باذوق
محفلین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
عموماً ، ذیل کی روایت کو حدیث کے طور پر پیش کیا جاتا ہےامت کا اختلاف رحمت ہے (اختلاف امتی رحمۃ)
جیسا کہ بعض جگہوں پر عرض کیا گیا ہے :
جس کی بات آپ کے جی کو لگتی ہے اسے مان لیجئے کہ حدیثِ نبوی صل اللہ علیہ وسلم تو یہ بھی ہے نا کہ علماء کے اختلاف میں امت کے لئے رحمت ہے۔ (یہاںوہ پاکستان اختلاف نہیں علمی اختلاف کی بات ہے جیسا کہ ائمہ کرام کے درمیان تھا اور ہے)۔
حوالہ
البتہ "اختلاف امتی رحمۃ" کے مصداق طالب علمانہ اختلاف کیا جا سکتا ہے ...
حوالہ
حالانکہ یہ حدیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے !
علامہ ابن حزم (رحمة اللہ) نے "الاحکام فی اصول الاحکام" (5 / 64) میں اس روایت کا انکار کرتے ہوئے اور اس کو باطل اور جھوٹ قرار دیتے ہوئے اس پر بھرپور تنقید کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ :
امت کے اختلاف کو رحمت کہنا نہایت ہی فاسد قول ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر "اختلافِ امت" رحمت ہے تو "اتفاقِ امت" اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث ہوگا (جبکہ کوئی مسلمان اس کا قائل نہیں) ، اس لیے کہ اتفاق کے مقابلے میں اختلاف ہے اور رحمت کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہے۔ اور جب اختلافِ امت رحمت ہے تو اس کی نقیض لازماً یہ ہوگی کہ اتفاقِ امت میں اللہ کی ناراضگی ہے۔
علامہ البانی فرماتے ہیں :
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللّهِ لَوَجَدُواْ فِيهِ اخْتِلاَفًا كَثِيرًا
اگر یہ (قرآن) اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقیناً اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے
( سورة النسآء : 4 ، آیت : 82 )
اس آیت میں صراحت موجود ہے کہ اختلاف اللہ پاک کی طرف سے نہیں ہے۔ اگر شریعت میں اختلاف ہے تو کیسے وہ شریعت اس لائق ہو سکتی ہے کہ اس پر چلا جائے؟ اور کیسے اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت کا نزول قرار دیا جا سکتا ہے؟
شریعتِ اسلامیہ میں اختلاف مذموم ہے۔ جہاں تک ممکن ہو اختلاف سے بچاؤ ضروری ہے اس لیے کہ اختلافِ امت سے مسلمانوں میں ضعف و اضمحلال نمودار ہوگا۔ ارشاد ربانی ہے :
وَلاَ تَنَازَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ
آپس میں اختلاف نہ کرو ورنہ بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی
( سورة الأنفال : 8 ، آیت : 46 )
لیکن اختلاف کو مستحسن گرداننا اور اس کو رحمت قرار دینا درج بالا دونوں آیات قرآنیہ کے خلاف ہے جن میں اختلاف کی صراحتاََ مذمت کی گئی ہے۔ خیال رہے کہ اختلاف کو باعثِ رحمت سمجھنے والوں کے ہاں اس روایت کے علاوہ کوئی دوسری دلیل نہیں ہے جس کا اصل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔
مزید تفصیل یہاں بھی ۔۔۔۔۔