِينَ تَفَرَّقُواْ وَاخْتَلَفُواْ مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ
اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے تھے اور جب ان کے پاس واضح نشانیاں آچکیں اس کے بعد بھی اختلاف کرنے لگے۔۔۔

(حذف)

محترم خان صاحب،
آپکی اپنی ہی کی گئی باتوں میں اتنا تضاد ہے کہ مجھے یہ ماننے میں بہت دشواری ہے کہ آپ کی تحقیق کا رُخ علمی ہے۔ سیرت و کردار کی بلندی کے نصائح اور ذاتی مخاصمت کے نہ ہونے کی بات کرتے ہوئے آپ اوروں پر کیچڑ اچھالتے نظر آتے ہیں اور فتاوٰی کفر کے جڑتے ہیں۔ وہی بات جو آپ کہیں اور کسی موضوع کی مطابقت میں لکھتے ہیں اسی بات سے کسی اور جگہ مخالفت کرتے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح ایک طرف آپ تفرقہ بازی سے پرہیز کرنے کا کہہ رہے ہیں اور دوسری جانب میری بہن مہوش پر صرف شیعہ ہونے کی وجہ سے دشنام طرازی کرتے ہوئے علامہ پر بھی بہتان دھر رہے ہیں۔ یہ جو آپ نے علامہ کے شعر کی تشریح کی ہے کیا یہ علامہ نے خود بیان فرمائی تھی اور اگر نہیں تو آپ نے یقیناً ان پر بہتان دھرا اور بہتان کیا ہے یہ تو آپ کو علم ہی ہوگا؟ ویسے بھی مصرعہ اولٰی ہے
جعفر از بنگال و صادق از دکن
ایک بات عرض کروں گا کہ ایمان کا پیمانہ صرف اور صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ رسول پاک صل اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی جان، اپنے مال، اپنی اولاد، اپنے والدین ہر چیز سے بڑھ کر محبت ہونا۔ اور جب ایسی محبت ہو تو انسان ہر کام کے کرنے سے پہلے یہ سوچتا ہے کہ میری اس حرکت سے نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم کو خوشی ہوگی یا دُکھ۔ صرف یہ رسولی نسبت ہی ایمان کا وہ معیار ہے جو میرے آقا صل اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے۔ اگر کسی کے دل میں اس نسبت کا ایک ذرہ بھی ہے تو وہ صاحب ایمان ہے اور اگر کسی کا دل اس نسبت سے خالی ہے تو اس میں اور یہود کے علماء میں کوئی فرق نہیں کہ جانتے تو وہ بھی بہت کچھ تھے لیکن یہ نسبت نہ قائم کر سکے۔ اور نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم کی آل اور امت پر دشنام طرازی کرنا میرے آقا صل اللہ علیہ وسلم کو بہت دُکھی کرتا ہے۔ کبھی سوچئے گا اس بات پر۔
میں اس کے پوسٹ بعد آپ سے بات کرنے سے معذوری چاہوں گا کہ آپ جو کچھ کہتے ہیں کہیں اس کا گناہ بھی میرے سر نہ آجائے۔
اللہ ہم سب پر رحم فرمائے۔ آمین۔
 

ظفری

لائبریرین
یہ دھاگہ آج میری نظر سے گذرا ۔
آپ نے جس حدیث کے بارے میں پوچھا ہے غالبا اس کے الفاظ " اختلاف امتی رحمۃ " ہیں۔ اس حدیث کو دور جدید کے مشہور محدث امام ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے ضعیف حدیث قرار دیا ہے ۔ اس لیے اس حدیث کو قابل اعتناء نہیں سمجھنا چاہیے۔
 

ابن جمال

محفلین
لوگ سادہ اورعام فہم بات کو بھی کتنی مشکل بنادیتے ہیں یہ محسوس ہوا ’فروعی مسائل میں اختلاف‘کے بارے میں چند احباب کی رائے پڑھ کر۔
اختلاف امتی رحمۃ یااختلاف علمائ امتی رحمۃ بلاشبہ موضوع ہے اورکتب احادیث میں اس کاکوئی وجود نہیں ہے لیکن اس پر یہ دعوی کرنا کہ موضوع حدیث کاجو مفہوم ہے وہ بھی غلط اورباطل ہو ایک ناقابل تسلیم بات ہے۔
جس نے بھی وضع حدیث کی تاریخ پڑھی ہوگی وہ جانتاہے کہ بسااوقات وضاعین حدیث اورقصہ گویان حکمت اوردانشمندی کے اقوال جو مشہور تھے اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب کردیاکرتے تھے ۔اس بات کی نسبت حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی جانب غلط ہوسکتی ہے لیکن وہ دانشمندانہ قول وضاعین کی اس حرکت سے عقل ودانائی کی حد سے باہر کیسے ہوسکتاہے۔
طہ جابر العلوانی یااختلاف کے موضوع پر دوسرے لکھنے والوں میں سے ہرایک نے اس کی وضاحت کی ہے کہ عقائد میں اختلاف مذموم ہے۔لیکن فروعی اورفقہی مسائل میں جو اختلاف علمائ اورفقہائ کے درمیان ہے کیاوہ بھی مذموم ہے۔

اب کچھ لوگ اس سلسلے میں یہ کرتے ہیں کہ قرآن کی وہ آیتیں جوحق اورباطل کے درمیان اختلاف کی صورت میں مذمت یاعقائد میں مذمت کیلئے آئی ہیں ان کو فروعی مسائل کے اختلاف پر بھی چسپاں کرنا شروع کردیتے ہین۔ اسی لئے ضروری ہے کہ آیت کاشان نزول اوراس کا مصداق دیکھ لیاجائے اورسمجھ لیاجائے اوراس کے بعد آگے کلام کیاجائے۔
اس موضوع حدیث کے معنی کے غلط ہونے میں کچھ لوگوں نے ابن حزم ظاہریٌ کاحوالہ دیاہے۔ ابن حزم ظاہری پر شیخ ابوزہرہ نے جو کتاب لکھی ہے اس میں خود ابن حزم کاایک بیان نقل کیاہے کہ کچھ بیماری کی وجہ سے ان کے مزاج مین حدت اورچرچڑاپن آگیاتھا ۔یہی وجہ ہے کہ ان کے بارے میں کچھ علمائ نے کہاہے کہ ابن حزم ظاہری کی زبان اورحجاج کی تلوار دونوں ایک ہیں۔ نہ حجاج کی تلوار نے اچھے اوربرے میں فرق کیابس اس نے اتنا ہی دیکھا کہ کون بنی امیہ کاوفادار ہے اورکون باغی ۔ابن حزم نے بھی اپنے سواساری دنیا کوغلط قراردیا۔

فروعی مسائل مین اختلاف امت کیلئے آسانی ہے اورخود اس کو منشائ خداوندی بھی کہاجاسکتاہے۔
مثلآ اللہ تعالیٰ نے وضومیں سرکے مسح کو ضروری قراردیا اوراس سلسلہ میں حکم ان الفاظ میں فرمایا۔وامسحوابروسکم یہاں لفظ ب استعمال کیاگیاہے۔ ب کے معنی عربی زبان میں بعض حصہ کے بھی ہوتے ہیں اورب زائد بھی ہوتی ہے بعض مراد ہونے کی صورت میں معنی ہوگا بعضے سر کا مسح کرلو اورب کے زائد ہونے کی صورت میں معنی ہوگا۔ پورے سرکامسح کرو۔ظاہر ہے کہ اللہ کے علم میں یہ دونوں معنی پہلے سے ہیں۔ اگر اللہ چاہتے توبعض کاالفاظ استعمال فرماتے یا بغیر ب وامسحوروسکم فرماتے تودونوں صورتوں میں معنی متعین ہوجاتا۔
قرآن مجید یں عورت کی عدت کیلئے تین قرئ گزارنے کا حکم دیاہے۔ قرئ کے معنی حیض کے بھی ہیں اورطہر کے بھی اس لئے بعض فقہائ نے تین حیض مدت قراردی ہے اوربعض نے تین پاکی۔ ظاہر ہے کہ قرئ کے دونوں معانی اللہ کے علم محکم میں پہلے سے تھے اگراللہ کا منشائ یہ ہوتاہے کہ احکام شرعیہ میں کوئی اختلاف رائے نہ ہو توقرآن میں قرئ کے بجائےصریحآ حیض یاطہر کالفظ استعمال کیاجاتا۔
مشہور حدیث ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چنداصحاب کو بنوقریظہ روانہ کیااورحکم فرمایاکہ وہیں جاکر عصر کی نمازپڑھنا۔ کچھ صحابہ کرام نے راستے میں یہ سوچ کر نمازپڑھ لی کہ آپْ کی مراد یہ ہوگی کہ عصر کے وقت تک ہم بنوقریضہ پہنچ جائیں گے لیکن ہمیں پہونچنے میں دیر ہوگئی ہے توراستے میں ہی نماز وقت پر پڑھ لی جائے اورکچھ صحابہ کرام نے ظاہری الفاظ پر عمل کرتے ہوئے بنوقریظہ پہنچ کر ہی عصر کی نماز اداکی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارے میں خبربھی ہوئی لیکن آپ نے کسی پر کوئی نکیر نہیں کی۔
اس سے کیاثابت ہوتاہے؟یہی ناکہ قرآن یاحدیث کو سمجھنے میں اگر اختلاف رائے ہے اوردونوں کے پاس دلیل موجود ہے تو اس پر نکیر نہیں کرنی چاہئے۔

فروعی مسائل میں اختلاف رائے صحابہ کرام کے دور سے ہی ہے۔اس کے بعد تابعین کے درمیان ہوا پھر تبع تابعین کے درمیان ہوا لیکن اس کو کسی نے غلط نہیں کہااورنہ ہی کسی نے یہ کہاکہ سب مل جل کر ایک رائے اختیار کرلیں۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزرضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ صحابہ کرام آپس میں اختلاف نہ کرتے(فروعی مسائل میں)اس لئے اگر صرف ایک بات ہوتی تولوگ تنگی میں پڑجاتے اور وہ ایسے ائمہ ہیں جن کی پیروی کی جاتی ہے تو اگرکوئی شخص ان میں سے کسی ایک کے قول پر عمل کرے تواس کی گنجائش ہے۔
محمد بن عبدالرحمن الصیرفی کہتے یہں کہ میں نے امام احمد بن حنبل سے کہاکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے درمیان آپس میں اختلاف ہو توکیاہمارے لئے جائز ہے کہ ہم ان کے اقوال میں غور کریں تاکہ اس میں سے جودرست ہو اس کی پیروی کریں۔فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے اقوال کے درمیان غورکرنا جائز نہیں میں نے پوچھا کہ پھر کیاکیاجائے توفرمایاکہ ان میں سے جس کی چاہے تقلید کرو۔
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ نے مجموع فتاوی میں نقل کیاہے کہ ایک شخص نے (فقہائ وعلمائ) کے اختلافات پر ایک کتاب لکھی ۔توامام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس کو اختلاف کی کتاب کا نام مت دو بلکہ اس کو وسعت اورگنجائش کی کتاب کا نام دو۔
سنن دارمی میں باب اختلاف الفقہائ میں حمید سے منقول ہے کہ میں نے حضرت عمربن عبدالعزیز سے کہاکہ اگرآپ لوگوں کو کسی ایک چیز(فقہ)پر جمع کردیں توفرمایا کہ مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ وہ آپس میں فقہی مسائل میں اختلاف نہ کریں۔ پھر انہوں نے اپنی قلمرو میں تمام والیوں کو خط لکھاکہ ہر شہر یاولایت کے لوگ اسی پر عمل کریں جس پر ان کے فقہائ متفق ہوں۔
جب ہارون رشید نے امام مالک سے کہاکہ آپ موطالکھئے اورپھر اس کو تمام قلمرو میں بھیج کر میں سب کو اس پر عمل کرنے کا حکم دوں توانہوں نے جو جواب دیاوہ یہ ہے کہ
"امیرالمومنین علمائ کا اختلاف اس امت پر اللہ کی جانب سے رحمت ہے۔ ہر ایک اس پر عمل پیراہے جو اس کے نزدیک صحیح ہے اورہرایک راہ راست پر ہے۔ اورہرایک اس کے ذریعہ اللہ کی (رضا)کاطلبگارہے۔جب کہ ایک دوسری روایت کے بموجب انہوں نے کہاکہ رسول اللہ کے صحابہ کرام نے فروع میں اختلاف کیاہے اور وہ آفاق مین منتشر ہوگئے ہیں اورہرایک (ان روایتوں پر عمل کرنے میں جواس کے پاس پہنچی ہیں)مصیب ہے۔
مجھے امید ہے کہ یہ چند الفاظ اس بحث کو سمجھنے میں مدددین گے اورجن کے دلوں میں کچھ شبہات ہیں وہ ختم ہوں گے۔
نوٹ اس مضمون میں جوکچھ اقوال نقل کئے گئے ہیں وہ سب کے سب سعید بن عبدالقادر بن سالم باشنفر کی کتاب ادب الاختلاف سے ماخوذ ہے۔حوالوں کیلئے اس کی جانب رجوع کرین۔ویسے اس میں جتنے حوالے یاااقوال آئے ہیں وہ سب کے سب کم وبیش مشہور محدث ابن عبدالبر کی مشہور کتاب جامع بیان العلم وفضلہ میں بھی موجود ہیں مزید تحقیق کیلئے اس کی جانب بھی مراجعت کی جاسکتی ہے۔ واللہ ولی التوفیق

--------------------------------------------------------------------------------
 

محمد نعمان

محفلین
قاسم بن محمد بڑے مرتبہ کے تابعی اورمدینہ کے فقہاء سبعہ میں سے ایک ہیں۔خاندانی شرافت میں بھی ممتاز ہیں۔ حضرت ابوبکرصدیق کے خانوادہ سے ان کا تعلق ہے آپ فرماتے ہیں۔
رسول اللہ کے اصحاب کا اختلاف لوگوں کیلئے رحمت ہے۔(ادب الخلاف ص
امام مالک کے نام نامی سے کون شخص ناواقف اورجاہل ہوگا۔ نامورمحدث اورائمہ اربعہ میں سے ایک ہیں ۔ان سے جب ہارون رشید نے درخواست کی اوراجازت چاہی کہ پورے اسلامی قلمرو میں موطا امام اما م مالک کے مطابق عمل نافذ کردیاجائے توانہوں نے جواب میں یہ فرمایا۔
اے امیر المومنین علماء کا اختلاف اللہ تعالیٰ کی اس امت پر رحمت ہے ہرایک اپنے نزدیک صحیح ثابت شدہ امر کی پیروی کرتاہے اورہرایک ہدایت پر ہے اورہرایک کا مقصد اللہ تعالی(کی رضا)ہے۔ (تاریخ بغداد،سیر اعلام النبلاء )
امام بغوی مشہور محدث ہیں ان کی کتاب شرح السنۃ محتاج تعارف نہیں ہے۔وہ اپنی تالیف شرح السنۃ (1/229) میں لکھتے ہیں۔
اما الاختلاف فی الفروع بین العلماء فاختلاف رحمۃ اراد اللہ ان لایکون علی المومنین حرج فی الدین فذلک لایوجب الجھران والقطیعة ،لان ھذاالاختلاف کان بین اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مع کونھم اخوانا موتلفین ،رحماء بینھم وتمسک بقول کل فریق منھم طائفة من اھل العلم بعدھم وکل طلب الحق وسلوک سبیل الرشد مشترکون۔
بہرحال فروعات میں علماء کے درمیان اختلاف کاواقع ہونا اللہ کی رحمت ہے۔اللہ کی مشیت اس کی متقاضی ہوئی کہ مومنین پر دین پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہ ہو ۔اسی لئے واجب ہے کہ فروعی اختلاف کی وجہ سے کسی کو چھوڑنااوربائیکاٹ نہیں کرناچاہئے اس لئے کہ یہ اختلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کے درمیان بھی موجود تھااوراسی کے ساتھ وہ آپس میں ایک دوسرے کے خیرخواہ،مہربانی کرنے والے تھے۔اورانہی کے اقوال سے بعد کے اہل علم نے استدلال کیاہے اوران میں سے ہرایک حق کا جویاہے اورہدایت کے راہ پر چلنے میں سبھی مشترک ہیں۔
ابن قدامہ بڑے محدث اورفقیہہ ہیں ۔مذہباحنبلی ہیں اوران کی کتاب المغنی فقہ کی نامور کتابوں میں شمار کی جاتی ہے بطور خاص فقہ حنبلی میں اسے ممتاز مقام حاصل ہے۔ وہ اپنی اس مایہ ناز کتاب کے مقدمہ میں لکھتے ہیں۔
جعل فی سلف ھذہ الامة ایٔمة من الاعلام مھد بھم قواعد الاسلام واوضح بھم المشکلات الاحکام ،اتفاقھم حجة قاطعة واختلافھم رحمة واسعة
اللہ نے اس امت کے متقدمین میں ایسے نامور علماء اورایٔمہ پیداکیٔے جنہوں نے اسلام کے اصول وضوابط طے کیٔے (اصول فقہ)اوران کے ذریعہ احکام کے مشکلات کوواضح کیا۔ان کا کسی مسیئلہ پر اتفاق حجت قاطعہ اوران کااختلاف رحمت واسعہ ہے۔(ادب الخلاف 12)
علامہ شاطبی بڑے نامور فقیہ اوراصولی ہیں۔ ان کی کتاب الموافقات اورالاعتصام بہت مشہور ہے۔اول الذکر کتاب مقاصد شریعت کے بیان میں اورثانیت الذکر سنت وبدعت کے بیان میں اپنے موضوع پر فردفرید سمجھی جاتی ہے۔ وہ الاعتصام میں لکھتے ہیں۔
ان جماعۃ من السلف الصالح جعلوا اختلاف الامۃ فی الفروع ضربا من ضروب الرحمۃ ،واذاکان من جملۃ الرحمۃ فلایمکن ان یکون صاحبہ خارجا من قسم اہل الرحمۃ(شاطبی الاعتصام (2/170)
سلف صالحین کی ایک جماعت نے فروعی مسائل میں امت کے اختلاف کو رحمت کی اقسام میں سے ایک قسم قراردیاہے اورجب یہ اختلاف رحمت ہے توفروعی مسائل میں اختلاف کی وجہ سے کوئی اہل رحمت میں سے خارج نہیں ہوگا۔
ایک دوسرے مقام پر امام شاطبی لکھتے ہیں۔
انانقطع بان الخلاف فی مسایٔل الاجتہاد واقع فیمن حصل لہ محض الرحمة وھم الصحابۃ ومن اتبعھم باحسان(الاعتصام)
ہمارایقین جازم ہے کہ اجہتادی مسائل میں اختلاف جوکچھ واقع ہواہے وہ رحمت خداوندی کا تقاضاہے اوریہ اختلاف صحابہ اوران کے بعد والوں کے درمیان واقع ہواہے۔
 

سخى

محفلین
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.

اس موضوع پرتمهارے درمیان اتنا اختلاف ہوا کہ جتنا حدیث کے بارے میں ہو گا اگر تھوڑا سا غور فکر کرنے اور اس قرآن سے مدد لینے سے حل ہوجائے گا

عزیزو قرآن مجید میں بھی اختلاف کا ذکر ہوا اور اختلاف کے بہت سے معانی ہیں واختلاف الليل والنهار مراد (دن اور رات کا آنے جانے ) لہذا اس حدیث میں بھی یہ ہو کہ میری امت کے درمیان اختلاف سے مراد ایک دوسرے سے رابطہ رکھنا اور ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنا ہے نہ کہ اختلاف سے مراد جھگڑا ہو بہت سی تفاسیر میں اس طرح بیان کیا ہے
 
اختلاف دو طرح کا ہوتا ہے۔
نظریاتی اور فقہی
دو طرح سے ہوتا ہے۔
جان بوجھ کر اور عقول کی کمی بیشی کے سبب
نظریاتی اختلاف کو اسلام ناپسند رکھتا ہے کہ اس کی بنیادخود ساختہ سوچ پر ہوتی ہے۔
جان بوجھ کر اختلاف کرنا بھی ناپسندیدہ بات ہے۔
فقہی اختلاف جو عقول کی کمی بیشی کے سبب ہو یہ ایک فطری بات ہے۔ اس سے ایک فائدہ بھی ہے۔ وہ یہ کہ کسی ایک بات کے سارے پہلو سامنے آجاتے ہیں۔اس کو ایسے سمجھیں کہ اسلام میں مشورہ کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ جب بہت سے دانشمند افراد سے مشورہ لیا جائے گا تو معاملہ کا ہر پہلو سامنے آجائے گا۔
لہٰذا اختلاف اگر رحمت ہوسکتا ہے تو وہ یہی فقہی اختلاف ہی ہوسکتا ہے اس کےعلاوہ نہیں بشرطیکہ اس میں ایک نقطے کا اضافہ نہ ہوجائے کہ رحمت سے زحمت بن جائے۔
 

راشد حسین

محفلین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔
گرامیِ قدر خرم صاحب۔۔۔ افسوس کہ ساتھ کہنا پڑھ رہا ہے کہ آپ اپنی جہالت میں جس کمی کے خواہش مند ہیں۔۔۔ ہوسکتا ہے کہ وہ ایک جوش فہمی سے زیادہ اور کچھ نہ ہو؟؟؟۔۔۔ محترم بلبلے کی بقا کا راز ہے پانی کی گود۔۔۔ کیونکہ گود سے باہر نکلتے ہی وہ اپنی موت آپ مرجاتا ہے۔۔۔ بین اسی طرح علماء کے اختلاف کو اگر آپ اُمت کے لئے رحمت سے تعبیر کرنا چاہتے ہیں تو جناب آپ خود صریح گمراہی میں متبلا ہے اور جس جہالت کے ختم ہونے کا ولیمہ جو آپ منا رہے ہیں۔۔۔ وہ ختم نہیں ہوئی بلکہ چالیسویں کے سوگ میں تبدیل ہوگئی۔۔۔ محترم قرآن کی ایک آیت کا انکار بھی بڑے بڑوں کو دائرہ اسلام سے خارج ہے اور آپ نے خیر سے۔۔۔۔۔۔۔ المہہم!۔ آئیئے جس علماء کے اختلاف کو آپ نے رحمت بنانے کی سازش کی ہے۔۔۔ اُن ہی علماء کی رہنمائی کرتے ہوئے اللہ وحدہ لاشریک نے کتنی پیاری بات بیان فرمائی ہے۔۔۔ کہ!۔

فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ
اگر کسی مسئلہ میں تم باہم اختلاف کرو تو اسے (حتمی فیصلہ کے لئے) اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف لوٹا دو۔۔۔

اسی لئے اللہ رب العزت نے قرآن میں واضع طور پر ارشاد فرمادیا ہے کہ!۔۔

فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ۔
تم اہلِ ذکر سے پوچھ لیا کرو اگر تمہیں خود (کچھ) معلوم نہ ہو۔۔۔

دیکھا عقل کے گھوڑے دوڑانے والوں کو اللہ وحدہ لاشریک نے کتنی پیاری نصیحت کی ہے۔۔۔ اور جو لوگ ہدایت کے متمنی ہوتے ہیں وہی وہ لوگ ہیں کہ جن کو اللہ رب العزت نے ہدایت بخشی اور جو لوگ صرف اپنی پوسٹیں بڑھانے کے لئے اٹل پچو گیریاں کرتے ہیں ان کے لئے بھی وعید بیان کی جاچکی ہے۔۔۔ ملاحظہ ہو۔۔۔

هُوَ الَّذِي أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلاَّ اللّهُ
وہی ہے جس نے آپ پر کتاب نازل فرمائی جس میں سے کچھ آیتیں محکم (یعنی ظاہراً بھی صاف اور واضح معنی رکھنے والی) ہیں وہی (احکام) کتاب کی بنیاد ہیں اور دوسری آیتیں متشابہ (یعنی معنی میں کئی احتمال اور اشتباہ رکھنے والی) ہیں، سو وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی ہے اس میں سے صرف متشابہات کی پیروی کرتے ہیں (فقط) فتنہ پروری کی خواہش کے زیرِ اثر اور اصل مراد کی بجائے من پسند معنی مراد لینے کی غرض سے، اور اس کی اصل مراد کو اﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔۔۔

وسلام۔۔۔
جس حدیث مبارک کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ امت میں اختلاف رحمت ہے۔ اس اختلاف کا مطلب ’’مختلف‘‘ ہونا ہے۔ یعنی کوئی ہاتھ ناف کے اوپر باندھ کر نماز پڑھتا ہے، کوئی ہاتھ ناف پر، اسی طرح کوئی کچھ لباس پہنتا ہے کوئی کچھ۔ اس بات کو چلاتے جائیں تو بہت دور تک چلتی ہے اور یہی امت کا ایک دوسرے سے مختلف ہونا ہے جو کہ رحمت ہے۔
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top